Episode 1

979 38 11
                                    

.... میری ذات....

نیم اندھیرے میں راج دھنی خاموشی تھی۔ اے سی کی خنکی میں ماحول خوابناک سا تھا۔جون کی حبس زدہ گرمی اور آفس کی تھکا دینے والی سرگرمیاں۔ اسی طرح کی بے شمار سرگرمیوں میں سرگرم رہنے والا وہ بندہ آج تھک کر بہت گہری نیند سویا تھا۔ الارم کی بے شمار گھنٹیوں پر بھی اس اوندھے منہ لیٹے بدن میں ذرا ارتعاش پیدا نہ ہوا تھا۔وہ چاہتا تو ابدی نیند سو جاتا، مگر وہی موت پر کب کسی کا اختیار رہا ہے۔
سائڈ ٹیبل پر رکھا موبائل ایک بار پھر زوروشور سے بج اٹھا تھا مگر آج تو پلک تک ہلنے کو انکاری تھی۔ الارم کا جب گلا بیٹھا تو وہ بیچارہ بھی تھک ہار کر خاموش ہو گیا۔ ماحول میں پھر سے خاموشی نے راج کیا تو دروازے کی کلک خاموشی میں ارتعاش پیدا کر گئی۔ایک اڈھیر عمر شخص اپنے پیچھے دروازہ بند کرتا دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا بیڈ کی طرف بڑھا تھا۔ قریب پہنچا تو اسکے اوندھے شانے پر ہاتھ رکھے اسے ہلا کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
"نہال بابا"۔ اسنے اسکا نام پکارا۔
"اٹھ جایئے نہال بابا۔ آ دھے گھنٹے کی دیری پہلے ہی ہو چکی ہے"۔ اب کہ شانا زور سے ہلایا گیا۔ وہ نیند میں کسمسایا، پھر سیدھا ہو لیٹا۔ تیکھے نقوش واضح ہوئے۔
"ٹائم کیا ہوا ہے عبدل"۔ خمار آلود آواز بھی دلکش تھی۔
"ساڑھے سات بج چکے ہیں"۔ بندھے ہاتھ و تابعد رانہ اندازتھا۔ وہ آنکھیں مسلتا اٹھ بیٹھا۔
”آج بہت گہری نیند سوئے بابا“۔ وہ اسے دیکھتا بولا۔ عموماًگہری نیند اسکا خا صہ نہ تھی، الارم کی کچھ گھنٹیاں اسے جگانے کے لیے کافی ہوا کرتی تھیں۔
”ہاں کل کام کی زیادتی نے ذرا تھکا دیا تھا۔تم کافی اور پین کلرز لے آؤ۔ میں فریش ہوکر آتا ہوں“۔ پین کلرز کا مطالبہ عبدل کو اپنی کہانی سمجھا گیا تھا۔ مطلب وہ کل پھر ساری رات جاگ کر کام میں سرگرداں رہا تھا۔ آئے دن کا معمول تھا اسکا۔ نہار منہ کافی پینا، ناشتے سے تو نجانے کیسی ازلی دشمنی تھی اسکی۔ جب تمام رات وہ کام میں سرگرم رہتا تو صبح کا پہلا مطالبہ کافی اور پین کلرز ہی ہوا کرتا تھا۔
”ناشتہ لاؤں نہال بابا“۔ ایک معمول عبدل کا بھی تھا۔ جواب سے ازبر ہوکر بھی روز یہ سوال کرنا وہ نہ بھولتا تھا۔
اپنے اوپر پھیلا کمفرٹر ہٹاتا وہ مسکرایا۔ پھر بستر چھوڑکر اسکے مقابل ہوکھڑا ہوا۔
”روز یہ سوال کرنے کی کوئی خاص وجہ عبدل“۔
”صحت بنتی ہے بابا۔ بڑھاپے کی توانائی کا سوال ہے۔ ناشتہ مت چھوڑا کریں“۔
”ارے عبدل۔ بیویوں کی طرح خیال مت رکھا کرو میرا۔ وہ بیچاری کیا کرے گی جب آئے گی تو“۔ ذرا شوخ لہجے میں کہتا وہ اسے جھینپنے پر مجبور کر گیا تھا۔ اسکے سر کھجانے کے انداز پر وہ قہقہ لگا بیٹھا اور وارڈروب سے اپنا ڈریس نکالتا ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ دیا۔
واپسی ہوئی تو کمرہ خالی تھا پس ٹی ٹرالی پر کافی کے ساتھ پین کلرز رکھی تھیں۔ وہ تولیے سے بال خشک کرتا ٹی ٹرالی کی جانب بڑھ دیا تھا۔ تولیے کو بیڈ پر پھینکے اسنے کافی کا کپ اٹھایا،پین کلرز منہ میں رکھ کرکافی کا گھونٹ بھرتے قدم بالکونی کی جانب بڑھا دیے۔
چند لمحوں قبل وہ قہقے لگاتا نہا ل غازی اب غائب تھا۔کہی دور افق میں گھورتا وہ کوئی اور ہی تھا۔ چہرے پر رقم اذیت کے ساتھ بھینچی بھنویں، لبوں سے گھونٹ بھرتا کھویا کھویا انداز جیسے ماضی کی جھرکیوں میں الجھا کوئی مجسمہ ہو۔
”کیا میں...... ناجائز ہوں بابا“۔ کہی دور سے اٹھی ایک بچگانہ و معصوم آواز اسکی سماعتوں میں سیسہ انڈیل گئی تھی۔
”یہ تم سے کس نے کہا“۔ ذرا چونک کر پوچھا گیا۔
”دادی جان نے کہا تھا ناں کہ میں ناجائز ہوں اور اس دنیا میں میرے لیے صرف دھتکار ہے“۔
گرم کافی کے گھونٹ سے جلی زبان کی تکلیف اسے ماضی سے کھینچ لائی تھی۔ مگر اندرونی تکلیف شدید تھی کہ جسمانی تکلیف فراموش کرتا وہ کافی کا ادھورا مگ ٹیبل پر دھرتا بالکونی سے باہر نکل دیا تھا۔ اکثر زہن میں پلتے کچھ سوالوں کے جواب میں سوالیہ نشان پا کر ایسے ہی کافی کے نجانے کتنے کپ ادھورے رہ جایا کرتے تھے،بکھرے بال ایسے ہی بکھرے رہ جایا کرتے تھے اور وہ کوٹ اٹھاتا اپنی منزل کو روانگی اختیار کر لیا کرتا تھا۔
ٓٓآج بھی جب ادھورے جوابوں کی طرح اپنی کچھ چیزوں کو ادھورا چھوڑتا وہ لاؤنج کی جانب بڑھا تو سامنے سے آتے عبدل کو دیکھتا رک گیا۔
”بابا اٹھ جائیں تو انہیں ناشتے کے ساتھ دوائیاں یاد سے دینا عبدل۔ تم جانتے ہو اس معاملے میں ایک پل کی کوتاہی بھی برداشت نہیں کرونگا“۔
”آپ بے فکر ہوکر جائیں نہال بابا۔ میں انکا خیال رکھونگا“۔ اسکی تسلی پر وہ اسکا شانہ تھپتھپاتا لاؤنج پار کر گیا تھا۔
                              ……(۰٭۰)……
لیپ ٹاپ سے نکلتی وہ جلتی بجھتی روشنیاں گر نہ ہوتیں تو کمرہ مکمل خاموشی و اندھیرے کی نذر ہوتا۔ ایسے میں وہ ہتیلیوں پر تھوڑی ٹکائے اوندھی لیٹی تھی۔ کانوں پر لگے ہیڈفونز تھے جن میں میوزک آن تھا۔ لمحہ بہ لمحہ ہر بیٹ پر وہ جھومتی سر ہلاتی اپنی مستی میں مست تھی۔ پیٹھ پر بکھرے سلکی بال سر کے ہر جھٹکے پر اڑتے،جھومتے اسکا ساتھ دے رہے تھے۔
اسی مگن انداز میں وہ ارد گرد سے مکمل طور پر غافل تھی کہ برابر میں رکھے چیختے فون کی آواز بھی اسکے متحرک انداز میں خلل پیدا نہ کر پائی۔ جو کام فون کی آواز نہ کر پائی وہ کانوں میں بجتی اس بھیانک ای میل کی آواز نے کر دیا۔ وہ ذرا بدمزہ سی ہوئی۔ میوزک روک کر جب ای میل کھولا تو بے شمار گالیاں اسکی منتظر تھی۔ گالیوں کے آخر میں ”فون اٹھاؤ ویلی عورت نہیں تو میں نے تمھارے گھر پہنچ جانا ہے“ لکھا تھا۔ ظاہر تھا کہ ای میل بھیجنے والا اسکی فطرت سے بخوبی واقف تھا۔
اسنے فون اٹھا کر وہی نمبر ری ڈائل کیا۔ فون اٹھا کر مزید کچھ گالیاں اسکی منتظر تھیں۔
”کس قدر بدتمیز ہو تم۔ تمھاری جینڈر پر خاصہ شک ہے مجھے۔ خدا کا خوف کھاؤ یار لڑکے بھی اتنی گالیوں سے واقف نہ ہونگے جتنی سے لڑکی ہو کر تم واقف ہو“۔ اسنے شرم دلانا ضروری سمجھا تھا۔
”خیر تمھارا خیال آتے ہی نجانے یہ لبوں پر گالیاں کیوں آجاتی ہیں“۔ مقابل جواب دینا جانتی تھی۔ اسکے لبوں سے بھی بے آواز ایک گالی نکل آئی تھی۔
”بکو۔ فون کیوں کیا تھا“۔
”ڈریس کلر کوڈ ڈسائڈ ہوگیا ہے۔ بلیک ہے اور کلر کے ساتھ سب ڈریس بھی سیم پہنینگی“۔
”ڈریس کس نے ڈسائڈ کیا ہے“۔ اسنے ذرا محتاط لہجے میں پوچھا۔
”کیا ہو یار تم۔ کسی فیصلے میں حصہ لینا نہیں ہوتا پھر ڈھیر سارے سوالات کرتی ہو“۔ مقابل جھنجھلائی تھی۔
”بکو مت۔ سیدھا جواب دو“۔
”میں نے ڈسائڈ کیا ہے“۔ بیزار سا جواب آیا۔
”تم جانتی ہو ناں ہم لڑکیاں ہیں اور لڑکیوں والے ہی لباس پہنتے ہیں۔ تمھاری طرح آدھا لڑکا اور آدھی لڑکی نہیں ہیں ہم“۔
”انتہائی جلاد عورت ہو تم۔خیر اس بار تم مجھے ایک نئے لک میں دیکھوگی۔ ہاں مانتی ہوں سب میری پسند کے بر عکس ڈسائڈ ہوا ہے مگر خیر دوستوں کے لیے کچھ تو قربان کرنا ہی پڑتا ہے“۔  اب کہ وہ بیڈ پر کمر کے بل لیٹ چکی تھی۔ انگلیوں میں بالوں کی ایک لٹ تھمی تھی جسے وہ دھیرے دھیرے بل دے رہی تھی۔ انداز کچھ کھویا کھویا سا تھا اور لب مسکراہٹ میں پھیلے تھے۔
”مگر اس بار مجھے آؤٹ سمجھو۔ میں کسی طرح کی قربانی دینے کے حق میں نہیں ہوں“۔ مسکراہٹ کے ساتھ کہا گیا۔
”کیا مطلب؟“۔
”مطلب یہ کہ اس بار میں اور حارث ڈریس کے کلرز میچ کر رہے ہیں“۔
”ہیں! لیکن یہ کیوں آبش“۔ ذرا حیران لہجے میں پوچھا گیا۔
”لاسٹ فیرویل ہے یار اور اس بار ہم دونوں پرفارم کرنے کا سوچ رہے ہیں“۔ 
"کس طرح کی پرفورمینس"۔ جھجھلاہٹ بھری آواز تھی۔
”سنگنگ پرفارمینس“۔ اسکی مسکراہٹ بتدریج گہری تر گہری ہوتی جا رہی تھی۔
”ہاں تو ٹھیک ہے کرو سنگنگ کون روک رہا ہے لیکن پلیز یہ ڈریس کے چکر چھوڑ دو۔ ہماری پچھلے چار سالوں سے چلی آرہی اس خصوصیت کو برباد مت کرو“۔
”نہ! اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ فیصلہ پکا سمجھو“۔ اسنے نچھلا لب دانتوں میں دبایا۔
”آبش پلیز“۔ التجا کی گئی۔
”نہ نہ۔ معاف کرو۔ خیرات مانگنے جمعرات کو آنا“۔ اسنے ٹس سے مس نہ ہونا تھا۔
”دفع ہوجاؤ پھر دغا باز۔ مجھے لگا ہی تھا یہ حارث کا چکر کسی دن تمھیں غدار بنا کر چھوڑے گا“۔ وہ مکمل طور پر تپ چکی تھی۔
”دیکھ لو۔ کافی بڑا الزام ہے یہ“۔
”دیکھ لیا بہن سب دیکھ لیا۔ ہائے کیسی تیری خود غرضی۔ دفع ہوجاؤ جلاد عورت“۔ چیخ کر کہتے لائن فوراً کاٹ دی گئی تھی۔
وہ مسکرا کر فون کان سے ہٹاتی بیڈ پر اپنا بازو گرا گئی تھی۔ کیسا احساس تھا۔ دل کی ہر دھڑک میں محبوب کا خیال تھا۔
                                 ……(۰٭۰)……
سفید جاگرز پر سیاہ جینز، اس پر سیاہ ٹی شرٹ،اوپر سفید رنگ کی جیکٹ۔ جس پر مختلف رنگوں کی عجیب ترین عمارتیں اور شوخ تصویروں کے ساتھ مختلف رنگوں میں نجانے کونسی زبان میں کچھ الفاظ لکھے تھے۔آیئنے میں اپنے عکس کو ستائیش بھری نظروں سے دیکھتا وہ شریر مسکراہٹ لبوں پر سجائے اپنے بالوں کو سنوارنے میں مکمل طور پر منہمک دکھائی دے رہا تھا۔ مسکراہٹ تھی کہ ایک پل کو جدا نہ ہوتی تھی۔ شریر مسکراہٹ میں لب دائیں جانب سمٹے تھے، تیکھے نقوش پر ہلکی شیو وجاہت کو چار چاند لگاتی توجہ اپنی جانب مبذول کرتی تھی۔اگر لوگ اسے مغرور شہزادہ کہتے تھے تو وہ اس خطاب پر پورا اترتا تھا۔مگر اسکا ڈریسنگ سینس شہزادوں سے ذرا بر عکس تھا۔ شوخ رنگ اور ہاتھوں میں پہنے بے شمار بینڈز اسے شہزادوں میں کم مگر آوارہ گردوں کی فہرست میں زیادہ شمار کرتے تھے۔اور پھر کچھ اپنے ہی جیسے آوارہ دوستوں کی سنگت۔
جہاں لوگ اسے شہزادہ کہتے وہی کچھ لوگ اسے امیر باپ کی بگڑی اولاد بھی کہا کرتے تھے۔ مگر ذرا اپنی شوخ طبیعت کے ساتھ وہ ایک مہذب شخص اور اعلٰی تعلیم یافتہ بھی تھا۔
بال جب مکمل طور پر سنور گئے تو وہ برش رکھتا آئینے کے سامنے سے ہٹ دیا۔ بیڈ پر رکھا اپنا سفری بیگ اٹھاتا وہ روم سے باہر نکل دیا تھا۔
اس فارم ہاؤس کے بڑے سے لاؤنج میں دو بڑے بڑے تھری سیٹرصوفے رکھے تھے۔ جن کے درمیان میں ایک درمیانے سائز کی کانچ کی ٹیبل رکھی تھی۔ وہ اپنا سفری بیگ صوفے کے ہی قریب کارپیٹ پر رکھتا ایک صوفے پر جا بیٹھا جہاں اسکے دو دوست پہلے ہی موجود تھے۔
”آگئی ایک اور دلہن۔ پانچویں کا انتظام بھی جلدی کر لاؤ بھائی“۔ صوفے کی پشت پر اپنا ایک بازو ٹکائے حارث کو صوفے پر بیٹھتا دیکھ حازم اونچی آواز میں بولا تھا۔ اسکا اشارہ حارث کی گھنٹا بھر تیاری کی جانب تھا۔
”یہ نہیں اٹھ رہا یار“۔ اوپر بنی کیاریوں سے صارم کی جھنجھلائی آواز ابھری تھی۔
”پانی ڈال اس سلیپنگ بیوٹی پر“۔ اب کہ عماد گردن اٹھائے اوپر دیکھتا کہہ رہا تھا۔
”چھینٹے تو مار چکا ہوں۔ اب کیا پوری بوتل انڈیل دوں؟“۔ صارم کی بیزار سی آواز پھر سے سنائی دی تھی۔”ابے شاہ میر اٹھ جا بھائی“۔ شاید اوپر کسی کو جگانے کی کوشش زوروشور سے جاری تھی۔
”یہ آج بھی سلیپنگ پلرز کھا کر سویا تھا کیا؟“۔ حارث جعفری اس سب میں پہلی بار بولا تھا۔
”ہاں یار۔ نجانے اس جگہ میں ایسا ڈراونہ کیا لگا اسے کہ نیندیں ہی اڑ گئیں سالے کی“۔ عماد نے جواب دیا۔
”حازم کے پوروجوں کی روحیں تو نہیں بستی یہاں“۔ حارث ذرا مسکرا کر بولا تھا۔
  ”ایک بدروح جب یہاں کھلے عام منڈلاتی ہو تو باقی روحوں کی ضرورت نہیں پرتی“۔ اوپر سے صارم کی آواز ابھری تھی۔
”ہاں جانتے ہیں۔ اپنی مثالیں ذرا کم دیا کر تو“۔ حارث جواب دینا جانتا تھا۔
”پیچھے کا جنگل یار۔کبھی تو مجھے بھی خوف آتا ہے وہاں دیکھ کر“۔ عماد نے انکی توجہ فارم ہاؤس کے پچھلے جانب آباد اس سنسان وخوفناک جنگل کی جانب مبذول کرائی۔
”کچھ نہیں ہے یار وہاں۔ میرے دادا کا پورا بچپن گزرا ہے یہاں۔آج تک کسی طرح کی پراسرار یت نہیں پائی انہوں نے۔ اور پھر کیا تم لوگوں کو کچھ عجیب لگا تھا؟، یہ سب ناں اس شاہ میر کے دماغ کا فتور ہے اور کچھ نہیں“۔ حازم بیزار سا دکھائی دے رہا تھا۔
”نہیں اٹھ رہا وہ یار۔ میں کوشش کر چکا“۔ سیڑھیاں اترتے صارم کی آواز آئی تھی۔ اب کہ وہ بھی تھک ہار کر صوفے پر بیٹھنے لگا تھا۔
”پیچھے جنگل میں جنگلی جانور تو نہیں ہوتے ناں حازم“۔خلا میں گھورتے حارث کی کھوئی کھوئی آواز ان سب اپنی جانب متوجہ کر گئی۔
”نہیں تو“۔ حازم ذرا محتاط تھا۔ حارث کے لبوں کو یکایک ایک چمکیلی مسکراہٹ نے آگھیرا تھا۔ان تینوں کی سوالیہ آئبرو ایک ساتھ اٹھی تھیں کہ حارث کے شیطانی دماغ سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ اسکے پریشر ککر میں پکتی عجیب وغریب کھچڑی کے مکمل تیار ہوجانے کے بعد کی گھنٹی انکے لیے خطرے کا الرام ہوا کرتی تھی۔ کھچڑی تو انکے شعور میں آنے سے قبل ہی تیار ہوجایا کرتی تھی مگر پھر اسکا ذائقہ چھکنے کے لیے ان چاروں میں سے کوئی ایک ضرور اسکے ہتھے چڑھتا تھا۔ اور آج شاید شاہ میر کی شامت آنی تھی۔
”تو کیوں نہ ہماری ٹرپ کے اس آخری دن کو ذرا یاد گار بنایا جائے“۔وہ آنکھیں مٹکا کر بولا تھا۔
”اب کیا پک رہا تیرے پریشر ککر میں“۔ صارم کی نگاہیں جانجتی تھی۔
”تخریب کاری“۔ شیطانی مسکراہٹ۔ ان تینوں کی پتلیاں ایک دوسرے کی جانب مڑی تھیں۔ وہ صوفہ چھوڑتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اسکا رخ کیچن کی جانب تھا۔
”کیا کر رہا ہے اب تو“۔ اسے کیبنٹ کھول کر پتیلی نکالتا دیکھ پوچھا گیا۔
”گرم پانی۔ تم سب اپنی اپنی سفید شرٹز پہن لو۔ اور حازم جعلی خون کیسے بنتا ہے؟“۔ پانی سے بھری پتیلی کو چولہے پر چڑھاتے انداز مصروف سا تھا۔
”مت کر حارث۔ وہ ویسے ہی چوہوں جیسا دل رکھتا ہے“۔ صارم کی ممتا جاگی تھی۔
”اب تو اسکی ماں مت بن جانا پلیز“۔ وہ بد مزہ ہوا۔
”حازم جعلی خون“۔ اسنے بیزار سے بیٹھے حازم کو پھر یاد دلایا۔ خبر جو تھی کہ اس تخریب کاری کا حصہ ان سب نے بھی بننا تھا۔
”چینی، پانی اور لال رنگ۔ گاڑھا کرنے کے لیے چاکلیٹ پاؤڈر“۔
”گریٹ!۔ تم سب سفید شرٹز پہنو یار“۔ انہیں صوفے پر سستا تا دیکھ اب وہ بھی بیزار ہوا تھا۔ وہ ناچار اٹھے تھے کہ جانتے تھے اب اسنے ٹس سے مس نہ ہونا تھا۔
                                ……(۰٭۰)……
مردوں کا آفس سے روانگی پر ایک ہی معمول، گرمی چاہے پگھلائے ہی کیوں نہ دے رہی ہو،ڈھلتی شام کے ساتھ اپنے حلق کو گرم چائے سے تر کرنا وہ نہ بھولتے تھے۔
اور پھراس حبس زدہ گرمی میں کچن کا گھٹن زدہ ماحول جہاں آگ برساتے چولہے پر پتیلی بھر چائے بنانا عورتوں کے لیے کسی معرکے سے کم تر نہ تھا۔
جہاں مردوں کے درمیان چائے کا دور چلتا وہی عورتیں رات کے کھانے کی تیاری کی خاطر کچن کا رخ لیتیں اور زورو شور سے مختلف پکوان چولہے پر چڑھانے میں جٹ جاتیں۔
ایسے ہی کچن کی گرمی سے بیزار پسینے میں چہرہ تر لیے وہ ہاتھ میں چائے کی پیالیوں سے بھری ٹرے تھامے لاؤنج کی جانب بڑھ رہی تھی جہاں مرد کاروباری مسئلے مثائل میں الجھے تھے وہی ہانیہ اپنی گود میں پانچ سالہ طلحٰہ کو تھامے اسکی کسی ضد پر اسے سمجھانے میں منہمک تھی۔
وہ چائے کی ٹرے ٹیبل پر دھرتی صوفے پر ہانیہ کے برابر ہی جا بیٹھی۔ ذرا آگے ہاتھ بڑھا کر ٹشو باکس سے ٹشو نکالتی وہ اپنا منہ پونچھنے لگی تھی۔ لاؤنج میں لگے اے سی کی خنک میں اسکا گھٹتا سانس کچھ بحال ہوا اور غافل حسیں جب کچھ بوجھنے کے قابل ہوئی تو اسنے تایا جان کو کہتے سنا۔
”دبئی کے کلائنٹس ہیں۔ یہ پروجیکٹ ہماری کمپنی کے لئے کسی جیک پوڈ سے کم نہیں ثابت ہوگا ارباز“۔ عباس صاحب ٹرے سے چائے کا کپ اٹھاتے کہہ رہے تھے۔
”میں تمھاری بات سے متفق ہوں۔ اور اب تو حارث کی پڑھائی بھی ختم ہو چکی ہے۔ اسکے لیے یہ پہلا پروجیکٹ ہوگا اور میں چاہتا ہوں جتنا ہوسکے وہی اس ڈیل کو سنبھالے یہاں تک کہ پہلی پریزنٹیش بھی وہی تیار کرے“۔  ارباز صاحب کے بات سے اختلاف کرتے زایان کا گھونٹ بھرتا چہرہ نفی میں ہلا تھا۔ ارباز صاحب کی سوالیہ ائیبرو اٹھی۔
”نہیں بابا۔ میں مانتا ہوں آپ حارث پر ذمہ داریاں ڈال کر اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں مگر اسکی لاابلی اور لاپرواہ فطرت کو مدنظر رکھ کر میں آپکے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ پراجیکٹ ہماری کمپنی کا سب سے بڑااثاثہ ہے اور حارث کے ہاتھ میں دے کر ہمیں اسے برباد نہیں کرنا چایئے“۔ زایان کے چہرے پر کسی طرح کے تلخ تاثرات نہ تھے مگر اسکا عام سا لہجہ بھی ارباز صاحب کو ناگوار گزرا تھا۔ انکی باتوں کو بغور سنتی آبش پر حارث کی یہ کڑوی سچائیاں گراں کزری تھیں۔ وہ برا سا منہ بنا گئی۔
”تم اپنے بھائی کے لئے اسطرح کی باتین کس طرح کہہ سکتے ہو زایان“۔ ناگواریت لہجے سے بھی عیاں تھی۔
”اپنے بھائی کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہو کر بابا۔ وہ جب بھی آفس آتا ہے محض شوخیاں مار کر واپس ہو لیتا ہے، کسی کام کو سمجھنا تو دور اس نے آج تک غور کرنے کی بھی کوشش نہیں کی تو آپ کس طرح اتنا بڑا پراجیکٹ اسکے ہاتھ میں تھما سکتے ہیں“۔
”زایان ٹھیک کہہ رہا ہے بھائی جان۔ حارث کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ضرور بڑھائیں مگر تمام پروجیکٹ اس پر ڈال دینا حماقت ہے۔ اور پھر ہمارے مدمقابل کے بارے میں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔نہال کے ہاتھ موقع لگے تو وہ چونکا مارنے سے ہرگز نہیں چوکتا“۔ عباس صاحب نے انکی توجہ جعفریز کے اکلوتے کمپیٹیٹرکی جانب مبذول کروائی تھی۔
”نہال غازی اپنے مفاد پر ہاتھ رکھے تو دوبارہ نہیں کھینچتا اسے چھین لیتا ہے۔ ہمیں اس پراجیکٹ کو پانے کے لیے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا بابا“۔ انکی باتیں سنتی آبش نہال کے ذکر پر اپنی بھنویں بھینچ گئی تھی۔ ایک تجسس سا اسکے دل میں سر اٹھا چکا تھا۔ مگر وہ فوراً ہی چونکی تھی جیسے دماغ کی بتی جل اٹھی ہو۔
”بابا میں بھی اس پروجیکٹ میں پارٹ لینا چاہتی ہوں“۔ اسکے مخاطب عباس صاحب تھے مگرہانیہ سمیت وہ سب چونک کر اسے اپنی نظروں میں گھیر گئے تھے۔
”جی بابا۔ آپ سب جتنی تعلیم تو میں نے بھی حاصل کی ہے ا ور نہ ہی مجھ پر کسی طرح کی لاپرواہی اورحماقت کا لیبل ہے“۔ وہ انکے لبوں کو ساکت پا کر خود ہی بول پڑی تھی۔ ”خیر ہونا تو حارث پر بھی نہیں چاہیے کہ علاوہ اسکی شوخ طبیعت کے وہ تمام ڈپارٹمنٹ میں ٹاپر بھی رہا ہے۔تو میں چاہتی ہوں اس پراجیکٹ کی ذمہ داری نہ صرف حارث البتہ ہم دونوں کے حوالے کردی جائے۔ میں وعدہ کرتی ہوں باباکہ آپکو مایوس نہیں ہونے دونگی“۔ ارباز صاحب اورعباس صاحب کی پتلیاں ایک دوسرے پر ٹکی تھی جبکہ زایان کی نظر ہانیہ پر اٹھی تھی جو اپنی بہن کی حماقت پر اپنا سر تھامے بیٹھی تھی۔
”تایا جان، بابا میں آپ دونوں کی منتظر ہوں“۔انہیں ہنوز خاموش پا کر وہ پھر بول اٹھی تھی۔ اسنے زایان کا نام نہ لیا تھا کہ آج وہ اپنے عزیز تر کزن پلس جیجو سے حارث کی برائیوں پر سخت خفا تھی۔
”میں آبش کی بات سے اتفاق کرتا ہوں“۔ مزید کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد ارباز صاحب کے لب ہلے تھے جو زایان سمیت ہانیہ کو بھی چونکا گئے تھے۔
”یہ دونوں بھی ہماری ہی اولاد ہیں اور انکے مستقبل کا خیال ہمیں ہی رکھنا ہے تو انہیں ابھی سے آگے بڑھانے میں کیا حرج ہے؟۔ اور ویسے بھی کسی بھی طرح کی کنفیوژن پر ہم گائڈ کرنے کے لئے موجود ہیں یہاں۔ کیا کہتے ہو عباس“۔
”میں سو فیصد متفق ہوں بھائی جان اللہ نے چاہا تو یہ پراجیکٹ ہمارے ہی ہاتھ میں ہوگا“۔ عباس صاحب خوش اسلوبی سے بولے تھے۔
”اور تم زایان؟ تم بھی ہمارے ہی بیٹے ہو تمھاری رائے بھی بہت معنی رکھتی ہے“۔
”جیسا آپ بہتر سمجھیں بابا“۔ وہ تابعداری سے کہہ گیا تھا۔ جہاں اسکا جواب انہیں مطمئن کرگیا وہی آبش کے چہرے پر خوشی کی نجانے کتنی ہی لہریں دوڑ چلی تھیں۔
                                  ……(۰٭۰)……
زندگی جب ایک ہی معمول پر گامزن رہے تو اکثر تھکا دیتی ہے۔ کبھی تمام کام چھوڑے کہی دور بس جانے کا دل چاہتا ہے کہ خود کی کھوج لگائے تھوڑا وقت خود پر صرف کریں مگر ذمہ داریاں اجازت نہیں دیتیں۔ آج اسی طرح کی کئی ذمہ داریوں سے تھکا وہ نجانے کتنی ہی دیر سڑکوں پر بے جا گاڑی دوڑاتا رہا تھا۔ اسکی ذمہ داریاں کچھ خاص نہ تھیں، وہ چاہتا تو سب چھوڑ چھاڑ کر کچھ عرصہ کہیں گم ہوجاتا مگر دل کے مریض باپ کو ملازموں کے سہارے چھوڑ جانا کم از کم اسکے اصولوں کے خلاف تھا۔
گھر سے آفس، آفس سے گھر کے اس معمول سے وہ تھکتا تھا، بیزار ہوتا تھا۔ اور پھر گھر جا کر روم میں بند ہوجانے سے اس چاردیواری میں اسکا دم گھٹتا تھا۔ صبح اٹھتا تو ملازموں کو باپ کے حوالے سے ہدایت کرتا آفس کے لیے روانہ ہوجاتاپھر واپسی پر زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ انکے ساتھ بسر کرتا اور انکے آرام کا وقت ہوجاتا۔ انکی حالت اس قدر ناتواں اور حساس تھی کہ آفس کے کاموں میں سرگرم ہونا اور ذرا سا بھی دباؤ انکے لئے خطرے کا باعث تھا۔ مگر باپ کا کھڑا کیا گیا بزنز اب اسکا تھا اور یہ ذمہ داری اسنے مکمل انہماک سے نبھائی تھی کہ پاکستان کے چند مشہور ومعروف کاروباری لوگوں میں اسکا نام شمار کیا جاتا تھا۔
مگر یہ کامیانی کبھی اسکی خوشی کا باعث نہ بنتی تھی کہ پیسوں کا پجاری وہ کبھی رہا ہی نہ تھا۔ ماں اسے جنم دیتے ہی ابدی نیند جا سوئی اور وہ مکمل طور پر تنہاہو گیاتھا۔
ایسا نہ تھا کہ اسکے دوست نہ تھے۔ ہاں مگر گنتی بھر ضرور تھے کہ ایک،دو،تین پر آکر گنتی بھی شرما جاتی۔ پھر ان دوستوں کے چند آوارہ اجتماعات میں جا کر بیٹھنا اور گپے لگانا اسکی فطرت کے بر خلاف تھاکہ اسکی قدامت پسند طبیعت اور ریزرو فطرت اسے اجازت نہ دیتی۔کبھی اس معمول سے انتہا کا گھبراتا تو چند ایک دوست کے ساتھ کچھ وقت گزار آتا یاپھر اسکی مخصوص و پسندیدہ جگہ وہ سنسان پڑا قبرستان جہاں اسکی ماں ا ٹھائیس سالوں سے ابدی نیند سوئی تھی۔
آج بھی جب کام سے فارغ ہوئے سڑکوں پر بے جا گاڑی دوڑاتا وہ تھک چکا تو اب اسکا رخ اس قبرستان کی جانب تھا۔ ماں سے یہ چند لمحوں کی ملاقات اسکے لئے بڑے سکون کا باعث ہوا کرتی تھی۔ عجیب رشتہ تھا اسکا اپنی ماں سے۔ کبھی شکل دیکھی نہ آواز سنی مگر جب قبر کے قریب بیٹھا ان سے باتیں کیا کرتا تو قبر کو جواب دیتا پاتا، کبھی قبر کے سرہانے سر رکھے لیٹ جاتا اور آنکھیں موندتا تو خود کو ماں کی آغوش میں پاتا اور تمام تنہائی کہی دور منہ چھپا جاتی۔
آج بھی جب بائیں ہاتھ سے اسٹیرنگ مضبوطی سے تھامے دایاں ہاتھ کھڑکی پر جمائے اسکا رخ قبرستان کی جانب تھا تو ماضی کی کچھ تلخیاں اسے خود میں الجھا گئی تھیں۔ بچپن کی وہ ایک ملاقات اور لفظوں کے کچھ زہریلے تیر اسے آج بھی اپنے سینے میں پیوست محسوس ہوتے۔  وار اس قدر شدید اور گھاؤ اس قدر گہرا ہوتا کہ خون آنکھوں میں گردش کرتا، لب بھینچ جاتے مگر دل ایک سوال داغ جاتا کہ وہ آخر ہے کون۔
”تم جانتے ہو تم کون ہو“۔
”میں کون ہوں“۔ لہجہ معصوم تھا۔
”تم ناجائز ہو۔ تم پر دھتکار ہے۔ تم غلاظت سے بھرپور حرام عشق کی پیداوار ہو“۔
تکلیف برداشت سے باہر ہوئی تھی کہ وہ ضبط کا امتحان لیتا اپنا ہاتھ منہ سے بالوں تک پھیر گیا تھا۔ سر اس بری طرح جھٹکا تھا کہ اسے گردن سے جدا کیے پھینک دینا چاہتا ہو۔  اب کہ جب منزل سامنے تھی تو وہ گاڑی روک چکا تھا۔ دروازہ کھولتا جب اترا تو اپنا کوٹ اتارتا وہ گاڑی میں ہی رکھ چھوڑا تھا۔ گلاب کی پتیوں سے بھری وہ تھیلی تھامے قدم قبرستان کے اندر بڑھایا تو وہی ازلی خاموشی اور وحشت نے اسکا اسقبال کیا۔ لوگ وحشت سے گھبرا کر رات کے وقت یہاں آنے سے گریز کرتے تھے اور وہ اپنے اندر کی وحشوں سے گھبرا کر سکون کی خاطر قبرستان کا رخ کیا کرتا تھا۔
مطلوبہ قبر تک پہنچ کر وہ کچھ لمحے اس تخت کو تکتا رہا جس پر واضح لفظوں میں نتاشہ عباسی لکھا تھا۔ زندگی کا اصل کیا تھا۔ امیر ہو چاہے غریب، بادشاہ ہو یا غلام خاک کے پتلے تھے اور خاک کا ہی ہو کر رہنا تھا۔
قبر کے سرہانے گھٹنے زمین پر ٹیکے وہ مٹھی بھر پتیاں قبر پر چڑھانے لگا تھا۔ پھر ہتیلیاں آسمان کی جانب اٹھائے فاتحہ پڑھتا وہ دوزانوں بیٹھ چکا تھا۔ منہ پر ہاتھ پھیرے اسکی نگاہ ایک بار پھر تخت کی جانب اٹھی تھی۔ چہرے پر پھیلا اضطراب اب بھی برقرار تھا۔
”اسلام علیکم ماما“۔ اسنے معمول کی طرح سلام پیش کیا تھا۔
”ماما آپ بھی تنگ آتی ہونگی ناں کہ میں روز آپکو پریشان کرنے چلا آتا ہوں“۔ تخت کو تکتا کوئی بچا بولا تھا۔ وہ مشہور و معروف بزنز مین نہال غازی سے تو بلکل بر عکس تھا۔
”میرے سوال بھی آپکو پریشان کرتے ہونگے“۔ اب کہ وہ سر جھکا گیا تھا۔ بھاری و بوجھل آواز میں اندر کی توڑ پھوڑ واضح تھی۔
”مگر ماما وہ لفظ میرے کانوں میں سیسا انڈیلتے ہیں، میرے سینے پر وار کرتے ہیں،میرا وجود پاش پاش ہوتا محسوس ہوتا ہے“۔
”بابا کی طرف کے جواب مجھے مطمئن تو کر جاتے ہیں مگر وہ لفظ یاد آتے ہی میری پہچان مجھے ایک معمہ لگتی ہے“۔
”میں کون ہوں ماما، میری پہچان کیا ہے؟“۔
”کیا واقعی میں......... کیا واقعی میں حرام پیداوار ہوں“۔ گہرا سانس لئے ڈھیروں آنسوں اندر اتارے گئے۔
”میں جواب پانے پھر وہی جانا چاہتا ہوں جہاں مجھے غلاظت قرار دے کر دھتکار دیا گیا تھا مگر وہاں جانے کی ہمت خود میں متجمع نہیں کر پاتا۔ پہلے تو بابا نے سنبھال لیا تھاگر اب ان لفظ کے زہریلے تیروں نے تار تار کیا تو کون سنبھالے گاماما“۔ قبر کے سرہانے سرٹکائے وہ آج پھر آنکھیں موند گیا تھا۔ آج پھر کچھ شکوے ہونے تھے کچھ شکایات۔ کچھ محرومیوں کا رونا تو کچھ چیزوں پر تشکر۔ سوالات بہت تھے مگر جوابات ندارد۔ نہال غازی کے خیال کی سوئی اسی سوال پر آکر اٹکتی تھی کہ اسکی پہچان کیا تھی۔
اسکے باپ کے جوابات یا باپ کے خاندان سے ملنے والی حقارت و دھتکار۔
                                  ……(۰٭۰)……
گھنے جنگل کے بیچ و بیچ الّووں کی گونجتی آوازوں میں ہولناک منظر واضح تھا۔ جنگل کی اس پراسرار خاموشی میں ریکارڈ شدہ چند خوفناک آوازیں وحشت ناک ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ ہری بھری گھاس پر چند خون آلود پھٹی شرٹز موجود تھی۔ ذرا مزید نظریں گھما کر دیکھا جائے تو فلیش لائٹس میں گھاس پر بچھی وہ سفید چادر تھی جس پر خون آلود کچھ گوشت نما ٹکڑے رکھے تھے۔ ذرا فاصلے پر ایک اوندھا وجود مردہ سا تھا جسکی سفید شرٹ پر جگہ جگہ خون کے دھبے موجود تھے۔ بے شمار لگے درختوں پر چند سرخ چھینٹے، سر اٹھا کر ایک درخت پر نظرثانی کی جائے تو وہاں ایک اوندھے وجود کا راج تھا جسکے وجود سے لمحہ لمحہ ٹپکتا وہ خون تھا۔ ماحول ایسا تھا کہ اچھے اچھوں کا دیوالیا نکل جائے، دل حلق میں آجائے کہ سانس بھی شرما جائے۔ اور پھر وہی اسی سفید چادر پر سیاہ گاؤن میں ملبوس مسٹر ڈریکولا موجود تھے۔ جن کے بدنما ہونٹوں سے خون رستا تھا۔ خوفناک چہرے پر جھریاں تھی۔ سیاہ ہلکوں نے سیاہ آنکھوں کو پوشیدہ کر رکھا تھا۔ ہاتھ میں تھما وہ خنجر سا تھا جو وہ ان گوشت نما ٹکروں پر برسائے جاتے تھے۔
اور ایسے میں دنیا و مافیہا سے بیگانہ وہ گردن دائیں جانب کو لڑکائے درخت کے تنے سے بندھا اونگ رہا تھا۔ اگر اسے الہام ہوتا کہ کیا ہونے والا تھا تو نیند آور دوائیوں کے بجائے زہر کھا کر ابدی نیند سونا زیادہ پسند کرتا۔ 
ایسے میں مسٹر ڈریکولہ اپنا خون آلود خنجر تھامے اٹھے تھے۔ دھیرے دھیرے لہک لہک کر قدم اٹھاتے وہ اس اونگتے وجود کی جانب بڑھے تھے۔ وہ کھولتا گرم پانی جو وہ یہاں آنے سے پہلے ہی کر لائے تھے اب نیم گرم میں بدل چکا تھا۔
ڈھکن کھولے جب اس وجود پر پوری بوتل انڈیل دی گئی تو وہ کچھ کمسایا۔
”کیا یار یہ کون سا طریقہ ہے اٹھا.............“۔ خمار آلود بھاری آواز میں اسنے آنکھیں مسلتے بولنا چاہا مگر سر اٹھاتے ہی آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی۔ سانس اوپر کا اوپر رہ گیا اور خوف کی لہر رگ و پے میں سرایت کر گئی۔
”ک....کون ہو تم“۔ خوف کے مارے آواز نکلے نہ دے رہی تھی۔ مگر سامنے والا مکمل طور پر خاموش تھا۔
”کون ہو تم“۔ اب کہ نظر سفید چادر پر رکھے ان ٹکروں کی جانب اٹھی تھی،اس اوندھے پڑے مردہ وجود کو دیکھ کر وہ کانپ اٹھا تھا۔
ڈریکولہ نے مزید ایک قدم اسکی جانب بڑھایا۔خنجر اسکے قریب لائے وہ اسے ڈرانے میں مکمل طور پر کامیاب رہا تھا اور رہی سہی کثر درخت سے ٹپکتے اس خون اور مردہ وجود نے پوری کی تھی کہ وہ کمزور دل مزاحمت تک نہ کر پایااور اسکے اوسان خطا ہوتے دکھائی دئے۔ گردن اب پھر بائیں جانب لڑک چکی تھی۔ مسٹر ڈریکولہ کو جب اندازہ ہوا کہ اب وہ سویا نہیں بے ہوش ہوا ہے تو وہ اپنے چہرے پر چڑھا جھریوں بھرا خول اتار چکے تھے۔
”اوئے شاہ میر“۔ وہ ماسک کو زمین پر بھینکے متفکر لہجے میں کہتا اسکے گال تھپتھپانے لگا تھا۔
”ارے شاہ میر اٹھ یار یہ مذاق تھا......حازم، عماد ادھر آؤ یار یہ تو بے ہوش ہوگیا“۔ اسکے پکارنے پر ایک دھپ کی آواز آئی تھی جیسے درخت کا پر لیٹا مردہ وجود جاگ اٹھا ہو، اسی کے ساتھ سفید چادر پر لیٹا وجود بھی بوکھلایا سا انکی طرف بڑھا تھا۔ اب کہ وہ مل کر اسکے گرد بندھی رسی کھولنے میں سرگرداں تھے۔  جبکہ ڈریکولہ بنا حارث مسلسل شاہ میر کے گال تھپتھپائے اسے ہوش میں لانے کی کوششوں میں تھا۔
”تجھے منع کیا تھا حارث کہ مت کر ایسا۔ یہاں اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ جائیں اور تجھے ڈرانے کے لیے ملا بھی کون چوہوں جیسا دل رکھنے والا شاہ میر“۔ صارم جو ہاتھ میں کیمرہ تھامے درخت کی اوٹ میں چھپا ریکارڈنگ کر رہا تھا سامنے آتے ہوئے اس پر چڑھ دوڑا۔
”فلحال اسے ہوش میں لانے کا کوئی حل ہے تیرے پاس تو پلیز بھونک۔ شاہ میر میرے بھائی اٹھ جا یارکیوں جان نکالے دے رہا ہے“۔ وہ مکمل طور پر ہراساں تھا۔ اندازہ جو نہ تھا کہ آج اس پرینک پر پرینک گون رونگ کا لیبل لگ جانا تھا۔
”پانی..... پانی کہاں ہے حارث“۔ حازم ادھر ادھر نگاہیں دوڑائے پانی کی تلاش میں تھا۔
”وہ تو میں نے پورا انڈیل دیا یار“۔ زندگی میں شاید پہلی بار شرمندگی اسکے ہاتھ آئی تھی۔
”تف ہے تجھ پر“۔ عماد جھنجھلایا تھا۔
”جعلی خون۔ کم از کم ایک تو اچھا کام کیا حارث نے“۔ صارم ان گوشت نما ٹکڑوں (جو کہ دراصل چاکلیٹ کیک کے ٹکڑے تھے جن پر جعلی خون چڑھائے انہیں گوشت کا سا تاثر دیا گیا تھا) کے قریب رکھی اس بوتل کی جانب بڑھا۔
خون کے چند چھینٹے پڑتے ہی وہ ایک بار پھر کسمسایا اب کہ تمام حسیں بیدار ہوتے ہی وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہوا تھااور خود کو آزاد پاتے ہی راہِ فرار حاصل کرنی چاہی کہ عماد سرعت سے اسکا راستہ روک گیا تھا۔
”چھوڑو مجھے جانے دو“۔ عماد کی گرفت سے خود کو آزاد کراتے اسکا لہجہ بھیگا تھا۔
”شاہ میر۔ ادھر دیکھ میری طرف۔ کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے۔ میں حارث ہوں، یہ عماد،حازم، صارم تیرے جگری دوست ہیں یار“۔ اسکے شانے پر ہاتھ رکھے اسکا لہجہ اس قدر نرم تھا کہ شاہ میرمکمل طور پر ہوش میں آتا اسکے بگل گیر ہو گیا۔ وہ کسی بچے کی طرح سہما سا تھا۔ وہ اسکی پیٹھ تھپتھپائے اسے حوصلہ دینے لگا تھا۔جو بھی تھا اسکا جگری دوست واقعتا اسکے جگر کا ٹکرا تھا۔ ماحول کو آب دیدہ دیکھ وہ تینوں بھی ان سے جا لپٹے تھے۔
”خبیثوں خون میں لت پت مجھے بھی آلودہ کر دو تم لوگ“۔ حارث کے سینے سے لگے اسکی آواز ابھری تھی وہ سب بے اختیار ہنس دیے۔
                               ……(۰٭۰)……
کیچر میں قید ہالف بال تھے،رخساروں پر جھولتی چند آوارہ لٹیں جنہیں وہ لمحہ بہ لمحہ کان کے پیچھے اڑستی تھی۔ کبھی دوپٹہ سنبھالتی، کبھی شانے سے جھانکتی وہ زلفیں۔ فروسٹنگ کو کیک پر لیپ دیتی وہ مکمل الجھی دکھائی سے رہی تھی۔ فروسٹنگ تھی کہ فلیٹ ہو کر نہ دے۔ یوٹوب پر جانے وہ کتنے ہی ٹیوٹورئیل ازبر کر چکی تھی،کتنے طریقے تھے جو اس نے نہ اپنائے ہوں مگر فروسٹنگ نے دشمنی نبھائی تھی۔ تمام غلطی یوٹوب والوں کی تھی ایک طریقہ صحیح نہ بتایا، کچھ اسکے کام نہ آیا۔ باقی غلطی فروسٹنگ اسپون کی تھی کمپنی والوں کی کوتاہی....... انہیں اللہ پوچھے طوبہ اتنی ٹھگائی۔ آبش جعفری کہاں غلط تھی وہ تو کامل تھی، چلتی پھرتی اسپرا۔
بس اب تھک چکی تھی، اسپون باؤل میں پٹخا تھا، بالوں کو جھنجھلا کر کان کے پیچھے اڑسا تھا مگر گستاخ لٹ نہ مانی اسے رخسار کو بوسہ ہی دینا تھا۔
کاش وہ ہوتا جس کے لیے جتن جاری تھے۔ خیر نہ ہی ہے تو اچھا ہے اسنے تو خود اسکی حالت سے لطف اٹھانا تھا، ہنس ہنس کر لوٹھ پھوٹ ہوجانا تھا۔
اسنے ہار مانی تھی، جیسے تیسے پگھلی چاکلیٹ کو کیک پر انڈیلنے لگی۔ فروسٹنگ گئی بھاڑ میں، نہیں بھاڑ میں نہیں دراصل سنک میں کہ اسے ”بھاڑ“ کا راستہ ہی نہ معلوم تھا۔ ہوتا تو اپنے علاوہ سب ہی کو وہاں چھوڑ آتی۔
کیک مکمل تیار ہوئے زیادہ نہیں تھوڑا ہی صحیح مگرخوش شکل بنا تھا۔ اسکی محنت رائیگاں نہیں گئی تھی۔ خیر ٹھنڈا سانس ہوا کے سپرد کیے وہ اسے فرج میں رکھ چکی تھی۔ اب کہ سلیب صاف کرنے لگی کہ پیچھے کرسی سرکنے کی آواز پر پلٹی تو زایان کو کرسی کھینچ کر بیٹھتے پایا۔ مگر اس سے اپنی خفگی یاد آتے ہی منہ پھیر گئی،نظر انداز کر گئی۔
”ہانیہ کہاں ہے آبش“۔ وہ اسکی خفگی بوجھ کر بھی بولاتھا۔
”آپ کی بیوی ہیں آپ جانیں“۔ روکھا سا جواب آیا۔
”اچھا ایک کپ کافی تو بنا دو“۔ اسکے روکھے لہجے کو خاطر میں نہ لائے حکم صادر کیا گیاتھا۔
”خود بنا لیں۔ فارغ نہیں ہوں میں“۔ لہجہ ہنوز تھا۔ روکھا پھیکا سا۔ سلیب صاف کیے اب باہر کا راستہ لیا گیا تھا۔
”اب کیا مجھ سے خطا ہوئی سالی صاحبہ“۔ اسنے ہتیار ڈالے۔ وہ دروازے پر ہی تھمی پھر تیورا کر پلٹی۔
”اتنے بھولے نہیں ہیں آپ زایان بھائی“۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھے خفت بھرے انداز میں بولی۔
”یار تم حارث کی فطرت سے واقف ہو پھر بھی۔ تم نہال غازی کو واقعی نہیں جانتی“۔
”یہ نہال غازی آخر چیز کیا ہے۔انسان ہی ہے ناں خطا کا پتلہ، کوئی خدا تو نہیں“۔ وہ مزید تیوارئی تھی۔ اسے نہال کا حارث پر فوقیت دیا جانا بلکل راس نہ آیا تھا۔
”یہ نہال تو مجھے بھی متجسس کر گیا زایان میں ضرور اس بندے سے ملنا چاہونگی“۔ کچن میں داخل ہوتی ہانیہ نے کہا تھا آبش مزید بد مزہ ہوئی۔
”ہمارہ اکلوتا کمپیٹیٹر ہے وہ باقی کمپنیز یا تو ہم سے کافی پست درجہ ہیں یا کافی اعلٰی درجہ۔ ایک وہی جعفریز کا مد مقابل ہے۔ اور تو اور وہ اکلوتا جعفریز کا کمپیٹیٹر ہے“۔ اسکی بات دونوں کے ہی سر کے اوپر سے گزری تھی۔ دو الجھی نظروں میں وہ گھر سا گیا۔
”یار مطلب یہ کہ جہاں ہم تین جعفریز ہیں جو کہ اب پانچ میں بدلنے والے ہیں وہاں وہ اکلوتا ہے صرف ایک، اکیلا۔ اپنے باپ کا کھڑا کیا بزنز جسکی بنیادیں کافی خستہ حال تھیں جو بس گرنے کے قریب ہی تھا اسے نہال غازی نے سہارا دیا تھا۔ چند سالوں میں وہ کس طرح ہمارے مد مقابل آکھڑا ہوا ہمیں خبر ہی نہ ہوئی“۔ ہانیہ متاثر جبکہ آبش مزید بدمزہ دکھائی دے رہی تھی۔
”کیا گیرینٹی ہے کہ اس کمپنی کا کاندھا صرف نہال غازی ہی ہے“۔ آبش نے ایک نقطہ رکھنا چاہا تھا۔
”مطلب“۔ ہانیہ کے لبوں نے جبکہ زایان کی آنکھوں نے سوال داغا تھا۔
”مطلب صاف ہے۔ ہو سکتا ہے وہ کسی طرح کے کالے جادو میں ملوث ہو“۔ وہ اسکے غیر معمولی ہنر کو ماننے کو تیار نہ تھی۔
”کم آن۔ اکیسویں صدی میں یہ سب ممکن نہیں“۔ زایان نے نفی کی۔
”کیوں ممکن نہیں۔قرآن سے ثابت ہے کالا جادو یہاں تک کہ جنات بھی“۔ اسنے مزید ایک نقطہ رکھنا چاہا۔
”خیر اگر ایسا ہے بھی تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ فلحال ہمارا ٹارگیٹ اس ڈیل کو نہال غازی کے ہاتھ آنے سے بچانا ہے اور پاپا نے جو فیصلہ لیا ہے ناں ایم شور یہ ڈیل تو ہمارے ہاتھ سے جائے گی ہی جائے گی“۔ وہ مایوس تھا، آبش کے تیوری چڑھی۔
”بھائی سے مایوس اور اجنبی سے متاثر۔ کوئی خاص وجہ مسٹر زایان“۔
”وہ اجنبی ہے......بھائی تو نہیں اس لیے میرے بھائی کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا“۔
”اور اگریہ ڈیل حارث نے ہی ہمارے ہاتھ لا کر دی تب کیا کرینگے آپ“۔
”جب کی تب دیکھینگے۔ فلحال ذرا نہال غازی سے جلنے کے بجائے پراجیکٹ پر فوکس کریں آپ آبش جعفری“۔ 
”ابھی؟......۔ ابھی تو نہیں، فیرول تک تو بلکل نہیں۔ مجھے فیرول کے لیے گانے کی پریکٹس کرنی ہے“۔
”لو بھئی۔ دیکھ لیں بیگم صاحبہ۔ پھر تو اسنے دلا ہی دی ہمیں ڈیل اور ہم نے دیکھ لی۔ یہ ضرور کوئی نہ کوئی گل کھلائے گی دیکھئے گا“۔ کیسا نخوت بھرا انداز تھا بلکل ہی کوئی نکچڑی عورت لگ رہا تھا۔ ہانیہ کی ہنسی چھوٹ پڑی۔
”بس گل کھلانے کی ہی دیری ہے زایان بھائی۔ اس گل کو ڈیل کا نام د ے دیجئے آپ۔جسٹ واچ می ناؤ“۔ چیلنجنگ انداز تھا۔ اسنے کہتے ہی باہر کا راستہ لیا۔
”ہاں ہاں ہم بھی منتظر رہینگے۔ بیگم صاحبہ وہ تو گئی آپ ہی ایک کپ کافی پلا دیجئے“۔ اسکے پیچھے ہانک لگاتا وہ ہانیہ سے بھی مخاطب تھا۔
”اتنی رات کافی پیتے جب لیپ ٹاپ ہی لے کر بیٹھنا ہے تو مہربانی فرما کر اسٹڈی کا رخ لیجئے گا۔ پھر خود سوتے ہیں نہ مجھے سونے دیتے ہیں۔ ہانیہ یہ لا دو، ہانیہ وہ لادو۔ بس یہی رہ گیا ہانیہ کا کام“۔ فرج سے کافی پاؤڈر نکالتے اب وہ بھی بھن چکی تھی۔
”بس میری ورکنگ وائف لیپ ٹاپ سے ہی جلتی رہنا تم“۔ اسنے مسکراہٹ دبائے کہا۔ بیوی کا یہ خفت بھرا انداز اسے بڑا بھاتا تھا۔
”اس ورکنگ وائف لیپ ٹاپ سے ہی شادی کیوں نہیں کر لی آپ نے“۔
”کہو تو اب کر لوں“۔ اسکے چہرے پر بھرپور نظر ڈالے وہ دلفریب لہجے میں بولا تھا۔
”کھولتی کافی نہ انڈیل دوں آپکے سر“۔  اسکے جل کر کہنے پر وہ قہقہ لگا گیا تھا۔
”کیسی بیوی ہو یار ایک بے جان چیز سے جلتی ہو“۔  وہ قہقوں کے درمیان بولا۔
”ہونہہ“۔ اسنے سر جھٹکا۔
کچن کے اس خوبصورت منظر سے ذرا دور اس کمرے کے بند دروازے کے پیچھے وہ نہال غازی کا فیس بک پیج کھولے بیٹھی اپنے تجسس کو راستہ دے رہی تھی۔ بظاہر زبان سے بھلے اقرار نہ کیا ہو مگر اسکی کم عمری، غیر معمولی وجاہت اور بے تہاشہ کامیابی اسکے دل میں ستائش اجاگر کر گئی تھی۔
                                     ……(۰٭۰)……

جاری ہے۔۔۔

Aoa.. Kaisey hen ap sb? Bhule to nhi mujhey?😂 Wohi Ishq junoon wali writer hu ek naye novel k saath... Jis tarah ishq junoon me reviews milte the isi tarah yaha bh dengey to me bohut duayen dungi ap logon ko... Or vote bh lazmi dena h..
Har sunday ko iska Ek episode apki khidmat me Hazir hoga... 😉
املا کی کچھ غلطیاں نظر آئیں تو اس کے لیے معذرت چاہتی ہوں۔۔ میں پروف ریڈنگ نہیں کر پائی۔۔۔

میری ذات۔ از عمارہ عمرانWhere stories live. Discover now