Ep 4

212 33 41
                                    

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہے

نوٹ:
میرے لکھے گئے تمام کردار اور وقعات فرضی ہیں حقیقی زندگی میں انکا کوئی عمل دخل نہیں.

BUSMILLAH

کمرے میں ہر سو تاریکی چھائی تھی باہر دن ہے یا رات پتا لگانا بہت مشکل تھا. اسے اس جگہ پر آئے پورا ایک دن گزر گیا تھا اور  سارا وقت وہ بھوکا پیاسا تھا. اب تو اس میں خود کو آزاد کروانے کےلئے اتنی طاقت بھی نہیں بچی تھی کیونکہ اسے بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا. چہرے اور جسم پر ہر جگہ نیل پڑے ہوئے تھے اور کافی جگہوں پر خون جما ہوا تھا.
وہ غنودگی کی حالت میں اس کمرے کا جائزہ لے رہا تھا جہاں اسے قید کر کے رکھا ہوا تھا. جس میں صرف ایک کرسی موجود تھی جس پر اسے باندھا گیا تھا.
ابھی اس نے آنکھیں سکوڑ کے آگے پیچھے دیکھا تھا کے کہیں سے باہر نکلنے کا راستہ مل جائے کے اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھاڑ کی آواز سے کھلا اور دو آدمی اندر داخل ہوئے جنہوں نے چہرے پر ماسک چڑھا رکھے تھے.

"ہاں تو کیسی لگی آپکو ہماری خاطرداری؟...... کسی چیز کی کمی تو نہیں ہوئی آپکو؟" لہجہ طنزیہ تھا

"پانی...... پانی" بہت مشکل سے زبان سے چند الفاظ نکلے تھے.

"ارے ارے! یہ کیا شاہنواز صاحب کو پانی چاہیے" انداز صاف مذاق اڑانے والا تھا
"جاو پانی لاو اسکے لئے" دوسرے آدمی کو کہا جو فورن باہر سے ایک جگ پانی کا لے کر آیا.
لیکن اس پانی سے بھاپ اڑ رہی تھی.

نقاب پوش نے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھولتا ہو پانی کا جگ شاہی کے چہرے پر انڈھیل دیا جس سے کمرے میں اسکی دردناک چیخ گونجی. اسکا چہرہ بری طرح جھلس گیا تھا

"تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم تمہیں یہاں تمہاری خدمت کرنے کےلئے لائے ہیں... بڑے ہی سخت چمڑی کے ہو تم اتنی مار کھانے کے بعد بھی زبان نہیں کھول رہے...."

" بتاو ہمیں کس کے کہنے پر یہ سب کر رہے ہو؟  تمہارے ان کالے دھندوں میں اور کون کون شامل ہے" نقاب پوش اسکی طرف جھکتے ہوئے سختی سے اسکے منہ کو دبوچ کر بولا

"مجھے چھوڑ دو.... جانے دو پلیز" بے بسی اسکے انداز سے جھلک رہی تھی

"اچھا تو تم ایسے نہیں مانو گے... جاو اسفی جاکر سامان لے کر آو" خضر نے ایک نظر پاس کھڑے اسفند کو کہا جو حکم کی تکمیل کرتا کمرے سے باہر گیا اور مطلوبہ سامان لے کر واپس کمرے میں داخل ہوا.
خضر نے اسکے ہاتھ سے پلاس لیا اور ایک ایک کر کے اسکے دائیں پاوں کے ناخن اکھاڑنے شروع کر دئیے. کمرے کی دیواریں شاہنواز کی دردناک چیخوں سے دہل رہی تھیں.

"کوبراااااا....کوبرا" اچانک ہی شاہنواز چینخنے لگا.

"بولو جلدی سے" خضر اس سے دور ہٹتے ہوئے کہا

راہِ حق ازقلم ندا فاطمہWhere stories live. Discover now