عید مبارک

2.5K 183 42
                                    

شامیر کو کافی دیر سے محسوس ہورہا تھا کہ امل چپ سی ہوگئی ہے اگر کوئی کچھ بھی کہتا تو بس ہاں ہوں میں جواب دے دیتی..پارکنگ میں آتے ہی وہ علی سے گویا ہوئی
"علی کیا تم مجھے اور بریرہ کو گھر چھوڑ دو گے..؟؟"
سب امل کو دیکھنے لگے کہ یہ علی کو کیوں کہہ رہی ہے شامیر ہی ان دونوں کو لینے چھوڑنے والا تھا پھر اچانک یہ کیوں علی کو بھی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اس بات کا کیا جواب دے اس نے شامیر کی طرف دیکھا جو گاڑی سے ٹیک لگاۓ سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا اس کی ساری کاروائیاں دیکھ رہا تھا اس کا چہرہ بھی ہمیشہ کی طرح بے تاثر تھا جو سامنے والے کو مزید الجھن کا شکار کردیتا تھا
"ٹھیک ہے میں اکیلی چلی جاؤں گی.."
وہ علی کو جواب نا دیتا پا کر بول کر پارکنگ ایریا سے باہر کی طرف بڑھنے لگی شامیر سیدھے ہوتے ہوۓ علی  سے گویا ہوا
"علی تم زارہ کو گھر چھوڑ دینا..میں دیکھتا ہوں اسے.."
وہ بولتا ہوا آگے بڑھ گیا جبکہ باقی سب ان دو پاگلوں کو جاتا ہوا دیکھتے رہے
"ویسے مجھے شامیر کو اس طرح امل کے پیچھے بھاگتے دیکھ بہت اچھا محسوس ہورہا ہے.."
حسن نے ہنستے ہوئے تجزیہ کیا تو زارہ کی بھائی کی محبت نے فوراً انگڑائی لی
"آپ کو شرم آنی چاہیے..ایسا بولتے ہوۓ.."
زارہ غصے میں گویا ہوئی تو کافی دیر سے چپ بریرہ نے سر تھامتے ہوئے بولا
"اللّٰہ اللّٰہ اب آپ لوگ مت لڑ پڑنا.."
"چلیں ہم لوگ تو نکلتے ہیں وہ لوگ بھی آہی جائیں گے.."
علی کے بولتے ہی سب اپنی گاڑیوں کی طرف بڑھ گئے
"آپ کو پتہ ہے بھابھی نے اس طرح کیوں ریکیٹ کیا..؟؟"
علی تھوڑی دیر بعد ڈرائیو کرتے ہوۓ گویا ہوا
"ہاں..شاید.."
بریرہ نے کھڑکی کے باہر جھانکتے ہوئے جواب دیا
"کیوں؟؟"
علی نے اس کے وجہ نا بتانے پر پوچھا
"میں آپ کو یہ بتانا پسند نہیں کروں گی.."
بریرہ کا انداز کافی روکھا تھا
"بہت ہی کوئی بد لحاظ اور بد تمیز لڑکی ہے.."
علی نے یہ بات دل میں ہی بولنا اپنے حق میں بہتر سمجھا..
           *************************
"امل.."
شامیر نے بیحد دھیمے مگر مضبوط لہجے میں پیچھے سے اسے پکارا تو وہ رک گئی مگر پلٹی نہیں
"امل..کیا ہوا ہے..؟؟"
شامیر غصہ دباتے ہوئے گویا ہوا
"کچھ نہیں.."
امل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا
"ہم بیچ روڈ پر کھڑے ہوۓ ہیں چلو کہیں سائڈ پر چل کر بات کرتے ہیں.."
شامیر نے آس پاس چلتے ہوئے لوگوں کو ان دونوں کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا تو امل اس کے ساتھ سڑک کے کنارے بنی ہوئی کافی شاپ پر آگئی
"کیا ہوا ہے..؟؟"
شامیر نے کافی شاپ میں بیٹھتے ہی دوبارہ سے پوچھا مگر جواب نالاں تھا
"امل..میں تمہیں بتا دوں مجھے سب کے سامنے اس طرح کے کیے جانے والے تماشے ایک آنکھ نہیں بھاتے..اگر تمہیں کوئی بات بری لگی ہی تھی تو آرام سے مجھ سے کر سکتی تھی"
شامیر نے غصے میں نہیں تو بہت پیار سے بھی یہ بات نہیں بولی تھی
"اگر میں سکون سے آپ سے بات کرتی تو شاید آپ کو احساس نہیں ہوتا تماشہ بنتے ہوۓ کیسا محسوس ہوتا ہے.."
امل غصہ میں گویا ہوئی تو شامیر کے ماتھے پر لاتعداد شکنیں ابھریں
"مطلب..؟؟"
شامیر نے نا سمجھتے ہوئے پوچھا
"مطلب یہ کہ ابھی تو جن کے سامنے میں نے تماشہ کیا وہ تو آپ کے اپنے ہی تھے آپ کو جانتے ہیں آپ کو سمجھتے ہیں آپ کو جج(judge) نہیں کرنے والے ہیں..مگر آپ نے فوڈ کورٹ میں جو تماشہ کیا وہ ان لوگوں کے سامنے تھا جو صرف مجھے جج(judge) کرنے والے ہیں.."
امل نے اپنی بات بول کر شامیر کی طرف دیکھا جو اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا
"تو تم کیا چاہتی تھی..میں اسے وہاں تم سے بد تمیزی کرنے دیتا؟؟.."
شامیر نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
"نہیں..میں نے یہ کب کہا ہے یہی تھپڑ اگر آپ اسے کل اپنے آفس میں بلا کر مارتے تو شاید میری ذات تماشہ بننے سے بچ جاتی.."
امل کا انداز سخت تھا
"اوکے..آئی ایم سوری.."
شامیر نے کوئی بحث نا کرتے ہوۓ غلطی مان لی کیونکہ وہ جانتا تھا ابھی اسے کچھ بھی بولنے کا فائدہ نہیں ہے
"اور ایک اور بات.."
اس نے شامیر کو مسکراتے دیکھ کر بولا
"کیا..؟؟"
شامیر نے بھنویں اُچکاتے ہوئے پوچھا
"شادی کے بعد میں جاب کروں گی.."
امل نے اپنی اتنے سالوں کی خواہش کو اس شادی کی شرط بنا کر پیش کیا
"کیوں..؟؟"
شامیر نے اچنبھے سے دیکھتے ہوۓ پوچھا
"کیونکہ میں چاہتی ہوں..آپ کو منظور ہے..؟؟"
امل نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
"امل میں شرطوں پر رشتے قائم کرنے کا قائل نہیں ہوں.."
شامیر نے کا انداز سخت تھا
"شرط نہیں خواہش سمجھ لیں.."
امل آج کسی بھی طرح اپنی بات منوانے پر آمادہ تھی
"اگر تمہاری خواہش ہے تو ٹھیک ہے.."
اس نے نرم پڑتے ہوۓ بولا
"تھینک یو.."
امل مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تو شامیر بھی مسکرا دیا
"ویسے میں تمہیں کافی معصوم سمجھتا تھا.."
اس نے اتنا بول کر آگے کی بات ادھوری چھوڑ دی
"سمجھتا تھا سے کیا مراد ہے..؟؟"
امل نے اپنی بڑی بڑی بولتی آنکھوں سے گھورتے ہوئے پوچھا
"تھا سے مراد یہ ہے کہ پہلے تم کافی معصوم نخرے نا کرنے والی لڑکی تھی..پر اب.."
اس نے پھر سے بات ادھوری چھوڑ دی
"ہاں تو پہلے آپ کو نخرے دکھانے کا حق نہیں رکھتی تھی مگر اب.."
اس نے بھی جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی
"مگر اب..؟؟"
شامیر نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"اوہ نو کتنی دیر ہوگئی ہے گھر بھی جانا ہے.. اللّٰہ اللّٰہ آپ نے تو مجھے باتوں میں ہی لگا دیا.."
وہ جلدی جلدی اپنا کلچ اٹھاتی کھڑی ہوگئی تو شامیر بھی اس کے ساتھ مسکراتے ہوئے کھڑا ہوگیا...
              ***********************
مرتضیٰ ہاؤس میں سب نیند کی آغوش میں جا چکے تھے سواۓ بریرہ اور امل کے
"آپی.."
بریرہ نے اس کے برابر میں لیٹے لیٹے ہی آواز دی
"بولو..."
امل آنکھیں موندے ہی گویا ہوئی
"آپی اس سال ہم نے ایک بھی دفعہ سحری کے بعد پرینک کالز(prank calls) نہیں کیں.."
بریرہ نے چہرہ اس کی طرف موڑتے ہوئے بولا
"اگر تمہارے دماغ میں وہ خرافات چل رہی ہے جو میں سوچ رہی ہوں تو میں تمہیں بتا دوں میں تمہارا کوئی ساتھ نہیں دینے والی.."
امل نے آنکھیں کھول کر اسے گھورتے ہوۓ خبردار کیا مگر جو بات مان جاۓ وہ بریرہ ہی کیا
"بس دو کالز کریں گے.."
بریرہ اب اٹھ کر بیٹھ گئی تھی
"نہیں.."
امل نے دوبارہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بولا
"پلیز..پلیز...پھر تو اگلے سال تک شاید آپ چلی بھی جاؤ.."
بریرہ نے منہ لٹکا کر بولا تو امل کو ماننا ہی پڑا
"اچھا بس دو کالز.."
امل اٹھ کر بیٹھتے ہوۓ گویا ہوئی تو بریرہ نے اثبات میں سر ہلا دیا..امل نے جلدی سے دراز میں سے ایک سم نکالی جو انھوں نے اسی طرح کے سارے کالے کرتوتوں کے لیے رکھی تھی بریرہ نے وہ سم امل کے ہاتھ سے لیتے ہوۓ اپنے موبائل میں لگائی اور ایک نمبر ڈائل کیا اور نمبر لگتے ہی آیت الکرسی کی آواز اسپیکر میں سے ابھری جوکہ اس نمبر کی ٹیون سیٹ تھی
"میں بتا رہی ہوں یہ کوئی مولانا صاحب ہیں.."
بریرہ نے آہستہ آواز میں اپنا خیال ظاہر کیا تو امل نے کندھے آچکا دیئے..چند سیکنڈز میں ہی فون اٹھا لیا گیا اور کسی پچاس پچپن سالہ انکل نے سلام کیا تو امل نے فوراً سے سلام کا جواب دیا
"جی کون؟؟."
سامنے سے پوچھا گیا..ان کے لہجے سے وہ شخص پٹھان معلوم ہورہے تھے
"آپ مولانا صاحب ہیں..؟؟"
بریرہ نے پٹھانوں والا لہجہ بناتے ہوۓ پوچھا
"جی ہاں..آپ کون؟؟"
انھوں نے آخر میں پھر سے اپنا سوال دھرایا
"جی مجھے آپ کی چھوٹی بیٹی کے بارے میں بات کرنی ہے.."
امل نے کافی مضبوط لہجے میں گویا ہوئی
"کیا..؟؟"
انھوں نے سوال کیا تو بریرہ نے منہ پر ہاتھ رکھ اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا
"آپ کی جو تیسرے نمبر والی بیٹی ہے نا وہ گھر چھوڑ کر بھاگنے والی ہے.."
امل کے یہ بولتے ہی سامنے سے وہ ہنسنے لگے تو امل اور بریرہ نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
"کیا ہوا انکل؟؟"
بریرہ نے ان کا بڑا سا قہقہہ ختم ہونے کے بعد پوچھا
"ہماری چاروں بیٹیوں کا شادی ہوگیا ہے.."
وہ بول کر دوبارہ ہنسنے لگے تو بریرہ ان کو اپنی بات پر آمادہ کرنے لگی کہ نہیں وہ دو دن میں بھاگ جانے والی ہے کچھ دیر کی بحث کے بعد ان انکل نے چڑ کر اور چند کھری کھوٹی باتیں سنانے کے بعد فون رکھ دیا تو وہ دونوں ہنستے ہنستے دوبارہ لیٹ گئیں..
"آپی وہ شامیر بھائی کا کزن علی ہے نا اس کو کرتے ہیں کال.."
بریرہ کا پتہ نہیں کیوں اسے تنگ کرنے کا دل کیا
"نہیں بریرہ وہ ہماری آواز پہچان لے گا.."
امل سختی سے گویا ہوئی
"ارے نہیں پہچانے گا..اتنا عقلمند نہیں ہے وہ.."
بریرہ نے امل کے خدشے کو دور کرنے کی کوشش کی تو امل نے اپنے موبائل میں اس کا نمبر نکال کر دیا بریرہ نے جلدی جلدی ڈائل کیا مگر ایک دفعہ فون بج بج کر بند ہوگیا..بریرہ نے دوسری دفعہ ملایا امل نے دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھنا شروع کر دی تھی دوسری دفعہ فون کرنے پر اس نے آخر کار فون اٹھا لیا اور نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں پوچھا
"کون ہے..؟؟"
"علی میں.."
بریرہ نے آواز بدلتے ہوئے بولا تو علی نے اپنا نام سننے پر فون کان پر سے ہٹا کر دیکھا مگر نمبر انجان تھا اس نے دوبارہ کان پر لگاتے ہوئے بولا
"کون ہے بھئی..؟"
"علی میں علشبہ..تمہاری ایکس گرل فرینڈ..اتنی جلدی بھول گئے.."
بریرہ نے اپنی آواز میں دکھ سموتے ہوۓ بولا تو امل نے اس کی دو ٹکے کی اداکاری پر گندا سا منہ بنایا
"ارے بھئی کون علشبہ..کون ایکس گرل فرینڈ..دیکھیں آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے..."
اس نے پلنگ پر بیٹھتے ہوۓ کافی سنجیدگی سے بولا اب تو اسکی نیند کہیں دور جا سوئی تھی
"یہ پکوڑے والے علی کا نمبر نہیں ہے..؟؟"
بریرہ نے اپنے قہقہے کو بہت مشکل سے دباتے ہوئے پوچھا
"نہیں یہاں کوئی پکوڑے والا علی نہیں ہے.."
علی نے اب کی بار قدرے غصے سے بولا
"اچھا اچھا سنیں ایک بات بتادیں.."
بریرہ نے اس کے فون رکھنے سے پہلے معصوم سی آواز نکالتے ہوئے بولا
"جی..؟؟"
اس کا انداز سوالیہ تھا
"آپ کے گھر کا فریج چل رہا ہے..؟؟"
بریرہ کے اتنے کنٹرول کے باوجود اس کی ہلکی سی ہنسی چھوٹ گئی تھی مگر اس نے علی کے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
"جی چل رہا ہے.."
اس نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا
"تو پکڑیں کہیں چلتے چلتے گھر سے باہر نا نکل جاۓ.."
بریرہ نے ہنستے ہوئے بولا تو اس کے ساتھ امل کی ہنسی بھی شامل ہوگئی
"Who the hell are you??"
علی نے چلاتے ہوئے غصے میں پوچھا کیونکہ ان دونوں نے اس کی نیند برباد کر دی تھی
"Please don't cry.. Mama's cry baby.."
بریرہ نے ہنستے ہوۓ بول کر فون بند کیا تو امل اسے گھور کر دیکھ رہی تھی مگر چند سیکنڈز بعد وہ بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگی اُدھر علی نے غصے میں آکر فون دیوار میں مار دیا..
           *************************
انتیسواں روزہ تھا اگر آج چاند ہو جاتا تو نکاح میں سات دن بچتے اور اگر کل ہوتا تو آٹھ دن اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے علی زارہ اور شامیر کو چھیڑتے ہوئے گویا ہوا
"پھپھو آپ کی دونوں اولادیں سحر و افطار میں بس انتیس روزے ہونے کی دعا کر رہی ہونگی.."
"جی نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے.."
زارہ چڑتے ہوۓ گویا ہوئی
"اوہ رئیلی..؟؟"
علی نے آبرو اُچکا کر مسکراتے ہوئے پوچھا تو زارہ نے منہ چڑا دیا
"علی تمہارے کمرے سے فجر کی نماز کے بعد چلانے کی آواز آرہی تھی..سب خیریت تو ہے.."
نادیہ بیگم نے یاد آنے پر پوچھا تو شامیر اور زارہ بھی اسی طرف متوجہ ہوگئے
"وہ ایک رانگ کال تھی..عجیب پاگل لڑکی تھی تنگ کر کے رکھ دیا تھا اس کی وجہ سے مجھے کتنی دیر بعد جاکر نیند آئی ہے"
علی کو یاد آتے ہی دوبارہ غصہ آنے لگا
"چلو کوئی تو ہے جو دنیا میں علی کو تنگ کر سکتا ہے.."
شامیر نے مزاق اڑاتے ہوۓ بولا تو زارہ اور نادیہ بیگم مسکرا دیں
"ہمیں بھی پرسوں بہت مزہ آیا تھا جب آپ بھابھی کو منانے ان کے پیچھے پیچھے جارہے تھے.."
علی نے حساب برابر کرتے ہوۓ بولا
"کیا ہوا تھا پرسوں..؟؟"
نادیہ بیگم نے ان تینوں کو گھورتے ہوئے پوچھا
"علی ہی بتائے گا آپ کو.."
شامیر نے ریلیکس ہوتے ہوئے بولا تو انھوں نے فوراً علی کی طرف دیکھا
"مجھے کیسے پتہ ہوگا..ان سے ناراض ہوئی تھیں انھوں نے منایا تھا..ان ہی کو معلوم ہوگا..."
علی نے بلکل اس معاملے سے قطع تعلقی ظاہر کردی تو انھوں نے شامیر کی طرف دیکھا
"امی..کچھ نہیں ہوا تھا آپ تو جانتی ہیں وہ کتنی جلدی ہر بات کو سوار کر لیتی ہے.."
شامیر ان کی پریشانی دور کرتے ہوۓ گویا ہوا تو انھوں نے جواباً کچھ نہیں بولا
"ویسے آپ کو بھابھی کے پیچھے بھاگتے دیکھ مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی کوئی تو ہے اس دنیا میں جو آپ کو اپنے پیچھے بھگا سکتا ہے.."
علی اس کی طرف جھک کر ہنستے ہوۓ گویا ہوا تو شامیر نے اس کی گردن ہی دبوچ لی
"اچھا اچھا سوری.."
علی نے ہنستے ہوئے بولا تو اس نے بھی مسکرا کر گردن چھوڑ دی..
             ***********************
امل اور بریرہ چاند کے انتظار میں چھت پر بیٹھے ہوۓ تھے کہ امل منڈیر پر بیٹھی ہوئی سوچ رہی تھی کہ پچھلے مہینے چاند دیکھتے وقت سب کچھ کتنا مختلف تھا اور اس مہینے سب کچھ کتنا مختلف ہے شامیر سے ہوئی پہلی ملاقات پھر اس کا سامنا کرتے ہوۓ ڈرنا یہ سب سوچتے سوچتے امل کے ہونٹ مسکرانے لگے بریرہ نے امل کو یوں سوچوں میں ڈوب کر مسکراتے دیکھ پوچھا
"کیا سوچ رہی ہو..؟؟"
"چند پل لگتے ہیں ہماری زندگی کو بدلنے میں..چند پل میں کتنے لوگوں سے آپ کا رشتہ بدل جاتا ہے..زندگی کتنی سرپرائزنگ ہوتی ہے نا...؟؟ایک سرپرائز باکس ابھی ہم کھولتے ہی ہیں کہ دوسرا ہمارے گھر کی گھنٹی بجا دیتا ہے.."
امل نے کھوۓ کھوۓ انداز میں جواب دیا تو بریرہ بھی اس کے برابر میں جاکر بیٹھ گئی
"آپی خیریت تو ہے نا..؟؟"
بریرہ نے اس کو اتنی گہری باتیں کرتے دیکھ حیرت سے پوچھا
"ہاں بھئی خیریت ہی ہے.."
امل نے ہوش میں آتے ہی بولا
"ویسے شامیر بھائی نے اس ٹھرکی کی کیا دھلائی کری تھی..مجھے تو مزہ ہی آگیا تھا...بلکل ہیرو لگ رہے تھے اور وہ چوہا ولن.."
بریرہ تالی بجاتے ہوئے پر جوش انداز میں گویا ہوئی تو امل نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے بولا
"ہم چاند دیکھنے آۓ ہیں...فضول کی بکواس کرنے نہیں.."
"وہ رہا چاند..."
تھوڑی دیر بعد بریرہ نے چاند نظر آتے ہی چلاتے ہوۓ بولا تو امل نے بھی فوراً آسمان کی جانب دیکھا جہاں باریک سا چاند جگمگا رہا تھا
"دعا مانگو.."
امل نے سر پر دوپٹا اوڑھتے ہوۓ بریرہ کو بھی بولا تو وہ بھی امل کے ساتھ دوپٹا اوڑھ کر دعا مانگنے لگی..
"چاند ہوگیا...چاند ہوگیا.."
بریرہ چلاتی ہوئی امل کے ساتھ نیچے آئی...
"مبارک ہو.."
دادو نے مسکراتے ہوئے مبارکباد دی...
تھوڑی دیر بعد امل کمرے میں آئی تو اس کا موبائل بج رہا تھا اس نے موبائل اٹھایا تو اسکرین پر شامیر کا نام جگمگا رہا تھا وہ مسکراتے ہوئے فون اٹھا کر گویا ہوئی
"چاند مبارک.."
"خیر مبارک.."
شامیر نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا
"آپ نے چاند دیکھا؟؟"
امل نے انگلیوں سے کھیلتے ہوئے پوچھا
"نہیں.."
شامیر نے سادہ سے انداز میں جواب دیا اور پھر تھوڑی بہت باتیں کر کے امل فون رکھ کر پلنگ پر بیٹھ گئی
"آپی.."
بریرہ اسے پکارتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو وہ کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
"آپی.."
"بریرہ..ہم مویز میں دیکھتے ہیں نا لڑکا لڑکی کو چاند بول رہا ہوتا ہے..؟؟"
امل نے بریرہ سے سوال کیا تو بریرہ نے اثبات میں سر ہلا دیا
"شامیر..نے تو مجھے چاند نہیں بولا.."
امل منہ بناتے ہوئے گویا ہوئی تو بریرہ اس کی بات پر ہنستے ہنستے پلنگ پر لیٹ گئی
"بریرہ اتنا ہنسنے کی بھی کوئی بات نہیں تھی.."
امل چڑتے ہوئے گویا ہوئی پر اس کو پاگلوں کی طرح ہنستے دیکھ امل بھی مسکرا دی مگر جب وہ نارمل ہو ہی نہیں رہی تھی تو امل اس سے گویا ہوئی
"بریرہ..اگر تم ایک منٹ میں سیدھی نہیں ہوئی نا..تو مجھے تمہیں موزہ سونگھوانا پڑے گا.."
امل سے کوئی بعید نہیں تھی وہ یہ کر بھی جاتی اسی لیے بریرہ بہت مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوۓ اٹھ کر بیٹھی
"آپی..آپ کے دماغ میں ایسی باتیں آتی کہاں سے ہیں..؟؟"
بریرہ نے گویا اس کا مزاق اڑایا تھا
"دفع ہو تم.."
امل چڑتے ہوۓ بول کر کمرے سے باہر چلی گئی تو بریرہ مسکرا اٹھی...
              ***********************
شامیر بلیک کُرتے شلوار میں ملبوس کُرتے کی آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کئیے الٹے ہاتھ میں بلیک کلر کی ہی گھڑی پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے مسکراتا ہوا گھر میں عید کی نماز پڑھ کر داخل ہوا اور نادیہ بیگم کو سلام کرتے ہوئے ان کے برابر میں صوفے پر بیٹھ گیا انھوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا
"علی کہاں ہے..؟؟تمہارے ساتھ ہی تو گیا تھا.."
"وہ اپنے گھر گیا ہے ماموں مامی سے عید ملنے آتا ہی ہوگا بس.."
"امل کے گھر جانے کے وقت تک تو وہ آجاۓ گا.."
نادیہ بیگم تسلی سے صوفے کی پشت پر ٹیک لگاتے ہوئے گویا ہوئی
"کیوں اس کا وہاں کیا کام...؟؟"
شامیر حیرت سے گویا ہوا
"ارے بھئی وہی تو لے کر جاۓ گا مجھے ان کے گھر پر..اب ڈرائیور کے ساتھ جانا تو اچھا نہیں لگے گا.."
نادیہ بیگم کی بات سنتے ہی شامیر کو تو پتنگے ہی لگ گئے
"کیوں..؟؟میں نہیں لے کر جارہا کیا آپ کو..؟؟"
"بلکل نہیں..اب نکاح سے ایک ہفتے پہلے تمہارا جانا مناسب نہیں ہے اور ویسے بھی وہاں پر امل بھی ہوگی.."
نادیہ بیگم نے موبائل پر آۓ عید مبارک کے میسجز کا جواب دیتے ہوۓ جواب دیا
"تو..؟؟"
شامیر کو اب غصہ آرہا تھا
"تو بیٹا جی یہ کہ..دلہا دلہن نکاح سے تھوڑے دن پہلے نہیں ملتے.."
موبائل سامنے ٹیبل پر رکھ کر وہ تمام توجہ اس کی طرف مرکوز کرتے ہوئے گویا ہوئیں
"امی یہ آپ کونسے پرانے زمانے میں جی رہی ہیں.."
شامیر نے ان کی سوچ پر حیرت ظاہر کرتے ہوۓ بولا تو وہ ہنس دیں
"بیٹا ہم کتنے ہی ماڈرن کیوں نا ہو جائیں کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتیں تو ویسے ہی یہ بھی نہیں بدلے گا.."
انھوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ منہ بنا کر صوفے کی پشت پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا..
               **********************
"کیا کر رہی تھی تم صبح سے..؟؟"
امل نے صبح سے بریرہ کو موبائل پر مصروف دیکھتے ہوۓ پوچھا
"یہ مت پُوچھو کہ کیا کر رہی ہو تم ، یہ پوچھو کیا نہیں کر رہی ہو تم.."
بریرہ نے موبائل میں مصروف مگر عاجز انداز میں بولا تو  آنکھوں کو گھماتے ہوئے گویا ہوئی
"اچھا یہ بتا دو کیا نہیں کر رہی ہو..؟؟"
"دنیا کے سارے مشکل کام تو میں کر کرہی ہوں..نکاح تو آپ کا ہے آپ کو تو کوئی ٹینشن ہے ہی نہیں سارا بوجھ میرے ان نازک کندھوں پر آگیا ہے.. مہمانوں کی لسٹ بنا کر تمہارے سسرال بھیجنا ڈیکوریشن مہندی اور مایوں کی کیسی ہوگی یہ ڈیسائڈ کرنا..کونسے گانے بجیں گے ان کی لسٹ تیار کرنا..کن گانوں پر ڈانس ہوگا ان کی لسٹ تیار کرنا..اور یہ سارے کام وہ اس علی کے بچے کے ساتھ مل کر کرنا جسے میری ہر بات پر اختلاف کرنے پر سو رکعت نفل کا ثواب ملتا ہے.."
بریرہ بولتے بولتے جذبات کی رو میں بہہ کر پلنگ پر کھڑی ہوگئی تھی
"بس بچہ بس بیٹھ جاؤ.."
امل نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے بٹھایا تو وہ ماتھے پر موجود پسینہ صاف کرتے ہوئے بیٹھ گئی امل نے اے سی کی کولنگ بڑھائی اس کو ٹھنڈا پانی دیا جو وہ ایک سانس میں پی گئی
"تم لوگ ڈانس پریکٹس کہاں کرو گے..؟؟"
امل بریرہ کے تھوڑا سا پر سکون ہونے پر گویا ہوئی
"وہ اس علی کے کسی دوست کا ڈانسنگ اسٹوڈیو ادھر ہی کریں گے.."
بریرہ سکون سے گویا ہوئی تو امل نے اچنبھے سے دیکھتے ہوۓ پوچھا
"ابو نے اجازت دے دی تمہیں جانے کی..؟؟"
"آپ کی ساسو ماں کل اجازت لے کر گئی ہیں.."
بریرہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی تو امل نے اثبات میں سر ہلا دیا
"پانچ دن بعد آپ کسی اور کے آنگن کی بلبل بن جاؤ گی..آپ ہمارے آنگن میں نہیں اب کسی اور کے آنگن کی رونق بن کر ان کے آنگن میں چہکو گی یہ گھر اس گھر کے لوگ سب پراۓ ہوجائیں گے.."
بریرہ نے بہت ہی گندی اداکاری کرتے ہوۓ آخر میں اپنے آنسو پونچھے جوکہ سرے سے تھے ہی نہیں
"تمہاری اس اوور ایکٹنگ پر دو روپے دینے کا دل نہیں چاہ رہا..اور ویسے بھی میرا نکاح ہورہا ہے رخصتی نہیں.."
امل نے پلنگ پر پیر پھیلاتے ہوۓ بولا تو بریرہ اسے منہ چڑا کر اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہوگئی..
           *************************
زارہ اپنی ایکسرسائز کرنے میں مصروف تھی امل نہیں آسکتی تھی یہاں پر مگر وہ فون پر اسے سب بتاتی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے کس طرح اپنی ڈائیٹ کا خیال رکھنا ہے ایکسرسائز کرنے کے بعد وہ پاس پڑی پانی کی بوتل میں سے پانی ہی پی رہی تھی کہ اس کے فون پر حسن کا نام جگمگا اٹھا پانی کی بوتل ٹیبل پر رکھ کر اس نے فون اٹھایا تو حسن کے حال احوال پوچھنے کے بعد زارہ حسن سے گویا ہوئی
"حسن..میرا صحیح ہونا کسی کرشمے سے کم نہیں ہوگا..کیا تم پوری زندگی اس طرح میرے ساتھ گزار سکو گے؟؟.."
زارہ کے سوال پر حسن نے بہت تحمل و سکون کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا
"زارہ..یہ آزمائش اللّٰہ کی طرف سے ہے اور بے شک اللّٰہ ہی تمہیں اس آزمائش سے نکال سکتا ہے..مگر اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ تم نے اپنے خوف اور احساسِ کمتری میں بہت وقت برباد کر دیا ہے مگر میں تمہیں یہ غلطی اب اور نہیں کرنے دے سکتا..."
اس کی بات پر زارہ نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا
"حسن کیا تم مجھ سے اتنی محبت کرتے ہو..؟؟"
"اس سے بھی کہیں گنا زیادہ..تمہاری دوری نے اس محبت کو اور بڑھا دیا ہے..تم سوچ بھی نہیں سکتی تمہیں ایک نظر دیکھنے کے لیے میں کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہوں.."
اس کی محبت پر زارہ کے گال شرم سے دھک گئے تھے
اس سے زیادہ اس میں سننے کی طاقت نہیں تھی تو اس نے جلدی سے اللّٰہ حافظ بول کر فون رکھ دیا اسے اپنے دل کی دھڑکن اپنے کانوں تک سنائی دے رہی تھی..
              **********************
اسٹوڈیو میں ڈانس پریکٹس کر کے اب سب تھک گئے تھے تو تھوڑی دیر بریک لے کر سب باتوں میں مصروف ہوگئے
"علی شامیر بھائی کا کون ہے..؟؟"
بریرہ سے اس کی پھپھو زاد عائزہ جو اس ہی کی ہم عمر تھی علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئی
"کزن.."
بریرہ یک لفظی جواب دے کر پانی پینے لگی تو اس نے مسکراتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا علی نے بھی جواباً مسکرا اسے دیکھا تو بریرہ نے علی کو گھوری سے ہی نوازا
"یہ لڑکی آنکھوں سے ہی کھا جانے کا ہنر رکھتی ہے.."
علی بڑبڑاتے ہوئے گویا ہوا تو اس کے ساتھ کھڑے کوریوگرافر نے پوچھا
"کیا بول رہے ہو..؟؟"
"کچھ نہیں.."
وہ بول کر دوبارہ اس کے ساتھ مصروف ہوگیا
"تم اسے جانتی ہو..؟؟"
عائزہ نے پھر تھوڑی دیر بعد علی کی طرف دیکھتے ہوئے بریرہ سے پوچھا
"ہاں.."
اس نے پھر یک لفظی جواب دے کر ٹالا
"اچھا لڑکا ہے نا.."
عائزہ نے مسکراتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کی
"بس سہی ہی ہے.."
بریرہ نے منہ بناتے ہوۓ بولا تو عائزہ حیرت سے گویا ہوئی
"کیوں..؟؟"
بریرہ جانتی تھی اگر وہ عائزہ کو علی سے دور نہیں کرے گی تو ضرور عائزہ اس سے فری ہونے کی کوشش کرے گی اور اتنے دن میں وہ علی کو اتنا تو جان ہی گئی تھی کہ کسی بھی لڑکی کا فضول میں فری ہونا اس کو غصہ دلانے کے لیے کافی تھا کوئی تماشہ نا ہو اس لیے بریرہ نے کہانی گڑھی
"ارے اس کی ایکس گرل فرینڈ تھی علشبہ..اس سے اتنی بد تمیزی کرتا تھا..اب جب وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تو اب اسے دھمکیاں دیتا ہے..دور رہنا چاہیے ایسے لوگوں سے تو بھئی."
عائزہ بہت غور سے اس کی بات سن رہی تھی پر اچانک اس کی نظر پیچھے کھڑے علی پر پڑی جو بریرہ کو کسی کام سے بلانے آیا تھا پر اپنے بارے میں بریرہ کے منہ سے جھڑتے پھول دیکھ کر رک گیا
"بریرہ.."
عائزہ نے اسے چپ کروانے کی کوشش کی مگر وہ بریرہ ہی کیا جس کی گاڑی بغیر ایکسیڈنٹ کے رک جاۓ
"ارے تمہیں پتہ نہیں ہے.."
وہ اور بھی اس کی شان میں بہت سے قصیدے پڑھنے والی تھی مگر علی کی آواز سننے کے بعد اس کی زبان تالو سے چپک گئی
"بریرہ..میری بات سننا.."
علی کی آواز سنتے ہی بریرہ کا دل کیا کہ زمین پھٹے اور علی اس میں چلا جاۓ
"جی..؟؟"
بریرہ نے زبردستی مسکراتے ہوئے مڑ کر پوچھا تو علی بھی معنی خیز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ کھڑا تھا
"وہ مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے اندر آنا.. ڈیکوریشن کے بارے میں.."
اس نے اسٹوڈیو میں بنے دوسرے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تو مجبوراً بریرہ کو اس کے پیچھے پیچھے جانا پڑا
"تو اس دن وہ رانگ کال تم نے کی تھی..؟؟"
علی نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوۓ پوچھا
"نہ..نہیں.."
بریرہ ہکلاتے ہوۓ گویا ہوئی
"مطلب وہ تم ہی تھی.."
وہ بریرہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوا تو بریرہ اپنے پکڑے جانے پر کمرے سے بھاگنے لگی پر علی نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچ کر دیوار سے لگا کر اس کی دونوں کلائیوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ان دونوں کے درمیان اب صرف چند انچ کا فاصلہ باقی تھا بریرہ نے علی سے ڈر کر آنکھیں میچ لیں اس وقت وہ ڈری ہوئی بریرہ علی کو دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی بریرہ کے بال اڑ کر علی کے منہ پر آرہے تھے
"اچھا سوری..پلیز.."
بریرہ نے تھوڑی سی آنکھیں کھول کر اتنی معصومیت سے بولا کہ علی اس کی دونوں کلائیاں چھوڑ کر بغیر کچھ بولے مسکراتے ہوۓ باہر چلا گیا تو بریرہ نے دل پر ہاتھ رکھ کر سکون کا سانس لیا..
                *********************
مہندی ، مایوں اور نکاح کے لیے تینوں فیملیز نے مل کر ایک ہوٹل بک کروایا تھا جہاں پر دو دن کے لیے سارے مہمان بھی ٹہرنے والے تھے اور تینوں فیملیز بھی
"فائنلی ہم پہنچ گئے.."
بریرہ نے امل کے ساتھ ان دونوں کے مشترکہ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا تو امل بھی مسکرا دی
"اچھا چلو آپ ریسٹ کر لو میں نیچے مہندی اور مایوں کی تیاریاں دیکھ کر آتی ہوں.."
وقت کم ہونے کی وجہ سے مہندی اور مایوں کا فنکشن ایک ہی دن رکھا گیا تھا اور فکنشن کے تمام انتظامات بریرہ ، علی اور حسن کا ایک دوست قاسم دیکھ رہا تھا
"ٹھیک ہے پر جلدی آجانا.."
امل نے بولا تو بریرہ اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی..
امل شیشے کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی اور بال کھول کر برش کرنے لگی جو کہ راستے میں آتے ہوۓ ہوا کی وجہ سے خراب ہوگئے تھے وہ وائٹ گٹھنوں تک آتے فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہنے گلے میں وائٹ دوپٹہ اوڑھے بہت پیاری لگ رہی تھی کسی نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کا بالوں میں برش کرتا ہاتھ رکا اور گیٹ کے پاس جاکر اس نے آہستہ سے پوچھا
"کون..؟؟"
"امل..میں شامیر.."
شامیر کی آواز سنتے ہی امل نے جھٹ سے گیٹ کھولا تو سامنے شامیر وائٹ پینٹ شرٹ میں ملبوس شرٹ کی آستینوں کو کہنیوں تک موڑے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے جس کا مطلب تھا وہ کب سے نیچے تیاریوں میں مصروف ہے
"آپ تھے میں تو ڈر ہی گئی تھی.."
امل نے لمبا سانس لیتے ہوئے بولا تو شامیر حیرت سے گویا ہوا
"کیوں..؟؟"
"بس ایسے ہی..شاید پہلی دفعہ کسی ہوٹل میں رکی ہوں نا اس لیے.."
اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا تو شامیر نے مسکراتے ہوئے بولا
"سامنے والا کمرہ میرا ہی ہے کوئی بھی مسئلہ ہو تو بتا دینا.."
"وہ تو ٹھیک ہے..پر آپ یہاں کر کیا رہے ہیں..؟؟"
امل نے کوریڈور میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کہیں کوئی رشتہ دار نا دیکھ لے ورنہ بہت چہ مگوئیاں شروع ہوجائیں گیں
"وہ مجھے نیچے ڈیکوریشن کے متعلق پوچھنا تھا..اگر تم نیچے چلو تو آسانی ہوجاۓ گی.."
وہ دونوں جانتے تھے یہ صرف ایک بہانہ ہے اس کے باوجود امل نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور اس کے ساتھ لفٹ کی طرف چل پڑی..
لفٹ آئی تو اس میں امل کی پھپھو زاد کزن عائشہ پہلے سے موجود تھی اس کو دیکھتے ہی امل نے خود کو لوگوں کی باتوں کے لیے تیار کرلیا کیونکہ وہ اب سب کو بتاتی پھرنے والی تھی کہ امل اور شامیر ایک ساتھ گھوم رہے تھے وہ دونوں لفٹ میں داخل ہوۓ تو اس نے مسکراتے ہوئے بولا
"ارے واہ..آپ دونوں ایک ساتھ.."
"ہاں وہ نیچے ڈیکوریشن کے لیے کچھ پوچھنا ہے تو اسی  لیے.."
امل زبردستی مسکراتے ہوئے گویا ہوئی
"ہاں ہاں وہ تو مجھے پتہ ہے...ویسے آپ دونوں کے کپڑے ایک ہی رنگ ہیں کیا حسین اتفاق ہے نا.."
اس کی معنی خیز بات پر امل کا دل کیا کہ اس کا سر پھاڑ دے مگر وہ ایسا کر نہیں سکتی تھی تو بس اس نے مسکراتے ہوئے شامیر کی جانب دیکھا جو موبائل میں ایسے مصروف ہوا تھا جیسے یہاں ہو ہی نا
"یہ بولتے نہیں ہیں..؟؟"
عائشہ نے اس کی طرف جھک کر آہستہ سے پوچھا کہ شامیر کو نا سنائی دے
"نہیں گونگے ہیں.."
امل نے اس کا جواب اتنی زور سے دیا کہ وہ سٹپٹا گئی مگر شامیر نے موبائل میں سے سر اٹھا کر نہیں دیکھا..
چند سیکنڈز بعد لفٹ گراؤنڈ فلور پر آکر رکی تو وہ دونوں باہر نکل گئے اسے لگا تھا کہ وہ لوگ اسے اپنے ساتھ آنے کی آفر کریں گے مگر ان دونوں میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا تو اسے مجبوراً اوپر جانا پڑا
"بہت سوئیٹ لڑکی تھی.."
شامیر نے ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا تو امل مسکراتے ہوئے گویا ہوئی
"بہتتتت سوئیٹ ابھی تو آپ اس کی سوئیٹنس کے s سے ہی واقف ہوۓ ہیں.."
امل بولتی ہوئی ہوٹل کے اس حصہ میں آگئی جہاں مہندی اور مایوں کے سارے انتظامات کیے جارہے تھے ان دونوں کے آتے ہی شامیر ، امل ، زارہ اور حسن نے مل کر کچھ چیزیں فائنل کریں تو باقی کی بچی ہوئی تیاریاں شروع ہوگئیں ان چاروں نے سب کچھ فائنل کرنے کے بعد اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک کونے میں بریرہ اور علی کسی بات پر زور و شور سے بحث کرنے میں مصروف تھے
"کیا ہوا ہے..؟؟"
شامیر نے ان کے پاس جاکر پوچھا تو بریرہ نے جھٹ سے سب سے پہلے اپنی بات سامنے رکھی
"شامیر بھائی..میں نے جو اینٹری سوچی ہوئی ہے اس میں اب یہ کیڑے نکال رہا ہے..اور میں آپ کو بتاتی چلوں یہاں آدھی سے زیادہ ڈیکوریشن بھی اس کی اپنی مرضی کی ہے تو اب اینٹری میری مرضی کی ہوگی.."
"جھوٹی..یہ ساری ڈیکوریشن جن کا نکاح ہے ان کی مرضی کی ہے.. اینٹری تو میری مرضی کی ہوگی.."
وہ بھی اپنی بات پر ڈٹا رہا
"یہ شخص چاہتا ہے کہ آپی رکشہ چلا کر اینٹری لیں..اگر ایسا ہوا نا تو ابو ہم سب کو اسی رکشہ سمیت نیٹی جیٹی کے پل پر سے پھینک دیں گے.."
بریرہ نے اپنا سر تھامتے ہوئے کہا جو پھٹ جانے والا تھا
"علی..بریرہ ٹھیک کہہ رہی ہے ہمیں اینٹری وہی رکھنی چاہیے جو ڈیسائیڈ ہوئی تھی.."
شامیر نے بریرہ کی بات سے اتفاق کیا کیونکہ وہ کوئی بد مزگی نہیں چاہتا تھا..
"ٹھیک ہے..جیسے آپ لوگوں کو صحیح لگے.."
علی بول کر وہاں سے چلا گیا تو بریرہ منہ بناتے ہوئے گویا ہوئی
"اس کے اندر لڑکیوں والے سارے نخرے بھرے ہوۓ ہیں میں دیکھتی ہوں.."
بریرہ بول کر اس طرف چل پڑی جہاں سے علی گیا تھا..شامیر نے اس کی بات پر مسکراتے ہوئے سامنے کی جانب دیکھا جہاں امل پول کے پاس بیٹھی ہوئی کسی غیر مرئی نقطے پر نظر جماۓ کوئی بہت ہی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اس کے بالوں کی چند آوارہ لٹیں بار بار اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں جنھیں امل ہاتھ سے پیچھے بھی نہیں کر ہی تھی اس وقت شامیر کو وہ اپنے دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھوڑی دیر اس کو یوں ہی دور سے دیکھنے کے بعد وہ اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا
"امل.."
اس نے بہت آہستہ سے پکارا تھا مگر پھر بھی امل چونک گئی تھی
"اللّٰہ اللّٰہ..زندگی میں کبھی تو بغیر ڈراۓ مجھے پکار لیا کریں.."
اس نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا جس کی دھڑکن کافی تیز ہوگئی تھی..
"کن خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھی..؟؟"
اس نے آبرو اُچکاتے ہوئے پوچھا
"میں سوچ رہی تھی کل میں امل مرتضٰی سے امل شامیر ہوجاؤں گی.."
امل نے پول میں دیکھتے ہوئے بولا جہاں سجاوٹ کے چند پھول لگتا ہے کسی ہاتھ سے گر گئے تھے
"اس سے زیادہ خوشی کی خبر ہمارے لیے کوئی ہو بھی نہیں سکتی.."
شامیر اس کو دیکھتے ہوئے گویا ہوا تو وہ مسکرا دی
"ہاں..اس زیادہ کوئی خوشی کی خبر ہو بھی نہیں سکتی..پر اس کے بعد میرے لیے سب بدل جاۓ گا..میرا نام میری پہچان میرے حقوق میرے فرائض..نکاح نامے پر سائن کرنے کا مطلب ہوتا ہے آپ خود کو کسی اور کو سونپ رہے ہیں..اور خود کو کسی کو سونپنا آسان کام تو نہیں ہوتا.."
امل پول میں موجود پانی میں ہاتھ چلاتے ہوئے گویا ہوئی
"امل..میں کوشش کروں گا کہ اپنی ذات سے تمہیں کبھی پریشان نا کروں.."
اس نے ٹھوڑی سے اس کا چہرہ تھام کر اپنی طرف کرتے ہوۓ بولا تو اس کا پانی میں چلتا ہاتھ تھم گیا..چند پل بعد اس نے نم آنکھوں کو جھپکا کر اس کی بات کی تائید کی تو وہ بھی مسکرا دیا..
                **********************
فنکشن شروع ہوچکا تھا ہر طرف رنگ و بو کا طوفان تھا پورا گارڈن برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا جس کو سفید اور پیلے گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا گارڈن میں داخل ہوتے ہی سامنے کی جانب دونوں کپلز کے لیے دو جھولے رکھے گئے تھے جنھیں دہلیہ کے پھولوں سے سجایا گیا تھا گارڈن میں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے صوفے لگاۓ ہوۓ تھے جن پر گروپ کی شکل میں لوگ بیٹھے ہوۓ تھے ان میں سے کچھ لوگ ہنس رہے تھے تو کچھ باتوں میں مصروف تھے اور کچھ پاکستانی روایتی شادیوں کی طرح نقص نکالنے میں مصروف تھے..تیار ہوئی لڑکیاں اِدھر سے اُدھر لہرا رہی تھیں سب کے چہروں پر خوشی موجود تھی..
بریرہ بھاگتی ہوئی اوپر امل کے پاس جا رہی تھی کہ سامنے آتے علی کی کشادہ چھاتی سے ٹکرا کر زمین بوس ہوگئی
"آوچچچچ.."
گرتے ہی اس کے منہ سے چیخ نکلی
"اوہ سوری سوری.."
علی بولتے ہوئے گٹھنوں کے بل زمین پر اس کے پاس بیٹھ گیا تو اس نے چہرے پر سے بال ہٹا کر غصے سے اسکی جانب دیکھا تو علی کی نظریں اس کو دیکھنے کے بعد واپس ہونا ہی بھول گئیں پیلے چوڑی دار پاجامے پر پیلے ہی ٹخنوں تک آتے گھیر دار فراک میں ملبوس تھی جس پر سلور موتیوں کا کام کیا ہوا تھا گلے میں سلور دوپٹہ ڈالے بالوں کو کھلا چھوڑے کانوں میں سلور جھمکے ہاتھوں میں سلور چوڑیاں پہنے اور بالوں کو کھلا رکھے ہلکا ہلکا میک اپ کیے وہ بہت حسین لگ رہی تھی..
"کہاں کھو گئے مسٹر..؟؟"
بریرہ اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے گویا ہوئی تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا
"ہا.. ہاں..لگی تو نہیں.."
اس نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ بولا تو بریرہ اچنبھے سے دیکھتے ہوۓ گویا ہوئی..
"تم میرے گرنے پر ہنس رہے ہو؟؟"
بریرہ نے اس کو مسکراہٹ دباتے دیکھ لیا تھا
"نہیں..نہیں..بلکل نہیں.."
اس نے سنجیدگی سے بولا تو وہ کھڑی ہونے لگی پر ہیل پہنے ہوۓ ہونے کی وجہ سے وہ کھڑی نہیں ہو پارہی تھی تو علی نے اس کے سامنے ہاتھ بڑھایا جسے وہ تھام کر کھڑی ہوگئی
"دیکھ کر چلو..یہ تو میں شریف لڑکی ہوں اس لیے تمہیں کچھ کہہ نہیں رہی اگر میری جگہ کوئی اور ہوتی نا تو لگ پتہ جاتا تمہیں.."
اس نے آنکھیں مٹکا کر اپنی تعریف کرتے ہوئے بال جھاڑے تو علی نے مسکراہٹ دباتے ہوئے سر ہلا کر اس کی بات کی بھرپور تائید کی..
بریرہ تھوڑا آگے ہی بڑھی تھی کہ علی نے اس کو پیچھے سے آواز دے کر روکا
"اب کیا ہے..؟؟"
بریرہ نے منہ بناتے ہوۓ پوچھا
"کیسا لگ رہا ہوں.."
علی سینے پر ہاتھ باندھ کر گویا ہوا تو بریرہ نے تنقیدی نظروں سے اس کا جائزہ لیا جو سی گرین کرتے پاجامے میں ملبوس وائٹ کھسے پہنے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے دلکش لگ رہا تھا
"بس ٹھیک لگ رہے ہو.."
بریرہ سرسری انداز میں بولتی ہوئی چلی گئی تو وہ بھی مسکراتے ہوئے اپنے راستے ہو لیا....
             ************************
سب باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک سے گارڈن کی ساری لائٹس بند ہوگئیں ہر طرف افراتفری مچ گئی کوئی موبائل ڈھونڈ رہا تھا لائٹ جلانے کے لیے تو کوئی اپنے بچوں کو پھر اچانک سے دھیما دھیما میوزک بجنا شروع ہوا اور دو سپوٹ لائٹس دو پیلی ڈولیوں پر پڑی سب اپنی اپنی جگہ رک سے گئے ایسا لگ رہا تھا سب تھم سا گیا پھر آہستہ آہستہ سامنے سے اس اسپاٹ لائٹ کے ساۓ میں دو ڈولیاں اندر آئیں ایک ڈولی کو شامیر اور علی نے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا ایک ڈولی کو حسن اور امل کے پھپھو زاد کزن داؤد نے اٹھایا ہوا تھا دونوں ڈولیاں اسٹیج پر بنے جھولوں کے پاس آکر رکیں اور پھر آہستہ سے ان کو نیچے رکھ دیا گیا جس ڈولی کو حسن اور داؤد نے اٹھایا ہوا تھا اس ڈولی میں سے امل باہر آئی اور جس ڈولی کو شامیر اور حسن نے اٹھایا ہوا تھا اس ڈولی میں شامیر نے زارہ کو گود میں اٹھا کر باہر نکالا اور جھولے میں بٹھایا.. ان دونوں کے جھولوں پر بیٹھتے ہی پورا گارڈن دوبارہ سے روشنی میں نہا گیا اتنی روشنی اچانک سے دوبارہ ہوجانے پر سب نے پل بھر کے لیے آنکھیں میچ لیں پھر آہستہ آہستہ سب کچھ نارمل ہوا تو شامیر نے امل کی جانب اور حسن نے زارہ کی جانب دیکھا تو دونوں کی نظریں پلٹنا ہی بھول گئیں..
امل نے پیلے رنگ کے ٹخنوں تک آتے گھیر دار فراک کے ساتھ گلابی رنگ کا چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا اور گلابی دوپٹہ کو ہی بیوٹیشن نے بڑی مہارت کے ساتھ سر پر ٹکایا ہوا تھا بالوں کو فرینچ چوٹی میں باندھ کر ایک کندھے پر چھوڑ دیا تھا ہاتھوں اور کانوں میں گلابی اور سفید پھولوں کے زیور پہنے تھے بغیر میک اپ کیے بھی وہ اس وقت نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی..
زارہ نے بھی پیلے رنگ کا ٹخنوں تک آتے فراک کے ساتھ گولڈن رنگ کا چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا اور گولڈن اور پیلے رنگ کے دوپٹے کو سر پر ٹکاۓ ہاتھوں اور کانوں میں پیلے اور سفید رنگ کے زیور پہنے بالوں کو اسٹریٹ کر کے کھلا چھوڑے بغیر میک اپ کے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی..حسن نے بھی گولڈن کرتے شلوار پر اوف وائٹ کلر کی واسکٹ پہن رکھی تھی بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ بہت پر کشش لگ رہا تھا..
"اچھے لگ رہے ہیں.."
زارہ نے اس کے بیٹھتے ہی بولا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے گویا ہوا
"اور تم حسین.."
اس کے بولتے ہی زارہ نے شرما کر منہ نیچے جھکا لیا...
شامیر امل کے برابر میں بیٹھا تو اس نے شامیر کی جانب دیکھا ورنہ شرم کے مارے اس نے کب سے نظریں جھکا کر رکھی ہوئی تھیں شامیر نے بھی سی گرین کرتے شلوار پر پر اوف وائٹ کلر کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی اپنے ہاتھ سے ماتھے پر موجود بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتا وہ امل کا دل دھڑکا اٹھا تھا..
"اتنا اچھا لگ رہا ہوں کہ..تم یہ بھی بھول گئی ہو کہ ہم اپنی مایوں میں بیٹھے ہوۓ ہیں.."
شامیر نے امل کی طرف جھکتے ہوئے بولا تو جو کب سے ٹٹکی باندھ کر اسے دیکھ رہی تھی سٹپٹا کر سیدھی ہوئی
"استغفر اللّٰہ اب ایسی تو کوئی بات نہیں ہے.."
امل نے اپنے کان میں موجود پھولوں کے جھمکوں کو چھیڑتے ہوئے بولا جنھوں نے ابھی سے اس کے کانوں میں درد کرنا شروع کر دیا تھا..شامیر نے آہستہ سے جھولے پر موجود امل کا ہاتھ تھام لیا ہاتھ پر دوپٹہ ہونے کی وجہ سے کسی کو پتہ نہیں چلا ورنہ ایک طوفان برپا ہوجاتا اس کے ہاتھ پکڑنے پر امل کے چہرے کے سارے رنگ پل بھر میں اڑ گئے
"شامیر پلیز میرا ہاتھ چھوڑ دیں.."
اس نے مسکرا کر سامنے کی جانب دیکھتے ہوئے بولا کیونکہ سامنے موجود تمام مہمان اسٹیج کی جانب ہی دیکھ رہے تھے
"اگر نا چھوڑوں تو؟؟"
شامیر نے اسے زچ کرنے کی بھر پور کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوگیا
"تو میں رو دوں گی.."
امل پانی سے بھری ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئی تو اس نے جھٹ سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا کیونکہ وہ کچھ بھی دیکھ سکتا تھا پر امل کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا..اس کے ہاتھ چھوڑتے ہی امل نے ہنستے ہوۓ اس کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا دیا اور یہ حسین لمحہ علی نے کیمرے میں قید کر لیا..
             ************************
بریرہ پورے دن تھک جانے کے بعد اب پول کے ایریا کے پاس واک کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنا پسندیدہ چپس کا پیکٹ بھی کھا رہی تھی پر اچانک اس کو محسوس ہوا جیسے کوئی اس کو دیکھ رہا ہے اس نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر کوئی دکھا نہیں تو اس نے وہم سمجھ کر اپنے ذہن سے جھٹک دیا..
تھوڑی دیر بعد کوئی آہستہ سے اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا محسوس ہوتے ہی اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے منہ سے ڈر کی وجہ سے ایک زور دار چیخ نکلی
"ششش.."
علی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تو اس نے علی کے ہاتھ پر ہی اپنے دانت گاڑ دیے علی نے جھٹکے سے منہ پر سے ہاتھ ہٹایا تو اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر لمبا سانس لیا تاکہ اس کے دل کی دھڑکن نارمل ہو..
"انسانوں والی کوئی عادت تم میں نہیں ہے اس بات پر پہلے مجھے شک تھا مگر اس حرکت کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے.."
بریرہ ہوا سے چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے گویا ہوئی
"ایک تو میں تمہیں یہاں اکیلا دیکھ کر کمپنی دینے آگیا اوپر سے تم مجھے ہی باتیں سنا رہی ہو.."
وہ منہ بناتے ہوئے گویا ہوا تو بریرہ اس کے منہ بنانے پر ہنستے ہوئے گویا ہوئی
"تمہیں بڑی میرے اکیلے ہونے پر فکر کھاۓ جا رہی تھی.."
"بلکل نہیں..وہ تو میں بور ہورہا تھا اس لیے آگیا.."
وہ بول کر وہاں سے جانے لگا تو بریرہ نے اسے پیچھے سے آواز دی
"کیا ہوا؟؟"
اس نے پلٹتے ہوۓ پوچھا تو بریرہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی
"جو پوچھنے آۓ تھے پوچھ لو.."
علی کو ایک پل کے لیے جھٹکا لگا کہ اس کو کیسے پتہ چلا مگر اگلے ہی پل خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوۓ بولا
"مجھے کچھ نہیں پوچھنا.."
"سچ؟؟.."
بریرہ نے آبرو اُچکاتے ہوئے پوچھا
"مچ.."
وہ آنکھ مار کر بولتا ہوا چلا گیا تو بریرہ بھی کندھے اُچکا کر ہوٹل کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی..
           ************************
شام کے چھ بج رہے تھے سب پول سائڈ پر جمع ہوگئے تھے کیونکہ نکاح کا سارا انتظام وہیں کیا گیا تھا پورے پول ایریا کو لال اور سفید گلابوں سے سجایا گیا جن کی دھیمی دھیمی خوشبو ہر چیز کو مہکا گئی تھی پول میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر جلتے دئیے اس جگہ کو اور حسین بنا رہے تھے ڈوبتے سورج کی پیلی پیلی روشنی تو ماحول کو اور بھی خوابناک بنا رہی تھی..پول ایریا میں داخل ہوتے ہی سامنے کی جانب دو صوفے رکھے گئے تھے جن کے درمیان سفید اور لال رنگ کا پردہ لگایا گیا تھا بریرہ امل اور زارہ کو لے کر ایک طرف سے نیچے آئی تو دوسری طرف سے علی شامیر اور حسن کو لے کر نیچے آیا..
زارہ اور امل نے  سفید رنگ کی غرارے پر ٹخنوں تک آتی شرٹ پہنی ہوئی تھی سفید اور لال رنگ کی جیولری کے ساتھ بالوں کو ہلکا سے کرل کر کے دونوں کندھوں پر چھوڑے تھے سر پر لال دوپٹہ ٹکاۓ وہ دونوں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھیں..
دوسری جانب حسن اور شامیر بھی کسی سے کم نہیں لگ رہے تھے وائٹ کرتے شلوار میں ملبوس کندھوں پر مہرون شال ڈالے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے الٹے ہاتھ میں گھڑی پہنے بہت پر کشش لگ رہے تھے نادیہ بیگم اور صفیہ بیگم تو ان کی نظر اتارتے اتارتے نہیں تھک رہی تھیں..
چند لمحوں بعد قاضی صاحب بھی آگئے اور انھوں نے سب سے پہلے زارہ اور حسن کا نکاح پڑھانا شروع کیا
"زارہ بنتِ مصطفیٰ کیا آپ کو حسن بن ولید بعوض پانچ لاکھ روپے حق مہر سکۂِ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے..؟؟"
دو پل نرمی سے آنکھیں بند کرکے کھولنے کے بعد اس نے بہت آہستہ سے بولا
"قبول ہے.."
قاضی صاحب نے اس کے سامنے تین دفعہ یہی سوال دھرایا اور اس نے تینوں دفعہ "قبول ہے.." ہی بولا
اب قاضی صاحب نے حسن کی جانب مڑتے ہوئے پوچھا
"حسن بن ولید کیا آپ کو زارہ بنتِ مصطفیٰ بعوض پانچ لاکھ روپے حق مہر سکۂِ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہیں..؟؟"
دونوں جانب دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں حسن نے نرمی سے آنکھیں بند کرتے ہوئے جواب دیا
"قبول ہے.."
یہی سوال تین مرتبہ اس سے بھی پوچھا گیا اور اس نے تینوں مرتبہ "قبول ہے.." بولا..
حسن کے گواہوں نے اور زارہ کے وکیل نے ان دونوں کے سامنے نکاح نامے رکھے جن پر ان دونوں نے دستخط کر کے ایک دوسرے کو اپنے نام کر لیا..
اب شامیر اور امل کے نکاح کی باری آئی تو شامیر کافی ریلیکس تھا مگر امل کو اپنا دل حلق میں آتا ہوا محسوس ہورہا تھا..نکاح شروع ہوگیا
"امل بنتِ مرتضٰی کیا آپ کو شامیر بن مصطفیٰ بعوض پانچ لاکھ روپے حق مہر سکۂِ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے..؟؟"
قاضی صاحب کے پوچھتے ہی امل کو اپنی دھڑکن اپنے کانوں تک سنائی دینے لگی اس نے بریرہ کا ہاتھ سختی سے تھامتے ہوئے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا
"قبول ہے.."
شامیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی
قاضی صاحب نے اس سے بھی دو مرتبہ اور پوچھا اور اس نے دونوں مرتبہ کانپتی ہوئی آواز میں "قبول ہے.."
بولا
قاضی صاحب نے اب رخ شامیر کی جانب کرتے ہوئے پوچھا
"شامیر بن مصطفیٰ کیا آپ کو امل بنتِ مرتضیٰ بعوض پانچ لاکھ روپے حق مہر سکۂِ رائج الوقت اپنے نکاح میں قبول ہے..؟؟"
"قبول ہے.."
اس نے کافی پر سکون انداز میں جواب دیا
قاضی صاحب نے دوبارہ پوچھا
"قبول ہے..؟؟"
اس نے دوبارہ بولا
"قبول ہے.."
قاضی تیسری و آخری بار پوچھا
"قبول ہے..؟؟"
اس نے تیسری و آخری بار جواب دیا
"قبول ہے.."
دونوں نکاح ہوتے ہی ہر طرف مبارکباد کا شور اٹھ گیا دادو خدیجہ بیگم کی آنکھیں نم تھیں وہیں بریرہ امل کے گلے لگے زار و قطار رو رہی تھی تو خدیجہ بیگم نے اسے امل سے الگ کرتے ہوۓ منہ دھو کر آنے کے کے لیے بولا وہ سب کے درمیان سے نکلتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ ہی رہی تھی کہ علی نے اسے روتے دیکھ کر بولا
"اپنی بہن کے نکاح پر یہ حال ہے تو اپنے نکاح پر کیا ہوگا.."
علی نے افسوس سے اس کی روتی لال آنکھوں کو دیکھتے ہوۓ بولا
"میرے نکاح میں تو ابھی صدیاں پڑی ہیں.."
وہ آنسو صاف کرتے ہوئے گویا ہوئی تو علی نے مسکراتے ہوئے بولا
"ہمارا نکاح ہونے میں اب صدیاں بھی نہیں لگیں گی.."
اس نے ہمارے پر زور دیتے ہوۓ بولا تو بریرہ نے اس کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں ہونٹوں پر مسکراہٹ تو تھی مگر آنکھیں اسکے سنجیدہ ہونے کی گواہی دے رہی تھیں پل بھر کے لیے بریرہ کو اپنا دل ایک الگ ہی لہہ پر دھڑکتا ہوا محسوس ہوا پر اگلے ہی پل وہ اس کی بات پر ہنستی ہوئی وہاں سے چلی گئی..
تھوڑی دیر بعد کھانا شروع ہوتے ہی امل اور زارہ کو ان کے کمروں میں بھیج دیا تاکہ وہ تھوڑی دیر آرام کر لیں کیونکہ رات گیارہ بجے تک سب اپنے اپنے گھروں کے لیے نکلنے والے تھے..
          *************************
حسن اور شامیر مسکراتے ہوئے بریرہ کی طرف آرہے تھے..بریرہ دور سے دیکھتے ہی ان دونوں کا اس کے پاس آنے کا مقصد سمجھ گئی تھی اسی لیے ناک سکیڑتے ہوۓ گویا ہوئی
"مجھ سے امید مت رکھیئے گا کہ میں آپ دونوں کو ان دونوں کے کمروں کی جانب جانے بھی دوں گی.."
اس نے "آپ دونوں" اور "ان دونوں" پر زیادہ زور دیتے ہوۓ بولا تو حسن نے بہت چاشنی بھرے لہجے میں پوچھا
"تم تو ہماری چھوٹی سی پیاری سی بہن ہو نا..اپنے بھائیوں کی اتنی سی بھی مدد نہیں کرو گی..؟؟"
"بلکل نہیں.."
بریرہ نے بڑی سی مسکراہٹ ان کی جانب اچھالتے ہوۓ بولا حسن کی ناکامی کے بعد اب شامیر اپنی قسمت آزماتے ہوۓ گویا ہوا
"اگر ہم تمہیں چاۓ پانی دینا چاہئیں تو..؟؟"
"ہمم...پھر سوچا جا سکتا ہے.."
بریرہ سوچنے کی اداکاری کرتے ہوۓ گویا ہوئی
"پانچ ہزار؟؟"
حسن نے جھٹ سے رقم پوچھی
"اس میں تو پانی کی بوتل کا ڈھکن بھی نہیں آۓ گا.."
بریرہ نے صاف انکار کرتے ہوئے بولا
"بیس ہزار..؟؟"
حسن نے اب کی بار پچھلی رقم سے تین گنا زیادہ رقم بولی
"اس میں تو صرف پانی آۓ گا.."
بریرہ اب بھی نہیں مانی تو حسن نے شامیر کی جانب دیکھا تو وہ آگے بڑھتے ہوۓ گویا ہوا
"پچاس ہزار.."
"ہمم..اب آپ لوگ جا سکتے ہیں.."
بریرہ نے مسکراتے ہوئے بولا تو حسن اور شامیر ہوٹل کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئے..
زارہ کے کمرے کے سامنے حسن جا کر رکا اور آہستہ سے گیٹ کھٹکھٹایا تو زارہ نے اندر سے بولا
"آجاؤ.."
حسن گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو زارہ چونک سی گئی کیونکہ اس نے حسن کے یہاں آنے کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں تھا
"آپ..؟؟"
زارہ نے حیرت سے بولا تو حسن اسے چھیڑتے ہوئے گویا ہوا
"کیوں تم کسی اور کا انتظار کر رہی تھی..؟؟"
"نہیں بھئی.."
زارہ جھٹ سے گویا ہوئی تو حسن مسکراتے ہوئے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا اور اس کے دونوں ہاتھ بہت محبت سے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیے
"زارہ...میں تم پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ کرتا ہوں..اور امید کرتا ہوں کہ اب تم دوبارہ کسی بھی پریشانی و مسئلہ کی وجہ سے بیچ راہ میں نہیں چھوڑو گی.."
وہ اس کے ہاتھوں کو نرمی سے دباتے ہوئے گویا ہوا تو زارہ مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوئی
"حسن..اب میں دوبارہ کبھی آپ کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ہوں..مجھے لگا تھا میں آپ کے قابل.."
زارہ آگے کچھ بولتی اس سے پہلے حسن نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کرواتے ہوۓ گویا ہوا
"جو ہوا وہ اب پیچھے رہ گیا ہے..اور مجھے تم اپنی زندگی میں ایسے ہی قبول ہو جیسی تم ہو پر مجھے اللّٰہ سے اس بات کی امید بھی ہے کہ اگر تم اب خود دل سے کوشش کرو گی تو تم دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑی بھی ہوجاؤ گی.."
اس نے اپنی بات بولنے کے بعد اس کے لبوں پر سے انگلی ہٹائی تو اس نے مسکراتے ہوئے بولا
"مجھے بھی میرے اللّٰہ سے پوری امید ہے.."
زارہ کے بولتے ہی حسن نے لب اس کے ماتھے پر رکھ دیے تو وہ آنکھیں بند کر کے اس کا لمس اپنے ماتھے پر محسوس کرنے لگی..
           ************************
شامیر دروازہ کھٹکھٹاۓ بغیر چابی سے کمرہ کھولتے ہوۓ اندر داخل ہوا کیونکہ وہ بریرہ سے کمرے کی چابی لے چکا تھا وہ کمرے میں داخل ہو تو امل آنکھیں بند کرکے پلنگ پر نکاح والے حلیے میں ہی بیٹھی ہوئی تھی بس اس نے دوپٹہ اتار کر پلنگ پر ایک طرف رکھ دیا تھا کمرے میں شامیر کی خوشبو محسوس کرتے ہی اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تو سامنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ وہ اسے دیکھنے میں مصروف تھا پر اسے یوں کمرے میں دیکھتے ہی امل کو سب سے پہلے اپنے دوپٹے کا خیال آیا جو اس نے جھٹ سے اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور پلنگ کے اوپر ہی کھڑے ہوکر آبرو اُچکاتے ہوئے بولی
"آپ کمرے میں کیسے آۓ ہیں؟؟.."
"پیروں سے.."
شامیر نے اسے زچ کرنے کے لیے بولا اور وہ اگلے ہی پل زچ ہوتے ہوئے گویا ہوئی
"اللّٰہ اللّٰہ..آپ نے تو دنیا کا سب سے بڑا سیکریٹ میرے سامنے ڈسکلوز(disclose) کردیا..اب کیا ہوگا..؟؟"
"اچھا نیچے تو اترو.."
شامیر کو سخت چڑ ہوتی تھی پلنگ کے اوپر کسی کو کھڑا دیکھ کر اور امل کو تو ہر دوسری بات پر پلنگ پر کھڑے ہوکر لڑنے کی عادت تھی
"کیوں اوپر کھڑے ہونے میں کیا مسئلہ ہے..؟؟"
امل نے منہ بناتے ہوۓ پوچھا تو شامیر نے جواب دینے کے بجاۓ اپنے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوۓ اسے بذاتِ خود پلنگ پر سے اٹھا کر زمین پر کھڑا کر دیا امل منہ سے تو کچھ نہیں بولی پر اس کی بولتی ہوئی آنکھیں اس کے غصے میں ہونے کا پتہ بتا رہی تھیں..اس کو غصے میں دیکھ کر شامیر نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا وہ اس افتاد کے لیے وہ بلکل تیار نہیں تھی تو اس کے سینے سے جالگی اس سے پہلے وہ پیچھے ہوتی شامیر نے اپنا مضبوط حصار اس کے گرد باندھ دیا..
امل اس کے حصار کو توڑنے کی کافی دیر کوشش کرتی رہی مگر جب اس سے یہ کام بلکل ہی نہیں ہوا تو اس نے چڑتے ہوئے بولا
"کیوں پکڑا ہوا ہے..؟؟"
"اپنی بیوی کو پکڑا ہوا ہے پورا حق رکھتا ہوں.."
شامیر نے اپنا حق جتاتے ہوئے بولا تو امل آنکھوں میں شرارت لیے آبرو اُچکاتے ہوئے گویا ہوئی
"اچھا..؟؟"
"ہاں.."
اس نے اپنی ناک آہستہ سے اس کی ناک سے ٹکراتے ہوئے بولا تو امل مسکراتی ہوئی اس کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا گئی اس نے بھی محبت سے اپنے لب امل کے بالوں پر رکھ دیئے..
            ************************
                               ختم شدہ
             ************************
Assalamualaikum..!!
So finally here is the last and most awaited episode..
I know is episode ko eid par hi jana chahiye tha but I know hum jeasa plan karty hain weasa kbhi kch nhi hota to bs kch personal issues ki wja say episode late ho gy us kay liy mazrat..
And most importantly thank you to all of you for liking and loving this novel..
Now don't forget to do vote and give your feedback to let me know how was the novel and episode ☺️☺️

قدرِ زمن                                                         ✅✅(compled)Where stories live. Discover now