Episode 5

292 19 12
                                    

ڈیل فائنل ہوئی تھی۔ وہاں موجود نفوس کے چہروں پر طمانیت اور مسرت کا گہراؤ تھا۔ زایان ناجانے کتنی ہی بار حارث کی پیٹھ تھپتھپائے اسے داد دے چکا تھا۔ اسکی جو گردن اکڑی تو پھر اکڑی ہی رہی تھی۔ کلائنٹس کو وہ اپنی اعلٰی پریزنٹیشن کے ساتھ اپنی شوخ فطرت سے بھی آشنا کروا چکا تھا۔ پریزنٹیشن کے درمیان میں کبھی کچھ ایسے فقرے چھوڑتا کہ پورے کانفرنس روم میں ہنسی کے جلترنگ جل اٹھتے۔ پھر کبھی ارباز صاحب کی گھوری سے نوازہ جاتا تو کبھی زایان کی ہتیلی ماتھے کو پہنچتی تھی۔ مگر کلائنٹس کو خوش و مطمئن پا کر انہوں نے سکھ کا سانس لیا تھا اور اس آوارہ گرد نے زندگی میں پہلا اچھا کام کر دکھانے پر مکمل استحاق سے داد وصول کی تھی۔ نہال اسکی حس مزاح سے متاثر ہوا تھا۔ بہر حال جعفریز کی قابلیت سے وہ بخوبی واقف تھا تو اتنی بہترین پریزنٹیشن پر اسے کچھ زیادہ حیرانگی نے نہیں گھیرا تھا۔ مگر جب سے یہ معلوم ہوا کہ اس پریزنٹیشن کو تیار کرنے میں اس نازنین کا برابر کا ہاتھ تھا تو نجانے کیوں اچانک ہی یہ ڈیل، یہ لمحے، یہ ساعتیں، یہ پریزنٹیشن اور اسکی نئے انداز میں دھڑکتی حیران کن دھڑکنیں اسے بہت مکرم لگنے لگی تھیں۔
اب کہ ڈیل سے فارغ ہوئے وہ انہیں آفس ٹور کرواتا پورے آفس میں پھر رہا تھا۔ کتنی ہی راہداریاں وہ دیکھ آئے تھے۔ ہر راہداری میں کچھ مختلف کچھ نظروں کو خیرہ کر دینے والا ایسا ضرور ہوتا تھا کہ وہ چونک کر، تھم کر اسے دیکھنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ ہر نگاہ میں ستائش تھی۔ ارباز و عباس صاحب تو نجانے کتنی ہی بار اسے سراہ چکے تھے۔ اور وہ دھیمے انداز میں نرم مسکراہٹ کے ساتھ ہلکے سر خم کے ساتھ وصول کرتا۔ آبش اسکی پر وقار اور مکرم شخصیت سے واقعتاً متاثر تھی۔ آفس کی ہر چیز کا کامل نکات پر موجود ہونا اسے دل میں سراہنے پر مجبور کر گیا تھا۔
اب بھی وہ ایک راہداری سے گزر رہے تھے۔ اکا دکا کارکن ہاتھوں میں فائل تھامے چہل پہل کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ مدہوش انداز میں ادھر ادھر نظریں گھمائے ہر چیز کا بغور جائزہ لیتی دل میں واہ کہتی آگے بڑھتی جا رہی تھی کہ اچانک ہی اسکے قدم تھم سے گئے۔ راہداری کے اختتام پر ایک گوشے میں دو دیواروں کے درمیان چھوٹی سی ریک نصب تھی جس پر مختلف قسم کے شوپیس رکھے تھے۔ ریک کے درمیان میں رکھے اس نظریں موہ لینے والے شوپیس پر اسکی نگاہیں جم سی گئی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھائے اسکی جانب بڑھنے لگی۔ باقی سب باتیں تاکتے، تعریفیں کستے اگلی راہداری میں مڑ چکے تھے۔ وہ قریب پہنچ کر اس شوپیس کو تکے گئی۔ زبان کے پاس جیسے اسکی تعریف کے لیے لفظ کم پڑنے لگے تھے۔ وہ نیم وا لبوں کے ساتھ اسے دیکھے گئی۔ آنکھوں میں ستائش ابھرتی چلی گئی۔ اس پھول کی سنہری جڑوں کی چمک دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ سونے کا بنا تھا۔ جڑوں میں متصل اس سفید پھول میں ایک عجب قسم کی چمک تھی۔ تنے سے نکلتی ایک سنہری ٹہنی اوپر کی جانب جاتی ذرا خم سی تھی۔ جس پر اسی سفید رنگ کے کرسٹل سے بنی ایک چڑیا گردن موڑے بیٹھی تھی۔ وہ جو بھی تھا۔ اصل کرسٹل سے بنا بھی تھا یا نہیں مگر بہت خوبصورت تھا۔ وہ پھول دیکھنے میں ہی اس قدر نازک تھا کہ اسکے گر کر کرچی ہوجانے کے ڈر سے وہ اسے ہاتھ لگانے کی ہمت نہ کر پائی۔
"کیا یہ آپ کو اچھا لگا؟"۔وہ یک دم چونکی۔ چونکی کیا قریباً ہڑبڑا ہی گئی۔ پھر فوراً پلٹی۔ وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا نرم مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔
"ج.......جی۔ میرا مطلب یہ بہت خوبصورت ہے"۔ ایک پل کو ہکلا کر دوسرے ہی لمحے وہ فوراً سنبھل چکی تھی۔ وہ پر اعتماد تھی اس بات کا اندازہ وہ کانفرنس روم میں ہی لگا چکا تھا۔
"بہت انمول سا ہے۔ ویسے تو یہاں ہر چیز ہی بہت انمول ہے۔ لیکن اس میں کچھ الگ سی بات ہے۔ اسکی کشش دور سے ہی اپنی جانب متوجہ کرتی ہے"۔ اب کہ وہ واپس اپنا رخ اس شو پیس کی جانب کر چکی تھی۔ وہ پیچھے کھڑا اسکے آدھے قید بالوں کو تکتا ریک کے قریب چلا آیا۔
"کیا یہ آپ کو کسی نے گفٹ کیا تھا؟"۔
"میرے بابا نے دیا تھا، میری گریجویشن پر۔ تب سے یہی رکھا ہے"۔ اب کہ وہ بھی اسکے ساتھ اس شوپیس کو دیکھنے لگا تھا۔ نجانے دل کی ہر دھڑک نے کتنی ہی بار ان لمحوں کے تھم جانے کی دعا کی تھی۔
"کیا میں اسے ہاتھ لگا کر .........؟"۔ وہ اپنی ہی بات ادھوری چھوڑ گئی۔ وہ دھیما سا مسکرایا۔ پھر ہاتھ بڑھائے اس شوپیس کو اٹھائے اسکی جانب بڑھایا۔ وہ ہلکے ہاتھوں سے بلکل نازک انداز میں اسے تھام کر دیکھنے لگی۔
"یہ واقعی بہت خوبصورت ہے"۔ اسکا لہجہ دھیما تھا۔
"میری مہمانِ خاص ہونے کے پیشِ نظر میں آپ کو یہ بطور تحفہ دیتا ہوں۔ آپ اسے اپنے گھر لے جا سکتی ہیں"۔ اسکے کہنے پر اسنے چونک کر سر اٹھایا۔ اسکے لبوں پر نرم مسکراہٹ ہنوز برقرار تھی۔ وہ خجالت سے مسکرائی۔
"نہیں آپ کا بہت شکریہ اس پیش کش کا۔ مگر جس طرح آپ اسکا خیال رکھ رہے ہیں مجھے نہیں لگتا میں رکھ پاؤنگی"۔ اسنے وہ شوپیس واپس ریک کی جانب بڑھایا۔
"اور ویسے بھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ یہی کے لیے بنا ہے۔ اسی ریک پر رہنے کے لیے........."۔ اسنے کہا تھا۔ ہاتھ اسے اس ریک پر رکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ہی بائیں ہاتھ کی کہنی بے دھیانی میں ریک کی لوہے دار سپورٹ بار سے ٹکرائی۔ اسکے ہاتھ میں ایک سنسناہٹ سی دوڑی اور وہ شوپیس جو اسکے دل میں اپنا قیمتی درجہ بنا چکا تھا چھوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ کرسٹل سے بنی چڑیا اور پھول کی کرچیاں دور دور تک بکھرتی چلی گئیں۔ تنے سے جڑی سنہری ٹہنی علیحدہ ہوئی اور جڑیں انکے قدموں کے قریب سجدہ زیر تھیں۔ اسکی پھٹی آنکھوں میں یکایک ہی پانی بھرتا چلا گیا۔ حیرانگی اور دکھ چہرے کے ہر نقش سے عیاں تھی۔ وہ لبوں پر سختی سے ہاتھ رکھے ان کرچیوں کو دیکھے گئی۔ آواز کے باعث قریب سے گزرتے کارکن بھی تھم کر دیکھنے لگے۔ دوسری راہداری سے مینیجر سمیت وہ سب بھی لوٹ آئے تھے۔
"آپ ٹھیک تو ہیں آپ کو لگی تو نہیں؟"۔ وہ متفکر انداز میں اس سے استفسار کرنے لگا۔ شوپیس کو ٹوٹے لمحہ بھی نہ ہوا تھا کہ اسکی نم آنکھیں اسے ہر چیز سے بیگانہ کر گئیں۔
"ایم........ ایم سوری۔ ایم سو سوری۔ میں....... اوہ خدایا یہ کیا ہوگیا۔ ایم ریلی ویری سوری"۔ آواز میں بھی نمی برقرار تھی۔ اب کہ وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگا۔ بھنویں بھینچ سی گئی۔ اسکی نم آنکھیں صورتحال کو اسکی سمجھ سے قاصر کرنے لگی تھیں۔ اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ اسکا احساسِ جرم کیسے کم کرے۔ زندگی میں پہلی بار کسی نم آنکھوں والی نازنین سے پالا پڑا تھا اور اب وہ الجھن کا شکار تھا۔
"آبش۔ دور تو ہٹو یار۔ لگی تو نہیں تمھیں"۔اب کہ حارث بھی انکے قریب چلا آیا اور اسے شانوں سے تھام کر دو قدم پیچھے ہٹا۔ اسکی نم آنکھیں دیکھ اسے بھی حیرانگی نے آگھیرا تھا کیونکہ جہاں تک وہ اسے جانتا تھا کسی معمولی تو دور کسی قیمتی شے کے ٹوٹ جانے پر بھی اسکی آنکھیں کبھی اس طرح نم نہیں ہوا کرتی تھیں۔
"تم ٹھیک ہو ناں"۔ وہ حیران کن کیفیت میں پوچھ رہا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں حارث لیکن وہ ٹوٹ گیا۔ میری وجہ سے"۔ آنسوؤں کو ٹوٹ کر بہنے سے روکنے کی حتی الوسع کوشش جاری تھی۔
"ہے آبش۔ کوئی بات نہیں اٹس اوکے"۔ وہ اسکی آنکھیں پونچھ دینا چاہتا تھا مگر سرِ بازار اس عمل سے قاصر تھا۔ اب کہ وہ بھی فاصلہ سمیٹتا اسکے قریب چلا آیا۔
"وہ اتنا قیمتی نہیں تھا۔ کچھ چیزیں وقتی ہوتی ہیں،ٹوٹ جاتی ہیں۔ آپ کے یہ موثر آنسو کسی پر اپنا دائمی اثر چھوڑ سکتے ہیں۔ اس لیے اس معمولی شے کے لیے انہیں ضائع مت کریں"۔ وہ اسکی سیاہ نم آنکھوں میں دیکھتا کہہ رہا تھا۔ حارث کی نگاہیں اسے دیکھتی چلی گئی۔ نا جانے کس احساس کے تحت اسکی بھنویں کچھ تن سی گئی تھیں۔
"نہال بیٹا۔ میں معذرت خواہ ہوں۔ یہ جو بھی ہوا.........." اب کہ ارباز صاحب و عباس صاحب یہاں تک کہ زایان بھی انکے قریب ہی چلا آیا تھا۔
"انکل پلیز۔ آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں"۔ وہ انکی بات کاٹ کر گویا ہوا تھا۔ وہ مسکرا کر اسکی پیٹھ تھپک گئے۔ وہ ملازم کو صفائی کی ہدایت کرتا ان کے ساتھ چل دیا۔ چند قدموں کے بعد ذرا رخ موڑے اس پر نگاہ ڈالی۔ وہ سر جھکائے حارث کے ہم قدم تھی۔ ایک دھیمی مسکان نے یکایک ہی اسکے لبوں کا احاطہ کیا اور وہ رخ پھیر گیا۔
......(۰٭۰)......

میری ذات۔ از عمارہ عمرانWhere stories live. Discover now