قسط نمبر 1

8.2K 182 12
                                    

غربت کیا ہوتی ہے یہ اس سے بہتر اور کون جان سکتا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد صیح معنوں میں وہ غربت کا منہ دیکھ چکی تھی۔ بچپن سے لے کر آج تک چھوٹی چھوٹی خواہشیں دل میں دباتے گزار دی تھیں لیکن ہمت اور صبر کبھی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے گزرے ہوئے ماہ و سال کو سوچ رہی تھی۔ کمرے کی بتی بند تھی اور وہ اپنے بیڈ کے ساتھ قالین پر کتاب لے کر بیٹھی مطالعے میں مصروف تھی کہ اسی اثنا میں وہ ماضی کی یادوں میں چلی گئی اور اپنی زندگی کب اس کی آنکھوں اور خیالوں میں گھومنے لگی اسے اندازہ نہیں ہوا۔
ا

نشراح دارس اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ بچپن میں باپ دارس احمد کے انتقال کے بعد چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے لیے ترسی تھی۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا گلا دباتی آ رہی تھی لیکن آفرین تھی اس کی ہمت پر کہ کبھی حرفِ شکایت تک زبان پر نہیں لائی تھی اور ہمیشہ ہر حال میں خوش اور مطمئن ہی رہی۔ غریب ضرور تھی پر ذہین بھی بلا کی تھی۔ اپنی ذہانت کے بل پر غربت کو مات دیتی آ رہی تھی۔ فجر کی اذان باہر شروع ہو چکی تھی، کمرے میں اندھیرا تھا۔ اس نے کتاب بند کی اور الماری میں رکھ دی اور خود اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی وضو کر کے کمرے میں ہی ایک طرف جائے نماز بچھا کر نماز ادا کی۔

*************************
نائلہ بیگم کچن میں گھسی خانسامے کو کھانے کے لوازمات کی ہدایت دے کر ابھی باہر ہی نکلی تھیں کہ منان صاحب سیڑھیوں سے آتے دکھائی دیے اور آ کر نائلہ بیگم کے پاس کھڑے ہو گئے۔
" بیگم! آپ کے صاحبزادے اٹھے نہیں ابھی تک؟"منان صاحب نے ان کے قریب کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو انہوں نے منہ بنا کر ان کی جانب دیکھا۔
" کیا منان صاحب آپ بھی ہر وقت میرے بچوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ پتہ تو ہے آپ کو زمریز کے کل ہی پیپر ختم ہوئے ہیں اور یاور تو ویسے ہی میرا ابھی چھوٹا ہے۔ اس کے تو ابھی کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔"
نائلہ بیگم فوری سے بیشتر اپنے بچوں کی حمایت میں بولی تھیں۔
" ہاں جی بیگم !بالکل آپ کی ہی شے پر بچے اتنے بگڑے ہوئے ہیں۔"
منان صاحب نے اپنا ازلی کہا ہوا جملہ دہرایا تھا۔ ابھی وہ یہ سب نائلہ بیگم کو سنا ہی رہے تھے کہ پیچھے سیڑھیوں سے زروا نیند میں آتی دکھائی دی۔ ٹی شرٹ اور ٹراوزر میں ملبوس بالوں کو ہلکے جوڑے میں باندھے ہوئے وہ انتہائی سست لگ رہی تھی۔
"" گڈ مارنگ ڈیڈ، گڈ مارننگ مام! "
زروا نے سستی سے ان دونوں کو سلام کیا تھا۔
"گڈ مارنگ بیٹا! اٹھ گئی ہو ؟ "
منان صاحب کا بیٹی کے لیے لاڈ قابلِ دید تھا۔
"جی ڈیڈ ! " آ کر اس نے منان صاحب کے گرد بازو حائل کر دیے۔ انہوں نے اس کا ماتھا چوما اور اسے ڈھیر سارا پیار کیا۔
"جاؤ بیٹا جا کر اپنے بھائیوں کو بھی اٹھاؤ پھر ناشتہ اکٹھے کرتے ہیں۔ "
منان صاحب نے اسے اگلا حکم جاری کیا اور خود نائلہ بیگم کی جانب متوجہ ہوگئے۔
"جی ڈیڈ!" یہ کہہ کر وہ اوپر کی جانب چل پڑی اور نائلہ بیگم واپس کچن میں چلی گئیں۔
"اچھا نائلہ بیگم سنیں ؟ " کچھ یاد آنے پر منان صاحب نے پلٹ کر نائلہ بیگم. کو مخاطب کیا۔
" جی !"
نائلہ بیگم پوری کی پوری ان کی جانب متوجہ ہوئی تھیں۔
" ابھی تک آصفہ اور انعام نہیں آئے ؟ اور نہ ہی دونوں بچے نظر آ رہے ہیں ؟"
منان صاحب نے ان سے پوچھا تو وہ مسکرائیں۔
" آ جائیں گے، میں نے اٹھا دیا ہے۔ اب آپ جائیں اور بے فکر ہو کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھیں، کلثوم ناشتہ لگا رہی ہے۔"
نائلہ بیگم نے بامشکل انہیں ڈائینگ ٹیبل پر بیجھا تھا۔
*******************
'بھائی ! اٹھیں ڈیڈ آپ کو ناشتے پر بلا رہے ہیں۔"
یہ کوئی دس منٹ سے وہ زمریز کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ گھوڑے بیچ کر سویا ہوا تھا۔ ایک ترکیب اس کے دماغ میں آئی اور وہ واش روم کی جانب بڑھ گئی۔ ٹھنڈے پانی کا گلاس بھر کر لائی اور اس کے منہ پر انڈیل دیا۔
" یار زروا !کیا بد تمیزی ہے، تمہیں تمیز نہیں ہے کہ بڑے بھائی کے اوپر پانی کا گلاس انڈیل دیا تم نے۔ انتہائی اِل مینرڈ ہو گئی ہو تم ! "
وہ آدھی کھلی آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"سوری بھائی! پچھلے دس منٹ سے میں ڈھول پیٹ رہی تھی لیکن آپ کی آنکھ کھلنے کا نام تک نہیں لے رہی تھی سو مجبوراََ یہ کرنا پڑا۔ اب آپ جلدی سے آ جائیں، سب ناشتے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔"
اس نے عجلت میں اسے جگایا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے تم چلو میں فریش ہو کر آتا ہوں۔ "
زمریز نے بستر چھوڑتے ہوئے کہا تھا۔
"او کے میں یاور کو بھی اٹھاتی ہوں۔"
وہ کہتی ہوئی یاور کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
"یاور! اٹھو ڈیڈ بلا رہے ہیں ناشتے پر !۔ اس نے یاور کا کمفٹر کھینچتے ہوئے کہا تو یاور نے برا سا منہ بنایا۔
"کیا مصیبت ہے، چھٹی کے دن بھی کوئی سونے نہیں دیتا۔ " یاور کی نقاہت زدہ آواز آئی تو زروا نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔
"بس کر دو اتنا تو سو لیا ہے تم نے، اور کتنا سونا ہے۔ اور تمہیں پتہ ہے آج ڈیڈ کوئی اہم اعلان بھی کرنے والے ہیں۔" زروا نے بڑے مزے سے صبح صبح سوئے ہوئے یاور پر بم پھوڑا تھا۔
" کیا ؟ کیسا اعلان ؟ ڈیڈ کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی دھماکہ کر رہے ہوتے ہیں۔ " زروا کی چٹ پٹی خبر پر یاور کی پوری آنکھیں لمہوں میں کھلی تھیں۔
"پتہ نہیں خود دیکھ لینا آ کر۔ "
وہ کہہ کر اس کے کمرے سے نکل گئی اور وہ سوچتا رہ گیا کہ آخر ایسی بھی کیا بات ہے جس کو کرنے کے لیے ڈیڈ کو سپیشل اعلان کرنا پڑے گا۔
*********************
نائلہ بیگم اور آصفہ بیگم نے مل کر سارا ناشتہ لگایا تو منان اور انعام صاحب بھی تشریف لے آئے۔
فرزان رضا، انعام رضا اور منان رضا تین بھائی تھے اور ان کی آپس میں بے انتہا محبت تھی مگر اس گھر میں دو بھائی اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔
منان صاحب کے تین بچے زمریز، یاور اور زروا تھے جبکہ انعام صاحب کے دو بچے ارمغان اور زائیشہ تھے، ان سب میں بڑوں کی طرح بہت پیار تھا۔
ڈائننگ ٹیبل پر منان صاحب کا خاندان چھٹی کے روز ناشتے کے لیے جمع تھا۔ منان صاحب ہیڈ آف دی فیملی کی کرسی پر بڑے بھائی کی حیثیت سے براجمان تھے اور ان کے بالکل سامنے والی کرسی پر انعام صاحب بیٹھے تھے۔ بچے بھی فریش ہو کر آ چکے تھے۔ سب ناشتے کے لوازمات سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک منان صاحب کی بھاری آواز سماعتوں سے ٹکرائی
" زمریز بیٹا ! " انہوں نے ناشتہ کرتے زمریز کو مخاطب کیا۔
"یس ڈید ! " وہ بھی مکمل طور پر ان کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
"کل تمہارا آخری پیپر تھا، کیسا ہوا ؟" انہوں نے پراٹھے کا نوالہ توڑتے ہوئے پوچھا تھا۔
" الحمد للہ بہت اچھا ہوا تھا۔ " اس نے مکمل اعتماد کے ساتھ کہا تو منان صاحب مسکرائے۔
" دیکھو بیٹا ایم-بی-اے تمہارا ہو گیا ہے اب اس کا کچھ فائدہ مجھے اور اپنے چچا کو بھی دو، ہمارے ساتھ بزنس جوائن کر کے۔" وہ مکمل طور پر اس کی جانب ہی دیکھ رہے تھے۔
" جی ڈیڈ، یہی سوچ رہا ہوں۔ انشاء اللہ کل سے آنا شروع کر دوں گا۔" اس نے مسکراتے ہوئے ان کی بات کی تائید کی تھی۔
" گڈ، شاباش، تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔" انہوں نے اس کی سنجیدگی کو سراہا تھا تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر سے گویا ہوئے تھے۔
" اچھا اور اس کے ساتھ ہمیں تم لوگوں سے ایک اور بہت اہم بات کرنی ہے۔" ان کی بات کے بعد چند لمہوں کے لیے اطراف میں خاموشی چھا گئی تھی سب ان کی طرف انتہائی غور سے دیکھ رہے تھے۔
"بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے بہت پہلے ایک فیصلہ کیا تھا۔ چونکہ ابھی اس فیصلے کو سنانے کا وقت نہیں آیا تھا اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا لیکن اب جبکہ زمریز شادی سے صاف انکار کرچکا ہے تو ہم بھی کچھ نہیں کرسکتے ہم اس کے آگے ہار گئے ہیں ، پر یہ کسی طور بھی راضی نہیں ہے تو یہ انکشاف اب ضروری ہے کہ زمریز تم سب میں سے بڑا ہے اس لیے اس کے جوڑ کا رشتہ ہمارے خاندان میں نہیں ہے لیکن کچھ رشتے ہم نے آپس میں بہت محبت سے طے کیے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ تم لوگ ہماری محبت کی لاج رکھو گے۔"
بولتے ہوئے وہ لحظہ بھر کو سانس لینے کے لیے رکے تھے اور پھر سے گویا ہوئے تھے۔
" زروا اور زائیشہ پکی سہیلیاں ہیں اور ہمیشہ ساتھ ساتھ رہی ہیں تو ہم نے انہیں ہمیشہ ساتھ رکھنے کا بندوبست کر لیا ہے۔" اپنی بات ۔مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے اطراف میں نگاہیں دوڑائی تھیں۔
" کیا مطلب ڈیڈ ؟" زروا متجسس ہو کر سن رہی تھی۔
"بیٹا مطلب یہ کہ ہم نے تمہارا رشتہ ارمغان کے ساتھ اور زائیشہ کا رشتہ یاور کے ساتھ طے کر دیا ہے۔" اس کا منہ کی طرف جاتا ہوا ہاتھ فضا میں ہی ساکن ہوگیا تھا۔
" دیکھو بچو! یہ آپ کی زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہے اس میں ہم اپنی مرضی مسلط نہیں کرنا چاہتے اس لیے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں اور پھر ہمیں اپنا فیصلہ سنائیں۔" انہوں نے اپنی بات کے اختتام میں فیصلے کا اختیار بچوں کو سونپ دیا تھا گو کہ وہ کسی طور بھی اپنی مرضی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس بات کے بعد ناشتے کا ہوش کسے تھا سب دم بخود بیٹھے منان صاحب کی شکل دیکھ رہے تھے لیکن وہ اپنی بات ختم کر کے جا چکے تھے۔ ان کے جانے کے بعد دھیرے دھیرے میز خالی ہوگیا تھا۔

Dil Dharakney tak completed✔Where stories live. Discover now