Episode 6

378 30 16
                                    


ضرار اور شاہ میر کے واپس جانے میں بس دو دن باقی تھے تو آج مہرماہ نے شاہ میر کی فرمائش پر سب بچوں کو حریم سے فرائز بنوا کر دیے تھے جوکہ اب مہرماہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے منہ پھلائے ہاتھ میں ناول پکڑے ایک طرف صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی جبکہ سب بچے ان فرائز سے انصاف کرنے میں مصروف تھے، عزم وقفے وقفے سے حریم کی طرف ایک شرارتی مسکراہٹ اچھالنا نہیں بھولتا تھا اور اماز تو فرائز سے ہاتھ روکے کب سے مہرماہ کو ہی تکے جا رہا تھا۔

“If I go straight this way, Will I be able to reach your heart?”
چار سالہ اماز کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر وہ کافی دیر تک آنکھیں پھیلائے اسے حیرت سے دیکھتی رہی، الفاظ سے زیادہ شرمیلے سے اماز کے انداز نے اسے حیران کیا تھا۔
"مما اسے زیادہ سیریس مت لیں، یہ دن میں ایسے کئی ڈائیلاگز مارتا رہتا ہے۔" شاہ میر نے فرائز سے انصاف کرتے ہوئے کہا، مہزلہ خان کے کہنے پر وہ اب مہرماہ کو مما ہی بلاتا تھا۔
" چھوٹی مما آپ کو پتہ ہے، اماز خان حویلی کی بیٹی ہے، مطلب کہ ابی جان اور مور جان کے ساتھ کیچن کے چھوٹے چھوٹے کام کرواتا ہے، عریبہ چچی کیساتھ ڈرامے دیکھتا ہے، وہیں سے ایسے چیزی ڈائیلاگز سیکھتا ہے اور حریم آنی سے ان کے ناولز کی سٹوریز بھی سنتا ہے۔" اب کی بار عزم نے ناک چڑھاتے ہوئے اماز کا مذاق اڑایا تھا۔
" عزم خان تم نے انہیں چھوٹی مما کیوں کہا، یہ صرف میری مما ہیں۔" شاہ میر نے اسکی بات یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات کہی۔
"ہاں تو تم بھی تو ہماری مورے کو مور جان بلاتے ہو۔" عزم نے لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچاتے جواز پیش کیا۔
"ہاں تو میں بلا سکتا ہوں تم نہیں بلا سکتے۔" شاہ میر نے کندھے اچکائے، شاہ میر کی پوسیسونیس دیکھ کر مہرماہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔
"آپ تو ھنستے ھوئے اور بھی پیاری لگتی ہیں۔" اب کہ بہرام، عزم، اذیان اور شاہ میر نے اسے گھورا تھا اور مہرماہ اپنے امڈتے قہقہے کو روک نہیں پائی تھی حریم جو کب سے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی اسکا قہقہہ بھی مہرماہ کے قہقہے میں شامل ہو گیا تھا۔

•••••••

وہ صبح سے نکلی اب حویلی لوٹی تھی، اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ اس حالت میں نہیں تھی کہ کسی کا بھی سامنا کر سکے، وہ تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی جب اپنے نام کی پکار پر اسکے قدم پہلی سیڑھی پر ہی  تھم گئے تھے۔
"کہاں سے آ رہی ہیں آپ؟" زوھان کی گرج دار آواز لاؤنج میں گونجی تھی، وہ اب بھی نہیں پلٹی تھی۔ اس کی آواز سنتے سب اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے تھے۔
"میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے حریم؟" زوھان دبی دبی آواز میں چلایا۔
"جب آپ کو پتہ ہے لالا تو پھر کیوں پوچھ رہے ہیں؟" وہ بھیگی اواز میں بولی،  کافی ضبط سے وہ آنسوؤں کو آنکھوں کی باڑ توڑنے سے روک سکی تھی۔
"جب منع کیا ہے تو پھر کیوں گئی تھیں آپ اس سے ملنے۔" اسکی دھاڑ پر گھر کی سب خواتین اور بچے سہم گئے تھے، ضرار اور زارام نے آگے بڑھنا چاہا جنہیں وہ ہاتھ کے اشارے سے روک چکا تھا۔ حریم نے بھی ڈر کر آنکھیں میچ لی تھیں۔
"آپ کو اتنی بار سمجھائی گئی بات آخر سمجھ کیوں نہیں آتی؟" اس کا ڈر دیکھ کر زوھان کا لہجہ بھی دھیما پڑ گیا تھا۔
"میں خود کو تو سمجھا لوں لالا مگر اس دل کو کیسے سمجھاؤں جو ہر بار ان کو دیکھنے کی خواہش کرتا ہے، نہیں روک پاتی میں خود کو وہاں جانے سے۔" زوھان کے دھیمے لہجے سے اسے ڈھارس ملی تھی اس کے کہے الفاظ سب کو اشک بار کر گئے تھے۔
"اسی لیے، اسی لیے میں آپ کو یہاں حویلی میں رکھنے کے حق میں نہیں ہوں۔" زوھان نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے کہا، وہ پچھلے چار سال سے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ جتنا ہو سکے حریم میرپور سے دور رہے۔
"اور میں بھی آپ سے کہہ چکی ہوں لالا، میں اسلام آباد نہیں رہنا چاہتی اور اگر اپ نے میری بات نہیں مانی تو میں اس حویلی سے بھی چلی جاؤ گی اور کبھی واپس نہیں آؤں گی۔" اس نے اپنی پہلے کہی گئی بات دہرائی تھی مگر اس کی بات سے مہزلہ خان کا دل دہل گیا تھا۔
"یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ریم، بچے جیسا آپ چاہتی ہیں ویسا ہی ہوگا، اگر آپ واپس نہیں جانا چاہتیں تو ہم آپ کو نہیں بھیجے گے مگر خدارا ایسی باتیں مت کریں۔" مہزلہ خان کی آواز میں گھلی نمی اسے شرمندہ کر گئی تھی وہ مہزلہ خان کو انجانے میں بھی کبھی دکھ پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
"مگر مورے۔" زوھان نے ان سے بات کرنی چاہی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ کی مورے، اگر ہماری بچی نہیں جانا چاہتی تو وہ نہیں جائے گی۔" ارباز خان درشتگی سے اسکی بات کاٹ گئے تھے۔   حریم نے ایسے ماحول میں بھی اس پر ایک  جتاتی نظر ڈالی تھی، وہ کبھی بھی زوھان کو چڑانا نہیں بھولتی تھی۔ زوھان بھی اسے گھوری سے نوازتا باہر نکل گیا۔

ھسک (✔️Completed) Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum