قسط نمبر 8

564 33 3
                                    

اس کے بعد کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکر سب نے فوٹوگرافر سے بہت سی تصویریں بنوائیں۔ لان اب تقریباً خالی ہوچکا تھا۔ سب مہمان اپنے اپنے گھر چلے گئے تھے اور گھر والے بھی تھک کر اپنے اپنے کمروں کی جانب چل پڑے تھے۔صد شکر کہ سب کچھ خیروعافیت سے انجام کو پہنچ گیا تھا۔انشراح بھی تھک کر اپنے کمرے میں آئی تھی اور ابھی بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتار ہی رہی تھی کہ موبائل کی مسیج ٹون بجی اس نے جوتے اتار کر ایک طرف رکھے اور موبائل کی جانب بڑھ گئی۔ موبائل پر زمریز کا ٹیکسٹ چمک رہا تھا۔ 

میسج پڑھتے اسکے چہرے پر تفکر کی ایک لکیر ابھری۔"meet me at lawn right now i'm waiting for you." 

"اس وقت انہیں کیوں ملنا ہے مجھ سے؟" جلدی سے کانوں سے آویزے اتارتے وہ سوچنے لگی. آویزوں کی وجہ سے اس کے کانوں میں کافی درد ہورہا تھا بالوں کو کیچر میں قید کرکے اپنے سلیپر پہن کر وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ کاریڈور میں مکمل اندھیرا تھا۔ 

سارے گھر کی لائٹس آف تھیں۔ وہ دبے پاؤں کاریڈور عبور کرتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔ لاونج میں مکمل اندھیرا تھا۔ وہ گلاس ڈور کی جانب آئی اور گلاس ڈور کھول کر باہر آگئی۔ لان سارا ویسا کا ویسا ہی تھا مگر اسے کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے دور تک نظر دوڑائی مگر اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ سامنے اچانک جھاڑیوں میں کوئی حرکت ہوئی تھی وہ ایک دم گھبرا گئی تھی۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہ جھاڑیوں کی جانب آئی جھاڑیوں کو پیچھے ہٹا کر دیکھا تو اندر ایک موٹی تازی بلی اس کا منہ چڑارہی تھی وہ ادھر ہی دم سادھے کھڑی تھی کہ اس نے اپنے کندھوں پر کسی کے ہاتھوں کا دباؤ محسوس کیا وہ  اپنی جگہ پر ساکت ہوگئی مبالغہ ذرا سی حرکت کرے گی تو جان سے جائے گی۔ اس کے کندھے پر دباؤ مزید بڑھا تھا۔ اب کی بار وہ اپنی بے ساختہ امڈنے والی چیخ کو روک نہیں پائی تھی۔ اس کی چیخ نکلتی اس سے پہلے ہی کسی نے زور سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔ 

" کیا ہوگیا ہے پاگل ہوگئی ہو کیا میں ہوں۔ اس نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں کہ اچانک ہی شناسا آواز پر پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اس نے لمبی سانس خارج کی اور سینے پر ہاتھ رکھ کر پرسکون ہوئی تھی۔ 

" او اچھا آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا یہ کیا حرکت تھی چوروں کی طرح چھپ کر بیٹھے تھے ابھی میری جان نکل جاتی۔" وہ ابھی بھی اپنی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں میں قابو میں کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ 

" ہو ویسے تم بڑی ہی ڈرپھوک۔" زمریز نے آنکھیں گھما کر کہا تو انشراح نے صدمے سے منہ کھول کر اس کی جانب دیکھا۔ 

"ایکسکیوزمی! آپ مجھے ڈر پھوک بول رہے ہیں انشراح کو؟" وہ اپنی طرف انگلی کرکے آنکھیں پھیلا کر اس سے پوچھ رہی تھی۔ 

" ہاں دیکھ چکا ہوں اسی لئے بول رہا ہوں۔" وہ اپنی بات پر قائم تھا۔ 

" میں کوئی ڈرپھوک نہیں ہو سمجھے آپ۔۔۔" وہ اسے انگلی اٹھا کر کہہ رہی تھی۔ 

Dil Dharakney tak completed✔Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt