نویں قسط

814 52 10
                                    

سَکھی تم پر چراغوں کی عطا ہو
سَکھی تم روشنی ہی انتہا ہو
گلابوں کی مسلسل بارگاہیں!
سَکھی تم خواب کی حیرت سرا ہو
مجھے سرمد کی مستی کی قسم ہے
سَکھی تم رقص ہو اور بے بہا ہو!
تمہاری سمت بہتا جا رہا ہوں
سَکھی تم کیوں نہایت دلربا ہو؟؟
یہ آنکھیں فارسی غزلوں کا نشہ
سَکھی تم تو سراپا ریختہ ہو
اچانک گنگنا اٹھتی ہو کیسے؟
سَکھی تم انتہائی نظمیہ ہو!
یہ کیسا حُسن ہے؟ آتش پناہی!
سَکھی تم آگ ہو؟ خوشبو ہو؟ کیا ہو؟؟
زمانہ زنگ سے بھرنے لگا ہے
سَکھی ہنس دو! کہ سب پھر سے نیا ہو
کوئی پوچھے علی خود مست ہو کیا؟
سَکھی میں ہنس کے کہتا ہوں کہ آہو!
(علی زریون)
--------------------------------------
شاہزین کے ساتھ خضر، روحان، رضا اور شعیب بھی آگئے تھے۔ ایک میز پر نمرہ اور شاہزین تھے۔ باقی سب ان سے کافی دور بیٹھے تھے۔ ان سب کی نظریں نمرہ اور شاہزین پر گڑی ہوئی تھیں۔ آواز تو آ نہیں رہی تھی۔ تو ان کے چہرے کے تاثرات سے وہ اندازہ لگا رہے تھے کہ کیا بات ہو رہی ہوگی۔
"نمرہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔" رضا نے شاہزین بنتے ہوئے کہا۔
"شاہزین میں اپنے ابو کے علاؤہ کسی سے پیار نہیں کرتی۔" جویریہ نے نمرہ کی اداکاری کی۔
"ایسے مت کہو نمرہ۔ پلیز مجھ سے شادی کر لو۔" اب کی بار شعیب بولا۔
"سوری شاہزین۔ میں فارس کی تیسری بیوی بننا چاہتی ہوں۔" عائشہ کے کہنے پر ان سب نے نظروں کا زاویہ اس کی طرف موڑا۔
"بیڑے غرق۔ سارا فلو توڑ دیا۔" جویریہ نے غصے سے کہا۔
"ویسے تم لوگوں کی ایک بھی لائن ان کے ایکسپریشن سے میچ نہیں کرتی۔ اُدھر دیکھو۔ وہاں تو لگ رہا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کو بہت عرصے سے جانتے ہیں۔ اور کوئی بڑا ضروری ٹوپک ڈسکس کر رہے ہیں۔" عنایا نے تبصرہ کیا۔
"ہاں تو شادی ایک ضروری ٹاپک ہی ہے۔" روحان نے ہنستے ہوئے کہا۔
"بیوقوفوں۔ نمرہ کی شکل دیکھو۔ کتنے غور سے شاہزین بھائی کو سن رہی ہے۔ حالانکہ جہاں تک ہم نمرہ کو جانتے ہیں، اب تک تو اسے ان کا سر پھاڑ کر آ جانا چاہئے تھا۔" عنایا نے اب اپنے تبصرے کی وضاحت کی۔
"زین میرا دوست ہے۔ بچپن سے جانتا ہوں اسے۔ وہ صرف آرڈر کرنا جانتا ہے ریکویسٹ نہیں۔" خضر نے شاہزین کی شخصیت کے متعلق کہا۔
"ویسے سوچنے والی بات ہے۔ یہ نمرہ کیسے اتنی دیر سے اتنے آرام سے ان سے بات کئے جا رہی ہے۔ زیادہ کچھ نہیں تو کم از کم ایک آدھ بار ٹیبل پر زور سے ہاتھ مار دیتی۔" مدیحہ نے بھی نمرہ کے متحمل انداز میں بیٹھے رہنے پر حیرت کا اظہار کیا۔ کتنی ہی دیر وہ لوگ نمرہ اور شاہزین کے درمیان ہونے والی گفتگو کی نوعیت کا اندازہ لگاتے رہے مگر کوئی حتمی رائے قائم نہ ہو سکی۔ کچھ دیر بعد نمرہ اور شاہزین کھڑے ہوتے نظر آئے۔ شاہزین نے جیسے کوئی ہدایت دی جس پر نمرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر وہ دونوں ساتھ ان سب کی طرف آئے۔ پوچھنے کی ضرورت تو نہیں تھی مگر پھر بھی جویریہ نے بے صبری سے پوچھا۔
"کیا نتیجہ نکلا؟" جواب میں نمرہ نے یوں دیکھا جیسے کہنا چا رہی ہو "تم نہیں جانتی؟"
"زین تو ہی کچھ بک دے۔" اب کہ خضر نے شاہزین سے کہا تو اس نے بھی اسی نظر سے خضر کو دیکھا۔ مگر سب کی سوالیہ نظریں خود پر محسوس ہوئیں تو کہہ دینے کا فیصلہ کیا۔
"شاہزین خان عباسی سے کامیابی کے علاؤہ کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے؟" اس نے کندھے اچکا کر محض اتنا کہا۔ اور ان سب کو اپنی خیال کی تصدیق مل گئی۔
"لیکن کیسے؟" مدیحہ ورطہ حیرت سے بولی۔
"یہ آپ اپنی سہیلی صاحبہ سے پوچھ لیں۔ میں اب چلتا ہوں۔ میری فلائیٹ کا ٹائم ہونے والا ہے۔ پرسو نکاح کے لئے واپس بھی آنا ہے۔" شاہزین کی اگلی خبر ان سب کو پہلے سے زیادہ حیرت میں ڈال گئی تھی۔ اس کے اور خضر کے جانے کے بعد باقی سب وہیں نمرہ کو گھیر کر بیٹھ گئے۔
"سچ سچ بتاؤ خونخوار عورت۔ کیسے مان گئی تم؟" رضا نے چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
"عورت کسے کہا؟" نمرہ نے گھورا۔
"اسے چھوڑو تم بتاؤ کیسے مان گئی؟" عائشہ نے موضوع کی طرف لانا چاہا۔
"بس مان گئی۔" نمرہ نے بال جھٹکتے ہوئے کہا۔
"نمرہ مارے تجسس کے ہمارے پیٹ میں درد شروع ہو جائے گی۔ بتا دو یار۔" جویریہ منت بھرے انداز میں بولی۔ نمرہ نے گہرا سانس بھرا۔ پھر بتانا شروع کیا۔
("میں پہلے اپنے ابو کی طرح وکیل بننا چاہتی ہوں۔ باہر سے سپیشلائیزیشن کرنا چاہتی ہوں۔" نمرہ نے اپنا مدعا رکھا۔
"یہ کوئی معقول وجہ نہیں ہے انکار کی۔ آپ لائیر بننا چاہتی ہیں۔ بنیں میں نے منع نہیں کیا۔ بلکہ اس کالج سے آپ کا ٹرانسفر اپنی یونی کرواؤں گا۔ باہر سے سپیشلائیزیشن کرنا چاہتی ہیں۔ میں لے چلوں گا۔ یہ سب کوئی مسںٔلہ نہیں ہے۔ کوئی اور وجہ ہے تو بتائیں۔" شاہزین نے نہایت آرام سے اس کی انکار کی وجہ کو رد کیا۔
"میں آپ کو جانتی نہیں۔ آپ کا کردار آپ کا مزاج کچھ بھی نہیں۔" اس نے ایک اور بات رکھی۔
"مجھے جاننے کے لئے ساری زندگی پڑی ہے۔ اور میرے کردار کو آپ یوں دیکھ لیں کہ چاہتا تو افئیر چلاتا۔ ٹائم پاس کرتا۔ میں نے تو نکاح کی خواہش کی ہے۔ اور مزاج کی بات ہے تو میں سنجیدہ مزاج کا ہوں۔ سٹریٹ فارورڈ بھی ہوں۔ باقی آپ کے دوستوں نے اچھی طرح میری چھان بین کی ہے۔ ان سے پوچھ لیں۔ یا خود میری یونیورسٹی سے پتہ کروا لیں میرے بارے میں۔ دوست میرا ایک ہی ہے۔ بہن بھائی کوئی ہے نہیں۔ سرکل بھی کوئی بڑا نہیں میرا۔ ایک ہی بری عادت ہے سگریٹ پینے کی۔ باقی میرے ساتھ ہونگی تو مجھے جان لیں گی۔" شاہزین نے اپنے بارے میں بتایا۔
"معزرت لیکن شادی ہے کوئی مہینے کا کنٹریکٹ نہیں۔ ساری زندگی کا معاملہ ہے۔ اور آپ کہہ رہے ہی۔ ساتھ رہوں گی تو جان جاؤں گی۔ ساتھ خوش نہ رہ سکی تو؟" نمرہ نے چیلنجنگ انداز میں کہا۔
"میں ایسی نوبت نہیں آنے دوں گا۔ آپ کو خوش رکھنے کے لئے مجھ سے جو بن پڑا میں کرو گا۔" شاہزین اعتماد سے بولا۔
"یہ سب کتابی باتیں ہوتی ہے۔ عائشہ جیسی فینٹیسی میں رہنے والی لڑکی ان پر یقین کر سکتی ہے۔ میں حقیقت پسند ہوں۔ آپ کی ان فلمی باتوں میں نہیں آنے والی مسٹر شاہ۔" نمرہ طنزیہ مسکرا کر بولی۔ شاہزین کی سنجیدگی پل بھر میں گہری ہوئی تھی۔
"آپ کی سب باتیں ایک طرف۔ مگر مجھے شاہ مت بلائیے گا آئندہ۔"
"کیا مطلب؟" نمرہ نے تعجب سے پوچھا۔
"مطلب یہ کہ مجھے کچھ بھی بلا لیں۔ مگر شاہ نہیں۔" شاہزین کی بات پر نمرہ الجھ گئی۔
"وہ کیوں؟" اس کے سوال پر شاہزین چند لمحے خاموش رہا۔ پھر نظریں میز پر ٹکا دیں اور بولا۔
"اس نام کے ساتھ کچھ اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں میری۔" اس کا انداز اچانک کچھ بدل سا تھا۔
"کیا میں جان سکتی ہوں کہ آپ کی شخصیت اتنی پراسرار سی کیوں ہے۔" اب کہ نمرہ کے لہجے میں کچھ نرمی تھی۔
"راز نہ ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔" شاہزین کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں۔ لگ رہا تھا جیسے وہ کسی سوچ میں گم ہو گیا ہے۔
"یعنی آپ مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اور اپنا راز بتانے کو راضی نہیں۔ نائس۔" نمرہ نے اکسایا۔ مگر مقابل شاہزین خان عباسی تھا۔
"جبکہ آپ مجھ پر اعتماد نہیں کرتیں۔ مجھے اپنا محرم بنانے پر آمادہ نہیں تو میں اپنے راز آپ پر عیاں نہیں کر سکتا۔" کوئی جھجھک، کوئی تذبذب شاہزین کو گھیرے میں لئے ہوئے تھا۔ مگر وہ اپنے احساسات ظاہر کب ہونے دیتا تھا۔ سو اعتماد سے سر اٹھا لیا تھا۔
"مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ آپ ہر وقت کسی دکھ کسی غم میں مبتلا ہیں۔ آج تک جتنی بار بھی میرا آپ سے سامنا ہوا ہے۔ آپ کے چہرے پر ایک درد دیکھا ہے۔" نمرہ کا زہن اب اس کی شخصیت میں اٹک گیا تھا۔ شاہزین اس کے تبصرے پر بڑی دلکشی سے مسکرایا۔
"حیرت ہے ویسے۔ ایک جانب آپ مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتیں تو دوسری جانب میری شخصیت کا اتنا گہرا معائنہ کیا ہے۔ امپریسیو۔" اس کا انداز کچھ جتاتا ہوا تھا۔
"دیکھیں سمپل سی بات ہے۔ آپ کا پروپوزل میرے لئے آیا ہے۔ میرے ابو اس پر راضی ہیں۔ میرے دوست مجھے آپ کے لئے کنونس کر رہے ہیں۔ اب ایسے میں آپ پر غور کرنا میرا پورا حق ہے۔" نمرہ نے وضاحت کی۔
"آپ نے مجھ پر غور کیا۔ جان کر خوشی ہوئی۔" شاہزین کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
"بات مت بدلو۔ یہ بتاؤ۔ کونسے راز ہیں جو چھپا رہے ہو مجھ سے۔" نمرہ نے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"کہا نا۔ جب تک اپنی زندگی میں آپ کی شمولیت یقینی نہ بنا لوں اپنے راز نہیں بتا سکتا۔" شاہزین نے حتمی انداز میں کہا۔
"اچھا سب چھوڑو۔ پہلے یہ بتا دو میرے ابو کو کیسے پٹایا ہے؟" نمرہ نے متجسس انداز میں پوچھا۔ کون کہہ سکتا تھا یہ لڑکی کچھ دیر پہلے شاہزین کو محض انکار کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
"پٹایا نہیں ہے۔ وہ مجھے پہلے سے جانتے ہیں۔" شاہزین نے تھوڑا برا منایا۔ یعنی اب شاہزین خان عباسی پر ایسے الزامات لگیں گے۔ یہی دن دیکھنے رہ گئے تھے۔
"تمہاری ہر بات مجھے مزید کنفیوز کر رہی ہے۔" نمرہ نے بیچارگی سے کہا۔
"آپ میرے بارے میں اتنا نہ سوچیں۔" شاہزین نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
"کیوں نہ سوچوں میں۔ ایک بندے سے شادی کرنی ہے اور اس کے بارے میں سچوں بھی نہ۔" وہ بے ساختہ کہہ اٹھی۔ شاہزین کو یہاں حیرت کا جھٹکا لگا۔
"کیا؟ یعنی آپ راضی ہیں؟" تصدیق کی خاطر اس نے سوال کیا۔ نمرہ نے خود کو کوسا۔ وہ اتنی جلدی نہیں بتانا چاہتی تھی۔
"وہ تو میں تب ہی ہو گئی تھی جب ابو نے کہا تھا۔ میں تو بس آپ کو ذرا چیک کر رہی تھی۔" اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
"آپ پہلے ڈیسائڈ کر لیں آپ مجھے آپ بلائیں گی یا تم۔" شاہزین نے اس کے کبھی آپ اور کبھی تم کے طرز تخاطب پر کہا۔
"جو میرا دل کرے گا۔ اب سچ سچ بتاؤ۔ ابو کیسے جانتے ہیں تمہیں؟" نمرہ واپس مدعے پر آئی۔
"پہلے وعدہ کریں جتنا بتاؤں اس سے زیادہ نہیں پوچھیں گی۔ میں آہستہ آہستہ خود بتا دوں گا۔" شاہزین نے شرط رکھی۔ جو نمرہ نے فوراً مان بھی لی۔)
"آگے؟" نمرہ کے خاموش ہونے پر مدیحہ نے پوچھا۔
"آگے کیا۔ پرسو نکاح ہے۔" نمرہ نے یاد دلایا۔
"انہوں نے ایسا بھی کیا بتا دیا کہ تم سیدھا نکاح پر راضی ہو گئی۔" جویریہ حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔
"وہ راز ہے۔" نمرہ نے کچھ سنجیدگی سے کہا۔
"یار یہ سب کچھ ہضم نہیں کر پا رہی میں۔" مدیحہ بیچارگی سے بولی۔
"تم صرف کھانا ہضم کیا کرو جو تمہارا فیورٹ کام ہے۔ عقل کی باتیں تمہیں ہضم ہو بھی نہیں سکتیں۔" نمرہ نے چڑایا۔ پھر وہ لوگ ہنسی مزاق میں لگ گئے تھے۔ دوبارا اس بارے میں کسی نے کوئی سوال نہ کیا۔ وہ سب جتنے بھی غیر سنجیدہ اور بیوقوف ہوں آخر اتنے با تہذیب تو تھے کہ کسی کے راز کو نہ کریدیں۔
شاہزین اور نمرہ کے نکاح کے بعد سب واپس اپنی روٹین میں آگئے تھے۔ سوائے خضر کے۔ جس کے دن رات اپنے والد کو راضی کرنے میں صرف ہو رہے تھے۔ خضر عائشہ کو منانے میں کامیاب رہا تھا مگر اپنے والد کو اب تک نہیں منا سکا تھا۔ رضا نے اسے مشورے دئے تھے جن پر آج کل عمل کر کے وہ اپنے والد کا دل نرم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جس میں کامیابی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے۔
---------------------------------------
وہ تینوں ابھی لائبریری سے نکلے ہی تھے جب سمرا ان کے پاس آئی۔ کچھ عرصے میں بہت بدل گئی تھی۔ اس نے سادہ لباس پہننا شروع کر دیے تھے۔ بولنے کا انداز بہتر ہو رہا تھا۔ سب اس کی تبدیلی پر کچھ حیران تھے۔
"روحان مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" سمرا نے روحان کو مخاطب کیا تو وہ چونک گیا۔
"ہاں بولو۔" اپنے سیل فون پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے روحان نے مصروف انداز میں کہا تھا۔ سمرا اس کے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ روحان، رضا اور شعیب تینوں چونک گئے۔
"آئی لو یو۔" سمرا نے ایک پھول اس کی جانب بڑھایا۔
"وااااٹ؟" روحان لگا شاید اس نے غلط سنا ہے۔
"آئی لو یو۔" سمرا نے اپنی بات دہرائی۔
"کہہ دیا؟ اب جاؤ." اس نے سرد انداز میں کہا۔
"میں سیریس ہوں" اس نے اپنی بات پر زور دیا۔
"میں بھی سیریس ہوں۔" لہجہ ہنوز سرد تھا۔
"روحان۔ میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔" التجا تھی۔
"مگر میں نہیں کرتا۔" روحان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا مگر سرد انداز میں بولا۔
"تم سمجھتے کیا ہو خود کو۔" وہ غصے سے بولی تھی۔ وہاں ایک ہجوم لگ گیا تھا۔ روحان نے کوئی جواب نہ دیا اور جانے لگا۔ اسے جاتا دیکھ وہ بھی کھڑی ہو گئی۔
"میں تم سے بات کر رہی ہوں۔" اس نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا اور اونچی آواز میں کہا۔ روحان نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"آئیندہ ہاتھ مت لگانا۔ تمہاری بکواس کا کوئی جواب نہیں ہے میرے پاس۔" وہ دھاڑا تھا۔ جسے غصے میں بھی کم ہی دیکھا گیا وہ اتنی زور سے دھاڑا کے رضا اور شعیب بھی ڈر گئے۔ وہ تو غصہ میں بھی نرمی سے، تحمل سے بات کرتا تھا۔
"تم میری محبت کو بکواس کہہ رہے ہو۔" اس نے صدمے سے کہا۔ آنکھوں میں آنسو جمع ہو گئے تھے۔
"یہ محبت ہے ہی نہیں۔ تمہارے دماغ کا فطور ہے۔ محبت یوں نہیں ہوتی۔ محبت کرنے والے محبت کا تماشہ نہیں بناتے۔ وہ تو محبت کی عزت کو یوں پامال نہیں کرتے جیسے تم کر رہی ہو۔ محبت کرنے والے یوں محبت کو سر عام بے عزت نہیں کرتے۔ وہ تو محبت کو سنبھال کے رکھتے ہیں۔ دل کے سب سے اونچے مقام پر۔ یوں تمہاری طرح زمیں پہ نہیں لا پٹکتے۔ آئندہ اگر ایسی بکواس میر ساتھ کی تو میں تو۔۔۔" وہ پھٹ پڑا۔ غصے میں کچھ غلط کہہ دینے کے خوف سے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر وہ تیزی سے نکل پڑا۔
"میری محبت سچی ہے۔ میں تمہیں یقین دلا کر رہوں گی۔" اس کے جانے کے بعد سمرا آنسو صاف کرتی دل میں اس سے ہی مخاطب تھی۔ رضا اور شعیب پہلے تو چند لمحے متحیر سے وہیں کھڑے رہے۔ جیسے جو کچھ ابھی دیکھا اس پر یقین نہ کر پا رہے ہوں۔ پھر اچانک روحان کے پیچھے گئے۔ وہ اسے آوازیں لگا رہے تھے مگر روحان کوئی جواب دئے بغیر پارکنگ تک پہنچا۔ جب شعیب نے بازو پکڑ کر روکا۔
"کہاں جا رہا ہے؟"
"گھر۔" روحان یک لفظی جواب دے کر بڑھ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ دونوں بھی جانتے تھے جب تک اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا یہ کسی کی نہیں سنے گا۔
گھر آ کر بھی اس کا موڈ سخت خراب تھا۔ مدیحہ نے پوچھا تو اس نے سب بتا دیا۔ وہ دونوں اب ایک دوسرے سے دل کی ہر بات بلا جھجھک کہہ دیا کرتے تھے۔
"اچھا چھوڑو یہ چیک کرو آخر کار میں نے شعیب کا موبائل ہیک کر ہی لیا۔ اور دیکھو کیا ملا مجھے۔" مدیحہ نے اس کا دھیان دوسری طرف لگاتے ہوئے اپنا کارنامہ بتایا۔
"تم یہاں بھی شروع ہو گئی۔ ویسے بندہ دوستوں کو ہی چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اب کر لیا ہے تو دکھا بھی دو کیا ملا۔" روحان نے پہلے حیرت سے کہا پھر ذرا تجسس سے پوچھا۔
"کرنے کو کچھ تھا نہیں۔ تم بھی صبح چلے جاتے ہو تو مجھے کوئی مصروفیت تو چاہئے تھی نا۔ خیر یہ چیک کرو۔" اس نے بنا شرمندہ ہوئے اپنے عمل کی وضاحت دی اور پھر اپنا لیپ ٹاپ اس کے سامنے کیا۔
"حیرت ہے یہ بندہ تو شاعروں کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔ اور خود شاعر بن گیا۔ وہ بھی بے وزن شاعر۔ ویسے یہ حرکت نہایت غیر اخلاقی تھی۔" وہ دونوں ہی اپنی اس حرکت پر اب ہنس رہے تھے۔
"شاعر تو شاعر ہوتا ہے۔ یہ بے وزن شاعر کیا ہوتا ہے؟" مدیحہ نے سوال کیا۔
"جیسے سنگنگ میں سُر، بیٹ، رِدھم، ٹون، وائس کوالٹی وغیرہ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اسی طرح شاعری میں بحر، وزن، قافیہ، ردیف جیسی چیزوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ جیسے ہر گانے والے کو آپ سنگر نہیں مان سکتے ویسے ہی ہر شعر کہنے والے کو شاعر نہیں مان سکتے۔ جب تک وہ شاعری کے تقاضوں پر پورا نہ اترے۔ بے وزن شاعر اسے کہتے ہیں جو متوازن شعر نہ کہہ رہا ہو۔" روحان نے تفصیل سے سمجھایا۔ مگر یہ ساری تفصیل مدیحہ کے سر سے گزر گئی تھی۔ تبھی حمدان بھنگڑے ڈالتا ہوا ان کے سر پر پہنچا۔
"بھیاااا۔ ہم جیت گئے۔" روحان بھی خوشی سے کھڑا ہو گیا۔
"سچ؟ اوہ نو میں نے مس کر دیا۔" جیتنے کی خوشی اور چھوٹ جانے کا دکھ۔ دونوں کا ایک ساتھ اظہار کیا۔
"کوئی بات نہیں بھیا۔ میں بتاتا ہوں۔ لیوک رونکی نے کیا دھویا ہے قلندرز کو کہ بتا نہیں سکتا۔ اففف۔ اور شاداب نے حفیظ کو زیرو پر آؤٹ کر دیا۔ یونائیٹڈ نے کمال ہی کر دیا۔" وہ پرجوش انداز میں بتا رہا تھا یہ دیکھے بغیر کہ قلندرز کی ایک سپورٹر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی ہے۔ روحان کو اس کی شکل دیکھ کر ہنسی آئی۔
"دانی۔ دانی۔ خود پر قابو رکھو۔ ایک شاندار شکست کے بعد قلندرز یونائیٹڈ پر تشدد کے موڈ میں لگ رہے ہیں۔" ہنسی ضبط کر کے وہ بڑے پتے کی بات بتا رہا تھا۔ حمدان اس کا اشارہ سمجھ گیا۔
"ہم معزرت خواہ ہیں کہ آپ کی ٹیم نالائقی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ برائے مہربانی۔ تیس چالیس سال بعد ان سے جیتنے کی امید رکھیں۔ شکریہ۔" مدیحہ سے کہہ کر اس نے دوڑ لگا دی جب مدیحہ اب روحان کو گھور رہی تھی۔ پھر پاس پڑی کتاب اٹھا کر اسے ماری۔
یونہی شادی کی تیاریوں اور پی ایس ایل کی لڑائیوں میں دن تیزی سے گزرتے گئے۔

دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)Where stories live. Discover now