یہ سب کیا ہو گیا تھا۔ اور یہ سب کیا ہو رہا تھا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ شعیب کو منوں مٹی تلے دفنا آئے تھے اور روحان کی زندگی کی دعائیں کر رہے تھے۔ وہ سب روحان کو دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر وجدان سختی سے منع کر چکا تھا۔ شعیب کی تدفین کے بعد وہ عشا کی نماز پڑھ کر واپس ہسپتال چلا گیا تھا۔ جہاں دانیال اکیلا تھا۔ وہ پہلے سفیان سے بات کرنے گیا۔
"کنڈیشن اچھی نہیں ہے ان کی۔ مگر وہ جینا چاہتے ہیں۔ ہی از فائٹنگ فار سروائیول۔ اور ایسے کیسز میں اکثر جیت ہوا کرتی ہے۔" اس نے امید دلائی۔
"آپ تسلی تو نہیں دے رہے؟"
"نہیں۔ مجھے امید نہیں تھی روحان ایسے فائٹ بیک کریں گے۔ بٹ وہ کر رہے ہیں۔ بس دعا کریں ہماری کوششیں کامیاب ہو جائیں۔" وجدان نے پہلا شکر کا سانس خارج کیا اور اب دانیال کے پاس آیا۔
"تم اب گھر چلے جاؤ۔"
"نہیں بھیا۔ میرا دل نہیں مان رہا۔ پلیز۔" اس نے کہا تو وجدان نے سر ہلا دیا۔ سچ تو یہ تھا کہ اسے بھی کسی کی ضرورت تھی
"تم کینیڈا جا رہے تھے ناں۔" تھوڑی دیر بعد وجدان نے پوچھا۔
"ایڈمیشن نہیں ملا وہاں۔ اٹلی کی ایک یونیورسٹی میں مل گیا تھا۔" دانیال نے بتایا۔
"کب جا رہے ہو؟"
"آج کی فلائٹ تھی۔" اس کے کہنے پر وجدان پورا اس کی جناب مڑا
"تم پاگل ہو۔ تمہیں اس وقت یہاں نہیں ہونا چاہئے تھا۔" وہ حیرت سے بولا۔
"مجھے لگا مجھے اس وقت یہاں ہی ہونا چاہئے تھا۔" اس نے کندھے اچکا دئے۔
"تمہارا فیوچر ہے۔" وجدان نے احساس دلانا چاہا۔
"بھیا فیوچر کبھی بھی بن جائے گا۔ ابھی رشتوں کو میری ضرورت ہے۔ انہیں کیسے چھوڑ دوں؟" دانیال نے بھی حیرت سے کہا۔
"تم صرف جزباتی ہو رہے ہو۔ میں یہاں سب سنبھال رہا ہوں۔" وہ نرمی سے بولا۔
"مجھے خاندان میں وجی بھیا پارٹ ٹو کہتے ہیں۔" اس نے جتایا تو اب اس کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔ سارے معاملے میں یہ پہلی مسکراہٹ تھی اس کے چہرے پر۔
"سنا ہے ہم چاچا بن گئے ہیں۔" دانیال نے یاد آنے پر پوچھا۔ تو وجدان نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
"اوہ۔ میں نے ایک بار بھی کال کر کے ثنا کی خیریت نہیں پوچھی۔"
"اب پوچھ لیں۔" دانیال مسکرایا۔ وجدان نے فوراً اپنا موبائل نکال کر ثنا کو ویڈیو کال کی۔
"اسلام علیکم۔ روحان کیسا ہے؟" کال اٹھاتے ہی ثنا نے جلدی سے پوچھا۔
"وعلیکم السلام۔ ڈاکٹرز پُر امید ہیں۔ تم بتاؤ تم کیسی ہو؟" دانیال خود اٹھ کر ذرا دور جا کھڑا ہوا۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں۔ پتہ ہے جب سے آپ مجھے گھر چھوڑ کر گئے ہیں میں نے اتنی دعائیں کی ہیں۔ میں بہت پریشان ہو گئی تھی۔ سب گھر میں اتنے پریشان ہیں۔ امی جان تو کسی کی نہیں سن رہیں۔ تب سے جانماز پر بیٹھی روئے جا رہی ہیں۔ دعائیں کئے جا رہی ہیں۔" وہ پریشانی سے بتائے جا رہی تھی جب وجدان بولا۔
"اور تم؟"
"بتایا تو ہے میں ٹھیک ہوں۔" اس نے یاد دلایا۔ وجدان مسکرایا۔ وہ اتنی بے ضرر کیوں تھی۔ کبھی اپنی فکر ہی نہیں ہوتی تھی۔
"اور ہمارا شہزادہ کہاں ہے؟"
"وہ۔ ارے یہ دیکھیں۔ سو رہا ہے۔ کتنا پیارا لگ رہا ہے سوتا ہوا۔ بالکل آپ جیسا ہے ناں؟" اچانک ثنا کی ساری توجہ بچے کی جانب ہو گئی۔ کیمرہ اس کی جانب موڑ وہ خود بھی اسے دیکھنے لگی۔ وجدان کے چہرے کی مسکراہٹ بڑھتی چلی گئی۔ وہ چند لمحے اپنے بیٹے کو دیکھتا رہا۔ پھر موبائل کی سکرین چوم لی۔ آنکھوں میں ابھرتی نمی کو اس نے اندر دھکیلا اور دانیال کو آواز دی۔
"یہ دیکھو دانیال۔" دانیال واپس اپنی جگہ پر آ بیٹھا۔
"ماشاءاللہ۔ کتنا پیارا ہے یہ تو۔" دانیال نے سکرین پر ہاتھ پھیرا۔
"جی بالکل۔ ہمارا شہزادہ جو ہے۔" وجدان نے ایک بار پھر سکرین کو چوما۔ جیسے وہ سکرین نہیں اس کا بیٹا ہے۔
"کوئی نام رکھا ہے اس کا؟" دانیال نے پوچھا۔
"ہاں۔ اس کا نام۔ ضوریز۔ نور پھیلانے والا۔" وجدان کہہ رہا تھا جب فون سے ثنا کی آواز آئی۔
"مدیحہ۔" ثنا اچانک اسے اپنے کمرے میں دیکھ حیرت سے بولی۔
"بھابھی۔۔۔" مدیحہ کچھ ہچکچاتے ہوئے اندر آئی۔
"آؤ۔ دیکھو ضوریز۔ تمہاری چچی آئی ہیں۔" ثنا نے ضوریز کے کان میں کہا۔ مدیحہ آگے آئی۔ ضوریز پرسکون سا سو رہا تھا۔ وہ نیند میں مسکرا رہا تھا۔
"امی کہتی ہیں کہ جب بچہ نیند میں مسکرائے تو اسے فرشتے پیار کر رہے ہوتے ہیں۔" بے ساختہ مدیحہ نے کہا۔
"شاید۔۔ ادھر بیٹھو۔" ثنا نے اس اپنے پاس بیٹھنے کا کہا۔ وہ جانتی تھی مدیحہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔
"بھابھی۔ آپ بھیا سے کہیں ناں مجھے ہاسپٹل آنے دیں۔ مجھے روحان کے پاس رہنا ہے۔ پلیز۔ مجھے گھر میں سکون نہیں آ رہا۔" وہ سفارش کروانے آئی تھی۔ ثنا کے کچھ کہنے سے پہلے سپیکر پر وجدان کی آواز گونجی۔
"مدیحہ!"
"بھیا۔۔ وہ۔۔ میں۔۔" مدیحہ گڑبڑائی۔ وجدان نے گہرا سانس بھر کو خود کو پر سکون کیا۔ ثنا نے فون مدیحہ کو تھما دیا۔
"بیٹا میری بات سنو۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں روحان فائٹ کر رہا ہے۔ وہ جینا چاہتا ہے۔ اور وہ جی جائے گا۔ ہمم؟" وہ سمجھاتے ہوئے بولا۔
"اگر ایسا ہے تو مجھے آنے کیوں نہیں دے رہے۔" مدیحہ نے شکوہ کیا۔ چند لمحے وجدان خاموش رہا۔
"میں کسی کو اس لئے آنے نہیں دے رہا کہ تم لوگ اس کی حالت نہیں دیکھ سکو گے۔ ایک بار وہ کچھ بہتر ہو جائے میں تمہیں بلوا لوں گا۔" وہ پھر سمجھانے لگا۔
"بھیا بس ایک بار۔ میں واپس گھر آ جاؤں گی۔ بس ایک بار اسے دیکھ لوں۔ پلیز۔" مدیحہ کی آواز بھیگنے لگی تھی۔ وہ آنسو ضبط کر رہی تھی۔ وجدان نے بےبسی سے اسے دیکھا۔ پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔
"اچھا میں کرتا ہوں کچھ۔" وجدان نے فون رکھا اور مدیحہ مسکرائی۔
"ارے ہمارے شہزادے۔ تمہارے ابا مان گئے۔" وہ ضوریز پر جھکی اس کے گال چومنے لگی۔
"جانتی ہو وجدان نے کیا نام رکھا ہے اس کا؟" ثنا نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ مدیحہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
"ضوریز۔ ضوریز حیدر شاہ۔" وہ ضوریز کا ماتھا چوم کر بولی۔ وہ بچہ اتنا پیارا تھا کہ اسے دیکھتے رہنے کا دل کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بالکل روحان جیسی تھیں۔ یہ مدیحہ کا کہنا تھا۔ ثنا بھی مسکرا کر دیکھنے لگی۔ اس نام کے ساتھ بھی بہت اچھی یادیں جڑی تھیں۔ جب انہیں پتہ چلا تھا کہ بیٹا ہو گا۔ ان سب نے وجدان کے کمرے میں دھاوا بولا ہوا تھا۔ سہیل اور زوہیب صاحب صوفے پر بیٹھے تھے۔ عریشہ سب کو آئسکریم سرو کر رہی تھی۔ فوزیہ، حاجرہ اور مدیحہ ثنا کے پاس بیٹھی تھیں اور روحان اور حمدان ابھی ابھی آئے تھے کیونکہ خبر ملتے ہی دونوں شاپنگ کرنے بھاگے تھے اور اب کچھ لڑکوں والے کھلونے لائے تھے، جو سب کو دکھا رہے تھے۔
"بھابھی بتائیں ناں کیا نام رکھیں گی؟" مدیحہ نے اپنی بات پر زور دیا تھا۔
"وجدان کو جو بہتر لگے۔" ثنا سر جھکائے بیٹھی تھی۔
"بھیا بتائیں کیا سوچا ہے آپ نے۔" روحان نے فوراً پوچھا۔
"بابا جان اور دادا جان بتائیں گے۔" وجدان نے سعادتمندی سے کہا۔
"افف۔ آپ کی جگہ میں ہوتی تو اپنے بیٹے کا نام خود رکھتی۔" مدیحہ نے ثنا سے کہا۔
"او ہیلو۔ خود کیوں؟ میں رکھتا۔" روحان نے اسے متوجہ کیا۔
"کس خوشی میں؟" مدیحہ کھڑی ہو گئی۔
"کیا مطلب۔ میرا بیٹا نہیں ہوگا؟" روحان نے ذرا غصے سے پوچھا۔
"میرا زیادہ ہو گا۔" مدیحہ نے دانت دکھائے۔
"یہ کیا بات ہوئی۔ دونوں کا برابر کا ہوگا۔" روحان نے احتجاج کیا۔
"جو بھی ہو نام میں ہی رکھوں گی۔" مدیحہ نے فیصلہ سنایا۔ حاجرہ اور فوزیہ بے آواز ہستی جا رہی تھیں۔
"یار یہ غلط بات ہے۔ میرا بھی تو حق ہے۔" روحان نے جیسے یاد دلایا۔
"مگر میرا زیادہ ہے۔" وہ بھی اپنی بات پر زور دے کر بولی۔
"یار تم دونوں لڑ کیوں رہے ہو؟ مل جل کر رکھ لینا نام۔" ثنا نے صلح صفائی کرانا چاہی۔
"ویسے بھی آپ دونوں کی چوائس اتنی ملتی ہے کہ نام بھی ایک ہی پسند آئے گا۔" حمدان نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
"ہاں۔ یہ تو ہے۔" دونوں نے اتفاق کیا۔ پھر اچانک مدیحہ کو یاد آیا۔
"مگر پھر بھی اگر ایک نام پسند نہ آیا تو میں نام فائنل کروں گی۔" اس نے آخری فیصلہ سنایا۔
"یار اب تم لڑائی بڑھا رہی ہو۔" روحان نے آنکھیں دکھائیں۔ جب وجدان کا ضبط جواب دے گیا۔
"بس۔ چپ۔ اب نہیں لڑو گے دونوں نام میں رکھ دوں گا۔" وہ غصے سے بولا۔ دونوں نے فوراً ڈر کر منہ پر انگلی رکھی۔ سب ہنسنے لگے تھے۔ یاد کرتے ہوئے مدیحہ اور ثنا بھی ہلکا سا ہنس دیں۔ جب دروازہ نوک کر کے حمدان کمرے میں داخل ہوا۔
"آپ ادھر ہیں۔ ثنا بھابھی آپ کو کچھ چاہئے تو نہیں؟" وہ پہلے مدیحہ پھر ثنا سے بولا۔
"نہیں۔" حمدان کی نظر ثنا کی گود میں سوئی ننھی سی جان پر پڑی۔ وہ بے اختیار ہی اس کی جانب بڑھا۔ ثنا نے خود ہی اسے اس کی گود میں دے دیا
"ہائے میرے شیر۔ تم سے ٹھیک سے مل بھی نہیں پا رہا میں۔ تھوڑا سا ٹائم دے دو چاچو کو۔ پھر دونوں چچا بھتیجا مل کر سب کی ناک میں دم کریں گے۔" وہ اسے پیار کرتے ہوئے بولا۔ کتنا بھی پیار کر لے دل ہی نہیں بھر رہا تھا۔
"بھابھی یہ اتنا پیارا کیوں ہے؟" وہ بےبسی سے ثنا سے بولا۔ جو اس کی بات پر ہنس پڑی۔
"اس کی آنکھیں میرے جیسی ہیں ناں؟" وہ اشتیاق سے بولا۔ اور ثنا پھر ہنس پڑی۔
"تمہیں پتہ ہے تم تینوں بھائی تقریباً ایک ہی جیسے ہو۔"
'اوہ ہاں۔" وہ ماتھے پر ہاتھ مار کر بولا۔
"یار اسے چھوڑنے کا دل نہیں کر رہا میرا۔ دیکھ لو بھتیجے۔ کیسے عجیب ٹائم پر آئے ہو۔ ذرا تھوڑے حالات سنبھل جائیں۔ پھر جان نہیں چھوڑنی میں نے تمہاری۔" وہ کہتے ہوئے اسے واپس ثنا کی گود میں ڈال دیا۔ اور پھر مدیحہ کی جانب متوجہ ہوا جس کے لئے آیا تھا۔
"مدیحہ بھابھی۔ حاشر بھائی آئے ہیں۔ آپ کو ہاسپٹل لے جانے۔" سنتے ہی مدیحہ جلدی سے بیڈ سے اتری اور تیزی سے باہر بھاگی۔ حمدان پیچھے سے ہنس پڑا۔ تبھی حاجرہ کمرے میں داخل ہوئیں۔
"ثنا میرا بچہ جلدی سے یہ سوپ پی لو۔" وہ اس کے لئے سوپ لائی تھیں۔
"چچی جان۔ میرا دل نہیں چاہ رہا۔" ثنا نے بری سی شکل بنائی تھی۔ حاجرہ کو ہنسی آئی۔
"میری جان اپنے لئے نہ سہی۔ بےبی کے لئے تو پینا پڑے گا ناں۔" وہ پچکارتے ہوئے بولی۔
"اچھی بلیک میلنگ ہے۔" اس نے خفگی سے دیکھا۔
"ہمارے ساتھ بھی ہوئی تھی۔"
حمدان خواتین کو باتیں کرتا چھوڑ کمرے سے نکل گیا۔
-------------------------------------------
YOU ARE READING
دیوانگیٔ شوق (مکمل ناول)
General FictionDeewangi e shouq: دیوانگیٔ شوق: دوستی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مخلص دوست کسی سایہ دار درخت کی طرح ہوتے ہیں۔ لیکن بے غرض اور مخلص دوست بھی قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ یہ کہانی ہے چند لاابالی سے دوستوں کی۔ جو یوں تو "سنجیدگی" لفظ سے ناآشنا ہیں لیکن حق کی...