Episode 19

342 26 0
                                    


ضرار نے کمرے میں داخل ہوتے بیڈ کی طرف دیکھا ہمیشہ کی طرح مہرماہ بیڈ کے بیچ و بیچ گھٹنوں کے گرد بازو باندھے سر گرائے بیٹھی رونے کا شغل فرما رہی تھی۔ ضرار نے لمبی سانس کھینچتے خود کو مہرماہ کے آنسو برداشت کرنے کیلئے تیار کیا۔
"ماہی سوری۔" ضرار نے ایک ہاتھ سے اس کا منہ اوپر کرتے دوسرے ہاتھ سے اپنا کان پکڑا۔
"دور رہیں ہم سے، آپ ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں۔" وہ اس کا ہاتھ جھٹکتی دوبارہ سے منہ نیچے کیے رونے لگی تھی۔
"ہمیشہ کیا کرتا ہوں میں؟" ضرار نے مصنوئی روعب دار آواز میں کہا۔
"آپ ہمیشہ ہمیں ڈانٹتے ہیں، ہماری  انسلٹ کرتے ہیں اور۔۔ "وہ رونے کے دوران سلیوز سے آنسو صاف کرتی اسے اس کی غلطیاں گنوا رہی تھی۔
"ایک منٹ میں نے تمہاری انسلٹ کب کی؟؟" وہ اس کے الزام پر بھونچکا رہ گیا۔
"نہیں لاؤنج میں جو آپ نے کیا وہ انسلٹ تھوڑی نا تھی وہ تو پیار تھا۔" اس کی بات پر ضرار کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی جسے چھپانے کے لیے وہ منہ نیچے کر گیا، مگر مہرماہ اس کی مسکراہٹ دیکھتے اور زور سے رونے لگی تھی۔
"اور آپ میرے سے بالکل بھی پیار نہیں کرتے۔" ضرار کے دونوں ہاتھوں سے کان پکڑنے پر وہ پھیلی تھی۔
"چلو کچھ تو سچ بولا تم نے۔" وہ جو سوچے بیٹھی تھی کہ وہ اس سے ابھی اپنی محبت کا اظہار کرے گا اس کے ایسا کہنے پر وہ بےیقینی سے اسے دیکھنے لگی۔
"ماہی کہہ رہا ہوں نا سوری آئندہ نہیں کروں گا پریشان تھا اووررئیکٹ کرگیا۔" وہ اس کے آنسو صاف کرتا اسکے گال کو انگوٹھے سے نرمی سے سہلانے لگا۔
"کیوں پریشان تھے؟" وہ اپنا رونا بھلائے ضرار کیلئے فکرمند ہوئی، ضرار اس کے انداز پر آسودہ سا مسکرایا۔
"ہانیہ حورعین کو لے کر حویلی سے چلی گئی تھیں۔ ایک منٹ میری پوری بات تو سن لو، مل گئی ہیں وہ، زوھان انہیں حویلی واپس لے آیا ہے اور باباجان نے بھی زوھان سے اپنی ناراضگی ختم کر دی ہے۔" اسے پھر سے روتا دیکھ ضرار نے ایک جست میں اپنی بات مکمل کی، مہرماہ نے سکھ کا سانس لیتے اللّٰہ کا شکر ادا کیا۔
"ہم پاکستان کب جائیں گے؟" مہرماہ نے اپنا سر اس کے سینے پر رکھا۔
"بس کچھ دنوں تک۔" ضرار نے اس کے گرد اپنے بازو حائل کیے۔
"کہاں جا رہی ہو؟" اسے اپنے حصار سے نکلتے دیکھ ضرار نے حیرت سے پوچھا۔
"شکرانے کے نوافل ادا کرنے۔" اس نے بیڈ سے اترتے اپنے پاؤں سلیپر میں اڑسائے۔
ضرار نے اس کے جانے کے بعد اوپر کیطرف دیکھتے اللّٰہ کا شکر ادا کیا، جس نے اسے مہرماہ جیسی بیوی سے نوازا تھا۔


••••••

وہ جب سے حویلی آئی تھی سب ہی اس کے کمرے میں موجود تھے، حریم کی طرح زرنش اور عریبہ نے بھی اس سے یہی شکوہ کیا تھا کہ اسے یوں حویلی سے نہیں جانا چاہیے تھا، وہ بس ہلکا سا مسکرا پڑی۔ وہ اپنے لیے سب کی اتنی فکر دیکھ کر شرمندہ ہو گئی تھی۔
زرمینے(ملازمہ) ٹرے میں سوپ رکھے اندر داخل ہوئی، باری باری سب کمرے سے چلے گئے۔ مہزلہ خان کے اشارے پر زوھان  سامنے ٹیبل پر پڑی ٹرے پکڑتے اس کے سامنے بیٹھ گیا، مہزلہ خان بھی دونوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھتی باہر نکل گئیں۔
"آپ زمدا سے شادی کر لیں۔" اس کے منہ کی طرف لے جاتا زوھان کا چمچ والا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔
"اچھا۔" وہ تلخی سے کہتا اسے سوپ پلانے لگا۔
"مجھے سچ میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔" وہ دل کو کڑا کرتے یہ جملے ادا کر رہی تھی۔
"اگر مجھے دوسری شادی کرنی ہوئی تو  تمہارے اعتراض کی پرواہ بھی نہیں کروں گا۔" انداز دو ٹوک تھا۔
"مگر دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی کی اجازت لی جاتی ہے۔" اس کی بات ہانیہ کو ناگوار گزری تھی۔
"تمہیں لگتا ہے میں تمہاری اجازت لوں گا۔" ہانیہ کو اس کا لہجہ اس کا مذاق اڑاتا ہوا محسوس ہوا۔
"ویسے بھی اگر مجھے دوسری شادی کرنی ہوئی تو تمہیں رکھوں گا ہی کیوں۔" وہ جانتے بوجھتے اپنے لفظوں سے اسے تکلیف پہنچا رہا تھا۔
"آپ مجھے طلاق دیں گے؟" اسے اپنی سماعت پر شک کا گمان ہوا۔
"رونا کس بات کا آ رہا ہے جبکہ تم بھی تو یہی چاہتی ہو۔" وہ سوپ کا خالی باؤل سائڈ ڈرار پر رکھ کر اٹھنے لگا۔
"میں نے ایسا کب کہا کہ مجھے آپ سے طلاق چاہیے۔" وہ اس کے ہاتھ پکڑتے بری طرح رو پڑی تھی۔
"رات کے وقت سب کی بےخبری کا فائدہ اٹھاتے حویلی سے چلے جانے کو میں اور کیا سمجھوں؟" وہ اس کے آنسو دیکھ بری طرح بگڑا تھا۔
"میں طلاق نہیں چاہتی۔" وہ اس کا ہاتھ تھامے گڑگڑائی۔
"تو پھر کیوں گئی تھی حویلی سے؟" اس کی دھاڑ پر وہ سہم گئی تھی۔
مہزلہ خان کب سے باہر کھڑی اس کی باتیں سن رہی تھیں، اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ وہ دھاڑ سے دروازہ کھولتی اندر آئیں۔ ہانیہ اس کا ہاتھ تھامے رو رہی تھی، وہ اس کی حالت جانتے بوجھتے پتھر بنا جواب طلب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"بس بہت ہو گیا زوھان، ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔" مہزلہ خان نے اسے پیچھے دھکیلتے ہانیہ کو بیڈ پر لٹایا، جو نیچے گرنے کے قریب تھی۔
"میں آپ کو غلط لگ رہا ہوں؟؟؟ جو اس نے کیا کیا وہ ٹھیک تھا؟؟ اگر اسے یا حور کو کچھ ہو جاتا تو میں کیا کرتا؟؟؟" اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ کل کا پورا دن یاد کرتے اسے غصہ آ رہا تھا۔ کچھ غلط ہو جانے کے ڈر سے ہی وہ خود کو جلتے کوئلوں پر لوٹتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
"سوری۔" ہانیہ نے پھر سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا جسے  جھٹکتے وہ باہر نکل گیا تھا۔

•••••••


ڈنر کے ٹیبل پر پریشے اور پریہان نے شاہ میر اور مہرماہ سے سوری بولا تھا۔ مہرماہ نے انہیں اپنے سینے میں بھینچتے ضرار کو متشکر نظروں سے دیکھا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی یہ سب اس کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مہرماہ کی نسبت ضرار بچوں کو زیادہ اچھے طریقے سے ٹیکل کرتا تھا، جب بھی کوئی سیچویشن مہرماہ کے بس سے باہر ہوتی تھی وہ اسے اور بگاڑ دیتی تھی۔ بچوں کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرتی تھی، شاہ میر تو اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا تھا جبکہ پریشے اور پریہان ہر وہ کام کرتیں جس سے وہ منع کرتی تھی۔ پیار سے سمجھانے کی بجائے وہ غصہ ہو جاتی تھی لیکن آج اس نے ہاتھ پہلی بار اٹھایا تھا تھوڑا ان دونوں کی شرارتوں پر غصہ تھا تو تھوڑا حریم کو لے کر دیکھے گئے خواب کا اثر۔


•••••••


"ہانیہ آپ کو ایسے حویلی سے نہیں جانا چاہیے تھا۔" کمرے میں آتے زوھان کے کانوں سے حریم کے آواز ٹکرائی وہ ہانیہ کا جواب سننے کے لیے باہر ہی رک گیا۔ مگر وہ چپ رہی۔
"حریم کیوں بھینس کے آگے بین بجا رہی ہو، اسے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔" زوھان کے طنز پر ہانیہ سر جھکا گئی۔ حریم اس کی بات کا کوئی بھی جواب دیے بغیر باہر چلی گئی کیونکہ وہ ہانیہ کے جانے کا قصور وار زوھان کو ہی سمجھ رہی تھی۔
"انہیں کیا ہوا؟" زوھان نے حیرانگی سے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے ابھی وہ باہر گئی تھی۔
"میں مان تو رہی میں نے غلط کیا ہے، معافی بھی مانگ چکی ہوں پھر آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔" زوھان فریش ہونے کے بعد حورعین کو اپنے پیٹ پر بٹھائے اس سے کھیل رہا تھا جب ہانیہ نے اس کا بازو پکڑا۔
"مجھے تمہاری معافی نہیں چاہیے، صرف اپنے سوال کا جواب چاہیے۔" حورعین اس کے گال کھینچنے کے بعد کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
"کیسا سوال؟" وہ الجھی۔
"حویلی سے کیوں گئی تھی؟" اس نے صبح والا سوال دہرایا۔
"میں نے خط میں جانے کی وجہ لکھ۔۔۔۔" وہ نظریں چرا گئی۔
"میں سچ سننا چاہتا ہوں۔" وہ اس کی بات کاٹتے چبا کر بولا۔
"میں سچ بول۔۔۔" اس کی بات درمیان میں ہی رہ گئی تھی، زوھان نے حورعین کو بیڈ پر بٹھاتے اسے بازوؤں سے جکڑا، وہ چوٹ کی وجہ سے کراہ اٹھی۔
"فار گاڈ سیک ہانیہ سچ بولو۔" زوھان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے سختی سے کہا، زوھان کی آنکھوں میں واضح وارننگ تھی۔
"کیونکہ آپ اور زمدا ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔" اس نے اسکا زخمی بازو چھوڑ دیا تھا البتہ دوسرا بازو اس کی گرفت میں ہی تھا۔
"تمہیں کس نے کہا میں زمدا سے محبت کرتا ہوں؟" ہانیہ کو اس کی انگلیاں اپنے بازو میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئیں۔
"آپ نے حریم سے خود کہا تھا کہ آپ زمدا کو پسند کرتے ہیں۔" وہ حریم اور زوھان کی بحث کا حوالہ دیتے بےبسی سے بولی۔
"بعد میں میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔" اس نے اس کا بازو چھوڑتے حورعین کو دیکھا جو اپنی بڑی بڑی آنکھیں مزید پھلائے ٹکر ٹکر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"مجھے لگا آپ حریم کا دل رکھنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔" وہ بچارگی سے کہنے لگی۔
"تمہیں لگا۔۔۔ واہ ہانیہ صرف اپنے مفروضوں کی بنیاد پر تم حویلی سے چلی گئی۔" وہ استہزائیہ انداز میں کہتے تلخی سے ہنسا۔
"زمدا نے بھی کہا تھا کہ آپ۔۔۔۔" اس کی ہنسی سے ہانیہ کو تکلیف پہنچی تھی۔
"مجھے نہیں جاننا اس نے تم سے کیا کہا، جب رشتہ ہم دو کا ہے تو تم کسی تیسرے کو بیچ میں کیوں لا رہی ہو۔" وہ سختی سے اس کی بات کاٹ گیا۔
"تیسری وہ نہیں، میں ہوں۔" وہ اب بھی اپنی بات پر ڈٹی تھی۔
"تم سے بات کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔" اس کی ہٹ دھرمی پر زوھان نے تاسف سے کہتے اس کے ہاتھ پر میڈیسن رکھی جسے وہ پانی سے نگلتے منہ تک کمفرٹر ڈالے لیٹ گئی۔ اس کی مدد کے بغیر لیٹنے میں اسے تکلیف ہوئی تھی مگر وہ ابھی اس سے مدد نہیں لینا چاہتی تھی۔
زوھان نے نفی میں سر ہلاتے حورعین کو اپنے ساتھ لٹایا تاکہ وہ سوتے ہوئے ہانیہ کو ہاتھ پیر نہ مار دے۔


•••••••

ہانیہ بیڈ پر لیٹے لیٹے تھک گئی تھی مگر وہ خود سے اٹھ بھی نہیں سکتی تھی، حریم نے پورا دن اسی کے کمرے میں گزارا تھا۔ عریبہ اور زرنش بھی اسے کھانا کھلانے کے بعد ابھی گئی تھیں، یہ ڈیوٹی ان کی مہزلہ خان نے لگائی تھی۔
مہزلہ خان، احراز اور شانزے کل سے ہاسپٹل میں شازیم کے پاس تھے، ارباز خان نے زوھان اور زارام کے کہنے پر حریم کو ہاسپٹل جانے سے سختی سے منع کر دیا تھا ناچار وہ مان بھی گئی تھی۔
زوھان نے اندر آتے ہانیہ کی طرف دیکھا جس کی نظریں دروازے پر ہی ٹکی تھیں۔
"پورا دن کہاں تھے آپ؟؟" اس کی غصیلی آواز پر وہ حیرت سے رکا۔
"اوہ خدایا،  آج تمہارا بیویوں والا روپ دیکھ کر مجھے بھی لگا ہے کہ میں شادی شدہ ہوں۔" ایکٹنگ کے سارے ریکارڈ توڑتے وہ مصنوئی حیرت سے بولا۔
"اتنی دیر سے کیوں آئے ہیں؟" سوال بدلا تھا مگر انداز اب بھی وہی تھا۔
"کیوں تم میرا انتظار کر رہی تھی؟" وہ آنکھوں میں شوخی لیے اس کی طرف بڑھا، وہ ایکدم اس کے بدلے انداز پر سٹپٹا گئی۔
"کہاں تھے اور اتنی دیر سے کیوں آئے ہیں؟" دونوں سوالوں کو یکجا کیے وہ کڑے تیوروں سے اسے گھور رہی تھی، یہ پٹی بھی حریم اور عریبہ کی پڑھائی گئی تھی کہ اسے بحیثیتِ بیوی زوھان کی خبر رکھنی چاہیے۔
"میں پہلے بھی اتنی دیر سے ہی آتا تھا وہ الگ بات ہے تم نے پہلے کبھی غور نہیں کیا۔" اس کی میڈیسنز چیک کرتے وہ دور ہوا تو اسے اپنے قریب آتا دیکھ کر ہانیہ کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
"آپ زمدا کے روم میں کیوں گئے تھے؟" اس سوال نے کب سے اس کے اندر ایک طوفان برپا کر رکھا تھا۔
"تمہیں یہ بات حریم نے بتائی ہے؟" اس کے واشروم کی طرف جاتے قدم تھمے تھے۔
"مجھے میری بات کا جواب دیں۔" وہ ضدی انداز میں بولی۔ زوھان نے کل زمدا سے محبت کا اقرار نہیں کیا تھا تو انکار بھی تو نہیں کیا تھا، یہ باتیں اسے پریشان کر رہی تھیں۔
"اگر ایسے سوال تم حویلی سے قدم باہر نکالنے سے پہلے کرتی تو میں بھی بغیر کسی حجت کے تمہیں اے ٹو زی سب بتا دیتا مگر اب نہیں، اب میں تمہیں کچھ نہیں بتاؤں گا، تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔" وہ ایک تیکھی سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتے واشروم میں گھس گیا۔ وہ دروازے کو گھورتی رہ گئی تھی۔


•••••••

ناجانے رات کا کون سا پہر تھا جب اسے اپنے ماتھے پر کسی کے لمس کی تپش محسوس ہوئی، کوئی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔ وہ بند آنکھوں سے بھی اس شخص کے کپڑوں سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو کو پہچان گئی تھی، یہ زوھان کے کلون کی سمیل تھی۔ وہ اسے کچھ کہہ رہا تھا مگر آواز دھیمی ہونے کی وجہ سے اسے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔ اس کے ماتھے پر ایک بار پھر سے بوسہ دیتے وہ لیٹ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ہانیہ اس کی بےرخی برداشت نہیں کر سکتی مگر وہ اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ اس نے حویلی سے جا کر اپنے ساتھ ساتھ حورعین کو بھی خطرے میں ڈالا تھا۔ ہانیہ کی بند آنکھ سے ایک آنسو نکلتے تکیے میں جذب ہو گیا، نیند تو اب آنے نہیں والی تھی مگر رات اب تکلیف میں بھی نہیں کٹنے والی تھی۔


•••••


"داجی، گل شیر کہہ رہا ہے کہ باہر کوئی ماہیر خان آئے ہیں، وہ زوھان لالا سے ملنا چاہتے ہیں۔" ماہیر کے نام پر سب ساکت ہوئے تھے، سب کی نظریں کھانے سے ہٹتی زمدا پر گئی تھیں جس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔
"ٹھیک ہے اسے کہو انہیں مردان خانے میں بٹھائے۔" ارباز خان نے اسفند خان کو چپ بیٹھے دیکھ کر ذرمینے سے کہا۔
"آپ کہاں جا رہی ہیں زمدا؟؟" زوھان نے طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے زمدا کو دیکھا۔
"اپنے کمرے میں جا رہی ہوں میں، کیوں آپ کو کوئی مسئلہ ہے؟" وہ کھا جانے والے انداز میں زوھان سے مخاطب ہوئی۔ زوھان کا چہرہ اہانت اور غصے سے سرخ ہوتا دیکھ اس کے برابر میں وہیل چیئر پر بیٹھی ہانیہ کو اچھو لگ گیا، عریبہ نے ہونٹ کا کونہ دانتوں میں دباتے اپنی مسکراہٹ روکتے اس کی پیٹھ سہلائی۔
"ماہیر خان آپ کے شوہر ہیں زمدا۔" مہزلہ خان نے ضبط کا مظاہرہ کرتے چبا کر ہر لفظ ادا کیا۔
"میں اس سے نہیں ملنا چاہتی۔" وہ دوٹوک انداز میں کہتیں وہاں سے چلی گئیں۔

•••••••


"آپ کی خان حویلی آنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟" سلام دعا کے بعد اسفند خان نے سیدھا مدعے پر آنا مناسب سمجھا۔
"انہیں میں نے بلایا ہے داجی۔" جواب ماہیر کی جگہ زوھان نے دیا تھا۔ اسفند خان اور ارباز خان نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائے۔
"میری کچھ دن پہلے ایک ریسٹورنٹ میں ان سے ملاقات ہوئی تھی، یہ زمدا کے متعلق کچھ بات کرنا چاہتے تھے اور مجھے حویلی کے بجائے کوئی جگہ اتنی مناسب نہیں لگی  جہاں بیٹھ کر ہم سکون سے یہ بات کر سکتے۔" زوھان نے ماہیر کے آنے کی وجہ بتائی تو ارباز خان کے نقوش تن گئے تھے۔
"کیا بات کرنی ہے آپ کو زمدا کے متعلق؟" ارباز خان کی سرد آواز پر سب نے ان کی طرف دیکھا۔
"میں زمدا کو واپس لے جانا چاہتا ہوں۔"
"یہ بات آپ کو زمدا سے کہنی چاہیے۔"
"وہ میری کوئی بات سننا نہیں چاہتی۔"
"ان پر ہاتھ اٹھا کر جو گری ہوئی حرکت آپ نے کی ہے اس کے بعد اتنا تو ناراض ہونے کا حق وہ بھی رکھتی ہیں۔"
"کیا آپ میرے ہاتھ اٹھانے کی وجہ جانتے ہیں؟"
"میں کسی بھی وجہ کو اس قابل نہیں سمجھتا جس کی بدولت بیوی پر ہاتھ اٹھایا جائے۔" وہ خود زمدا سے چاہے کتنے ہی ناراض تھے مگر وہ ماہیر کے سامنے اس کا بھر پور دفاع کر رہے تھے۔
جواب دینے کی بجائے ماہیر نے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکال کر ارباز خان کی طرف بڑھایا۔
"میں یہ بات یوں آپ لوگوں کے سامنے نہیں لانا چاہتا تھا مگر اپنی اولاد کی وجہ سے مجبور ہوں، زمدا اپنی انا اور ضد میں اپنی زندگی کے ساتھ میرے بچوں کی شخصیت بھی تباہ کر رہی ہے۔  ایک ماں جو احساسات اپنی اولاد کے لیے رکھتی ہے وہ کوئی دوسرا نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی ایک ماں کی طرح بچوں کی پرورش کر سکتا ہے اس لیے میں اسے واپس لے جانا چاہتا ہوں۔" اولاد انسان کو وہاں وہاں جھکاتی ہے جہاں جھکنے کا انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
"میں نے اسے آج تک ہر طرح کی آزادی دی ہے، وہ جہاں جانا چاہے جائے مگر میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کوئی شخص مجھے میری ہی بیوی کی نشے کی حالت میں لی گئیں تصویریں بھیجے۔ وہ چاہے کتنی ہی خودسر اور باغی ہو مگر ہمیشہ وہ مجھ سے وفادار رہی ہے  مجھے اس کے کردار پر کوئی شک نہیں ہے اور یہی وجہ مجھے اسے چھوڑنے سے روکے ہوئی ہے۔" وہ ہر بات سچ کہہ رہا تھا، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے، بیوی کا پردہ رکھتے وہ اس کی کئی باتیں دبا گیا تھا حالانکہ گزشتہ کال میں زمدا نے اسے صاف صاف کہا تھا کہ وہ اسے طلاق دے دے وہ زوھان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ مگر ماہیر جان چکا تھا کہ زوھان ایسا کچھ نہیں چاہتا وہ اپنی بیوی کے ساتھ بہت خوش ہے۔
"میں زمدا کو سمجھاؤں گا اور اس کی غلطیوں، کوتاہیوں کے لیے میں آپ سے شرمندہ ہوں۔" ارباز خان کہتے ساتھ مردان خانے سے چلے گئے، ان میں ماہیر خان کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔ اپنے باپ کا سر یوں جھکا دیکھ زوھان کو زمدا پر بہت غصہ آیا تھا۔


•••••••


وہ ماہیر خان کے چلے جانے کی تسلی کرتی اب کمرے سے باہر نکلی تھی، وہ پہلے ہی تپی ہوئی تھی سامنے لاؤنج میں بہرام کے ساتھ حورعین کو کھیلتا دیکھ وہ حسد کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔
"ویسے ہے کیا تم ماں بیٹی میں جو زوھان تم لوگوں کے لیے باباجان کے اگینسٹ چلا گیا۔" وہ حورعین کو بازو سے پکڑے تحقیر آمیز لہجے میں بولی۔ بہرام نے کافی ناگواری سے اسے دیکھا۔
"ویسے اپنا باپ رکھنے کو تیار نہیں ہے اور کوئی اور باپ بنا بیٹھا ہے، جو رکھنے کو تیار نہیں پتا نہیں وہ بھی باپ ہے یا نہیں۔۔۔۔" بہرام اسے حورعین سے دور کر رہا تھا مگر وہ سفاکیت کی انتہا کرتی ایک سال کی بچی کا بازو دبوچے کھڑی تھی۔
"زبان سنبھال کر بات کرو۔" تھپڑ کے بعد لاؤنج میں ہانیہ کی آواز گونجی تھی، زمدا نے حویلی کے مردوں کو اس طرف آتا دیکھ اپنا غصہ ضبط کیا ورنہ دل تو اس کا ہانیہ کا منہ توڑ دینے کا کر رہا تھا۔
"پہلے بات میری اور زوھان کی تھی اس لیے میں خاموش رہی لیکن اب اگر دوبارہ تم نے میری بیٹی کی ذات کو نشانہ بنایا تو میں اس سے بھی بری طرح پیش آؤں گی۔" وہ صوفے کے سہارے کھڑی تھی، عریبہ نے آگے بڑھتے اسے پکڑا۔
"دیکھئیے باباجان ہانیہ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ہے۔" وہ اپنے سرخ ہوتے گال کی طرف اشارہ کرتی جھوٹے آنسو بہا رہی تھی۔ زوھان کو ابھی تک اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے منظر پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
"باباجان پہلے انہوں نے حورعین کو مارا تھا اور یہ اس کے پاپا کو لے کر غلط باتیں بھی کر رہی تھیں۔" وہ دس سالہ بچہ عمر میں چھوٹا تھا مگر اپنے باپ دادا کے ساتھ جرگہ کے فیصلے سننے کے بعد اس کا ذہن کافی پختہ ہوگیا تھا، وہ زمدا کی باتوں کا مطلب نہیں سمجھا تھا مگر اتنا ضرور جانتا تھا کہ اس نے جو بھی کہا تھا وہ غلط تھا۔
"معافی مانگو۔" زوھان نے ہانیہ کی طرف دیکھتے کہا، ہانیہ کے ساتھ ساتھ وہاں سب نفوس کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا، زمدا نے طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہانیہ کو دیکھا۔
"زوھان۔" ارباز خان نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔
"میں نے کہا معافی مانگو۔" عریبہ نے اسے اس کی وہیل چیئر پر بٹھایا، وہ ابھی بھی دکھ سے زوھان کو دیکھ رہی تھی۔
"ایم س۔۔۔۔" اس نے اپنے آنسو پیچھے دھکیلتے بولنا چاہا جب زوھان اس کی بات کاٹ گیا۔
"میں نے ہانیہ سے نہیں تم سے کہا یے زمدا مانگو۔" زوھان کی نظریں ابھی بھی ہانیہ پر ٹکی تھیں جو اس کی بات سنتے پل میں کِھل اٹھی تھی۔
"اپنا سامان پیک کریں، ڈرائیور آپ کو ماہیر کے گھر چھوڑ آئے گا۔" اسے خاموش کھڑا دیکھ کر ارباز خان سرد مہری سے بولے۔
"آپ مجھے یہاں سے نکال رہے ہیں۔" وہ ساری تمیز بلائے طاق رکھتے بےادبی سے بولی۔
"میں مزید اپ کو یہاں رکھ کر حویلی کا سکون برباد نہیں کر سکتا۔" اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے بھرے بازار میں اس کے منہ پر طمانچہ مار دیا ہو۔ وہ مقہور نظروں سے ہانیہ کو دیکھتی وہاں سے چلی گئی۔

•••••••

"آپ پہلے سے جانتے تھے نا؟؟" وہ مشکوک نظروں سے زوھان کو دیکھ رہی تھی۔
"کیا جانتا تھا؟؟" وہ انجان بننے کی بھرپور اداکاری کر رہا تھا۔
"زمدا کے ہسبنڈ کے بارے میں، نہیں بلکہ آپ نے ہی تو انہیں حویلی بلوایا ہوگا وہ خود تھوڑی نہ آئے ہوں گے۔" اس کی بات پر زوھان کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔
"میری بیوی تو بڑی سمجھدار ہے۔" زوھان نے اس کی وہیل چیئر کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے اس کے پھولے پھولے گال کھینچے، وہ اس کا ہاتھ جھٹک گئی۔
"آپ مجھے بھی تو سب کچھ بتا سکتے تھے، مجھے اتنے دنوں سے کیوں اس اذیت سے دوچار کر رہے ہیں۔" وہ زوھان کو دیکھتے بھرائی آواز میں بولی۔
"تاکہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہ کرو۔" جواب دوبدو آیا تھا۔ وہ اب بھی ویسے ہی بیٹھا ہوا تھا۔
"مان لی ہے اپنی غلطی، اتنی سزا کافی ہے اب تو ناراضگی چھوڑ دیں۔" وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے بولی۔
"میں تم سے ناراض تھا ہی کب؟" اسنے لاپرواہی سے کہا۔
"مطلب میں اتنے دنوں سے فضول میں پریشان ہو رہی ہوں۔" وہ خود کلامی کے انداز میں بولی، زوھان کے ہنسنے پر وہ اپنے ناخن اس کے ہاتھ پر گاڑھ گئی جو اب بھی اس کے ہاتھوں میں تھا۔
"پاگل عورت کیا کیا ہے یہ؟" وہ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالتے تکلیف سے کراہا۔
"ایک ہاتھ تو پہلے زخمی تھا دوسرا بھی زخمی کر دیا ہے۔" وہ اپنے زخمی ہاتھ سے دوسرا ہاتھ سہلاتے بولا۔
" ہاں تو کس نے کہا تھا مجھے تنگ کریں۔" وہ تپی ہوئی مسکراہٹ کیساتھ بولی۔
"زیادہ لگ گئی ہے؟" اس کو بیڈ پر خاموش بیٹھا دیکھ کر وہ اپنی وہیل چیئر گھسیٹتی اس تک آئی۔ وہ خاموش رہا۔
"آئم سوری، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔" وہ روتے ہوئے اس کے ہاتھ پر پھونک مار رہی تھی۔
اس کے مذاق کو اتنا سیریس لے لینے پر زوھان کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"آپ کو ڈاکٹر نہیں ایکٹر ہونا چاہیے تھا۔" وہ اس کے ہاتھ کی پشت پر تھپڑ رسید کرتے چڑ کر بولی۔
"تیکھی مرچ۔"
"کروا کریلا۔"
دونوں نے ایک دوسرے جو القابات سے نوازا۔ تھوڑی دیر بعد کمرے کی خاموش فضا دونوں کی کھلکھلاتی ہنسی سے مہک گئی تھی، ہنسی کو بریک حورعین کے رونے کی آواز پر لگی۔


•••••••••


شازیم کی موت کو دس دن  گزر گئے تھے،  دل و دماغ دونوں ہی اس حقیقت کو ماننے سے انکاری تھے کہ وہ ہمیشہ کیلیے اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اب بھی اپنی اور شازیم کی آخری ملاقات کسی فلم کی طرح چل رہی تھی۔ شازیم کومہ سے جاگ گیا تھا، مگر زندگی نے اسے صرف چند منٹوں کی مہلت دی تھی۔ وہ آنکھیں بند کرتی تھی تو شازیم کا آخری جملہ اس کے کانوں میں گونجنے لگتا تھا۔
"حریم۔" زوھان کی آواز پر وہ بے تابی سے اس کی طرف لپکی۔
"لالا وہ آپ کی ہر بات مانتے ہیں انہیں کہیں پلیز واپس آ جائیں ان کی حریم ان کے بغیر مرجائے گی۔" اس نے صبر کا گھونٹ پیتے کئی آنسو دل میں اتارے۔
"لالا انہیں کہیں نا واپس آ جائیں میں ان کو کبھی تم اور شازی نہیں کہوں گی، ان کی یر بات مانوں گی کبھی قد بھی نہیں کروں گی۔" وہ بےکل سی اس کے سامنے گڑگڑا رہی تھی، مہزلہ خان اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی باہر چلی گئیں۔
"لالا ہمیشہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے، سب مجھے چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں، پہلے باباجانی پھر مورے اور اب شازیم۔" وہ یاسیت سے بولی۔ آنسو اب بھی گالوں کو بھگو رہے تھے۔
"لالا جانتے ہیں آخری ملاقات میں انہوں نے مجھ سے کیا کہا تھا؟" وہ تلخی سے ہنسی۔
"انہوں نے کہا تھا حریم آج میں نے تمہیں اپنی محبت سے آزاد کیا۔۔۔۔" زوھان نے اسے مزید بولنے سے روکا، وہاں موجود ہر شخص کی طرح اس میں بھی اس کا درد سننے کی ہمت نہیں تھی۔
"وہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا ہے حریم کبھی واپس نہیں آئے گا بھول جاؤ اسے۔" زوھان نے ضبط سے سرخ ہوتی آنکھیں بند کرتے اسے پیار سے سمجھایا۔
"وہ بھی یہی کہہ رہے تھے انہیں بھول کر آگے بڑھ جاؤں، کیا بھول پانا اتنا آسان ہوتا ہے لالا؟؟" وہ زوھان کو لاجواب کر گئی تھی، وہ جانتا تھا شازیم کو بھولنا حریم کیلئے ناممکن نہیں تھا مگر مشکل ترین ضرور تھا۔
"حریم وہ اللّٰہ کی امانت تھی اس نے لے لی، صبر کریں بچے۔ اگر آپ ایسے کریں گی تو احراز چچا  اورچچی جان کو کون سنبھالے گا۔" زوھان نے جذبات میں بہنے کی بجائے اسے اس کے باقی رشتوں کا احساس دلایا۔


•••••••

"مما،پاپا۔" وہ احراز اور شانزے کو بےتابی سے پکارتے کمرے میں داخل ہوئی۔ شانزے بیڈ پر نیم دراز تھیں، احراز ان کے قریب ہی کرسی رکھے بیٹھا ہوا تھا۔
"مما کیا ہوا ہے آپ کو،آپ ٹھیک ہیں نا؟؟؟" وہ دونوں کچھ ہی دنوں میں صدیوں کے بیمار لگنے لگے تھے، احراز کے کندھے جو بڑھتی عمر سے نہ جھکے تھے، بیٹے کی موت وہ بھی جھکا گئی تھی۔
"حریم شازیم چلا گیا۔" شانزے نے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
"مما وہ گئے ہیں مگر آپ کی بیٹی تو یہیں ہے نا؟" وہ اپنا درد چھپاتی سوال کر رہی تھی، اپنا درد چھپانے میں تو وہ شروع سے ہی ماہر تھی۔
"میری بیٹی، میری جان۔" احراز نے اسے اپنے ساتھ لگایا جب پیچھے سے آنے والی آواز انہیں ساکت کر گئی۔
"یہی صرف آپ کی بیٹی ہے، میں نہیں ہوں کیا؟" مہرماہ نے دھیرے سے ہنستے کہا، شازیم کی موت سے کچھ دن پہلے ہی وہ پاکستان آئے تھے۔ مہرماہ نے ہی اتنے دنوں سے شانزے کو سنبھالا ہوا تھا مگر احراز سے دور ہی رہی تھی۔
"سوری۔" مہرماہ کے اس ایک لفظ نے ہی سب واضح کر دیا تھا، نا اس نے وضاحت دی تھی نا احراز نے مانگی تھی۔
"آپ دونوں ہی ہماری بیٹیاں ہیں۔" شانزے نے کہتے مہرماہ کو پیار سے دیکھا۔


•••••••••

جاری ہے۔

ھسک (✔️Completed) Where stories live. Discover now