قسط نمبر 1

1K 36 20
                                    

" In the Blur of the photograph time leaves its gleaming snail-like track"
                                        ( Wright Morris)

ڈھلتا سورج اور برستے بادلوں کی دہشت پاس ہی ایک دو سالہ بچی کی دل خراشتہ آواز ایک قریب ہی گھر سے آرہی تھی۔ اتنے میں ایک رولیکس دروازے پر آکر رکی اور ایک وجیہہ ادھیڑ عمر آدمی گاڑی سے اترا نہایت ہی قیمتی لباس میں انگلیوں میں قیمتی نگینے کی انگوٹھیاں پہنے وہ سیدھا گھر کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھلتے ہی آواز اور تیز ہوگئی۔ وہ کمرے کی جانب بڑھا - اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ پورے کمرے کی حالت ابتر تھی، فرش پر ہر طرف چیزیں بکھری ہوئی تھیں اور خون پھیلا ہوا تھا۔ سامنے ہی ایک عورت فرش پر مردہ پڑی ہوئی تھی جس کی آغوش میں ایک بچی بلک رہی تھی۔ سرخ سپید رنگت، بھورے گھنگھریالے بال، بڑی بڑی آنکھیں جن پر لمبی گھنی پلکیں جو معصوم چہرے کو نہایت حسین بنا رہی تھی۔ دو سال کی وہ ننھی گڑیا اپنی ماں سے لپٹی ہوئی تھی۔ نووارد آدمی جلدی سے اس بچی کی طرف بڑھا اور اسے گود میں اٹھا کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا، یوں تھوڑی دیر میں رولیکس فراٹے بھرتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر کے پوش علاقے میں واقع ایک خوبصورت بنگلہ تھا۔ آج یہاں جشن کا سماں تھا۔ کیونکہ اتنے سالوں بعد آج داریان احمد مصطفیٰ انگلینڈ سے گھر واپس آرہا تھا ۔ وہ آکسفرڈ سے اپنی کریمینولوگی کی تعلیم مکمل کرنے اینگلینڈ گیا تھا۔ داریان ۳۵-۳۰ سال کا خوش شکل نوجوان تھا ۔ سفید رنگت، چہرے پر کھڑی مغرور ناک، اور گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی آنکھیں جو اس کی ذہانت کا پتہ دیتی تھیں۔ یوں کہنا بہتر ہاگا کہ وہ ایک آئیڈیل قسم کا نوجوان تھا۔ احمد مصطفیٰ اس کو لینے کے لئے ائیرپورٹ آئے تھے۔ وہ خاندانی آدمی تھے اور اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتے تھے۔ گھر پہنچتے ہی سب نے داریان کا جوش و خروش سے استقبال کیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب لوگ کھانے کی میز پر براجمان تھے آخر اتنے سالوں بعد سب اکھٹے بیٹھے کھانا جو کھا رہے تھے۔

"تو پھر آگے کا کیا سوچا؟"

احمد مصطفیٰ نے داریان سے سوال کیا

"!بس کل سے انٹیلیجینس جوائن کرنی ہے بابا "

داریان لقمہ لیتا ہوا بولا

"اتنی جلدی کیوں؟"

بی جان (داریان کی والدہ ) نے سوال کیا

بی جان یہ تو میری ڈیوٹی ہے " وہ معصومیت سے بولا "

پھر سب کھانا ختم کر کے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اور داریان اگلے دن کی تیارے کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن سیکرٹ سروس کے دفتر میں تمام افسران موجود تھے اور میٹینگ ڈی-آئی-جی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھی۔ "جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ آئے دن اسمگلنگ کے کیسس سامنے آتے رہے ہیں اور ہم دشمن کو بھی اس کے انجام تک پہنچاتے رہے ہیں۔ مگر اس مرتبہ ہمارا مقابلہ ایک انتہائی چالاک مجرم سے پڑا ہے اور اس وقت حالات پہلے سے مختلف ہیں"

دی-آئی-گی بولے

"اس کیس کے لئیے ہمیں گرین فائل کھولنی ہوگی"

آئی-جی نے کہا

"ہمممممممم، جانتا ہوں، فائل کے مطابق آخری اسمگلنگ "مارسیل" میں کی گئی ہے اور یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے"

دی-آئی-جی نے کہا اور سب کے چہروں کا بغور جائیزہ لینے لگے پھر داریان کو مخاطب کر کے بولے

"انسپکٹر داریان آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟"

سب لوگوں کی نظریں داریان پر مرکوز ہو گئیں

"جہاں تک میں نے اس کیس کو اسٹڈی کیا ہے تو اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ قتل اور دو سال کی بچی کا اغواء بھی ہوا تھا"

داریان پرتشویش انداز میں بولا

"ٹھیک کہا آپ نے"

ڈی-آئی-جی تحسین آمیز لہجے میں بولے

"نئی اطلاعات کے مطابق اسمگلر جنوبی ایشیاء میں موجود ہے اور یقیناََ کوئی خفیہ منصوبہ بنا رہا ہے اس لئیے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے "

آئی-جی بولے

" مہم کا آغاز وادی کلثوم سے ہوگا "

ڈی-آئی-جی نے کہا اور پھر داریان کی طرف دیکھ کر بولے

"میں اس کیس کا چارج انسپکٹر داریان کو دیتا ہوں"

یہ سن کر وہاں موجود تمام سینئیر آفسران کباب ہوگئے۔

---------------------------------------

CONTINUE---------

GOOD READS😊

ENJOY THE EPISODE 💜💜

مہمل (Complete)Where stories live. Discover now