قسط ۱ " آغازِ داستان "

83 3 6
                                    

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

السلام علیکم

یہ تحریر میری زندگی کی پہلی تحریر ہے۔ اس سے پہلے میں شعر و شاعری سے تعلق رکھتی تھی۔ مگر پھر کچھ حقیقتوں نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔ مجھے نہیں معلوم یہ کہانی کیسا موڑ لے گی یا کس میں کیا کچھ تبدیل ہو لیکن میری پوری کوشش رہی ہے میں ایمانداری سے دل سے اسے تحریر کروں۔

جیسا کہ میں پہلے بتا چکی ہوں یہ ایک حقیقی کہانی ہے تو یہ بھی بتاتی چلوں کہ اس کہانی کہ کردار کچھ حد تک فرضی ہی مگر ارد گرد ماحول اور دیگر واقعات حقیقی ہے۔

قسط : ١

"آغازِ داستان"

ہوئی آغاز پھولوں کی کہانی
وہ پہلا دل وہ پہلی خوش گمانی

اس خوبصورت دنیا کا آغاز اللہ‎ پاک نے اپنے پیارے رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی محبت میں کیا پھر ہر شے کو تخلیق کیا اور اس کے بعد حضرت آدمؑ اور بی بی حوّا کو بنایا گیا مٹی سے، جس سے حضرت آدمؑ و حوّا کی نسل پڑھوان چڑھتی رہی اور مختلف قصّہ و کہانیاں بنتی گئیں۔

شاید آغاز ہوا پھر کسی افسانے کا
حکم آدم کو ہے جنت سے نکل جانے کا۔۔

یہ ہمیشہ یاد رکھیے یہ دنیا محض فانی ہے، ایک پانی کے قطرہ کی مانند اور زندگی بیشک اللہ‎ تعالیٰ کا بہترین تحفہ ہے مگر نا ناقابلِ اعتبار حقیقت بھی۔

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
‏دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
‏اک لحظہ بہے آنسو اک لحظہ ہنسی آئی
‏سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی
‏اس موسم گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
‏ساتھ ابر بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی

یہ کہانی ہے پاکستان کے شہر گِلگت بلتستان کے پہاڑی وادی  ہنزہ کی جو کہ اپنی حسین وادی، ہریالی اور ٹھنڈے موسم اور خوبصورتی کی وجہ جانا جاتا ہے اور خاص طور پر مہمان نوازی اور حسین مناظر کی وجہ سے مشہور ہے۔
طلوعِ آفتاب سے پہلے فجر کا وقت ہے۔ حاجی سبحان خان پٹھان اپنی فیملی کے ہمرا "پٹھان وِلا" میں رہائش پزیر ہیں۔ حاجی صاحب گوری رنگت، درمیانہ قد، نرم مزاج، شیریں لہجے کے مالک، بات کرتے ہیں تو لبوں سے پھول جھڑتے ہیں، سر پر سفید عِمامہ اور دھیمی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہمیشہ رہتی ہے، نماز گزار متقی پرہیز گار اور ملنسار۔ حاجی صاحب کی جتنی تعریف کی جائے اُتنی ہی کم ہے۔
حاجی صاحب کی عادت ہے وہ فجر کے وقت اپنے گھر والوں اور باقی ہمسایوں کو جگا کر نمازِ فجر ادا کرواتے ہیں اور اِس کام میں اُن کا ساتھ اُن کی جانِ عزیز زوجہ رابعہ خاتون انجام دیتیں ہیں۔ رابعہ خاتون ہیں تو تھوڑے غصّے کی مالک مگر خوبصورتی اور حسن ان پر تمام ہے اور اُتنی ہے محبت وہ لوگوں سے کرتیں ہیں۔

حاجی صاحب کی ١٠ اولادیں ہیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ٧ بیٹے اور ٣ بیٹیاں جن میں سے ۴ بیٹے اور ٣ بیٹیاں شادی شدہ ہیں جو اپنی زندگی میں خوشحال ہیں۔ حاجی صاحب کے ٧ بیٹے حاجی صاحب کے ساتھ پٹھان ولا میں رہتے ہیں۔ حاجی صاحب کے سب سے بارے بیٹے رحیم خان ہیں ان کی شادی ان کی خالہ زاد کہکاشاں بیگم سے ہوئی ہے جن سے  انکی ٣ اولادیں ہیں تھیں تو ٦ مگر اللہ‎ پاک نے ان سے ان کی ٣ اولادیں واپس لے لیں جو کے بیٹیاں تھیں۔ اس کے بعد آتے  ہیں جہانزیب خان ان کی شادی بھی ان کی خالہ زاد زینب بیگم سے ہوئی جن سے ان کے 2 بیٹے ہیں، پھر آتے ہیں ڈاکٹر فردوس جن کی شادی خاندان میں ہے ہوئی اور ان کی زوجہ نعیمہ ہیں ابھی ان کی شادی کو ایک سے ڈیڑھ سال جتنا وقت ہوا ہے اور نعیمہ بیگم امید سے ہیں اب باری ہے حاجی صاحب کے سب سے زیادہ غصّے والے بیٹے کی جو کے کی انجنیئر ہیں اور ان کا نام داور خان ہے جن کی شادی ان کی سب سے چھوٹی بہن کے بدلے میں خاندان میں ہی ثمینہ بیگم سے ہوئی ہے وہ بھی امید سے ہیں۔ اس کے بعد آتے ہیں حنّان خان پھر منّان خان اور سب سے چھوٹے قادر خان ہیں۔ پھر آتیں ہیں حاجی صاحب کی بیٹیاں، سب سے بری بیٹی عنایا جن کی شادی ڈاکٹر فردوس کے بدلے میں ہوئی ہے خاندان میں ہی جن سے انھیں 4 اولادیں ہیں اس کے بعد آتیں ہیں مہوش جن کی شادی بھی خاندان میں ہی ہوئی ہے اور وہ بھی خوشخبری لیے بیٹھیں ہیں پھر آتیں ہیں حافظہ مومنہ جن کی شادی ثمینہ بیگم کے بھائی سے ہوئی ہے اور وہ بھی امید سے ہیں۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Oct 16, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

حیاتِ مُستعارWhere stories live. Discover now