قسط 7

2K 82 77
                                    

"راج یہ تمھاری موم جو کہہ رہی ہے کیا وہ سچ ہے؟" مسٹر سنہا ہال میں نیت کے ستھ صوفے پر بیٹھے تھے سامنے راج پانی نظریں جھکائے کھڑا تھا.
"ہاں ڈیڈ...اس کی وجہ ایک لڑکی ہے اور وہ مسلم ہے.....i love her dad....اس لئے میں نے اسلام قبول کیا ہے مجھے اپنے ڈیسیشن پر کوئ بات نہیں کہنا... میں جانتا ہوں میں صحیح ہوں آپ بس میری بات مان لیں" راج نے بنا نظریں اٹھائے اپنی بات کہہ دیں یہ دیکھے بنا کے اسکے موم ڈیڈ ک کی ریکٹ ہے.
"سب کچھ تم نے خود ڈیسائڈ کر ہی لیا ہے تو پھر ہم تم سے بات کرکے اپنا ٹائم کیوں ویسٹ کریں" مسٹر سنہا غصے میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ساتھ ہی نیتا بھی کھڑی ہوئ جو اس وقت رو رہی تھی. "میرے گھر میں میرے اور میری وائف کے علاوہ اور کسی کے لئے جگہ نہیں ہے.....نکل کا میرے گھر سے" مسٹر سنہا کی آواز سے سارا گھر گنج رہا تھا. "اکاش..." نیتا کہنا چا رہی تھی لیکن مسٹر سنہا نے ہاتھ بڑھا کر اسے روک دیا. " میں نہیں رہ سکتی اپنے بیٹے کے بغیر.."نیتا کی بات پر مسٹر سنہا مسکرائے، " تمھارے بیٹے نے جو راستہ چنا ہے وہ اسے ہمارے ساتھ کبھی رہنے نہیں دیگا... اور نا ہی میں اسے اب اس گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں... نیتا اور مسٹر سنہا کے درمیان بہس شروع ہوگئ. نیتا روتے ہوئے کہہ رہی تھی تو مسٹر سنہا غصے میں زور زور سے کہہ رہے تھے راج جانتا تھا یہ سب کوگا لیکن اتنی جلدی یہ نہیں جانتا تھا.. بہس کے درمیان مسٹر سنہا غصے میں راج کی جانب بڑھے. اس کا ہاتھ پکڑ کر لاون میں لیں آئے... راج گھبرایا ہوا مسٹر سنہا کو دیکھنے لگا..."نکل جاؤ میرے گھر سے اب کوئ ہمار بیٹ نہیں مرچکے ہو تم ہمارے لئے..." مسٹر سنہا کہتے ہوئے نیتا کی جانب پلٹے..کہ راج نے ان کا ہاتھ تھام لیا...
" ڈیڈ پلیز آپ مجھے اتنی بڑی مشکل میں نا ڈالے میں آپ کے اور موم کے بغیر کیسے رہ سکتا ہوں آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں." راج کی بات پر مسٹر سنہا نے اس کا ہاتھ کھٹک دیا اور نیتا کو لیئے اندر چلے گئے...نیتا جاتے جاتے راج کا چہرہ دیکھتی رہی آخر اکلوتے بیٹے کی جدائی وہ کیسے سہتی راج بھی اب روتے ہوئے اس کے ڈیڈ کو پکار رہا تھا. اس کا اپن گھر اب اس ک نہیں رہا...وہ بند دروازے کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور بچوں کج طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا وہ پانے ماں باپ کا لاڈلا بیٹا تھا اسے یقین تھا کہ اس کے پیرینٹس اس کا ساتھ دیں گے یا کچھ وقت لگے گا لیکن اسے اس طرح گھر سے بے دخل کر دیا جائے گا اس نگ سوچا نہیں تھا....... آج کی رات اس کے لئے آسان نہیں تھی اپنوں کا ساتھ چھٹنا نئے راستے پر چلنا وہ اپنے ہی خیالات میں اسی گھر کے دروازے میں ساری رات بیٹھا رہا....راج نے اتنی تنہائ کبھی محسوس نہیں کیں...اسے دانیال کے کہے گئے لفظ یاد آئے.........
"مکے میں ایک امیر ترین خاتون ہے جس کے بیٹے کا نام معصب ہے اور وہ اپنے بیٹے کو اتنا خوبصورت لباس پہناتی ہے اور اتنی خوبصورت خوشبو اور عطر اس کو لگاتی ہے کہ معصب بن عمیر جن گلیوں سے گزرتے تھے دیر تک وہ گلیاں مہکتی رہتی تھی لوگ کہتے تھے یہاں سے معصب گزر کے گیا ہوگا اس لئے یہ گلیاں مہک رہی ہے اچھا پھر معصب کی نظر پڑتی ہے میرے محمد نبی پر اور معصب میرے حضور کے زلفوں کا اسیر ہو جاتا ہے ماں کافرہ ہے جب پتا چلتا ہے تو اس کا لباس بھی چھین لیتی ہے سہولتیں اور آسودگیا بھی واپس لے لیتی ہے پھر وہ وقت بھی آیا جب معصب بن عمیر حبشہ کی جانب ہجرت کرجاتے ہے مکے کے حالات کچھ بہتر نظر آئے تو وہ حبشہ سے واپس مکہ پلٹے ان کے بدن پر جو چادر تھی وہ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئ تھی میرے آقا کریم علیہ سلام نے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسوں ٹپکنے لگے کہا یہ وہی معصب ہے جو اتنا خوش پوش اور جوان تھا کہ میں نے پورے مکے میں اس سے زیادہ خوبصورت لباس پہننے والا نہیں دیکھا اور آج میرے معصب کو پہننے کے لئے جو چادر میسر ہے وہ بھی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئ ہے یہ اسلام کے غربت کی کہانی ہے......" اس کی سماعتوں میں یہ کہی گئ بات نے دل میں ایک اطمینان پیدا کردیا اس نے بیٹھے بیٹھے آسمان کی جانب دیکھا.....چاند پورا تھا فلک پہ اس کے دل میں ایمان کا چراغ بھی اب پورا جل چکا تھا.....!!!!!!

****************
رات کے اس پہر میں اس کی انکھ کھولیں، اس نے آنکھوں کو مسلتے ہوئے اس اندھیرے میں گھڑی کی جانب وقت دیکھنے کی کوشش کیں. اسے دیکھائ نہیں دیا لیکن وہ جانتی تھی روز کے معمول کے مطابق اس کی آنکھ تحجد کے وقت کھولیں ہے. اس نے اپنے بال چوٹی کی شکل میں سمیٹے اپنا دوپٹا لیے واش میں چلی گئ. باہر آئ تو چہرہ باوضو تھا. جائے نماز بچھا کر اس نے تہجد کی نماز ادا کیں. دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے سب کے لئے اس کے لبوں پر دعائیں تھی لیکن اس نے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا ہاتھوں کو چہرے پر پھیر کر اٹھ کھڑی ہوئی. فجر کی اذان کو وقت تھا اس لئے وہ قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگی. تہجد کا وقت ہے کمرے میں خاموشی دل میں سکون لبوں پر قرآن کی تلاوت وہ وقت بھی ایک خوبصورت احساس دلاتا ہے جب بندہ اپنے رب کی بندگی میں اپنے آپ کو بھلا دیتا ہیں..... کچھ وقت بعد کھڑکی کے باہر کی فضاؤں میں فجر کی اذان راحت دیں رہی تھی. اس نے قران کریم رکھا اور جائے نماز پر فجر کی نماز ادا کرنے کھڑی ہوگئ.

******************

سفید خوشنما رنگ کی وہ مسجد اس علاقے کی رونق تھیں. اللّٰہ کے اس گھر کو وہاں کے لوگوں نے بہت ہی خوبصورتی سے بنایا تھا. سرد ہوائوں کا رُخ اسی مسجد کی جانب تھا رات کا وہ پہر تھا کہ ہر طرف خاموشی تھی. مسجد کے ایک کنارے پر ایک جوان لڑکا سویا ہوا تھا تہجد کے اس پہر میں اس کی آنکھ کھولی اس نے اپنا بستر سمیٹا ایک طرف رکھا۔۔۔اٹھ کر وضو کیا چہرے پر موجود دھاڑی کے بال وضو کے پاک پانی سے تر تھے سر پر ٹوپی کرتا پیجاما پہنا ہوا وہ لڑکا مسجد کے مرکزی دروازے پر آیا اور دروازہ کھول دیا. اور خود ایک طرف جاکر تہجد کی نماز ادا کی۔۔کچھ وقت بعد فجر کی اذان ہوئ ایک ایک کرکے سب مرد اس مسجد میں داخل ہورہے تھے....امام صاحب کے پیچھے سبھی مرد صف باندھے اللّٰہ کے حضور کھڑے ہوگئے....... وہ شخص بھی پہلی صف میں موجود تھا فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو لب سے بس ایک دعا نکلی....... اللّٰہ مجھ سے راضی ہوجا....اس نے دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا.. اٹھ کر ایک جانب آگیا.... قرآن کی تلاوت کرنے لگا......تلاوت ختم ہوئ تو وہ اسی طرح بیٹھا ہوا تھا...مسلسل قرآن کو دیکھنے لگا....ایک وہی کتاب ہے جس سے رب اپنے بندوں سے مخاطب ہوتا ہوتا ہے....
"عمیر.." امام صاحب نے پیچھے سے آواز دیں...تو اس شخص نے پلٹ کر دیکھا..........
(جاری ہے)

دافع الحیاۃNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ