5 مکمل تعرف

213 18 4
                                    

حضرت رابعہ بصریؒ 

تحریر: مسز سونیا نعیم سروری قادری۔ (لاہور)

عشقِ الٰہی عطیہ خداوندی ہے اللہ جسے اس نعمت کے لیے چُن لیتا ہے اسے دوجہاں سے بے نیاز کر کے صرف اپنی محبت کے لئے مخصوص کر لیتا ہے اورعاشق صادق بھی دنیا کی ہر نعمت و آسائش محبوب کی یاد میں قربان کر کے صرف اسی کا ہوجاتا ہے محبوب کی رضا کا حصول ہی اس کا مقصدِ حیات بن جاتا ہے ایسے عاشق ہی عارفِ کامل اور فقیر فنا فی اللہ کے درجات تک پہنچتے ہیں۔ کٹھن ریاضت اور مجاہدے کے بعد عارف باللہ کے مرتبے تک پہنچنے والے ولی اللہ تو بہت ہیں لیکن ولیہ‘ عارفہ کاملہ اور عاشقہ صادقہ جن کا تذکرہ اولیا اللہ نے بھی نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ اپنی کتب میں کیا ہے، صرف مریم ثانی حضرت رابعہ بصریؓہی ہیں ۔ حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ ’’ تذکرۃ اولیا ‘‘ میں آپ ؒ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
’’ حضرت رابعہ بصریؒ ایک پردہ نشین مخدومہ اور خلوص کا پیکر تھیں۔ عشقِ الٰہی کی آگ میں چلنے والی یہ خاتون مریم ثانی تھیں اگر کوئی کہے کہ مردوں کی صف میں ایک عورت کا ذکر کیوں کیا گیا ہے تو میں جواب میں یہ کہوں گا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا فرمان ہے کہ (اللہ) صورتوں پر نہیں بلکہ دلوں اور نیتوں پر نظر رکھتا ہے اور روزِ قیامت حساب کتاب کا نتیجہ نیتوں کے مطابق ہوگا۔ جب اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دین کا دوتہائی حصہ لینا رو ا ہے تو ان کی کنیزوں سے بھی دینی فائدہ حاصل کرنا جائز اور رو ا ہے پھر عورت اگر عبادت و ریاضت کرلے تو اس کو بھی مردوں ہی کی صف میں شامل کیا جائے گا نیز قیامت کے دن جب مردوں کو پکارا جائے گا تو سب سے پہلا قدم حضرت مریم ؑ کا پڑے گا ۔ پھر حضرت رابعہ بصریؒ کا یہ مقام تھا کہ حضرت خواجہ حسن بصری ؒ کی مجلسِ وعظ میں اگر آپؒ نہ ہوتیں تو حضرت خواجہ ؒ وعظ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ حضرت رابعہ بصری ؒ کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ یہ ذکر از روئے توحید کیا گیا ہے اور توحید میں من و شما یعنی میں اور تُو کا امتیاز نہیں ہوتا۔ یوں بھی حضرت رابعہ بصریؒ اپنے زمانہ میں معرفتِ الٰہی میں بے نظیر تھیں اور بزرگوں کی نظر میں اس رتبہ کی اہل بھی‘‘۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فقر میں مرد اور عورت کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں ’’مرد لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل و صورت سے جانیں بلکہ ’’مرد‘‘ ایک شان اور ’’صفت ‘‘ ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے۔ طلب حق تعالیٰ کا راستہ ’’مرد‘‘ ہی اختیار کرتے اور طے کرتے ہیں اس لیے بہت سے مرد عورتیں ہیں اور بہت ہی عورتیں مرد ہیں۔‘‘
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی کا فرمان مبارک ہے:
حدیث کے مطابق ہر طالبِ مولیٰ مرد ہوتا ہے تو اس لئے حضرت رابعہ بصری بھی ایک مرد ہیں۔‘‘

ولادت
حضرت رابعہ بصریؒ کا مقام فقر میں جتنا بلند ہے اسی قدر ان کی زندگی کے حالات و واقعات پردہ اخفا میں ہیں قدیم تذکرہ نگاروں نے آپ کے سنِ پیدائش کا ذکر نہیں کیا البتہ دورِ جدید کے تذکرہ نگاروں نے تحقیق کے بعد آپ کی ولادت باسعادت 95 ہجری یا 99 ہجری پر زور دیا ہے ۔ حضرت رابعہ بصری ؒ کی پیدائش سے پہلے شیخ اسماعیلؒ کے ہاں تین بیٹیاں تھیں چونکہ آپ ان کے بعد پیدا ہوئیں اسی مناسبت سے آپ کا نام رابعہ رکھا گیا ۔ عربی زبان میں رابعہ چوتھی کو کہتے ہیں۔ آپ کے والد اگرچہ دنیاوی مال و دولت سے محروم تھے لیکن قناعت کی دولت سے مالا مال تھے۔ آپ چونکہ خود متقی اور پرہیزگار تھے لہٰذا آپ ؒ کو دنیاوی دولت سے محرومی پر کوئی شکوہ نہ تھا۔ آپؒ پیکرِ تسلیم و رضا تھے ہر حال میں اللہ کے شکر گزار اور توکل و قناعت کی دولت پر خوش ہونے والے او رہر مصیبت کو خاموشی سے برداشت کرنے والے تھے۔
حضرت رابعہ بصریؒ کی ابتدائی زندگی اسرار و معرفت کے عظیم الشان واقعات سے بھر پور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کا بچپن عام بچوں سے مختلف تھا۔ شیخ فریدالدین عطارؒ فرماتے ہیں کہ جس رات حضرت رابعہ بصریؒ پیدا ہوئیں شیخ اسماعیلؒ کے گھر بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں کوئی فالتو کپڑا نہ تھا جو نومولود کو اوڑھایا جاسکے اور نہ رات کے وقت چراغ روشن کرنے کیلئے گھر میں تیل تھا نہ ہی نومولود کی ناف پر لگانے کیلئے تیل کی کوئی بوند موجودتھی ۔ یہ حالتِ زار دیکھ کر حضرت رابعہ بصریؒ کی والدہ ماجدہ نے آپؒ کے والد سے کہا کہ جائیں اور ہمسائے کے گھر سے تھوڑا سا تیل مانگ لائیں تاکہ ایک تو گھر میں روشنی کی جاسکے دوسرا نومولود کی ناف پر تیل لگایا جاسکے۔ آپؒ کے والد نے اس بات کا عہد کر رکھا تھا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے کبھی کچھ نہ مانگیں گے مگر بیوی کے اصرار پر مجبوراً ہمسائے کے گھر گئے ہلکی سی دستک دی ۔ جب کوئی نہ آیا تو واپس لوٹ آئے اور بیوی سے کہا کہ وہ دروازہ نہیں کھولتا۔ اسی بے بسی اور بے کسی کے عالم میں آپ کی آنکھ لگ گئی خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’غمگین نہ ہو یہ ایسی مقبول اور برگزیدہ لڑکی ہے کہ میری اُمت کے ستر ہزار آدمی اس کی شفاعت سے بخشے جائیں گے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا ’’صبح والئ بصرہ عیسیٰ زامنان کو ایک خط بھیجو اور اسے یاد دلاؤ کہ وہ ہر روز مجھ پر ایک سو مرتبہ درودبھیجتا ہے اور جمعہ کی رات کو چار سو باردرود بھیجتا ہے لیکن اس جمعہ کی رات کو وہ درود بھیجنا بھول گیا ہے اس کا کفارہ یہ کہ وہ حلال کمائی میں سے چار سو دینار، اس شخص کو دے جو یہ پیغام تم کو پہنچا رہا ہے۔‘‘
شیخ اسماعیلؒ صبح جب بیدار ہوئے تو آنکھوں سے آنسورواں تھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے مطابق امیرِ بصرہ کے نام ایک خط تحریر کیا ور اللہ کا نام لیکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔دربان کو خط دے کر امیربصرہ کے پاس بھیجا امیر بصرہ نے جوں ہی کاغذ کے ٹکڑے پر نظر ڈالی تو گھبرا کر اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہو ا بولا ’’وہ معزز شخص کہاں ہے اور یہ خط تمہیں دے کر چلا تو نہیں گیا۔ عرض کی گئی نہیں ہم نے اسے محل کے دروازے پر روکا ہوا ہے۔‘‘ کہا چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اسے اعزازو اکرام کے ساتھ اپنے محل میں طلب کرتے لیکن جو پیغام وہ لایا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم خود بنفس نفیس اس کے استقبال کیلئے محل کے دروازے پر حاضر ہوں‘‘ اس وقت امیر ننگے پاؤں تھا اسی حالت میں دروازے کی طرف دوڑ پڑا امیر نے آپؒ کو گلے سے لگایا اور دربار میں لے کر اعلیٰ مسند پر بٹھایا ۔ پھر آپؒ کی خدمت میں چار سو دینار پیش کئے اور اپنی خطا پر سخت نادم بھی ہوا اور اشکبار بھی اور دل کے کسی کونے میں خوشی بھی ہوئی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی بہانے مجھے پیغام کے لائق تو سمجھا او ر اسی نسبت سے ایک غریب کی کچھ مدد بھی ہوگئی۔ امیرِ بصرہ نے آپؒ سے کہا ’’آج سے میں آپ کے لئے امیرِ بصرہ نہیں بلکہ آپ کا خادم ہوں آج کے بعد آپ کا جب جی چاہے میرے پاس تشریف لے آنا۔‘‘ یہ حضرت رابعہ بصریؒ کی پہلی برکت تھی۔ جسے بوقتِ ولادت ہی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سرا ہیں اس کی عظمت و جلالت کی بلندیوں تک طائر تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔

 (Rabia Al Basri)رابیعہ البصری Where stories live. Discover now