Episode 6

65 7 2
                                    

خلافِ معمول اس کیبن سے اٹھتے قہقوں پر آفس کا تمام اسٹاف حیرت میں مبتلا تھا۔ آواز کو وہ بخوبی پہچان سکتے تھے کہ انکے باس کی آواز تھی جو ہنستے بھی ہیں انہیں آج اندازہ ہو رہا تھا۔ یہ عید کا چاند اس آفس میں تین چار دن سے حاضری لگاتی اس خوش طبع شخصیت کی بدولت نمودار ہوا تھا۔ وہی مغرور شہزادہ جو زیادہ تر امیر کی باپ کی بگڑی اولاد کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ ہاں وہی جو جہاں جاتا مرغوب و مقبول ہوجاتا۔ اسکی دوستوں کی فہرست میں ایک اور شخصیت کا اضافہ ہو چلا تھاکہ آفس آورز کے بعد اب وہ اکثر یہیں پایا جاتا تھا۔ آج بھی وہ یہیں موجود تھا مگر مقصد کے ساتھ کہ نہال آج جعفریز کی طرف ایک چھوٹی سی دعوت پر مدعو تھا۔ اور اسے گھر لانے کی ذمہ داری حارث جعفری کے کاندھوں پر تھی اسی لیے وہ آفس سے سیدھا یہی پہنچا تھا اور اب اسکے کیبن میں بیٹھا باتیں بگھارنے میں مصروف تھا۔ وہ اسکی شخصیت سے ازحد مرغوب اور اسکی باتوں سے لطف اندوز دکھائی دے رہاتھا۔
مگر اب گھڑی پر نگاہ پڑتے ہی گھر پہنچنے میں تاخیر کا اندازہ ہوا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
اب کہ اسکے ساتھ وہ دونوں بھی اسکے کیبن سے باہر نکلے تھے۔ نہال کہ لب اب بھی اسکی کسی بات پر ہنسی میں پھیلے تھے اور وہ اسکے ہم قدم راہداری پار کرتا ہاتھ ہلا ہلا کر ہنوز بولنے میں مصروف تھا۔ وہ دونوں ساتھ چلتے برابر دکھائی دے رہے تھے۔ وجاہت و قد کاٹھ جیسے متوازی و یکساں تھاکہ مقابلہ آرائی میں کون جیتے اندازہ لگانا مشکل تھا اور موازنہ دشوار.......
راہداری کے اختتام تک ابھی وہ دونوں پہنچے ہی تھے کہ قریباً چھتیس سالہ شخص فوراً ہی انکے سامنے چلا آیا۔ وہ دونوں ہی ٹھٹک کر رکے۔
”اسلام علیکم سر۔ میں ارحان عباسی۔ پچھلی بار بھی آیا تھا مگر آپ شاید کسی ضروری میٹنگ میں مصروف تھے اسی لیے آپ سے ملاقات نہیں ہوپائی تھی“۔ اسے سلام کا جواب دینے کا موقع دیے بغیر ہی وہ بولتا چلا گیا۔ حارث کے ہاتھ اسکی پینٹ کی جیب میں پہنچے تھے جبکہ نہال کی نگاہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر گئی تھی۔
”آں..... جی مس فبیہا نے مجھ سے آپ کا ذکر کیا تھا۔ در اصل آپ کل تشریف لاتے تو شاید میں کچھ وقت نکال پاتامگر آج کے لیے تو معذرت مجھے آج ضروری دعوت کے لیے جانا ہے۔ آپ کل دوبارہ آئیے میں آپ کی آمد کا منتظر رہونگا“۔ حارث ایک عام کارکن کے لیے اسکے اس قدر حسنِ اخلاق سے متاثر ہوا تھا۔ مزید کچھ علیک سلیک کے بعد وہ دونوں آگے چل دیے جبکہ وہ شخص وہی کھڑا انکی پشت کو گھورتا رہا۔
لفٹ سے اتر کر داخلی دروازہ پار کرتے وہ دونوں اسکی سیاہ مرسڈیس کی جانب چلے آئے۔ ڈرائیونگ سیٹ حارث نے سنبھالی جبکہ اسکے برابر نہال براجمان ہوا۔ اور کچھ ہی لمحوں بعد گاڑی کشادہ روڈ پر رواں دواں تھی۔
راستہ ادھر ادھر کی باتوں کی نذر ہوا۔
گاڑی رکی اور منزل سامنے تھے۔ وہ دونوں ساتھ ہی اترے۔ گارڈ کو گاڑی گیراج میں لگانے کا کہتا وہ اسی کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
 لاؤنج میں سب منتظر سے بیٹھے تھے سوائے اسکے۔ ناجانے دل کے کس گوشے میں اسکے دیدار کی خواہش پنہاں تھی کہ لاشعوری طور پر نگاہیں اسی کی منتظر تھیں۔ مگر جانے وہ کہاں تھی۔ گزرتے ہر پہر کے ساتھ بڑھتی یہ کسک اسے پریشان کر رہی تھی کہ وہ اندر ہی اندر بے کل ہونے لگا تھا۔
لاؤنج میں کسی کی آمد کو محسوس کیے وہ سب لبوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ سجائے اسکے استقبال کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسنے بروقت خود کو سنبھالا۔ بچپن سے لے کر اب تک اس عمل میں وہ ماہر ہوچکا تھا۔ اپنے تاثرات چھپانے میں اسے کاملیت حاصل تھی۔
بہرحال انکی ہم نواحی میں چلتا وہ لاؤنج کے صوفے تک آپہنچا تھا۔ اسے بیٹھنے کی دعوت پیش کرتے وہ سب بھی صوفوں پر براجمان ہوچکے تھے۔
اس با اقتدار خاندان کے باسی اعتدال پسند و روایتی وضع دار تھے اسکا اندازہ وہ چند ملاقاتوں میں ہی لگا چکا تھا۔
ہانیہ اس صاحبِ خلق کی کم عمری اور اس قدر کامیابی سے واقعتا متاثر ہوئی تھی۔ طلحٰہ کی توخوشی دیدنی تھی کہ اتنے پیارے سے انکل کو اپنے گھر پاکر وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اور وجہ اس انکل سے تھیلا بھر چاکلیٹس ملنا تھیں۔ حارث نے چند ایک ملاقات میں اس سے اپنے ایک آدھ اور گھر کے لاڈلے بھتیجے کا ذکر کیا تھا۔ اور وہ اس لاڈلے سے ملنے کا واقعتا خواہاں تھا کہ اسکے لیے ڈھیر ساری چاکلیٹس لینا نہیں بھولا تھا۔ اسے دیکھتے اسکی شرارت سے چمکی، ذہانت سے بھرپور آنکھیں دیکھ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ اپنے لفنگے چاچو پر گیا تھا۔ اور وہ وہی ازلی (اپنے چاچو سے ورثے میں ملی) شریر سی مسکان لبوں پر سجائے چاچو اور انکل (جو کہ آج سے اسکے فیوریٹ انکل بن چکے تھے) کے درمیان صوفے پر بیٹھا، پیر جھلاتا، مفت کا مال تناول فرما رہا تھا۔
عباس و ارباز صاحب اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے جو زیادہ ترکاروباری معاملات پر مبنی تھیں۔ آمنہ بیگم کچھ روایتی سوالات کرتیں جس پر اسکے پر اعتماد سے جوابات حاضر ہوتے جبکہ زاہدہ بیگم وقفے وقفے سے چند مشروبات اور مختلف لوازمات پیش کرتیں۔ طلحٰہ کی شان میں زایان سے وہ ڈھیر سارے قصیدے سن چکا تھا۔ اسکے عجب کارناموں پر ایک نظر اپنے عقب میں بیٹھے اس شریر سے بچے کو دیکھتا جس نے چہرے پر مسکان سجائے معصومیت کے سابقہ تمام رکارڈ توڑے تھے۔ مگر ہانیہ سے معلوم ہوا کہ یہ اسکے چاچو کی دی شے ہے جو دونوں مل کر سب کا جینا حرام کیے رکھتے ہیں۔ اور حارث کی فطرت اس پر چند ملاقات میں ہی کافی حد تک آشکار ہوچکی تھی اس لیے وہ زیادہ متحیر نہیں ہوا تھا۔ اور رہی بات اسکی........تو وہ ماہ جبین نجانے اب تک کہاں غائب تھی۔ اسکی متلاشی نگاہیں گھر میں اٹھتے معمولی کھٹکے پر بھی چونک جاتی کہ شاید ا ب وہ کسی گوشے سے نمودار ہوجائے۔ مگر ادھر ادھر جاتے ملازمین کو پا کر دل سرد آہ بھرکر رہ جاتا۔ محبت کسی کے لیے بہار میں کھلے پھول کی مانند ہوتی ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ مہک اٹھتا ہے۔  مگر اسنے اب تک محبت کو بے کل کر دینے والا پایا تھا.........دیوانہ و فریفتہ کر دینے والا......کسک سے بھرپور اور درد بھرا۔
ناجانے کتنی ساعتیں مزید گزری کہ دروازے کی معمولی چرچڑاہٹ پر سب کا سر سیڑھیوں سے اوپر بنے اس کمرے کی جانب اٹھا۔ وہ تھی۔ وہ تھم سا گیا۔ ہاں وہی تھی ایک لمبے دوپٹے کی آڑ لیے سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ہالف بال ہمیشہ کی طرح کیچر میں قید اور رخسار پر جھولتی وہ لٹ۔ پیروں میں پہنے سلیپرز اور سفید رنگ کا وہ سادہ مگر نفیس لباس۔ وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں کچھ خمار سا تھا۔ شاید وہ سو کر اٹھی تھی۔
 وہ اسے تکے گیا۔ محویت سے.......
کیا وہ اسے کبھی بتا پائے گا اس سفید رنگ میں وہ بہار میں کھلے چنبیلی کے پھول کی مانند لگتی ہے۔ وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ سفید اسی کا رنگ ہے مگر وہ نہ پہنا کرے کہ گرتی بجلیوں کو سہنے کی سکت اس میں نہ تھی۔۔
”ملکہ“۔ اسکے لبوں نے بے اختیار ہی سرگوشی سی کی........ ہاں اسی خطاب کی اہل تھی وہ...... اسکے قلب کی ملکہ....... ملکہ ایران....... آبش.....
اگر ذرا جو ہوش سنبھلے ہوتے تو اپنے برابر میں دیکھتا کہ کسی اور کا بھی کچھ اسی طرح کا حال تھا۔ اسکی نگاہیں بھی اسی طرح اس پری رخ پر جمی تھیں۔ بس فرق اتنا تھا کہ شہزادے کے لب مسکراہٹ میں پھیلے تھے جبکہ دیوانہ نیم وا لبوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
ایک حارث شہزادہ سا......
ایک نہال دیوانہ سا.......
ایک آبش آبشار سی........آبشار یا ملکہ؟.....!
ناجانے اس تکوں نے کون سی راہ اختیار کرنی تھی۔
راہِ یار...یا........تقدیر کی راہ؟....!
                                  ……(۰٭۰)……

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Dec 20, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

میری ذات۔ از عمارہ عمرانWhere stories live. Discover now