آخری قسط

1.8K 92 44
                                    

#Nikah_e_mohabbat

آخری قسط

"تُم نے دل میں مرے سکونت کی
اور دل کی عجیب حالت کی
ٹوٹ کر دور تک بکھرتا گیا
جب میں نے ٹوٹ کے محبت کی"
(کامی شاہ)

عثمان تُو نے یہ کیا حالت بنا کر رکھی ہی خود کی زوہیب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بکھرے ہوئے کمرے ٹوٹی ہوئی چیزیں اور ریزہ ریزہ ہوئے عثمان کو روتے ہوئے دیکھ کر شدیدصدمہ ہوا....زوہیب نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا بس عثمان بس اگر تُو ہی اِس طرح بکھرا بکھرا رہے گا تو بلال اور ماہ رخ کو کون سنبھالے گا بھابھی اُن دونوں کی ذمےداری تُجھ پے چھوڑ کر گئی ہے...تو نے اپنی بیوی اپنی محبت کو کھویا ہے تو اُن دونوں نے بھی دُنیا میں آنکھ کھولتے ہی اپنی جنت اُس ہستی کو کھو دیا ہے جسکے بغیر اُنکی دنیا ویران ہے کون سنبھالے گا اُنہیں....یار رو رہے ہیں کب سے دونوں....عثمان کو اب اپنے بچوں کی فکر ہونے لگی...کہا ہے میرے بچے میری عاعزہ کی آخری نشانیاں ہماری اولاد؟؟؟زوہیب کمرے سے باہر گیا اور جب واپس آیا تو اُسکی گود میں بلال اور ماہ رخ تھے...عثمان نے دونوں کو اپنی بانہوں میں لیا زوہیب باہر چلا گیا....کتنا پیارا احساس ہوتا ہے نہ اپنی اولاد کو اپنی گود میں لینے کا عثمان نے گہری سانس کے کر سوچا...تب جا کر پتہ چلتا ہے کہ ہم کیوں اپنے ماں باپ کے لیے سب سے ضروری اور اہم کیوں ہوتے ہیں....انہیں دیکھ کر ہی اپنے مکمل ہونے کا احساس ہوتا ہے یہی ہےہمارے وجود کا ایک سب سے اہم حصّہ ہم سے پیدا ہوئے ہے ہماراخون ہے....جب انسان باپ بنتا ہے تو اُس سے پہلے کتنے رشتے طے کر چُکا ہوتا ہے ایک اولاد کا ایک بھائی کا ایک دوست کا ایک شوہر کا مگر سب سے پیارا احساس یہی ہوتا ہے جو اِس وقت میں ٹھیک سے محسوس بھی نہیں کر پا رہا مجھے سمجھ نہیں آرہا میں خوش کیوں نہیں ہو پا رہا....ہم نے بھی تُو بہت خواب دیکھے تھے عاعزہ جب ہماری اولاد اِسدنیا میں آئے گی ہمیں تو بہت کُچھ کرنا تھا عاعزہ.....عاعزہ اب میں بیچ میں کہا سلاؤ گا ہمارے بچوں کو تُم کہتی تھی نہ ہم بےبی کو بیچ میں سلائے گے تا کہ نیند میں گر نہ جائے اب کیا میں تو ہوگا مگر دوسری طرف انکی ماں نہیں ہوگی جو انہیں گرنے سے بچا لے گی....تُم کوئی وعدہ پورا نہیں کر پائیعاعزہ تُم جھوٹی نکلی بلکل جھوٹی....عثمان کا لہجہ شکوہ کنہ ہو گیا....عاعزہ میں چا ہ کر بھی اب تمہارے پاس نہیں آ سکتا یہ دونوں اپنی ماں کی ممتا سے تو محروم ہو چُکے ہیں مگر میں انہیں باپ کی شفقت سے محروم نہیں کرونگا میں نہیں جانتا تمہارے بغیر کب تک جی پاؤ گا مگر جتنا بھی جیو گا صرف اپنی اولاد کے لیے....تمہاری آخری خواہش پوری کرنے کا اختیار نہیں نہ ہمت میرے پاس تمہارے علاوہ کوئی اور ہرگز نہیں نہ آج نہ کل نہ ساری زندگی میری زندگی میں نکاحِ محبت کا سفر تمہاری ذات سے شروع ہوکر اب ان دو فرشتوں پے ارُکا ہے.....مجھے تمہارے علاوہ کسی کا ساتھ کسی کی قربت نہیں چائیے میرے لیے یہی احساس کافی ہے کے تم میری تھی....اور اب میرے پاس یہ دونوں ہے مجھے کسی کا ساتھ نہیں چاہیے .....م میں نے زندگی میں شدت سے اللہ سے تمہیں مانگا تھا اور اُس نے مجھے غیب سے نوازا اس طرح تمہیں مجھ پر حلال کرا اس طرح تمہیں میری دسترس میں جس مضبوط رشتے کے ساتھ دیا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا....میرے لیے ہمارے زندگی کے یہ ۳ حسین سال کافی ہے ساری زندگی گزارنے کے لیے....."تنہائی بھی کٹ ہی جائے گیاتنا بھی کمزور نہیں میںدوہرا کر تیری باتوں کو میںکبھی ہس لو گاکبھی رو لو گا"چند دن بعد.....عثمان نے ماہ رخ اور بلال کے لیے خود پے قابو رکھا ہوا تھا وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا اپنے بچوں کو سنبھالنے کی مگر شاید ابھی اُسکا ایک اور امتحان باقی تھا آخری اور سب سے بھیانک امتحان....زوہیب اُس سے ملنے آیا مگر وہ بہت پریشان تھا جِس کو عثمان نے بھی بھانپ لیا ماہ رخ اور بلال کو سلا کر وہ زوہیب کے پاس آیا...کیا بات ہے تو کُچھ پریشان ہے عثمان نے سنجیدگی سے پوچھا؟؟؟پریشانی والی بات تو ہے بہت بڑی پریشانی مگر مجھے یہ نہیں سمجھ آرہا کے تمہیں کیسے بتاؤں میں...کیا مطلب؟؟دیکھ جو بھی بات ہے کھل کر بتا جب میں عاعزہ کی موت کی خبر کی بات سُن کر بھی زندہ ہو تو کوئی خبر پھرمجھے کُچھ نہیں کرسکتی...زوہیب نے لمحے بھر کے لیے عثمان کا چہرہ دیکھا پھر اسے لمحہ لگا فیصلہ کرنے میں کے وہ بتائے یہ نہیں....عثمان میری بات قدرے تحمل اور سکون سے سننا...زوہیب کو اندازہ تھا کہ اِس خلاصے سے عثمان کے روم روم میں بے سکونی سرائیت کر جائے گی...میں سن رہا ہے تو بول...عثمان نے سپاٹ لہجے میں کہا....عثمان بھابی کا ایکسڈنٹ نہیں ہوا تھا .....اٹس پلینڈ مرڈر....کیا؟؟؟؟؟عثمان کو شدید ترین جھٹکا لگا...ہاں عثمان ہم نے گاڑی ایگزیمین کی ہے گاڑی کے بریک فیل ہوئے نہیں تھے کرے گئے ہے اور اسکا ثبوت ہمیں تمہارے پورچ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے مل گیا ہے ایکسڈنٹ سے ٹھیک ایک رات پہلے کسی اجنبی شخص نے یہ کرا ہے....عثمان کے لیے یہ وقت ایک اور قیامت تھی کے اُسکی عاعزہ کوقتل کیا گیا ہے....عثمان شدید غصے کی حالت میں ادھر سے اُدھر ٹہلنے لگا کون ہو سکتا کون جِس نے مُجھ سے میری عاعزہ کو چھینا کون؟؟؟عثمان ٹھنڈے دماغ سے سوچ غصے سے کام نہیں چلے گا کون کرسکتا ایسا؟؟؟میری اور عاعزہ کسی سے کیا دشمنی ہوسکتی بھلا...عثمان کے دماغ میں فوراً وافیہ اور اپنے باپ اور سکندر صاحب کا نام آیا....عثمان تُم جانتے بھی ہی تُم کیا کہہ رہے ہو؟سکندر صاحب بھابی کے باپ ہے...زوہیب جِس گاڑی کا ایکسڈنٹ ہوا ہے وہ گاڑی میں لے کے جاتا تھا...مگر عاعزہ کی ڈیلیوری نزدیک ہونے کی وجہ سے میں وہ گاڑی گھر چھوڑ کر جاتا تھا....میں دوسری گاڑی لے کر گیا تھا ہوسکتا ہے یہ میرے لیے تھاجس کی شکار عاعزہ ہوئی...میں اچھے سے جانتا ہو میں کیا بول رہا ہو مگر مجھے اپنے سگے رشتوں سے کوئی بعید نہیں ہے یہ لوگ کُچھ بھی کرسکتے اپنی نفرت میں کُچھ بھی میں تو حیران ہوتا تھا آخر 3 سال اِن لوگوں نے ہمیں سکون سے رہنے کیسے دیا...تمہیں پتہ نہیں ہے شاید پھپھو نے اپنی موت سے قبل داداجان کی ساری جائیداد میرے اورعاعزہ کے نام کی تھی میں کیوں نہیں سمجھ سکا اِس بات کو عثمان اب کڑی سے کڑی جوڑ رہا تھا...جب چاچو ابو پے پھپھو کے قتل کا الزام لگا رہے تھے تب بھی کیوں نہیں سوچا آخر پھپھو نے سب ہم دونوں کے نام کیوں کرا پھر اچانک ایک ایکسڈنٹ میں اُنکی ڈیتھ....عاعزہ کی موت سے ۲ ہفتے پہلے ابو اور چاچو کا وکیل کو بھجوانا کے ہم سب اُنہیں واپس کردے دادا جان کی وصیت کے سکندر اور عبداللہ میں سے کسی کو بھی جائیداد میں سے کچھ نہ دینا کیوں کوئی باپ اپنی ہی اولادوں کو آق کریگا....کڑی سے کڑی جڑتی جا رہی تھی عثمان پر حقیقت آشکار ہوتی جارہی تھی...مجھے ذرا بھی پتا ہوتا کے وہ لوگ اس قدر گر جائینگے مجھ سے میری عاعزہ کو چھین لے گے میں لمحہ نہیں لگاتا سب اُنہیں دے دیتا میں نے سب دادا جان کی آخری خواہش کا احترام کرتے ہوئے کرا مگر مجھے کیا پتہ تھا مجھے اتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی...عثمان تو اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتا یہ سب ایک اتفاق بھی ہوسکتا ہے؟؟؟پولیس والا ہو کر تو یہ بات کہہ رہا ہے اتنے پختہ اتفاق نہیں ہوتے زوہیب....انسان کی آنکھوں پے جب دولت کی پٹی لگ جاتی ہے نہ تو وہیہ نہیں دیکھتا سامنے کون سہ رشتا ہے انسان اندھا ہوجاتا ہے بلکل جب رشتوں میں سے خلوص ختم ہوجاتا ہے تو انسان خون کے رشتوں کا بھی خون کرنے سے گریز نہیں کرتا.....انسان کو دکھ سب رہا ہوتا ہے مگر اُسکے اندر سے صحیح غلط کا فرق ختم ہوجاتا ہے...پتا نہیں کیا جادو ہے اِن کاغذ کے ٹکڑوں میں لوگوں کو یہ کیوں سمجھ نہیں آتا ان سے دنیا میں تو آسائش کا ہر سامان خرید لیتے ہے مگر روزِ محشر میدان عرفات میں جب زیر زبر ہوگا اُس عدالت میں کیا کرے گے وہاں کا فیصلہ حتمی ہوگا عارضی زندگی کو پر آسائش بنانے کے لیے حقیقی زندگی میں آگ چن لیتے ہے....تمہاری وجہ سے میں نے اپنی بیٹی کھوئی ہے میں جانتا ہوں یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے....سکندر صاحب غصے سے پھنکارتے ہوئے بولے...تُم اتنے اندھے ہوگئے اپنی نفرت میں ارے عاعزہ صرف میری بیٹی نہیں تھی تمہاری بہو اور بیٹے کی محبت تھی...بس سکندر تُم مجھے بولنے کی اوقات رکھتے ہو کس منہ سے بول رہے ہو یہ سب مجھ پر اِلزام لگا رہے ہو کیا میں نہیں جانتا کے تم نے عثمان کو مارنے کے لیے گاڑی کے بریک فیل کرنے کے لیے بھیجا تھا میری خوش قسمتی کہو یہ کچھ بھی مجھے پتہ چل گیا اور تمہارے بندے کو میں نے دگنے دام میں خرید کر عاعزہ کے استعمال والی گاڑی کے بریک فیل کروا دیے میں عاعزہ کو کچھ نہیں کروانا چاہتا تھا مگر تمہیں سبق سکھانا ضروری تھا آئندہ میرے بیٹے کی طرف دیکھو گے بھی نہیں...مجھے افسوس ہے عاعزہ کا....مگر تُم نے کیا سوچ لیا تھا عثمان کو مروا کر عاعزہ کو اپنے ساتھ لے جاکر ساری جائیداد حاصل کر لوگے مگر الٹا ہوگیا عاعزہ گئی عثمان میری اولاد ہے آج نہیں تو کل واپس ضرور آئیگا ہوا نہ ایک تیر سے ۲ نشانے....لہٰذا اپنا منہ بند رکھو یہ مت بھولو میں جب اپنے باپ کو مروا سکتا ہو تو عاعزہ کو مارنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں...تمہارے علاوہ کس کو پتہ یہ بات امتیاز عالمگیر کی موت موت نہیں قتل تھا...اور فرحت کے قتل کا الزام جو تُم مجھ پر لگاتے ہو تُم نہیں جانتے اُسّے خود تُم نے مروایا تھا .... بولوں...اسلئے اپنا منہ بند رکھو عاعزہ مر چُکی ہے واپس نہیں آئیگی البتہ اگر تم نے ذرا بھی چو چا کی پرانی فائلز کھلنے میں دیر نہیں لگےگی...تُم بھی یہ مت بھولو جب میں فرحت کو مروا سکتا ہو تمہیں بھی مار سکتا ہے بھائی....عثمان تو بیچارہ ویسے ہی مرچکا ہے اُسکا ہونا نہ ہونا ایک برابر میں اپنا حق لینا جانتا ہو اور اپنی بیٹی کا خون تمہیں معاف نہیں کرونگا عبداللہ اِمتیاز....سکندر صاحب میں عبداللہ صاحب پے پستول تان دی...تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ہٹاؤ اسے عبداللہ صاحب گھبرا گئے کیوں کے سکندر صاحب کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا...سارا لرزہ خیز انکشاف قیامت خیز منظر عثمان اور زوہیب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سُنا تھا عثمان جو اپنے باپ سے سوال جواب کرنے آیا تھا اُسکی ضرورت ہے پیش نہیں آئی...عثمان اور زوہیب اندر آگئے...سکندر اور عبداللہ صاحب اِس اچانک افتاد پے بوکھلا گئے سکندر صاحب کے ہاتھوں سے پستول گر گئی...جسے زوہیب نے اُٹھا لی....اتنے گھٹیا لوگ ہے آپ دونوں اتنے مطلب پیسہ پیسہ پیسہ سب اسی پے شروع اسی پر ختم....عثمان میں نے یہ سب تمہارے لیے کرا....عبداللہ صاحب بولے.....آپ لوگ اپنے سگے باپ اور بہن کے نہ ہوئے تو ہمارے کیا ہوگے....ہاتھ نہیں کانپے گھن نہیں آتی خود سے خون میں لتھڑا ہوا وجود ہے آپ دونوں کا اتنا سکون کیسے ہو آپ لوگ کیسے....انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں مجھے گھن آرہی اپنے آپ سے کیوں کے میرا آپ آپ دونوں سے جڑا میری رگوں میں آپکا گندا خون ہے...آپ دونوں اتنے پر سکون کیسے ؟؟؟اگر آپ دونوں کی جگہ کوئی اور ہوتا تُو باخدا اپنے ہاتھوں سے مار دیتا مگر میں اپنا وجود اور گندگی میں نہیں دھکیلنا چاہتا.....آپ دونوں کے اِس لالچ کے کھیل میں سب سے بڑی دولت میں میں نے گنوائی ہے اپنی عاعزہ کو کھویا ہے میں نے ہمارے بیچ اب جو فاصلے آئے ہے اُنہیں میں ساری عمر چل کر بھی طے نہیں کرسکتا اِس سے اچھا میں اسے طلاق ہی دے دیتا کماز کم یہ اطمینان ہوتا کے وہ زندہ ہے مگر اب اپنی اپنی اولادوںکو بچانے کے چکر میں آپ دونوں نے اُنکی ہی اولاد کے سروں سے ماں کا سایہ چھین لیا...مگر ایک بات یاد رکھیے گا وہ اپنے ہر بندے سے ۷۰ ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہعاعزہ کو انصاف اور آپ دونوں کو اپنے انجام تک پہنچائیں گا....زوہیب دونوں کو گرفتار کر کے لے گیا....عثمان عاعزہ کی قبر پے چلا گیافاتحہ کے بعد عثمان اُسکی قبر کے پاس ہی بیٹھ کر رونے لگا...عاعزہ بس ایک پل کے لیے اپنی جھلک دکھا دو عاعزہ میرے سامنے آجاؤ پلیز بس ایک بار مجھے گلے لگا لو میں تھک گیا ہو دوبارہ میرے پیر شل ہوگئے ہیں اس تپتے صحرا میں چلتے چلتے جھلس گئے ہے اپنی قربت کا احساس دو اپنی محبت کے حصار میں لے لو مجھے عاعزہ جان....اتنی سنگدل نہ بنو عاعزہ میں زندگی میں قدم قدم پہ تمہاری محبت کا بھوکا ہو مجھے تمہاری طلب ہے عاعزہ...میں تھک گیا ہی اپنوں کے چہروں میں چھپے قاتلوں کے چہرے بے نقاب کرتے کرتے لوگوں کے اتنے چہرے ہے سمجھ نہیں آتا پہلے کون سے والے پے طمانچہ مارے...مجھے صرف تُم سمیٹ سکتی ہو عاعزہ مگر تُم بھی روٹھ گئی ہو مجھ سے...میں تمہارا ہاتھ تھام کر ساری زندگی چلنا چاہتا ہو مگر تُم سے میرا ہاتھ الگ کردیا قاتلوں نے...میرے سارے غم صرف تمہاری محبت دور کرسکتی ہے مگر تُم نہیں....مجھے نہیں لگتا میں تمہاری محبت کے بغیر رہ پاوگا مگر مجھے ہمارے بچوں کے لیے زندہ رہنا ہوگا... جی تو میں تمہارے ساتھ ۳ سال لیا... اب صرف ایک باپ زندہ ہے....

نکاحِ محبتWhere stories live. Discover now