قسط نمبر 4

646 39 0
                                    

کپڑوں کی پیکنگ کے بعد وہ فریش ہونے واشروم کی جانب بڑھ گیا۔ نیچے ڈائینگ ٹیبل پر کھانا لگ چکا تھا۔وہ تیزی سے اپنے سارے کام نمٹا کر کھانے کی میز پر آیا تھا جہاں تقریباً سب لوگ شاید اسی کے منتظر تھے۔ وہ فوری اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھا اور کھانے کی جانب متوجہ ہوگیا۔

"بیٹا!جانے کی تیاری ہوگئی ہے؟"

منان صاحب نے روٹی کا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا تو وہ ان کی جانب متوجہ ہوگیا۔

"جی ڈیڈ! تقریباً ساری ہی تیاری ہوگئی ہے۔ آج رات کی فلائیٹ ہے۔"

اس نے اپنے لئے پلیٹ میں ذرا سے چاول نکالتے ہوئے انہیں اپنے جانے کی بابت بتایا تو وہ مطمئن ہوکر کھانے کی جانب متوجہ ہوگئے مگر معاب اور معروش کو اس کے جانے کی بات کچھ خاص پسند نہیں آئی تھی۔

" یہ کیا بات ہوئی بھیو! ہم ابھی کہیں گھومے بھی نہیں اور آپ کام کے سلسلے میں کہیں جا بھی رہے ہیں۔"

معروش نے بُرا سا منہ بنا کر کہا تو اسے ہنسی آگئی۔

"ضروری کام ہے نا جب واپس آجاؤں گا تو پھر سب کہیں پیکنک کا پروگرام بنائیں گے۔"

ایک نرم نگاہ اس کی جانب ڈالتے زمریز نے کہا تو معروش مطمئن ہوگئی۔ جبکہ پیکنک کے نام پر یاور کو تو بے چینی ہی لگ گئی۔

"ہاں بھائی! ویسے بھی میں اور ارمغان بھی کافی عرصے سے کہیں گھومنے نہیں گئے۔"

وہ اپنی ہر بات میں ارمغان بیچارے کو لازمی گھسیٹتا تھا۔ ارمغان یاور کے مقابلے میں خاصی سنجیدہ طبعیت کا مالک تھا۔ اسی لئے یاور کی اس بے تکی بات پر اس نے یاور کو ایک خاطر خواہ گھوری سے نوازا تھا۔

"اپنی بات کرو تم ہر معاملے میں مجھے کیوں گھسیٹ لیتے ہو۔"

ارمغان نے اسے خشمگین نظروں سے گھورتے ہوئے کہا تو وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس دیا۔ زمریز کھانا ختم کرکے کرسی گھسیٹ کر اٹھ چکا تھا۔ اسے اپنے جانے کے انتظامات دیکھنے تھے۔ 

               **********************

گاڑی وسیع و عریض عمارت کے باہر رکی تو انشراح جھجھکتی ہوئی گاڑی سے باہر نکلی۔ اس کے ساتھ آئی ہوئی خاتون بھی اس کے ہم قدم ہی تھیں۔ وہ آہستگی سے قدم آگے بڑھا رہی تھی۔ بے ساختہ اس نے قریب لگا ہوا نیم بورڈ پڑا تھا اور نام پڑھتے ہی جیسے اس کے دل کی دنیا ہل گئی تھی۔ پیروں تلے زمین کس طرح سرکتی ہے یہ احساس اسے آج ہوا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لئے لڑکھڑائی تھی مگر مقابل عورت نے اسے بازو سے تھام کر سہارا دے کر سنبھال لیا تھا۔ دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔ تمام کے تمام اعصاب جواب دے چکے تھے۔ وہ بولنا چاہتی تھی مگر آواز گلے میں ہی کہیں گھٹ گئی تھی۔

"ام۔۔امی یہا۔۔یہاں ہیں؟"

بامشکل ان کی جانب دیکھتی وہ اپنا جملہ مکمل کرپائی تھی۔ مقابل عورت نے اسے سہارا دیا اور بیرونی عمارت کے اندر لے گئی۔

Dil Dharakney tak completed✔Where stories live. Discover now