قسط نمبر 2

4.2K 135 17
                                    

"مس دارس! کیا ہوا آپ کو؟ " وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر تیزی سے اس کی جانب لپکا تھا۔ اس نے جھٹ سے فون اٹھا کر سیکرٹری کو ملایا تھا اور اسے پانی لانے کے لیے کہا تھا۔ وہ گلاس لے کر اندر داخل ہوئی تو اس نے اس کے ہاتھ سے گلاس لے لیا اور پانی کے چند قطرے اس کے منہ پر چھڑکے۔ انشراح بڑی مشکل سے ہوش میں آئی تھی۔

"آپ ٹھیک تو ہیں نہ مس دارس؟ " وہ قدرے پریشانی سے اس کے چہرے ہر جھک کر کہہ رہا تھا۔

"جی میں بالکل ٹھیک ہوں بہت شکریہ۔"

اپنا دایاں ہاتھ سر پر رکھ کر اس نے نقاہت زدہ لہجے میں اسے بتایا تھا۔

"چلیں میں آپ کو گھر ڈراپ کر دوں۔ "

اس کی طبعیت کا خیال کرتے ہوئے زمریز نے اسے گھر چھوڑنے کی پیشکش کی تھی۔

"نہیں بہت شکریہ میں چلی جاؤں گی۔"

انشراح نے رسانیت سے اس کا احسان لینے سے منع کیا تھا۔

" دیکھیے ایسی حالت میں آپ کا اکیلے جانا مناسب نہیں ہے۔اٹھیے شاباش۔"

اس نے انشراح کو بازو سے تھام کر زبردستی اٹھایا تھا۔

" مس دارس! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔"

اس کا بازو تھامتے ہی زمریز کو یوں محسوس ہوا جیسے اس نے کوئی تپتا ہوا انگارہ چھو لیا ہو۔

" نہیں سر ! میں بالکل ٹھیک ہوں۔"

اس نے ہاتھ اٹھا کر جیسے اسے تسلی دی تھی۔

" چلیے پہلے میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں پھر گھر چھوڑ دوں گا۔"

زمریز نے قریب کھڑی سیکٹری کو اشارہ کیا تو وہ اسے سہارا دینے کے لیے آگے بڑھ آئی۔

" نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ "

سر مسلسل چکرا رہا تھا رک رک کر بولتے وہ بامشکل ہی بول پائی تھی۔

"پلیز مس دارس! خاموش ہو جائیں اور چلیں میرے ساتھ ابھی آپ کو بہت کچھ کرنا ہے اور ایسے بیمار رہ کر آپ کچھ نہیں کر سکتیں ہمت کریں۔" کہتے ہوئے وہ چلتے ہوئے اپنی گاڑی تک آگیا تھا۔

اس نے انشراح کو گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر اندر بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔ گاڑی فل سپیڈ سے سڑک پر بھاگ رہی تھی۔ وہ گاڑی چلاتے ہوئے گاہے بگاہے نظر اس کے سادہ سے حلیے پر بھی ڈال رہا تھا جہاں برسوں کی تھکن نمایاں تھی اور بیماری کے باعث چہرہ مرجھایا ہو اتھا۔

" کتنی سادہ لڑکی ہے نہ یہ وہ سوچ رہا تھا۔ دل میں کچھ نہیں رکھتی سیدھا منہ پر مارتی ہے۔ ہاں یہ کہنا ٹھیک رہے گا کہ خاصی سٹریٹ فارورڈ ہیں محترمہ خیر مجھے کیا میں کیوں اس کے بارے میں اتنا سوچ رہا ہوں۔" زیر لب مسکراتے ہوئے مسلسل وہ انشراح دارس کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ گاڑی ایک کلینک کے باہر روک دی گئی تھی۔ زمریز منان اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اس کی طرف کا دروازہ کھول کر اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا اس نے ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا وہ اسے سہارا دے کر کلینک کے اندر لے گیا۔ کوئی ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ دونوں کلینک سے باہر آئے تھے۔ ڈاکٹر نے اسے 102 بخار بتایا تھا اور بلڈ پریشر کم ہونے کی وجہ سے چکر آ گیا تھا جس وجہ سے وہ بےہوش ہو گئی تھی صبح سے کچھ نہ کھانے کی وجہ سے اس کی حالت مزید خراب ہو گئی تھی۔ "دیکھیے محترمہ!ڈاکٹر نے کیا کہا ہے کہ کچھ نہ کھانے کی وجہ سے آپ کی طبیعت اتنی زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ خیال رکھا کریں اتنی لاپرواہی اچھی نہیں ہوتی۔" اپنی توجہ ونڈ سکرین کی طرف جماتے ہوئے وہ خاصی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا جبکہ وہ سر سیٹ کی پشت سے ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھی ہوئی تھی۔

Dil Dharakney tak completed✔Where stories live. Discover now