باب ۴

3 0 0
                                    

"نہیں...کوئی مسئلہ نہیں۔ مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا..." وہ ایک قدم مذید آگے بڑھا تو زیمل نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا۔
"کیا بات ہے؟" وہ گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹی۔ خواہ ان کے درمیان کافی فاصلہ تھا لیکن یہ ایک فطری عمل تھا۔  زیمل کے اس عمل سے زمان کے قدم وہیں تھم گئے۔ "حماد اور زین اسپتال گئے ہیں۔ انہیں ایمرجنسی تھی۔ حماد نے مجھ سے کہا کہ آپ کو اطلاع کر دوں تو میں نے کر دی۔ غالباً آپ اسے ہی تلاش کر رہی تھیں۔" زمان نے اس کی طرف دیکھے بغیر نظریں نیچی رکھ کر اسے سارا معملہ سمجھایا۔
"حماد بھائی کو مجھے بتانا چاہیے تھا۔ سارا بھی ان کا پوچھ رہی تھی۔" زیمل نے تفکر سے کہا۔
"ابھی تو میں نے کہا، کہ انہیں ایمرجنسی تھی۔ آپ کو ایک بات دو بار بتانے پر سمجھ آتی ہے؟" زمان نے سر جھٹکا۔
"آپ کو مجھے سے بحث کرنے کے پیسے ملتے ہیں؟" زیمل نے تپ کر اسے دیکھا جو اب زیمل کے پیچھے دائیں بائیں کچھ تلاش کر رہا تھا۔ زیمل نے پہلی بار اسکی آنکھیں دیکھیں جو دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ کتنی گہری اور سنہری آنکھیں تھیں۔
"آپکے یہاں تصویرں اتارنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ کیوں؟"
زمان کے بولنے پر وہ ہوش میں آئی۔ پلکیں چھپک کر نظروں کا زاویہ بدلہ، اپنے پیچھے دیکھا اور پھر اسے جواب دیا۔
"ظاہر سی بات ہے شادی ہے تو ہم فوٹو گرافر کو تو بلائیں گے ہی نہ۔" زیمل نے بھوئیں چڑھا کر آنکھیں چھپکیں اور سر جھٹکا۔ بھلا یہ کیسی بات تھی۔ زمان اسکی بات کا جواب دیے بغیر اسکے پیچھے کھڑے ایک شخص کی طرف گیا جس کے ہاتھ میں موبائل تھا اور اسکے کیمرے کا رخ، ایک عجب سے انداز میں زمان کی طرف تھا۔  دھوپ ڈھلتی جا رہی تھی اور مغرب کا وقت ہونے والا تھا، زمان کے بال اپنے اصل رنگ سے ہلکے لگ رہے تھے، چہرے پر پڑتا سورج، رنگت میں سرخی گھول رہا تھا۔ اس سے پہلے زمان اس شخص تک پہنچتا اچانک زیغم اس سے ٹکرایا۔
"زمان بھائی۔ ابوکہہ رہے ہیں کہ رخصتی کے فوراً بعد ہم بھی گھر کی طرف نکلیں گے۔ انہیں پارٹی کے کسی کام کے سلسلے میں دفتر جانا ہے۔" زیغم بات کر رہا تھا، لیکن زمان کی ساری توجہ اس لڑکے پر تھی جس کے ہاتھ میں فون تھا، جانے وہ کہاں آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔
"بھائی؟ آپ سن رہے ہیں نا ؟" زیغم نے اسکی غائب دماغی دیکھ کر آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا۔
"ہ...ہ...ہاں۔ زیغم تم ابو سے کہو جیسے ہی رخصتی ہوتی ہے وہ اور چاچو تو نکلیں۔ میں اور تم کچھ دیر بعد آ جائیں گے۔" زمان نے کچھ غیر توجہی سے جواب دیا۔
"چلیں ٹھیک ہے۔ میں جاتا ہوں۔" زیغم یہ کہہ کر اشرف سلطان کی طرف بڑھ گیا۔ ادھر زمان نے پورے مجمے میں، نظر گھمائی۔ وہ آدمی اسے کہیں نظر نہیں آیا۔ زمان نے لمبا سانس خارج کیا اور سر جھٹکا۔ اسکی چھٹی حس خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی تھی لیکن وہ ابھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے کندھے اچکائے اور نفی میں سر ہلا کر پلٹا۔ کچھ تو عجیب تھا پچھلے کچھ دنوں میں۔ زمان کے دل کو عجب بے چینی سی لگی ہوئی تھی۔ یا شاید وہ حالات کو لے کر بہت حساس ہوگیا تھا۔ نجانے کیا تھا لیکن بے چینی ختم ہے نہیں ہو رہی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی، زمان کی پیشانی سے بال اڑنے لگے، اس نے ہاتھ پھیر کر بالوں کو سیدھا کیا۔  وہ قدم بڑھاتا ہوا، اسٹیج کی طرف جا رہا تھا جہاں سلیمان صاحب اور اشرف سلطان خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ اشرف سلطان جیسے انسان  کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ مراثم بڑھانے کے قائل نہیں تھے، جانے سلیمان صاحب میں ایسی کیا بات تھی کہ اشرف سلطان ان سے اس قدر مانوس ہو گئے تھے۔ زمان ابھی اس بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی کے طنز کی چبھتی ہوئی بات پڑی۔ "بڑی دوستیاں کر لیتی ہو لڑکوں سے۔ وہ اشرف سلطان کے بیٹے کو پھنسانے کا ارادہ ہے؟" زمان نے پلٹ کر دیکھا تو کوئی عورت زیمل کے ساتھ ساتھ بال سہلا  رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اس سے باتیں کر رہی تھی۔
"نہیں پھپھو وہ تو روحیل بھائی..."
"روحیل کے چکر میں کہیں خود کا چکر تو نہیں چلانے کا ارادہ؟" وہ مسکراہٹ کے ساتھ مسلسل اس سے اس طرح کی باتیں کیے جا رہی تھی۔
"میری ہانیہ کو دیکھا ہے۔ کس طرح اپنے میں رہتی ہے۔ تم نے تو ہر جگہ کسی نہ کسی سے "دوستی" کرنی ہوتی ہے۔"
"آپ غلط سمجھ رہی ہیں..."
"سب سمجھ رہی ہوں۔ ویسے جتنی تم پھوڑ ہو۔ مشکل ہی تمہارا کچھ ہونا ہے۔" زیمل کے منہ میں ویسے تو ہر وقت زبان ہوتی ہے تو وہ اس عورت کو جواب کیوں نہیں دے رہی تھی۔ زمان اب زیمل کے جواب کے انتظار میں، پیچھے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسکے پشت زیمل کی طرف تھی کچھ ایسے کے دیکھنے والا سمجھ نہ پائے کہ کون بیٹھا ہے۔
"ارے سلما بہن آپ یہاں کیا کر رہی ہیں۔ وہاں آپ کے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں۔" غالباً یہ زیمل کی اماں تھیں۔ چند باتوں کے بعد سلما نامی خاتون وہاں سے جا چکی تھیں۔
"مام۔ یہ مجھے پھر سے وہی سب کہہ رہی تھیں۔"
"کوئی بات نہیں بڑی ہیں۔" زیمل کی اماں نے اسکی پیٹھی تھپتھپائی۔
"مام وہ تو اپنے بچوں کے لیے سب سے لڑنے آ جاتی ہیں۔ آپ ایک دفع میرے لیے انہیں کچھ کہہ نہیں سکتیں ؟" وہ تو جیسے روہانسی ہو کر منت کر رہی تھی۔
"تو لڑ کر بیٹھ جاؤ پورے خاندان سے۔ تمہیں ہر کسی سے ہی کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے۔ بہت کام پڑے ہیں چل کے کام کرو۔" وہ اسی پر برہم ہو کریہ جا وہ جا ہو گئیں۔ زیمل نے ہاتھ میں پکڑے ٹشو کو بہت زور سے زمین پر مارنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ بھی اسکا غصہ کم کرنے میں ناکام رہا تھا۔ وہ اتنی جھنجھلائی ہوئی تھی کہ اس نے گھاس پر بچھا تاروں کا جال نہیں دیکھا اور اسکی ہیل اس میں اٹک گئی۔ وہ کمر کے بل گرنے لگی تھی، مگر بروقت سنبھلنے کے لیے اس نے اپنے سامنے رکھی کرسی تھامی۔  کرسی پر بیٹھا زمان یک دم جھٹکا لگنے سے کھڑا ہوا۔ پیچھے سنبھلتی زیمل کو دیکھ کر وہ بھی بکھلا گیا، اس سے پہلے کہ وہ اپنا توازن کھو کر گرتی۔ زمان نے اسکو کلائی سے تھام کر جھٹکے سے کھڑا گر دیا۔
"زبان کے ساتھ ساتھ آنکھوں نے بھی کام کرنا بند کر دیا ہے کیا ؟ " زمان نے دبی دبی سے آواز میں کہا۔ اگرچہ آواز رعب دار اور ٹھہری ہوئی تھی لیکن اس میں موجود تمسخر وہ خوب سمجھ گئی تھی۔ زیمل نے اسکی گرفت سے اپنی کلائی چھڑوائی اور جواب دیے بغیر، سر جھٹک کر آگے چلی گئی۔ سارا کی رخصتی کا وقت ہو گیا تھا۔ اور پھپھو کی باتوں سے وہ پہلے ہی بہت تنگ آ چکی تھی، پھر وہ سب زمان نے سن بھی لیا تھا، بھاڑ میں جائے اگر سن بھی لیا تھا تو۔ اب وہ زمان سے بحث کر کے اپنا موڈ مذید خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
    اشرف سلطان اسٹیج پر بیٹھے کب سے زیمل کو نظروں میں لیے ہوئے تھے۔ جب سے وہ یہاں آئے تھے، جب سے لڑکی کسی نہ کسی کام میں مصروف ہی تھی۔ شاید اپنی والدہ سے زیادہ یہ سب اس نے سنبھالا ہوا تھا۔ اسکی اماں نے محمانوں کو ہینڈل کیا ہوا تھا اور اوپر کے سب کام وہی کر رہی تھی۔ آج کل لڑکیوں کو اپنے آپ سے فرصت نہیں ہوتی کجا کہ اس طرح دیکھ بھال کریں۔
"روخستی کا وقت ہو گیا ہے بابا میرے خیال سے ہمیں بھی نکلنا چاہے۔" زیغم کے ٹہوکا دینے پر وہ ہوش میں آئے۔ انہوں نے ساتھ بیٹھے سلیمان صاحب کو دیکھا۔
"اچھا سلیمان صاحب ہم چلتے ہیں۔" وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور مصحافےکے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"ابھی تو مزہ آنا شروع ہوا تھا۔ آپ ابھی جا رہے ہیں۔" وہ جیسے انکے جانے پر خوش نہیں تھے۔
"ارے نمبر میرا آپکے پاس ہے۔ جب آپ کہیں گے ہم حاظر ہو جائیں گے۔" اشرف سلطان نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"بلکہ انکل آپ ہمارے گھر آئیے گا۔" زیغم نے سعادت مندی سے کہا۔
"جیتے رہو۔" سلیمان صاحب نے اسکا شانہ تھپتھپایا۔
"ڈیڈ وہ..." زیمل جو کچھ کہنے آئی تھی اشرف سلطان کو دیکھ کر مروت میں خاموش ہو گئی۔
"بڑی اچھی بچی ہے آپکی ماشااللّہ۔" اشرف سلطان نے اس کے سر پرشفقت بھرا ہاتھ رکھا۔ سلیمان صاحب نے مسکرا کر زیمل کو دیکھا جو مدب انداز میں کھڑی تھی۔
"چلیں جی پھر ہم چلتے ہیں۔ اب آپ لوگ چکر لگائیے گا۔" اشرف سلطان دور سے آتے دلاور کو دیکھ کر کہا۔ زیمل جو انکے پیچھے کھڑی تھی، اس نے پہلے دلاور کو دیکھا اور پھر زمان کوجو آہستے سے چلتا ہوا اسٹیج کے قریب آ رہا تھا۔ دونوں کی شکل میں اتنی مماثلت تھی کہ عمر کا فرق نہ ہوتا تو پہچاننا مشکل ہو جاتا۔
※...※...※
"حماد رات کے گیارہ بج گئے ہیں تم کتی دیر تک ایسے ہی بیٹھے رہو گے؟" زین اور حماد او پی ڈی کے ایک کلینک میں کافی دیر سے خاموش  بیٹھے تھے۔ آخر تنگ آ کر زین نے خاموشی کو توڑا۔ نیلے اسکربز میں وہ دونوں بہت تھکے تھکے لگ رہے تھے۔
"پتا نہیں۔" حماد نے ہنوز کرسی سے ٹیک لگا رکھی تھی پھر سانس کھینچ کر کہا۔
" حماد مجھے سمجھ نہیں آ رہا تمہیں تسلی دوں یا دکھ کا اظہار کروں؟"
"زین تمہیں پتا ہے کہ انسان سب س زیادہ بے بس کب محسوس کرتا ہے؟ جب اس کے ہاتھ میں سب کچھ ہونے کے باوجود اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔" حماد نے ٹیک چھوڑی۔
"حماد، اللّہ کی شاید یہی مرضی تھی۔"
حماد استہزیہ ہنسا۔ جیسے اپنا تمسخر خود ہی اڑا رہا تھا۔ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
"وہ کب میرے لیے اتنی اہم ہو گئی مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ کب دوستی محبت میں تبدیل ہو گئی مجھے خیال ہی نہیں رہا۔... لیکن خیر جو ہونا تھا ہو گیا۔" حماد نے آنکھیں مل کر کرسی چھوڑ دی۔
"اللّہ نے لیے تمہارے لیے کچھ بہت بہتر رکھا ہوگا حماد۔" زین کے پاس اس سہارے کے علاوہ کوئی بات نہیں تھی۔
"کچھ وقت لگے گا لیکن صبر آ جائے گا۔ اللّہ کی مصلحت کو میں بھی قبول کر لوں گا۔ چلو گھر چلتے ہیں۔ میں تمیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔" حماد نے منہ کھولتے زین کو کچھ بھی کہنے سے روک دیا اور چلنے کا اشارہ کیا۔
گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ زین کی کوشش تھی کہ حماد کسی طرح دل کا غبار نکال لے۔ جتنی بات وہ زین سے کر چکا تھا شاید اس سے زیادہ وہ کسی سے نہ کرتا۔ گاڑی کے شیشے ہلکے ہلکے نیچے تھے، بہار کا موسم تقریباً اپنے ڈیرے ڈال چکا تھا۔ ہوا میں خنکی بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی۔ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں مگن تھے، گاڑی میں ہلکی ہلکی موسیقی چل رہی تھی، جب اچانک زین کا فون بجا۔ زیغم کا نمبر دیکھ کر اس نے اطمینان سے فون اٹھایا اور لاؤڈ اسپیکر چلا دیا۔
"ہاں زیغم بس آ رہا ہوں میں۔" زیغم کے بولنے سے پہلے ہی زین نے اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔
"نہیں بھائی آپ گھر نہ آئیں۔ بہت مسئلہ ہو گیا ہے۔ اکبر نے زمان بھائی کو بدنام کرنے کے لیے انکی من گھرنٹ تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دی ہیں۔ میں آپ کو لوکیشن بھیج رہا ہوں آپ فوری وہاں پہنچیں۔" زیغم کی آواز کانپ رہی تھی۔ زین کے ہاتھ یک دم ٹھنڈے ہو گئے۔ حماد نے گھبرا کر زین کی طرف دیکھا۔ زین کا فون بند ہوا تو حماد نے اسے دیکھا۔
"زین یہ سب کیا ہو گیا؟ لوکیشن دیکھو کہاں جانا ہے؟ میں گھر فون کر کے اپنی دیری کے بارے میں بتا دیتا ہوں۔" زین اپنے فون میں مگن تھا جب حماد نے ڈیش بورڈ سے اپنا فون اٹھایا۔ اس کی نمبر پر اسکے والد کی تقریباً پندراں مس کالز تھیں۔ شاید وہ فون سائیلنٹ پر لگا کر بھول گیا تھا۔
"حماد...لوکیشن تمہارے گھر کی ہے..." زین نے الجھ کر حماد کو دیکھا اور حماد کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا ایک جا رہا تھا۔ بچہ تو نہیں تھا وہ، بہت کچھ اسکی سمجھ میں آ رہا تھا لیکن اللّہ کرے یہ سب اسکے زہین کے خیال ہوں۔ اللّہ کرے جو وہ سوچ رہا ہے وہ نہ ہو۔ حماد نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی تھی۔ اور دس منٹ میں وہ دونوں لاہور کے علاقے گلبرگ میں موجود حماد کے شاندار گھر کے باہر کھڑے تھے۔
﴿※...※...※﴾
کمرے میں گھمبیر خاموشی تھی۔ ماحول میں تناؤ بہت آسانی سے معلوم ہو رہا تھا۔ کمرے میں موجود ہر شخص ایک ہی معملے کی وجہ سے الگ الگ کیفیت سے دو چار تھے۔ سلیمان صاحب اور اشرف سلطان عجیب شرمندہ شرمندہ انداز میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے سر جھکے ہوئے اور کہنے کو جیسے سب کچھ ختم سا ہو گیا تھا۔ دلاور اشرف سلطان کے ساتھ صوفے پر بیٹھے تھے۔ خاموش بے حس و حرکت، زمان دروازے کے فریم سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا جبکہ صفا بیگم سنگل سیٹ صوفے پر بیٹھ کے خاموش آنسو بہا رہی تھیں۔ گھر میں سلما پھپھو کے ہونے کی وجہ سے زیمل کو ان کے ساتھ مصروف رکھا ہوا تھا۔ زیغم ابھی تک صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میز پر کچھ تصاوریر بکھری پڑیں تھیں۔ جن میں زیمل اور زمان ایک دوسرے کے بہت نزدیک کھڑے تھے۔ کچھ میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور کچھ میں غیر مناسب انداز میں وہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ تصویریں آج کے فنکشن کی تھیں ان کے لباس اور بیک گراؤنڈ میں موجود زیمل وغیرہ کا گھر اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا، لیکن وہاں موجود سب لوگ جانتے تھے کہ یہ سب fabricated ہے۔ کمرے میں قبر کی سی خاموشی تھی۔ کسی نے بہت مہارت سے فوٹو شاپ کا ستعمال کر رکھا تھا۔
"اشرف صاحب اب کرنا کیا ہے ؟" سلیمان صاحب نے اپنے اعصاب پر بہت مشکل سے قابو پایا ہوا تھا۔
"میں بہت شرمندہ ہوں کہ میری دشمنی کی وجہ سے آپ کو اس قدر مشکل اٹھانا پڑ رہی ہے۔ لیکن اس سب کا جو حل مجھے نظر آرہا ہے وہ آسان تو نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔" اشرف سلطان نے بہت ٹھہر ٹھہر کر بات کی تمہید باندھی۔ اس سے پہلے کے وہ بات مکمل کرتے، ڈرائینگ روم کے دروازے سے زین اور حماد اپنے اسپتال والے حولیے میں اندر داخل ہوئے۔ دونوں نے میز پر رکھی تصویریں دیکھیں، دماغ بھی سے اڑ گیا۔ دونوں نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی۔ حماد اور زین میز کے قریب گئے، اپنی آنکھوں پر یقین ہوا تو حماد اشتیال میں آ کر زمان کی طرف بڑھا لیکن باپ کی آواز پر اسکے بڑھتے قدم وہیں تھم گئے۔ انہیوں نے ہنوز اشرف سلطان کی طرف دیکھتے ہوئے حماد سے کہا۔
"fabricated ہیں۔ اپنی بہن پر کم از کم اتنا بھروسہ تو ہونا چاہیے تمہیں۔"زین نے اسے کندھوں سے تھاما اور پیچھے لے آیا۔ زمان ابھی بھی اسی انداز میں دروازے کے فریم کے ساتھ کھڑا تھا۔
"اشرف صاحب آپ کچھ کہہ رہے تھے۔" سلیمان صاحب نے بات کا سلسلہ دوبارہ بڑھایا۔
"سلیمان صاحب بہترین تو یہ بات رہے گی کہ، ہم زیمل کو پوری عزت اور احترام کے ساتھ اپنے گھر کی بیٹی بنا لیں۔ ولی، گواہ اور گھر والے تو موجود ہیں، آپ نکاح پڑھا دیں اور ہم کل ہی پریس کانفرنس بلاو لیں گے۔ آپ بھی شہر  کے عزت دار آدمی ہیں اور میں بھی۔ یہ الزام آپکی اور میری دونوں کی عزت پر بہت انگلیاں اٹھائے گا۔"  اشرف سلطان نے نپے تلے انداز میں انکو بہت گہری بات سمجھا دی تھی۔
"انکل حماد میرے بھائیوں کی طرح ہے۔ اور زیمل کو میں اپنی بہن مانتا ہوں۔ میں آپکو گارنٹی دیتا ہوں کہ آپ کی بیٹی کو کبھی کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ اگر کوئی بھی مسئلہ ہوا تو آپ میرا گیِربان پکڑ لیجیے گا۔" زین اس سب میں پہلی بار بولا اور حماد کا بازو تھام کر پہلے سلیمان صاحب کو دیکھا جو ابھی تک خلا میں دیکھ رہے تھے چہرہ بے تاثر تھا اور پھر حماد کو جس کی آنکھیں لال ہو چکی تھی۔ حماد نے بہت ضبط سے آنکھیں مینچی حماد نے آنکھوں آنکھوں میں تسلی دی اور اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ حماد نے جیسے تھک کر سانس خارج کیا اور پاس رکھے صوفے پر ڈھے گیا۔ صفا بیگم کے آنسو تھم گئے تھے۔ اشرف سلطان نے زمان کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ اسے زیمل کے ساتھ شاید پہلی دفع ہمدردی ہوئی تھی۔
"نہیں تو ایسا کونسا مہمان ہے جو اتنی دیر سے اندر بیٹھا ہے۔ نا باپ تمہارا آ رہا ہے نہ ماں۔" سلما پھپھو کی کٹیلی سی آواز سب کے کانوں میں پڑی۔ وہ کہتے ہیں نہ جب مصیبتیں آتی ہیں تو سب ایک ساتھ ہی آتی ہیں۔
"مجھے بھی نہیں پتا، میں تو خود آپکے ساتھ ہوں بھلا مجھے کیا پتا ہو؟" زیمل کو واقعی کچھ بھی نہیں پتا تھا۔
"اتنی تم چھنی نہیں ہو سارا گھر تمہارے اشاروں پر چلتا ہے اور تمہیں ہی نہیں پتا۔ بہر کیف میں خود ہی دیکھ لیتی ہوں۔" سلما بیگم تیز تیز چلتی ہوئی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں اور پیچھے پیچھے شرمندہ سے زیمل جو ابھی تک صورتِ حال سے نا واقف تھی۔
سلما پھپھو کمرے میں داخل ہوئیں تو، داخل ہوتے ساتھ ہی ماحول کا تناؤ محسوس کر لیا۔ سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور پھر بھٹکتی ہوئی نظر میز پر رکھی تصاویر پر پڑ گئی۔ کمرے میں موجود ہر شخص نے نرمی سے آنکھیں مینچی، ماسوائے زیمل کے جسے ابھی تک معلوم ہی نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اسکی خود کی نظر بھی میز پر رکھی تصاویر پر گئی جو اب سلما پھپھو کے ہاتھ میں تھیں۔ وہ ایک ایک کر کے سب تصاویر کو بہت غور و فکر سے دیکھ رہی تھیں۔
"بھئی بڑی ہی کوئی گھٹیا لڑکی ہو تم۔" انہوں نے ساری تصاویر زیمل کے منہ پر ماریں۔ زیمل اب شاک کی کیفیت میں تھی۔ اسکا رنگ فق ہو چکا تھا۔
"ماں باپ کسی کا خیال نہ آیا تمہیں یہ حرکتیں کرتے ہوئے۔ میرے بھائی کو تم ماں بیٹی نے پاگل بنایا ہوا ہے۔ جتنی تم شکل سے شریف لگتی ہو، غزب خدا کا اتنی ہی بے غیرت ہو۔ اتنی کیا تم سے جوانی سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔" وہ جو منہ میں آ رہا تھا بکتی جا رہی تھیں۔ آخر میں انہوں نے زیمل کو تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اچانک زمان نے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ تھام لیا۔ زیمل جو اس تھپڑ کے لیے پہلے سے تیار تھی اور آنکھیں مینچ چکی تھی، اچانک خود پر کسی کا سایہ محسوس کر کے اس نے آنکھیں کھولیں۔ کمرے میں موجود سب لوگوں نے یہ منظر بہت غور سے دیکھا۔ سلما پھپھو کا ہاتھ روکنے والا شاید وہ دنیا کا پہلا شخص تھا۔ یہ کام تو انکی ساس اور شوہر بھی نہ کر پائے تھے۔ سب اپنی اپنی نشست چھوڑ کر کھڑے ہو گئیے اور لمحہ نہیں لگا تھا سلیمان صاحب کو یہ الفاظ ادا کرنے میں، "حماد جاؤ مولوی کا بندوبست کرو۔"
﴿※...※...※﴾

رنجش   RANJISH Where stories live. Discover now