باب ۳

10 2 5
                                    

شادی آ نپہنچی تھی۔ یہ ہفتے بھر کا وقت کیسے گزرا یہ سمجھ میں ہی نہیں آیا تھا۔ حماد چند دنوں سے بہت خاموش تھا۔ زیمل اپنی تیارویوں میں اس قدر مگن تھی کہ بھائی پر دھیان ہی نہ دے پائی۔ انکی والدین نے بہت بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن حماد نے کام کا دباؤ بڑھے کا کہہ کر بات ٹال دی۔ زندگی اس قدر بڑا متحان لے گی اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔ ادھر سارا خوش تھی۔ روحیل ایک بہت اچھا آدمی تھا۔ اسے ہر رشتے کو سنبھالنا اور سنوارنا آتا تھا۔ اپنی ماں باپ کی لاڈلی اولاد ہونے کے باوجود وہ ایک سلجھا ہوا شریف انسان تھا۔
ادھر زمان اور اسکے گھر والے دن بدن تنگ گھیرے میں آتے جا رہے تھے۔ الیکشن سر پر تھے اور اس دفع زمان نے بھی اپنی پارٹی سے ٹکٹ لی تھی۔ ہر گزرتے دن اکبر کی طرف سے کئے جانے والے اوچھے ہتھکنڈوں نے زمان اور اسکے گھر والوں کو بہت محتاط کر رکھا تھا۔ گھر کے باہر گارڈز میں اضافہ ہو گیا تھا۔ زیغم نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا۔ زمان پارٹی کے دفتر جاتا تھا اور دلاور کو بھی مجبوراً work from home کروا رہے تھے۔ زین اور حماد کے درمیان اس دن کے بعد سارا کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس دوران زیمل اور زمان کا دو دفع شاپنگ کے دوران ٹکراؤ ہوا لیکن دونوں ہی ایک دوسرے سے خار میں رہے تھے۔
آج سارا کی شادی تھی۔ گھر میں گہما گہمی کا ماحول تھا۔ سارا فنکشن زیمل وغیرہ کے گھر میں کیا گیا تھا۔ انکے گھر کا لان اتنا بڑا تھا کہ ڈھائی تین سولوگ اس میں آرام سے cater ہو سکتے تھے۔ اشرف سلطان کی وجہ سے فنکشن میں سکیورٹی کا بہت سخت انتظام تھا۔ اسی وجہ سے زیمل شدید چڑی ہوئی تھی۔
"یار سارا اسی لیے مجھے یہ سیاست دان نہیں پسند۔ دیکھو گھر کے باہر ایسے لگ رہا ہے کہ گھر میں کوئی چور موجود ہوں۔" زیمل اپنے کمرے میں موجود دلہن بنی سارا سے مخاطب تھی۔ جس نے موتیے رنگ کے لمبے فراک کے نیچے کامدار ہم رنگ لہنگا پہن رکھا تھا۔ ہلکی میک آپ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
"زیمل خدا کو مانو! زمان بھائی روحیل کے بچپن کے دوست ہیں۔ وہ اور سلطان انکل روحیل سے بہت پیار کرتے ہیں۔" سارا نے بہت آرام سے زیمل کو سمجھایا جو مرون اور سنہرے رنگ کے اندکھا فراک میں ہیل کے ساتھ مذید دراز قد لگ رہی تھی۔
"پیار کرتے ہیں تو گھر رہتے! خیر دفع کرو I don't want to spoil my mood پہلے ہی میرا موڈ بہت خراب ہے۔" زیمل نے جھنجھلا کر شیشے کے آگے اپنے سائیڈ مانگ والے ہلکے سے گھنگھریلاے کئے بال درست کئے۔ کبھی ٹشو سے چہرہ صاف کرتی کبھی کپڑے درست کرتی۔ سارا پہلے تو آرام سے اسے دیکھتی رہی۔ پھر جب اسکا ضبط جواب دے گیا تو زیمل کو مخاطب کیا۔
"یا اللہ زیمل اب کیا مسئلہ ہو گیا ہے۔ شادی میری ہے مسلائل تمہارے نہیں ختم ہو رہے۔" سارا اب کرسی سے اٹھ کر، ڈرسینگ سے بلش اٹھا کر زیمل کا میک آپ درست کرنے لگی۔ اسے پتا تھا اس معاملے میں زیمل کو خد بھی نہیں پتا کہ چہرے پر کیا لگانا ہے اور کیا نہیں ہے۔
"اسکا مسئلہ یہ ہے کہ دلہن تم نہیں یہ لگ رہی ہے۔ اتنا اوّر ڈریس ہو گئی ہے۔" حماد جو باہر سے گزر رہا تھا، ان دونوں کی باتیں سن کر کمرے میں داخل ہوا۔ پہلے سارا کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا اور پھر خود کو قابو کر کے چہرے پر مسکرا ہٹ سجا کر ان دونوں کے پاس آیا۔
"دیکھا دیکھا!! یہی میں کہہ رہی ہوں۔ اتنا شوخ رنگ پہنا دیا ہے مجھے۔  اوپر سے یہ جھمکے اور یہ لپ اسٹک۔ ڈاکٹر کنجوس  یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔" زیمل روہانسی آواز میں کہنے لگی۔ پہلے سارا کو سب کچھ دکھایا اور پھر بگڑ کر حماد کو گھورا۔
" زیمل...زیمل...کیا ہو گیا ہے۔ اتنی تو اچھی لگ رہی ہو۔ یہ ڈاکٹر کنجوس چاہتا ہی نہیں کہ تم اچھی لگو۔ اسی لیے ایسی باتیں کر رہا ہے۔" سارا نے حماد کو آنکھیں دکھائیں اور زیمل کو اسکے مقابل سے ہٹایا۔ ایک دفع زیمل کا داماغ پھر گیا تو وہ کسی کے قابو میں نہیں آتی اور آج سارا یہ بلکل افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔ دار اب زیملُکے کپڑے اور زیور سیٹ کرنے لگی۔ پہلے اسکے جھمکے تبدیل کر کے کچھ قدرے چھوٹے جھمکے پہنائے۔ ایک ہاتھ میں سے چوڑیا اتار کر باریک بریسلٹ پہنایا اور لپ اسٹک کو ہٹا کر وہی سیڈ دبارہ لگا دیا۔ صرف اسکی satisfaction کے لیے۔ حماد دونوں کو بہت دیر دیکھتا رہا۔ سارا کو دیکھتا رہا۔ ایک دفع پھر وہ خود پر سے قابو کھونے لگا۔ اسے بھی نہیں پتا چلا وہ کہا کہنے والا تھا لیکن وہ کہہ گیا۔
"سارا تم خوش ہو ؟" حماد کے لہجے نے ایک دم ماحول بدل دیا۔ سارا جو مسکرا رہی تھی یک دم سنبھل کر اسے دیکھنے لگی۔ حماد زیمل کو ہٹا کر خود اسکے مقابل آ کر کھڑا ہو گیا۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ زیمل بھی اچانک متوجہ ہوئی۔  "بتاؤ سارا!  تم خوش ہو ؟" سارا نے خاموشی سے حماد کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ جو سمجھ رہی تھی، سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی۔ حماد کی آنکھیں کیا کہہ رہی تھیں؟ لیکن کچھ بھی واضع نہیں تھا۔
"حم..."اس سے پہلے کہ سارا کچھ بولتی روحیل کی آواز باہر سے آنے لگی۔  حماد پیچھے ہٹ گیا۔ زیمل ابھی تک حالات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "زمان تم آجاؤ ادھر آ جاؤ۔" روحیل کی آواز قریب سے آنے لگی۔ زمان اور دو تین اور لڑکوں کو لے کر زیمل کے کمرے کی طرف آیا۔ حماد زین کو دیکھ کر یک دم ٹھٹھک گیا۔ زین کے چہرے پر بھی مسنوعی حیرت اور خوشی تھی۔ روحیل نے کمرے میں تینوں کو موجود دیکھ کر سب کا مکمل جائزہ لیا۔ "ارے حماد! تم۔ زیمل ؟ سارا؟ یہ تم سب یہاں کیوں ہو؟ پھپھی جان نے تو کہا کہ تم لوگ انکے کمرے میں ہو۔" روحیل نے ان تینوں کو دیکھ کر اچانک سے سوال کیا۔
" وہ ممی کے کمرے پہلے سے ہی کچھ مہمان موجود تھے۔" زیمل سارا کے آگے آ کر کھڑی ہو گئی۔ سارا بھی اسٹول پر بیٹھ گئی۔ تاکہ وہ نظر ہی نہ آئے۔
"یہ کون ہیں روحیل؟" حماد نے زمان کی طرف سوالیا انداز آنکھ سے اشارے سے پوچھا۔ وہ موتیا رنگ کے کرتے ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔ بالوں کو نفاست سے سیٹ کر رکھا تھا۔ آنکھوں پر نظر کا چشمہ بھی لگا لیا تھا۔ شاید وہ کہیں سے آ رہا تھا۔ ہلکی گندمی رنگت پر موتیا رنگ کا سوٹ بہت جج رہا تھا۔ باہر کھڑکی سے دھوپ کمرے میں داخل ہو کر اسکی ہلکی بھوری آنکھو کا رنگ بدل رہی تھی۔
"یہ میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ زمان اشرف۔ اور یہ..."
"یہ میرا سب سے اچھا دوست زین۔" زین جو ہلکے سرمائی رنگ کے سوٹ میں ملبوس اور حماد جو ہلکے نیلے رنگ کے کرتا ٹراؤزر میں ملبوس تھا ہنسنے لگے۔ دونوں کی شکلیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ دونوں ڈاکٹر ہیں۔ شخصیت کی دونوں کی ایک سی دھیمی اور روعب دار۔ زین اور حماد بغلگیر ہوئے۔ خوشگوار حیرت میں سب آپس میں باتیں کرنے لگے۔ زیغم اور زیمل حالات سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
"آپ مجھے سب سے اچھا دوست مہمان بنا لیں۔" زیغم جو خاموشی سے کھڑا تھا، معصومیت سے خاموش کھڑی زیمل کو مخاطب کر کے بولا۔ زیمل مسکرا کر اسے دیکھا۔
"تم لوگ ایک دوسرے کو کیسے جانتے ہو ؟" زمان نے روحیل سے ہٹ کر زین کو دیکھا۔
"ایف ایس سی سے ساتھ ہیں ہم۔ یہ ہے ڈاکٹر حمادسلمان..."
"ارے آپ ہیں ڈاکٹر حماد۔ بہت تذکرہ رہتا ہے آپکا ہمارے گھر میں۔ مجھے تو ہمیشہ لگتا اپنی کسی محبوبہ کا نام آپکے میں چھپا کر لیتے ہیں۔ آپ تو آصل میں حماد سلمان ہی ہیں۔" زیغم جو جامنی رنگ کے کرتا ٹراؤزر میں ملبوس تھا، آگے بڑھ کر حماد کے پہلے گلے لگا اور پھر اسکا ہاتھ تھام کر ساتھ ساتھ ہلا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنی بات کہے جا رہا تھا۔
"تعارف ہو گیا تو، کام بتائیں۔" زیمل نے سارا کو دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے روحیل کو دیکھتے ہوئے کہا۔ روحیل زیمل کو دیکھ کر خجل ہو گیا۔
"وہ زمان کو باتھ روم جانا ہے۔" روحیل نے زمان کو آگے کیا۔
"وہ باتھ روم ہے۔ آپ جائیں اور باکی سب باہر جائیں۔ ہماری دلہن یہاں بیٹھی ہے بھئی کوئی تو لہاظ کریں۔" زیمل شریر انداز میں کہنے لگی۔ زیغم نے زیمل کو اشارہ کیا اور روحیل کی بغل گیر ہو کر اسے باہر لے گیا۔ وہ بیچارا ارے ترے کرتا رہا لیکن کسی نے اسکی ایک نہ سنی۔
"زین چلو میں تمہیں مام ڈیڈ سے ملواتا ہوں۔" حماد سارا کو ایک نظر دیکھے بغیر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ سارا نے بہت دور تک اسے جاتے دیکھا۔ شاید وہ پلٹ کر اپنے بات مکمل کر لے۔
"سارا...سارا...سارا!!!" زیمل سارا کو گم سم دیکھ کر اسکا کندھا تھپتھپانے لگی۔ سارا باہر دیکھ رہی تھی۔ دو دفع بلانے کے باوجود وہ ہوش میں نہ آئی تو زیمل نے اسکا کندھا جھٹکا۔
"ہوں؟...ہاں؟...کیا؟" سارا یک دم ہوش میں آئی۔
"چلا گیا وہ۔" زیمل دروازے کی طرف جھک کر باہر دیکھ رہی تھی۔
"ک..کون!"
"روحیل اور کون؟" زیمل اسی انداز میں پلٹی اور بھنویں سمیٹ کر بولی۔
"نہیں میں ڈاکٹر کنجوس کو دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔" سارا ابھی بھی تذبذب کا شکار تھی۔
"وہ کچھ نہ کچھ کہتا رہتا ہے۔ اسے چھوڑو تم یہ بتاؤ کہ تمہارے لئے کچھ کھانے کا بند و بات کروں؟ تم بھوکی ہو۔" زیمل اب سارا کے دوپٹے کو پیچھے سے پھیلا رہی تھی۔
"زیمل تم ایک دفع حماد سے پوچھ لو کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ شاید وہ کوئی بہت اہم بات کرنا چاہ رہا تھا۔" سارا ابھی بھی دروزاے کے باہر گردن اپر نیچے کر کے حماد کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"سارا میں بلا لاتی ہوں اسے۔ تم پریشان نہ ہو۔ اور دیکھو زیادہ باتیں نہیں کرو، سارا میک آپ خراب کر رہی ہو۔" زیمل کی ڈریسنگ سے اسپنج اٹھا کر اسکے چہرے پر ہلکا ہلکا تھپکنا شروع کیا۔
"زیمل، نہیں کرو۔ یار۔ اچھا ہٹو نہیں بولتی اب میں۔" سارا نے اسکے ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔
ابھی چند ہی پل گزرے تھے جب، باتھ روم کا دروازہ کھلا اور زمان صرف، سارا اور زیمل کر دیکھ کر تزبزب کا شکار ہو گیا۔
"وہ سب، مطلب روحیل کہاں ہے؟" وہ بہت مشکل سے اپنے تاثرات ہموار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"زیمل جاؤ زمان بھائی کو لے جاؤ ان کے پاس۔" سارا نے اسکی مشکل آسان کی اور زیمل کو براہِ راست مخاطب کیا۔ زیمل نے پہلے مخفی سا نفی کا اشارہ کیا اور جب سارا نے آنکھیں دکھائیں تو وہ با دلنخواستہ اسے لے ہی گئی۔
وہ گھر کے ایک کونے سے دوسرے میں جا رہے تھے جب سلیمان صاحب کے ساتھ، اشرف سلطان کسی رستے سے آ رہے تھے۔  زمان نے اچانک زیمل کو دیکھا اور پھر پاس بھی کھڑکی سے باہر۔ زمان یک دم رک گیا۔ اس نے، پورے گھر کو گھوم کر دیکھا۔ پھر کھڑکی سے باہر۔
"تم نے کوئی کیمرہ کھول رکھا ہے؟" زمان نے تیکھی نظروں سے زیمل کو دیکھا۔ وہ پہلے ہی بہت مشکل سے اس کے ساتھ چل رہی تھی۔ اس کی یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ وہ ایڑھیوں کے بل پلٹی اور زمان کو پہلے annoyed انداز میں دیکھا اور پھر دونوں خالی ہاتھ اسکے سامنے کئے۔
"دیکھیں زمان صاحب آپ ہوں گے کوئی مشہور، سیاست دان یا جو بھی، لیکن ہر کسی کو آپکی تصویریں لینے کا شوق نہیں ہے۔" زیمل چڑا ہوا جواب دیے کر اسے حماد کی کمرے تک لیجانے لگی تو اشرف سلطان اور سلیمان ان کے سامنے آ رکے۔
"اور یہ میری بیٹی ہے، زیمل۔ بیٹی انکل کو سلام کرو۔" سلیمان صاحب کوئی بات کر رہے تھے اور پھر رک کر انہوں نے زیمل کا تعارف کروایا۔
"السلام علیکم۔" زیمل نے مروت میں جھک کر سر پر پیار لیا اور سلام کیا۔
"بیٹے یہ کون؟ " سلیمان صاحب نے سوالیا نظروں سے زیمل کو دیکھا۔
"ڈیڈ یہ روحیل بھائی کے دوست..." اس سے پہلے زیمل بات مکمل کرتی۔
"یہ میرا بیٹا ہے۔ زمان اشرف۔" اشرف سلطان نے زمان کو اشارہ کیا تو اسی انداز میں اس نے سلیمان صاح سے سلام لیا۔
"ارے یو آر دا فیوجر آف دس کنٹری۔ تم نے انے والے سالوں میں ملک سنبھالنا ہے۔" سلیمان صاحب اسکا سادہ لباس اور دھیمی طبیعت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہ کافی سلجھا ہوا لڑکا تھا۔
"سنبھال ہی نہ لیں۔" زیمل اتنا آہستہ بولی کہ آواز اس تک یا شاید زمان تک ہی آئی ہو۔
"آپ کدھر جا رہے ہو ویسے؟" اشرف سلطان نے زمان سے کہا۔
"روحیل کے پاس وہ شاید حماد کے کمرے میں ہے۔"
"نہیں وہ چاروں ابھی ٹولی بنا کر لان کیں تصاویریں بنوانے گئے ہیں۔ آپ بھی وہیں چلے جاؤ۔ زیمل بھائی کو لے جاؤ۔" سلیمان صاحب نے زیمل کے زمہ ایک اور مشکل کام لگا دیا تھا۔ زیمل نے احتجاجاً باپ کی طرف دیکھا تو انہوں نے گھور کر اسے جانے کا اشارہ کیا۔ زیمل نے پہلے چہرے کے زاویہ بگاڑے اور پھر اشرف سلطان سے بات کرتے زمان کو مخاطب کیا۔
"چلیں زمان بھائی " بھائی پر زور دے کر وہ اسے وہاں سے لے گئی۔ اور اشرف سلطان سمیت سلیمان گھر کے دورے میں واپس مشغول ہو گئے۔

رنجش   RANJISH Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang