Episode 4

232 20 1
                                    

گاڑی عدیل غازی کی نیم پلیٹ کے سامنے رکی تھی۔باوردی گارڈ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ وہ ٹرن لیتی اندر کو پہنچی۔ڈرائیونگ سیٹ پر وہی ماتھے پر بکھرے بالوں والا شہزادہ بیٹھا تھا جس کے چہرے پر بیزاریت کے آثار صاف نمایا ہو رہے تھے۔ جبکہ برابر کی سیٹ معید نے سنبھالی تھی۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر باہر کو نکل آئے۔ قدم گھر کے داخلی دروازے کی جانب اٹھے تھے۔
"یار یہی ڈریس ٹھیک تھا۔ فضول میں اتنی دور کو آئے۔ یونی قریب تھا میرے آفس سے"۔ بیزار سا لہجہ تھا۔ قدم اندر کی جانب بڑھ رہے تھے۔
"تم اپنی ذرا کم ہانکا کرو۔ کس طرح کے بندے ہو یار تم۔ زندگی سے اتنا بیزار کیوں رہتے ہو"۔ وہ دونوں لاؤنج میں پہنچے تھے۔ وہ حسب توقع خالی تھا۔ وہ آفس سے ہی عدیل صاحب کو اطلاعی کال کر چکا تھا کہ وہ رات گئے دیر تک گھر واپس آئے گا۔ اسکا ارادہ اسی کپڑوں (پینٹ کوٹ) میں فیرویل میں شرکت کا تھا مگر معید زبردستی ہی اسے گھر لے آیا کہ پارٹی میں اس طرح کے کپڑے زیب نہیں دیتے۔ اور اب وہ جھنجھلایا سا تھا۔
"بتاؤ۔ کیا خرابی ہے ان کپڑوں میں۔ ایک شکن تک نہیں ہے یار"۔ سیڑھیاں چڑھتا وہ یک دم ہی پلٹا تھا۔ اسکی توجہ ایک بار پھر اپنے کپڑوں کی جانب کرانی چاہی تھی۔ معید کا دل کیا اپنا سر ہی پیٹ لے۔
"خدایا نہال تم پارٹی میں جا رہے ہو۔ فیرویل پارٹی سمجھے۔ آفس پارٹی نہیں ہے یہ۔ اب میں ایک لفظ نہیں سن رہا۔ چلو اوپر"۔ اسے ناچار اوپر پہنچنا پڑا۔ اندر پہنچ کر وہ تو وارڈ روب کی طرف بڑھ دیا۔ جبکہ معید اسکے بیڈ پر گر سا گیا۔
"سرخ رنگ کی شرٹ نکالنا۔ اور نیچے سیاہ جینز۔ وللہ غضب ڈھاؤ گے"۔
اسنے مڑ کر ایک خونخوار نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ وہ ذرا متاثر نہ ہوا۔
چند لمحوں بعد جب کچھ سامنے کیا تو ایک عدد آسمانی رنگ کی شرٹ اور خاکی جینز۔ معید نے اب کہ واقعتا اپنا سر پیٹ لیا۔
"اٹھا لے خدا اٹھا لے۔ نہیں مجھے نہیں اس نہال کو۔ کیا کروں میں تیرا بھائی۔ ادھر دے۔ میں خود کچھ ڈھنگ کا نکالتا ہوں"۔ ماتم کیا گیا۔ پھر وہ خود اٹھا اور وارڈروب کی طرف بڑھ دیا۔ اسکی تیوری بس چڑھنے کو تھی۔
"اب اس میں کیا پرابلم ہے"۔وہ جھلایا۔
"اس میں نہیں تیری پسند میں پرابلم ہے"۔ وہ خود وارڈروب میں چھان پھٹک کرنے لگا تھا۔ وہ برا سا منہ بنائے اسے دیکھتا رہا۔
بل آخر اسکی مطلوبہ چیز اسکے ہاتھ لگ ہی گئی۔ چہرے پر ایک چمک کے ساتھ وہ پلٹا۔ ہاتھ میں سرخ تو نہیں مگر میرون رنگ کی شرٹ لگی تھی۔ سیاہ جینز جو عام تھی اور اسکے پاس موجود تھی۔ وہی نکالے وہ انہیں بیڈ پر بچھا چکا تھا۔ اب کہ داد طلب نظروں سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔مگر کوئی رد عمل نہ پا کر خود ہی منہ بنا گیا۔
وہ ہتیار ڈالتا بیڈ سے کپڑے اٹھاتا ڈریسنگ روم کی طرف چل دیا۔ جبکہ وہ فرج کی طرف بڑھا۔ ایک کین نکالے صوفے پر براجمان ہوا۔
کچھ ہی لمحوں بعد ڈریسنگ روم کا دروازہ کلک ہوا۔ اسکی نظر اس جانب اٹھی۔ کسرتی جسامت پر مکمل برابر آتی وہ میرون شرٹ، سیاہ جینز۔ ماتھے پر بکھرے بال۔ ہلکی بڑھی شیو۔ سنجیدہ سی سیاہ آنکھیں۔ آخر وہ اپنی اس غیر معمولی وجاہت سے اتنا بے نیاز کیوں تھا؟۔ اسے گمان ہوا۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ بالوں کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ شاید کل رت جگے کا اثر تھا۔
وہ بھی صوفہ چھوڑتا اسی کی طرف چلا آیا۔ کمرے میں ایک بار پھر پوائزن کی مہک پھیلی تھی۔
"چلو تیار ہوں میں"۔ وہ پرفیوم رکھتا بولا۔
"اونہوں!۔ ابھی نہیں۔ ابھی کچھ باقی ہے"۔
"دلہن نہیں بننا مجھے۔ سہرا پہننا ہے نہ گھونگٹ۔ اب اس سے زیادہ کیا کروں"۔ وہ جھلایا۔
اسنے ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھایا۔ پھر متلاشی نگاہیں ٹیبل پر پھیرنے لگا۔
"ہیئر جیل کہاں ہے؟"۔ اسنے پوچھا۔
"میں نہیں رکھتا"۔ بے نیاز سا جواب آیا۔ وہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔
"اسے پکڑو۔ بال بناؤ"۔ ہیئر برش اسکی جانب بڑھایا۔ اسنے جھپٹا۔ بال بنانے لگا۔ صنف نازک ہوتی تو دل نکال کر قدموں میں رکھ دیتی۔ اسنے اپنی لیدر جیکٹ اٹھائی اور روم سے باہر نکل دیا۔
اب کہ گاڑی پھر یونی کی جانب روانہ تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ ہنوز اسی نے سنبھالی تھی۔ چہرے پر سنجیدگی رقم تھی۔
داخلی دروازہ سامنے تھا۔ کانوں میں پڑتی دھیمی میوزک کی آواز اور بڑے بڑے لفظوں میں لکھا یونی کا نام۔ اسے بہت کچھ یاد آیا تھا۔ اپنی طالبِ علمی زندگی کو وہ مکمل طور پر بھلا چکا تھا۔ آج شاید ڈھیر ساری یادیں تازہ ہونی تھیں۔
وہ دونوں گاڑی سے اتر آئے۔ اسکے قدموں نے سست روی اختیار کی تھی۔ اندر بڑھتا وہ ہر ہر چیز کو بغور دیکھ رہا تھا۔ کچھ بھی نہ بدلا تھا۔
دونوں گراؤنڈ پار کرتے اندر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اتفاق یہ تھا راک میوزک کی جگہ دھیما و لطیف سا میوزک تھا۔ شاید کسی کی پرفارمینس جاری تھی۔ پارٹی یونی کے گراؤنڈ کے بجائے ہال میں منعقد تھی۔
وہ ادھر ادھر دیکھتا آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔ جتنا فاصلہ سمٹتا میوزک کی آواز اتنی ہی بلند ہوجاتی۔ اچانک ہی میوزک کی بیٹ تبدیل ہوئی۔ اب شاید کسی کے گانے کی باری تھی۔ ہال کا دروازہ ذرا فاصلے سے ہی دکھائی دینے لگا تھا۔ جلتی بھجتی روشنیاں ہال کے نیم وا دروازے سے جھانکتی تھیں۔ برابر میں معید اسکے ہم قدم تھا۔ وہ کچھ کھویا کھویا سا آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک نسوانی و دلکش آواز جسے لفظوں میں بیان کرنا محال تھا اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔ اور تبھی دفعتاً اسکے قدم اس ہری گھاس پر جم سے گئے۔فضا ساکت سی ہوگئی۔ ہال ذرا فاصلے پر ہی تھا جہاں سے مائک کے ذریعے وہ آواز اٹھ رہی تھی۔
دھیمے میوزک کے ساتھ وہ سُر۔ وہ لمحوں میں مسحور ہوا۔ دھڑکنوں کے اطوار بدلنے لگے۔
معید جو اسکی محویت سے بے خبر چند قدم آگے بڑھ چکا تھا۔ دوبارہ پلٹا۔ اسکے قریب چلا آیا۔
"نہال!"۔ ہال سے اٹھتی آواز میں اسکی آواز ذرا دب سی گئی تھی۔ مگر وہ یک دم چونکا تھا۔ جیسے سحر چھٹا ہو۔ کچھ لمحوں کو خالی الذہن سے اسے تکنے لگا۔
"کیا ہوا ہے۔ اندر چلنے کا ارادہ نہیں کیا"۔ وہ فوراً سنبھلا۔ اپنی بے خودی پر خود کو کوسنے لگا۔ بڑے بڑے سنگرز موجود ہیں، انکی آواز پر تو ایسے کبھی نہیں چونکا۔
"وہ نہیں ایم سوری۔ چلو اندر چلتے ہیں"۔ خود کو سنبھالتا آگے بڑھنے لگا۔ معید شانے اچکاتا اسکے پیچھے چل دیا۔
سحر چھٹا تھا مگر اثر برقرار تھا۔ وہ جیسے ہال کی طرف کھینچتا چلا جارہا ہو۔ کیا تھا ایسا کہ وہ آواز اسکے دل میں دیدار کی خواہش اجاگر کر گئی تھی۔ ہال کا دروازہ پار ہوا۔ وہ اندر کو پہنچا۔ بھیڑ کافی تھی۔ مگر اسٹیج پر کھڑے ان دو نفوس کو دیکھنا مشکل نہ تھا۔
لڑکے کے ہاتھ میں گٹار تھما تھا۔ جس پر دھن بجاتا وہ اپنے برابر کھڑی لڑکی کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔
اسکی آنکھیں موندی تھی۔ مدہوش انداز تھا جیسے اپنی ہی آواز کے سحر کی لپیٹ میں ہوں۔ اسٹینڈ پر مائک ٹکا تھا۔ ذریعہ تھا وہ اسکی آواز اس تک پہنچانے کا۔
بھیڑ میں اسکے قدم اٹھ رہے تھے۔ اسٹیج کی جانب۔ ٹرانس کی سی کیفیت میں۔ اختیارات جیسے چھن گئے ہوں۔یا شاید اب اس آواز کو حاصل تھے۔ معید کہی پیچھے رہ گیا تھا۔

میری ذات۔ از عمارہ عمرانWhere stories live. Discover now