قسط نمبر 2

345 28 0
                                    

سیاہ گھنگھریالے بال، دودھ سی دھلی رنگت اوربڑی بڑی سیاہ کانچ سی آنکھیں جو اس کے عزم کا پتہ دیتی تھیں۔ جینز جیکٹ میں ملبوس وہ ائیرپورٹ پر کھڑی کسی کا انتظار کر رہی تھی - اتنے میں ایک گاڑی اس کے سامنے اکر رکی - ایک بوڑھا وجیہہ شخص گاڑی سے اترا- لڑکی اسے دیکھتے ہی خوشی سے اس کی طرف لپکی

"پاپا کیسے ہیں آپ، you know I missed you alot"

وہ چہکی

"اچھا اچھا ابیر اب ساری باتیں کیا یہیں کھڑے کھڑے کرو گی well I am also fine and missed you too"

بحرام صاحب شفقت بھرے لہجے میں بولے پھر وہ لوگ گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

--------------------------------------

(داریان اپنے آفس میں وادیِ کلثوم جانے کی تیارے کر رہا تھا۔ جب انسپکٹر آصف (محکمے کے سینئیر آفسر

کمرے میں داخل ہوئے

" سنا ہے کیس کا چارج تمھیں دیا گیا ہے"

وہ طنزیہ لہجے میں بولے- داریان نے ان کے طنزیہ لہجے کو محسوس کیا لیکن ان کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے خاموش رہنا بہتر سمجھا- جب انسپکٹر آصف نے اس کا جواب نہیں پایا تو بھنا گیا

"ویسے اتنا غرور بھی اچھا نہیں، ابھی نئے نئے ہو نا لڑکے تھوڑے دنوں میں سارا غرور ہوا ہو جائے گا"

-آصف نے مزید کہنا اپنا فرض سمجھا - مگر اب داریان کو آصف کی بکواس کھلنے لگی تھی

آپ سے کس نے کہا کہ میں مغرور ہوں؟" وہ بولا"

"آپ کی ناک نے"

سارجنٹ حادی نے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا لیکن پھر اپنے کہے پر گڑبڑا گیا- داریان نے اسے گھور کر دیکھا

وہ-----! انسپکٹر آصف آپ کو بلایا ہے باہر" سارجنٹ حادی نے کہا اور آصف گردن اکڑاتا ہوا باہرچلا گیا"

انسپکٹر صاحب آپ ان بوڑھے چچا (انسپکٹر آصف) کی بات پر دیہان مت دیا کریں محکمے میں سب جانتے ہیں کے یہ خبطی "ہیں بہت جلد ریٹائیرڈ ہو جائیں گے

"بری بات حادی جو بھی ہو وہ ہمارے بڑے ہیں تم کب بڑوں کا لحاظ کرنا سیکھو گے"

داریان نے اسے نصیحت کی

سارجنٹ حادی ایک خوش شکل اور قبول صورت نوجوان تھا- اس کی شرارتی آنکھیں اس کی چُلبلی شخصیت کی عکاسی کرتی تھیں- وہ 24 سال کا تھا اور حال ہی میں محکمے میں آیا تھا-اور انسپکٹر داریان کا اسسٹنٹ تھا- وہ داریان کو اپنا بڑا بھائی مانتا تھا، انسپکٹر داریان بھی اسے چھوٹے بھائیوں کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔

-------------------------------------------

بحرام خان کا شمار ملک کی بڑی شخصیات میں سے ہوتا تھا اور سوسائیٹی میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا- ابیر ہاشم ان کی لے پالک بیٹی تھی اور وہ اس پر جان چھڑکتے تھے- ابیر کے والدین کو اس کے بچپن ہی میں کسی نے قتل کر دیا تھا اور بحرام اس کو اپنے ساتھ لے آئے تھے- انہیں ابیر سے بہت انسیت تھی وہ اس کی ہر خواہش پوری کرتے، یوں کہنا -چاہیے کہ انہوں نے کبھی ابیر کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ اس کے والدین نہیں ہیں

کافی دنوں تک ابیر کے واپس آنے کی خوشی میں جشن برپا رہا- اور ابیر اتنے فنکشن اٹینڈ کر کے تھک چکی تھی-

---------------------------------------------------

سارجنٹ حادی آفس میں داخل ہوا اور داریان کے قریب کھڑا ہو کر دیکھنے لگا جو کے اپنے کام میں منحمک تھا- جب وہ مستقل اسے گھورتا رہا تو داریان نے سر اٹھا کر دیکھا اور اسے اپنے قریب ہونے کا اشارہ کیا جیسے ہی حادی کا چہرہ قریب ہوا داریان کا ہاتھ اس کے کان کی طرف اٹھا-

"آآآآآآئییییییییی مااااااں--------! کان تو چھوڑیں میرا، آپ کی طرح لوہے کا تھوڑی نہ بنا ہوا ہے"

حادی تڑپ کر چیخا

"یہ کیا بیہودگی تھی، کیوں گھور رہے تھے؟"

"آپ کو گھورنا منع ہے کیا!!!!"

"تو کیا میں تمہاری محبوبہ ہوں"

اچھا نہ کان تو چھوڑیں میرا" اور حادی اپنا کان سہلانے لگا"

"ویسے یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ بہت ظالم ہیں آپ"

"جلدی بکو جو کہنے آئے تھے"

اور سارجنت حادی نے ایک فائل داریان کے ہاتھ میں تھما دی فائل پڑھتے وقت داریان کے چہرے کے تاثرات بدلتے جارہے تھے

"جلدی چلو"

داریان نے مختصراََ کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا

"آخر ایسا کیا تھا فائل میں؟"

حادی بڑبڑایا اور وہ بھی داریان کے پیچھے باہر نکلا-

---------------------------------------------

CONTINUE___________

GOOD READS😊

ENJOY THE EPISODE💜💜

مہمل (Complete)Where stories live. Discover now