قسط نمبر 1

685 27 7
                                    

گھر کے پاس والی سڑک دور دور تک سنسان تھی، بارش اب ہلکی ہوگئی تھی۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا وہ ایک نئی سوچ میں گم تھا۔ اچانک اسے آنیہ کی آواز آئی، بھائی آپکی چائے۔۔۔۔۔
کمرے میں جو خاموشی تھی وہ اس معصوم سی دِکھنے والی لڑکی کی آواز سے ٹوٹی۔ اس کی اکلوتی اور لاڈلی بہن ہاتھ میں چائے کا کپ لیے کھڑی تھی۔ بھائی آپ کن سوچوں میں گم ہیں میں نیچے کچن سے آپکو کب سے آوازیں لگا رہی ہوں، آپ ہیں کہ سنتے ہی نہیں ہیں۔ آپ کو معلوم ہے بابا کتنے پریشان ہیں، ان کی شکل سے اداسی چھلک رہی ہے۔
آپ اپنی سوچ کے دائرے کو یہیں ختم کریں اور بابا کو دیکھیں جاکر پتا کریں کیا پرابلم ہے، مجھے وہ اداس بالکل اچھے نہیں لگتے۔
بھائی آپ سن رہے ہیں نا؟ اس نے بھائی کا کندھا جھنجھوڑ کر کہا۔۔۔۔۔۔
معاویہ نے شرارتی انداز میں اسے دیکھا۔ یار کتنا بولتی ہو،دوسرے کو بھی کچھ بولنے دیا کرو۔
ایک بار بولنا شروع کرو تو دوسرے کو بولنے ہی نہیں دیتی۔ میں جانتا ہوں بابا کس وجہ سے پریشان ہیں اور میں اس وقت انکی پریشانی کا حل ہی سوچ رہا تھا. جو تم آ کر میرے سر پر نازل ہو گیں۔ 
تم بلکل بھی مت سوچو بابا زمینوں سے متعلق کسی بات  کو لےکرپریشان ہیں ۔
اللّه نے چاہا تو وہ بہت جلد اس ٹینشن سے دور ہو جائیں گے  کیوں کے میں نے اسامہ کو کال کر دی ہے اسکے exam  ختم ہوگئے ہیں اور وہ آکر اس مسلے کا کوئی نا کوئی حل نکال لے گا ۔
اب اگر سکون ہو گیا ہو سب جان کر تو یہاں کپ رکھو اور رفو چکر ہو جاؤ 
مجھے اور بھی کام ہیں تمہاری طرح فارغ نہیں ہوں ۔۔
بھائی آپ مجھے فارغ بول رہے ہیں ؟
مجھے بھی بہت کام ہوتے ہیں اتنا پیار سے آپکے لیئے چائے لائی تھی ۔
اور آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں ۔ اسنے رونی شکل بنا کر معاویہ سے کہا ۔۔۔
اس کے  انداز پر معاویہ کو بہت پیار آیا اور  اس نے بہن کے سر پر تھپڑلگایا اور کہا ۔ میں بے عزتی تھوڑی کر رہا ہوں میں تو سچ بول رہا ہوں 
اس بات پر تو آنیہ کا پارہ ہائی ہو گیا وہ غصّے میں پیر پٹختی کمرے سے باہر چلی گی۔
معاویہ اُسامہ اور آنیہ تینوں بہن بھائی ایک دوسرے کے لاڈلے تھے۔ 
ان کے والد ایک جاگیردار تھے اور والدہ کا خاندان بھی ان سے کچھ ملتا جُھلتا تھا۔ 
دونوں میں کافی دوستی تھی جس کی وجہ سے ان کے گھرانوں نے عزرہ اور ہشتم کی شادی کا فیصلہ کیا جو بہت ہی کامیاب رہا۔ عزرہ اور ہشتم کا دماغ کافی ملتا تھا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی بہت understanding اور محبّت سے گزاری۔ 
ان کے گھر دو سال بعد بیٹے کی پیدائش ہوئی جسکا نام معاویہ رکھا ۔
معاویہ کی پیدائش پر عزرا اور ہشتم دونوں کے گھر والوں نے بہت خوشیاں منائیں ۔ گائوں میں مٹھائی تقسیم کروائی اور غریبوں کو سامان بھی کیوں کے ان کے گھر کا وارث بھی آگیا تھا ۔
تین سال بعد عزرا کے گھر ایک اور خوشی آئی اس کا نام اسامہ رکھا اور اس بار سب سے زیادہ خوش معاویہ تھا 
کیوں ک اس کے ساتھ کھیلنے کے ایک دوست آچکا تھا ۔۔۔
دونوں نے زیادہ تر ساتھ وقت گزارا اور انکی bonding بھی بہت زیادہ تھی ۔۔
معاویہ کیوں کے بڑا تھا اس لئے اسکا اسکول سٹارٹ ہو چکا تھا ۔ اُسامہ چھوٹا تھا۔ اس لئے ماں کا سارا وقت اسے ہی ملتا تھا۔ اور پھر دن گزرتے گئے اور اسامہ کے اسکول جانے کا ٹائم ہوگیا۔ لیکن اسامہ ماں سے اٹیچ ہونے کی وجہ سے اسکول جانے کےلئے راضی نہیں ہوتا تھا ۔
پھر کچھ ٹائم بعد اسامہ اسکول جانے کے لئے راضی ہو گیا ۔ 
وقت گزرتا گیا ۔
اچانک عزرا کو اپنی بیماری کا معلوم ہوا کے اسے بِلڈ کینسر ہے ۔ وہ خاموش رہنے لگی سارا وقت یہ سوچ سوچ کر گزرتا گیا  کے اسے کچھ ہو گیا تو اس کے بچوں کا کیا ہوگا کون انکا خیال رکھے گا ماں سے بڑھ کر تو کچھ نہیں ہوتا بچوں کے لئے ۔ ان ہی سوچوں میں وہ کمزور ہوتی گئی ۔
ہشتم کو اس بات سے عزرا نے لا علم  رکھا ۔

وہ اجنبی Where stories live. Discover now