Episode 2

238 16 2
                                    

بالکونی کے گلاس ڈور سے چھن کر آتی وہ روشنی تھی اس جدید طرز کے بیڈروم کو چمکائے دے رہی تھی۔ آج عام دنوں کے بر عکس موسم کچھ پر سکون اور خوشگوار تھا کہ اے سی کی خنک میں ہلکی سی کپکپی محسوس ہوتی تھی۔ مگر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اپنی ٹائی کو بل دیتا وہ شاید ہر چیز سے اس قدر بے نیاز تھا کہ موسم کے بدلتے تیور اسکی فطرت پر کچھ خاص اثر انداز نہ ہوتے تھے۔
ٹائی سے فارغ ہوئے آج اسنے ہیئر برش تھاما تھا۔ آج نجانے کیوں وہ اپنے ان بکھرے بالوں کو سنوارنا چاہتا تھا جو ہمہ وقت اسکی پیشانی پر بسیرا کیے رکھتے تھے۔ الگ بات تھی کہ ان بکھرے بالوں کے ساتھ بھی اسکی شخصیت جاذب نظر تھی۔ ستائیشی نظروں کے حصار میں تو وہ ہر وقت ہی گھرا رہتا تھا۔
اب کہ بال سنوارنے میں اسے کچھ دشواری محسوس ہوئی تھی کہ یہ کام اسکی روٹین کے بر خلاف تھا۔
جب ذرا تگ ودو کے بعد وہ انہیں سنوارنے میں کامیاب ہوا تو اسے اندازہ ہوا کہ اسکے بالوں کا طرز بہترین تھا۔ کشادہ پیشانی پردو کٹاؤ کے بیچ اسکے اٹھے بال کیسا غضب ڈھاتے تھے۔ اپنی وجاہت سے بے نیاز وہ آج ذرا بھنویں بھینچے بغور خود کو دیکھ رہا تھا۔ اگر ستائیشی نظریں اسکا گہراؤ کیے رکھتی تھیں تو وہ حقدارتھا ستائش کا۔
مگر آیئنے میں اپنا جائزہ لیتی اپنی نظروں کو سر جھٹک کر وہ فوراً ہی پھیر گیا تھا۔ زیادہ دیر تک وہ اپنی شخصیت کو سراہ نہیں پایا تھا۔ اپنی ذات سے جڑی وہ دھتکاراور ذہن میں جھکڑتے وہ سوالات اسکی شخصیت کو اسکی اپنی نظر میں بے معنی بنا گئے تھے۔
برش کو دوبارہ ٹیبل پر دھرتے وہ سائید ٹیبل سے اپنا فون اٹھائے ٹائم دیکھنے لگا تھاکہ عبدل ٹرالی کھینچتا دروازے سے نمودار ہوا۔ آج محض کافی تھی اور اسکے ساتھ کچھ بسکٹس جو عبدل اس امید پرلایا تھا کہ شاید اسکے صاحب کی طبیعت بدل جائے اور وہ ایک دو ہی صحیح مگر نہار منہ محض اس کڑوی کڑیلی کافی سے ہی اپنا حلق تر نہ کرے۔ مگر نہال غازی کی شخصیت میں تھوڑا سا بھی بدلاؤ شاید کبھی نہ آناتھا........... نہیں شاید آچکا تھا۔ عبدل نے دیکھا تھا..... ان بالوں کے اسٹائل میں فرق تھا۔ آج سورج کہاں سے نمودار ہوا تھا، اسے فوراً ہی گمان ہوا۔
عبدل کی ٹکٹکی سی نظر خود پر جمے دیکھ وہ مسکرایا اور قریب آکر کافی کا کپ اٹھائے اسے دیکھا۔
”اچھا نہیں لگ رہا ناں عبدل“۔ نجانے اسے اپنی نفی کرنے میں کیا مزہ آتا تھا۔
”ارے نہال بابا کیا بات کرتے ہیں۔ مجھے تو فکر ہونے لگی ہے کہ اس انداز میں آپ کام پر گئے تونجانے کتنی بد نظری کا شکار ہونگے“۔ وہ بیک وقت مسحور و فکر مند دکھائی سے رہا تھا۔ اسکی بات پر وہ کھل کر مسکرایا۔ اب کہ نمایا ہوتے شفاف دانت اور بالوں کا وہ نیا انداز نظروں کو خیرہ کیے دے رہا تھا۔ اچانک ہی عبدل کو خیال آیا کہ ایسا تو ناممکن تھا کہ اتنی وجاہت نے آج تک کسی کا دل تسخیر نہ کیا ہو،اس کی صوبر شخصیت نے کسی کے خیالوں کی رو نہ بدلی ہوتو اتنی کامل شخصیت رکھنے والا شخص اب تک تنہا کیوں تھا۔ اپنے دل میں اٹھے اس سوال کو عملی جامہ پہناتا وہ سوال داغ گیا تھا۔
”آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے نہال بابا“۔ اس سوال پر کافی کا گھونٹ بھرتا وہ یک دم چونکا اور سر اٹھائے اسے دیکھنے لگا۔
”میں.......شادی کر لوں؟“۔ اسنے جیسے حیرانگی کی کیفیت میں پوچھا مگر عبدل اس حیرانگی کی وجہ نہ بوجھ سکا تھا۔
”جی بابا۔ اتنی تنہائی اچھی نہیں ہوتی آپکی تو عمر بھی کم ہے پھر شخصیت بھی ماشاء اللہ۔ لے آیئے ہماری میم صاحب کو یہاں“۔ وہ ایک بار پھر مسکرایا تھا پھر شانے اچکائے، کافی کا کپ تھامے بالکونی کی جانب چلا آیا۔ گلاس ڈور کے اس پار کا منظر واضح تھا کچھ گاڑیاں تو کچھ لوگ پیدل چلتے اپنی منزل کو روانہ تھے۔ اسنے کافی کا ایک گھونٹ بھرا پھر ایک سانس ہوا کے سپرد کیے عبدل سے مخاطب ہوا جو پیچھے کھڑا اسکا منتظر تھا۔
”پتا نہیں عبدل میں نے کبھی اس حوالے سے سوچا ہی نہیں اور پھر آج تک نظروں میں کوئی ایسی آئی بھی نہیں یا شاید میں نے کبھی کسی پر غور نہیں کیا۔ خیر تمھیں یہ سوال اچانک کیسے یاد آیا“۔ اسنے گردن موڑے ایک بار پھر اسے دیکھا وہ بھی شانے اچکا گیا۔
”کوئی تصویر آپکے لاشعور میں نقش تو نہیں بابا جس کے متلاشی آپکے دل کو کوئی بھاتی ہی نہ ہو“۔ وہ عبدل تھا اسکے بچپن کے اچھے برے وقت کا ساتھی،اگر کوئی مخلص دوست تھا اسکا تو وہ فخر سے کہہ سکتا تھاکہ وہ عبدل تھا جسے کسی بھی وقت کچھ بھی کہنے کی اجازت تھی جسے اپنی زبان کو مودب انداز میں چند محدود لفظوں کا پابند نہیں رکھنا پڑا تھا۔
اسکی بات پر اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا تھا پھر مزید ایک کافی کا گھونٹ بھرے گویا ہوا۔
”کبھی لاشعور میں نہ کبھی شعور میں کسی طرح کا کوئی خاکہ یا تصویر کبھی نہیں ابھری۔ یا پھر شاید کبھی اس دل کو کوئی اپنے لائق لگی ہی نہیں عبدل“۔  غور کیا جائے تو وہ ذو معنی بات کر گیا تھا جسکا ظاہری مطلب سمجھ کر عبدل سر ہلا گیا تھا جبکہ پس معنی پوشیدہ ہی رہے تھے۔
اب کہ وہ ٹی ٹرالی کے قریب آئے کافی کا خالی کپ اپنی جگہ کو رکھے اپنا کوٹ اٹھاتا دروازے کی طرف چل دیا تھا۔
”ماں کی طرح میری فکر کرنا چھوڑو عبدل اور بابا کی صحت پر دھیان دو انھیں آج ناشتے میں بوائلڈ ایگس(انڈے)  کے ساتھ فریش جوس دے دینا اور ساتھ میں میڈیسنس تو لازمی دینا“۔ اپنے پیچھے مودبانہ انداز میں سیڑھیاں اترتے عبدل کو وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ہدایت کرنا نہ بھولا تھا۔
”آپ بے فکر ہوکر جائیں نہال بابا۔ میں خیال رکھونگا“۔ ہمیشہ کی طرح رٹا رٹایا جملہ وہ بھی داغ گیا تھا۔
وہ لاؤنج پار کرتا باہر منتظر کھڑی گاڑی کا دروازہ کھولے پچھلی سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ اسکے بیٹھتے ہی فراٹے بھرتی گاڑی اپنی منزل کو روانہ تھی۔
اپنا بریف کیس اپنے برابر میں رکھے اسکی نظر باہر اس بھاگے منظر پر مرکوز تھی۔ بگلوں میں ہاتھ ڈالے اچھلتے کودتے اپنے اسکول کو روانہ کچھ بچے، کچھ نو عمری کے قہقے اور مستیاں اسے اپنی جانب متوجہ کر گئے تھے۔ کیسی اعلی قسمت پائی تھی سب نے کہ اسکا بچپن و لڑکپن تو بس اپنی شخصیت کو بوجھتے گزرا تھا۔
اسکا بچپن جہاں بچے نت نئے کھلونوں کی خواہش اور اسکی تکمیل میں سرگرداں رہتے ہیں وہاں وہ پٹھکارے جانے پر پس منظر میں آنسو بہایا کرتا تھا۔ جہاں نو عمری میں قہقوں اور کچی محبتوں کے پھول کھلا کرتے ہیں وہاں وہ اپنی پہچان کو تلاشتے ہلکان ہوتا تھا۔
”تو کیا میں........ میں واقعی ایک حرام عشق کی پیداوار ہوں بابا“۔ اب کہ معصوم آواز نہ تھی۔ نو عمری کی بدلتی آواز تھی، بھاری و اذیت بھری..... دنیا کی سمجھ بوجھ رکھتی۔
”جواب دیجئے“۔ جواب ندارد پانے پر شاید بلند آواز میں استفسار کیا گیا تھا۔
”نہیں........ نہیں ہو تم ناجائز۔ نہیں ہو تم حرام پیداوار۔ تمھارے لیے اس دنیا میں کوئی دھتکار نہیں ہے تم سمجھتے کیوں نہیں۔ تم میرے بیٹے ہو، تم عدیل غازی کے بیٹے ہو، نکاح کیا تھا میں نے تمھاری ماں سے۔ سب جھوٹ بولتے ہیں میری بات کا یقین کرو“۔ کیسا التجایہ انداز تھا، بیٹے کے سامنے ہاتھ جوڑے جا رہے تھے جسکی بڑھتی سمجھ دونوں کے لیے ہی اذیت کا باعث بنتی تھی۔
”مجھے کسی دن پتا چلا ناں بابا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں تو نہال کا مرا منہ دیکھینگے آپ۔ میں خود کو مار دونگا بابا“۔
اذیت اتنی تھی کہ لب بھینجے تھے۔ دانت ایک دوسرے پر سختی سے جمے تھے کہ گردن پر رگیں نمودار ہوتی تھیں۔ آنکھیں اس بری طرح میچ رکھی تھی کہ خود کو کوئی اچھود چیز دیکھنے سے روکا جارہا ہو۔
لبوں سے ایک ٹھنڈی سانس آزاد کیے وہ سیٹ کی پشت پر اپنا سر ٹکا گیا تھا، آنکھیں پھر سے موندلی گئی تھیں۔
”کوئی تصویر آپکے لا شعور میں نقش تو نہیں بابا جس کے متلاشی آپکے دل کو کوئی بھاتی ہی نہ ہو“ کچھ لمحوں قبل عبدل سے کی وہ گفتگو اسکی سماعتوں میں گونجنے لگی تھی۔
”کس سے سوال کرتے ہو عبدل، میری ذات کے ساتھ جڑا وہ معمہ اگر سچ کی تحریر اختیار کر گیا تو کوئی نہیں ہوگا اس دنیا میں جو میرے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے“۔ لبوں نے بے آواز کہا تھا۔ مگر سوچ کا تسلسل تھا جسے ٹوٹنا تھا اور وہ منزل کے پہنچنے پر ٹوٹ گیا۔
وہ دروازہ کھولتا اترا، گارڈ کو سلام کرتا اندر کی جانب بڑھا تو حسب معمول کچھ ستائیشی نظروں میں گھر سا گیا۔ مگر اسی ازلی بے نیازی میں نظر انداز کرتا وہ اپنی کیبن کو پہنچ گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی ٹیبل پر بریف کیس رکھے وہ کرسی کھینچتا بیٹھ چکا تھا۔ اپنے دماغ میں الجھے سوالوں کی الجھن کو بہال کرنے کی خاطر وہ کرسی کی پشت سے اپنا سر ٹکا کر کنپٹی مسلنے لگا تھاکہ دروازہ کھٹکھٹائے اسکا مینیجر نمودار ہوتا دکھائی دیا۔
”گڈ مارننگ سر“۔ وہ موددب انداز میں ذرا جھک کر کہتا آگے بڑھا تھا۔
”گڈ مارننگ مسٹر فیاض۔ پلیز تشریف رکھئے“۔ وہ اسے کرسی کی جانب بیٹھنے کا اشارہ کرتا خود بھی سیدھا ہو بیٹھا تھا۔ وہ اسکے سامنے ہی کرسی کھینچتا براجمان ہوچکا تھا۔
”سر ایک بہترین ڈیل ہے، البتہ جیک پوڈ ہی سمجھ لیں۔ دبئی کے کلائنٹس ہیں سر آپ یہ فائل چیک کیجئے“۔ اسنے ٹیبل پر ایک فائل رکھی تھی جس میں ڈیل کے متعلق تمام تفصیل موجود تھی۔ وہ فائل اٹھا کر صفحے الٹاتا جائزہ لینے لگا تھا۔ اسکی نگاہیں بتدریج خوشی کی لہر سے چمک اٹھی تھیں۔
”بہترین، شاندار فیاض یہ تو واقعی ہماری کمپنی کے لیے ایک اثاثہ ہے“۔ خوشیوں کے جلترنگ اسکے لہجے میں جلتے دکھائی دے رہے تھے۔
”بلکل سر۔ مگر ہمارے کمپیٹیٹرز ضرور اس ڈیل کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جی توڑ کوشش کرینگے۔ ہمیں بہترین سے بہترین پلانز اور پریزنٹیشن سامنے رکھنی ہوگی“۔ پیشہ ور انداز تھا۔
”کون وہ جعفریز۔ ہوں........ وہ بلکل کوشش کرینگے اور ہمیں اپنا ہر ایک قدم بہت سوچ سمجھ کر اور محتاط انداز میں اٹھانا ہے۔ آپ ایک کام کیجیے یہ فائل یہی چھوڑ جایئے اور مس فبیہا کو یہاں تشریف لانے کا کہیے۔ اور جتنی جلد ہوسکے کانفرنس روم میں ایک میٹنگ ارینج کیجئے“۔ وہ اسے چند ہدایات سے نوازتا اپنے لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔ وہ مودب انداز میں سر ہلاتا روم سے باہر نکل دیا تھا۔
نہال غازی کے خیال کی رو اب جعفریز کی جانب بھٹک چکی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ جعفریز اس ڈیل کو ہتھیانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے مگر اسکا ذاہانت سے بھر پور ذہن بہت جلد ایک فیصلے کا نقشہ کھینچ چکا تھا۔
                               ……(۰٭۰)……
اسلام آباد کی حدود کو چھوتے ہی جون کی حبس زدہ گرمی نے انکا استقبال کیا تھا۔ ناران کی ٹھٹرتی سردی و خوشگوار موسم کو چھوڑے یہاں کا موسم انہیں کچھ ناگوار گزرا تھا کہ اب گاڑی کا اے سی بھی آن تھا۔ ایسے میں حازم کھڑکی سے سر ٹکائے، پاؤں فرنٹ سیٹ کی پشت پرٹکائے اونگ رہا تھا۔ اسکے شانے پر ٹکا صارم کا سر گاڑی کے ہر موڑ، ہر وقفے پر لڑک لڑک جاتا۔ جبکہ اسی کے برابر بیٹھا شاہ میر کانوں پر ہیڈفونز چڑھائے جھومتا دکھائی دے رہا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا حارث ذرا جھنجھلایا سا تھا کہ نجانے کتنی ہی بار اپنے سر سے ٹکراتے حازم کے پاؤں وہ جھڑک چکا تھا جو مسلسل اسکی ڈرائیونگ میں خلل پیدا کر رہے تھے۔ عماد اسکے برابر کی سیٹ سنبھالے ڈیش بورڈ پر اپنے پاؤں ٹکائے انسٹاگرام کی فیڈ چیک کرنے میں منہمک تھا۔
بیس دن قبل شروع ہوئی انکی ٹرپ آج اختتام کو پہنچ چکی تھی کہ اب روانگی اختیار کیے رخ اپنے اپنے گھروں کی جانب تھا۔ یہ بیس دن انکے لیے تھکن سے بھرپور مگر لطف اندوز رہے تھے۔ اسلام آباد سے مری اور وہاں سے ناران تک کا سفر ٹھیک تھا، مگر ناران سے اسلام آباد تک کی واپسی انتہائی تھکن کا باعث ثابت ہوئی تھی۔ البتہ وہ لوگ بالاکوٹ میں ایک رات ٹھہر چکے مگر بیس دن کی تھکان جیسے جوش وخروش کے معدوم ہوتے ہی سامنے آئی تھی کہ ایک رات کا آرام انکے لیے کچھ خاص مددگار ثابت نہ ہوسکا تھا۔
اب کہ جب گاڑی بریک لگائے رکی تھی تو صارم کا سر ایک بار پھر بری طرح لڑکا تھا کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
”ک......کیا پہنچ گئے؟“۔ وہ آنکھیں مسلتا اپنے حواسوں پر قابو پانے کی کوشش میں تھا۔
”ہاں..... آجا تجھے ہی تندور میں پکوا کر پیٹ پوجا کر لیں“۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھولتا اترا تھا۔
”آدم خور نہ بن، ویسے ہی میرا سر بہت کھاتا ہے تو“۔ صارم اپنی گود میں رکھی لیدر کی جیکٹ سنبھالتا اٹھ بیٹھا تھا۔
”ابے شاہ میر باہر نکل یار کیا چپک گیا سیٹ سے“۔ ہیڈ فون چڑھائے شاہ میر کو وہ بری طرح جھنجھوڑ چکا تھاکہ حازم اور اسکے بیچ وہ بری طرح پھنس چکا تھا اور کسی ایک کے ہٹنے سے ہی اسے باہر کا راستہ ملنا تھا۔ البتہ اسکے ہڑبڑا کر اترتے ہی وہ بھی باہر نکل آیا تھا۔
”اسکا کیا کرنا ہے“۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے عماد کا اشارہ پچھلی سیٹ پر اونگتے حازم کی جانب تھا۔
”ختم ٹھنڈ اب نہلا دے اسے“۔ حارث نے مشورہ داغا۔
”خبیث روح!۔اٹھ گیا میں۔ اپنے پریشر ککر کو تھوڑا آرام دیا کر“۔ خمار آلود میں کہتا وہ اٹھ بیٹھا تھا، آنکھیں مسل کر جب نگاہیں باہر کی جانب دوڑائیں توایک عالیشان ریسٹورانٹ کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔ اچانک ہی پیٹ خالی سا محسوس کیے وہ فوراً ہی باہر نکل آیا تھا۔ عماد بھی باہر نکلے اب انہیں کے ساتھ کھڑا تھا۔ انکا گروہ نظریں موہ لینے کی طاقت رکھتا تھا۔ بکھرے بال اور سفر کی تھکان بھی انکے چہروں کی کشش کو کم نہ کر پائی تھی کہ ہر چہرہ ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ ارمانی کی ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی جیکٹز جو خاص اس ٹرپ کے لیے خریدی گئی تھی اسے کوئی شانے پر ٹانگے تو کوئی کمر پر باندھ گیا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں ڈھیروں بینڈ زٹنگے تھے تو کسی کے ہاتھ میں دانے دار تسبی نما بریسلیٹس۔ ہر ایک کا لباس اعلٰی و عمدہ تھا۔ اپنے آس پاس بکھری ستائیشی نظروں سے باخبر مگر بے نیاز بنے وہ ریسٹورانٹ کی جانب بڑھ دیے تھے کہ فلحال پیٹ پوجا انکی اول ترجیع تھی۔
اندر داخل ہوتے ہی بہت مودب انداز میں انکا استقبال کیا گیا اور پانچ کرسیوں والی خالی و صاف میز پیش کی گئی۔ اب کہ کرسیوں پر براجمان وہ ویٹر کو اشارہ کر چکے تھے کہ مینیو پر نظر ڈالنے کی بھی انہیں ضرورت نہ پڑی تھی، کیونکہ انکا مخصوص و پسندیدہ ناشتہ پزا تھا تو مینیو میں کیوں سر کھپانا؟۔ بہرحال صبح کے آٹھ بجے انکی تین بڑے سائز کے پزا کی فرمائش ویٹر کو بھی حیران کر گئی تھی مگر لڑکوں کی ان شوخ ٹولی سے کچھ بھی بعید نہ پا کر وہ بھی سر ہلا کر اپنے راستے ہو لیا تھا۔
اسکے جاتے ہی وہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوچکے۔ حارث نے اپنی توجہ فون کی جانب دوڑا لی تھی اور شاہ میر نے گردن میں ٹکے ہیڈ فونز پھر کان پر چڑھا لیے تھے۔
جبکہ حازم،صارم اور عماد کی توجہ وہاں انہی کی طرح آئے ایک گروہ کی جانب مبذول ہو چکی تھی جو انہی کی طرح پانچ نفوس پر مشتمل تھامگر انکی توجہ کے مرکز کی وجہ اس گروہ کا صنف مخالف سے ہونا تھا کہ انکے مسکراتے لبوں سے سیٹیاں بس نکلتے نکلتے رہی تھیں، اس فایؤ اسٹار ریسٹورانٹ کے نظم وضبط کا خیال انہیں باز رکھ گیا تھا۔
حارث اور شاہ میر کے اس متحرک انداز میں کوئی فرق نہ آیا تھا جبکہ اپنی فطرت سے مجبور وہ تینوں لبوں پر شریر مسکراہٹ سجائے انکی میز کی جانب چل دیئے تھے۔
کوئی مہذب گھرانے کی لڑکیاں ضرور انکے اس طرح سر پر آ پہنچنے سے گھبرا جاتیں اور ایک ہنگامہ سا کھڑا ہونے میں چند سیکنڈز بھی نہ لگتے مگر انکی قسمت اجلی تھی کہ لڑکیوں نے خوش اصلوبی سے انکا استقبال کیا تھا۔ وہ اپنی میز کے ساتھ لگی کرسیاں اٹھائے اب انہیں کے ساتھ سر جوڑ تھے۔ مغربی لباس میں ملبوس ان نازک مگر انہی کی طرح شوخ طبیعت رکھنے والی لڑکیوں کا فلرٹنگ میں بھرپور ساتھ پا کر وہ بس نہال ہی تو ہو گئے تھے۔
اپنی میز کو سنسان پا کر اس نے چونک کر سر اٹھایا، نظر اس منظر کی جانب اٹھی تو اسکے لب بھی مسکراہٹ میں پھیل گئے۔ اپنے برابر بیٹھے شاہ میر کو کہنی مارے وہ اسے سوالیا آئبرو اٹھانے پر مجبور کر گیا تھا۔
”شدید سنگل عوام“۔ آنکھ کے اشارے پر اسکی نظر بھی انکی جانب ہی اٹھی تھی جہاں عماد ایک شریر سی لڑکی کا ہاتھ دیکھنے میں مکمل طور پر منہمک دکھائی دے رہا تھا جبکہ دوسری کے ساتھ صارم سر جوڑے اسکے فون میں دیکھتا نجانے کس بات پر تبصرہ کر رہا تھا۔اور دوسری جانب حازم باقی دو لڑکیوں کے ساتھ زیر گفتگو تھا۔ اب کہ شاہ میر کی نظر اس لڑکی کی جانب اٹھی جو خاموش سی تھی مگر چہرے پر ایک عجب مسکراہٹ سجائے اسکی نظروں کا ارتکاز انکی میز کی جانب ہی تھا۔ وہ یک دم چونک کر سیدھا ہو بیٹھا اور ایک نظر اٹھائے حارث کی جانب دیکھا مگر اسے پھر اپنی فون کی جانب متوجہ پا کر اسکی دوسری نظر دوبارہ اس لڑکی کی جانب اٹھی تھی جو ہجوم میں ہو کر بھی تنہا سی بیٹھی تھی۔ اس نے بغور اسے دیکھا وہ مسلسل اسی جانب دیکھ رہی تھی، مگر وہ جانتا تھا وہ اسے نہیں دیکھ رہی تو کیا وہ حارث کو......... ہاں وہ حارث ہی کو دیکھ رہی تھی۔ مکمل طور پر محویت اور مسحور کن انداز میں جیسے تمام لمحے وہ اسے تکتے ہی گزار دینا چاہتی ہو۔
وہ ہلکا سا اس شہزادے کی جانب جھکا تھا جو ہمیشہ کی طرح ارد گرد سے بے خبر بنا نجانے کتنوں کی زندگیوں کے اطوار یوں ہی لمحوں میں بدل جایا کرتا تھا۔
”بس کردے یار۔ کیوں اس کانچ پر کچوکے لگائے اسے بکھیردینے پر تلے ہو“۔ سماعتوں میں شاہ میر کی سرگوشی پر اسنے چونک کر سر اٹھایا اور اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا،اسکے آنکھ کے اشارے پر نظر اس لڑکی جانب اٹھائی ہی تھی کہ پزا لاتا ویٹر اسکی توجہ اپنی جانب سمیٹ گیا تھا۔ وہاں صارم،حازم اور عماد کی بھرپور دعوت پر بھی وہ لڑکیاں اس وقت پزا کھانے سے مکمل طور پر انکاری تھیں کہ انہیں تنہا ہی کرسیوں سمیت واپس لوٹنا پڑا تھا۔
”چار کے نمبر ہاتھ لگے ایک نخریلی تھی اسنے کچھ نہیں دیا“۔ عماد نے اپنی ہانکی تھی، شاہ میر کی معنی خیز نظر حارث پر اٹھی تھی۔
”آہاں! وہ ایک اپنے دن رات کسی پر وار چکی ہے“۔ اسکی معنی خیز نظروں کی سمت اب وہ تینوں بھی دیکھنے لگے تھے کہ حارث انکی نگاہوں کے حصار میں گھر سا گیا تھا۔ اب کہ اسکی سوالیہ نگاہیں ان پر اٹھی تھی مگر اس بات کو انکی ازلی فضول بک بک قرار دے کر وہ سر جھٹک کر پزا سے انصاف کرنے لگا تھا۔
کچھ قہقوں اور ادھر ادھر کی بات چیت کے درمیان پزا سے بھرپور انصاف کیے اب بل کی حاضری ہو چکی تھی۔ حارث کی طرف سے ٹریٹ کی پیش کش پر وہ اسے داد دیتے نہیں تھک رہے تھے۔ جینز کی پاکٹ سے نکالا گیا کریڈٹ کارڈ وہ ویٹر کے ہاتھ تھماتا باقی بچے کچے کو پارسل پیک کرنے کی ہدایت کر چکا تھا۔ چند منٹوں بعد کریڈٹ کارڈکی واپسی پر ویٹر بچا کچا اٹھانے لگا تھا کہ اسی دوران حارث نے وہ کریڈٹ کارڈ لبوں پر ایک شریر سی مسکان کے ساتھ صارم کی جانب بڑھایا۔ کارڈ تھام کر اس پر اپنا نام پڑھتے ہی اسے چند سیکنڈ بھی نہ لگے تھے اسکی شرارت سمجھنے میں کہ بس کچھ ہی منٹوں قبل وہ بری طرح لٹ چکا ہے۔ اسکے منہ سے حارث کے لیے کچھ القابات سن کر انکا ہم عمر ویٹر بھی مسکرایا تھا اور ٹیبل صاف کرتا اپنے راستے ہو لیا تھا۔
ٹیبل چھوڑ کر اٹھتے ہی ان چاروں نے تو باہر کی جانب قدم بڑھائے تھے جبکہ حارث نے پارسل اٹھانے کی خاطر کاؤنٹر کا رخ لیا تھا۔ اپنی ازلی مغرور سی چال میں چلتے جینز کی جیب سے چیونگم نکالے اسے منہ میں بھرتا وہ کاؤنٹر تک پہنچا،وہاں کھڑی مغربی لباس میں ملبوس لڑکی کے برابر میں جا کھڑا ہوا تھا۔ ریسپشنسٹ کی جانب سے کچھ وقت درکار پا کر بس ایک لمحے کو اسکی نگاہ اپنے برابر کھڑی مکمل طور پر اپنے فون میں غرق اس لڑکی کی جانب اٹھی تھی جسے وہ فور اً ہی پھیر گیا تھا۔اگر شاہ میر کے اشارے پر وہ اس میز کی جانب دیکھ لیتا تو فوراً ہی پہچان لیتا کہ یہ وہی لڑکی تھی جو بقول شاہ میر کے اپنے دن رات اسکے نام کر چکی تھی۔
چند منٹوں کے انتظار کے بعد کاؤنٹر پر اسکا پارسل آن پہنچا تھامگر اس سے قبل کہ وہ اپنا پارسل اٹھاتا وہ ارد گرد سے بے خبر بنی لڑکی ہاتھ بڑھا کر شاید اسے اپنا پارسل سمجھ کر اٹھاتی اپنا راستہ ناپنے لگی تھی۔
”اوہ ایکس کیوزمی میم!“۔ اگر وہ اسے ذرا بلند آواز میں نہ پکارتا تو شاید اسکی فون پر محویت میں خلل پیدا نہ ہوتااور وہ اسی طرح آگے بڑھ جاتی مگر اسکی بلند آواز اسے تھم کر پلٹنے پر مجبور کر گئی۔ پلٹنے پر اسکے حسین نقوش واضح ہوئے۔ اسے دیکھ کر وہ کچھ چونکی تھی،ایک عجب رنگ اسکے چہرے پر آ کر لمحوں میں ہی معدوم ہوا تھااور وہ پر اعتماد لڑکی بروقت خود کو سنبھال گئی تھی مگر حارث سے اسکا اتار چڑاو مخفی نہ رہا تھاکہ وہ اپنے سنجیدہ چہرے کو مزید سنجیدہ بنا گیا۔
”جی فرمائیں“۔ چال ڈھال کے ساتھ لہجہ بھی پر اعتماد تھا۔
”آپ غلطی سے میری چیز اٹھا گئی ہیں“۔ اسکی نظر فوراً اپنے ہاتھ میں تھمے اس کاغذ کے تھیلے کی جانب اٹھی تھی۔
”لیکن یہ تو.......“۔
”میم یہ لیں آپکا پارسل“۔ کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے نے جب اسے پکارا تو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ خجالت سے مسکرا دی، پھر شاپر اسکی جانب بڑھائے اسے معذرت خوانہ انداز میں دیکھنے لگی۔
”ایم سوری میں دراصل“۔ اپنا جملہ ادھورا چھوڑ کر اسنے اپنا فون اٹھائے اسکے سامنے کیا تھا۔ خجالت کے باوجود اسکے پر اعتماد انداز میں ذرا فرق نہ آیا تھا۔ لیکن وہ مغرور شہزادہ مرواتاً بھی نہ مسکرایا اور ٹکا سا جواب“ اٹس اوکے” کہتا آگے بڑھنے لگا تھا۔
”ہے! یو اینگری ینگ مین!، کیا تمھارا نام جان سکتی ہوں“۔ وہ تھم کر پلٹا تھا اب کہ سنجیدگی کی جگہ مضحکہ خیز مسکراہٹ نے لے لی تھی۔
''Trouble''
ہاں یہی تو تھا وہ، مصیبت.......... ہمہ وقت لوگوں کے سروں پر بجنے والاخطرے کا الارم۔ لڑکی کو سکتے میں چھوڑ کر ابھی وہ پلٹا ہی تھا کہ ریسٹورینٹ کے داخلی دروازے سے اسے شاہ میر کا جھانکتا چہرہ دکھائی دیا۔
”مسٹر حارث جعفری! انہیں بھی گھر لے جانے کا ارادہ ہے کیا“۔ خدایا...... اسکا دل کیا اپنا سر ہی پھوڑ لے۔ کیاضرورت تھی اسکا نام پکارنے کی۔ وہ بھی آدھا ادھورا نہیں پورا کا پورا۔ اپنی پشت پر دو مسکراتی نگاہوں کو وہ محسوس کر سکتا تھامگر بازی ہاتھ سے نکل چکی تھی اسی لیے شاہ میر کو خونکار نظروں سے گھورتے اسنے باہر کا راستہ ناپنے پر اکتفا کیا تھا جبکہ اپنے گروہ کی طرف لوٹتی اِرحا انصاری کو اپنے گرد محبت نغمے گاتی سنائی دینے لگی تھی۔ کون جانتا تھا کہ خود کو مصیبت قرار دینے والے بندے کے گرد مصیبت اپنے پنجے گاڑنے لگی تھی۔
                                   ……(۰٭۰)……

میری ذات۔ از عمارہ عمرانWhere stories live. Discover now