Episode 17

298 24 2
                                    

پانچ سال قبل:
زوھان وارڈ کے راونڈ کے بعد اپنے کیبن کی طرف جارہا تھا جب اس کے موبائل پر شازیم کی کال آئی تھی، شازیم کا نام دیکھتے ہی وہ دل سے مسکرایا تھا۔ اگر حریم اسے زوھان کا لاڈلا کہتی تھی تو وہ سچ میں ہی اس کا لاڈلا تھا۔
"آج اپنے لالا کو کیسے یاد کر لیا؟" سلام دعا کے بعد اس نے میٹھا سا طنز کیا، وہ اکثر ہی اس کی مصروفیت پر ایسے ہی اسے سنا دیتا تھا۔
"لالا ایک مسئلہ ہو گیا ہے؟" اس کی پریشان آواز سپیکر سے ابھری۔
"کیا ہوا ہے، کہاں ہو اس وقت؟؟" اس نے گھبرا کر پوچھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اس وقت اسلام آباد میں تھا۔
"لالا حریم کے ہاسٹل کے ویٹنگ روم میں۔" اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہوا۔
"وہاں کیا کر رہے ہو؟ کتنی بار کہا ہے جب بھی کسی مشن پر ہو اس سے دور رہا کرو کسی دن اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی مشکل میں ڈالو گے۔" وہ اس کی بات سنے بغیر غصے اور پریشانی سے اپنی کہے جا رہا تھا۔
"لالا ویسا مسئلہ نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں یہ دوسری نوعیت کا مسئلہ ہے، ویسے جو مجھے آپ کا لاڈلا کہتی ہے  وہ خود اس بات سے انجان ہے کہ اگر اس دنیا میں زوھان خان کو اگر سب سے عزیز کوئی ہے تو وہ خود ہی ہے۔" اس کے کھلکھلاتے لہجے میں کہنے پر زوھان نے سکھ کی سانس لی۔
"اب بتا بھی دو مسئلہ کیا ہے؟"
"حریم نے میرے سے ملنے سے انکار کر دیا ہے؟"
"تو؟"
"تو کچھ کریں لالا میں اس سے ملے بغیر مشن پر نہیں جا سکتا۔" وہ بےبسی سے گویا ہوا۔
"تو مت جاؤ۔" ٹکا سا جواب آیا تھا۔
"لالا۔" وہ ناراضگی سے بولا، زوھان کے کال کاٹ دینے پر وہ وئیٹنگ روم کے دروازے کو دیکھ کر مسکرایا کیونکہ جانتا تھا جلد ہی زوھان یہاں ہو گا اور حریم اس کی آنکھوں کے سامنے۔


••••••

"لالا آپ نے اچھا نہیں کیا۔" وہ ناراضگی سے اس کی طرف دیکھتی بولی زوھان نے اس سے کہا تھا کہ وہ اس سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے مگر اس نے شازیم کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا، بیک سیٹ پر بیٹھا شازیم کھل کر ہنسا تھا۔
"آپ شازیم سے کیوں نہیں ملنا چاہتی تھیں؟" زوھان سیدھا مدعے پر آیا۔
"میں ملنے کیلیے اپنی شرط بتا چکی ہوں۔" اسنے اپنا رخ باہر کی طرف کیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی بات پر زوھان بھی غصہ کرے گا۔
"کیسی شرط؟" اس نے ڈرائیونگ کرتے اس کی طرف دیکھتے آئیبرو اچکائے۔
"ان محترمہ کی شرط ہے کہ اگر مجھے اس مشن پر جانا ہے تو جانے سے پہلے ان سے نکاح کرنا ہوگا۔" اس نے دانت کچکچاتے حریم کو گھورا۔
"واٹ؟" شازیم کی بات پر اس نے گاڑی کو بریک لگاتے سائیڈ پر روکا۔
"اور اگر نکاح نہیں کرنا تو میری طرف سے یہ منگنی بھی ختم سمجھے۔" شازیم کی بات میں حریم نے اپنا بھی حصہ ڈالا، شازیم نے اپنی جگہ پہلو بدلا۔ وہ تینوں اب گاڑی سے باہر کھڑے تھے۔
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟" زوھان غصے سے اس کی طرف بڑھا، اگر شازیم اسے وقت پر نہ روکتا تو وہ ضرور اسے دو تین لگا چکا ہوتا۔
"کچھ بھی کہہ لیں لالا میں اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔" اس نے ضدی انداز میں کہا، شازیم نے مسکین سی شکل بناتے زوھان کو دیکھا۔
"تم نے احراز چچا یا چچی جان سے بات کی؟" وہ کچھ سوچتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
"ان سے بات تو تب کروں نا جب مورجان مانیں، وہ تو صاف انکار کر چکی ہیں کہ حریم کی پڑھائی مکمل ہونے تک میں یہ خیال بھی اپنے ذہن سے نکال دوں، اب انکو کون بتائے یہ نادر خیال ان کی چہیتی کا ہی ہے۔" وہ افسوس اور بےبسی سے حریم کو دیکھ رہا تھا کہ شاید اب ہی اسے اس کی حالت پر ترس آ جائے مگر وہ تو سڑک پر ناجانے کیا ڈھونڈھنے میں مگن تھی۔
"تو اب مجھ سے کیا چاہتے ہو؟" زوھان نے اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ گاڑی سے الگ ہوتے سیدھا کھڑا ہوا۔
"پلیز اپنی بہن سے میرا نکاح کرا دیں۔" وہ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے بولا، ہاتھ منانے کیلیے نہیں بلکہ حفاظتی تدبیر کے لیے پکڑے گئے تھے کہ زوھان اسے ایک جڑ ہی نہ دے۔
"دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا نہیں بلکہ مجھے لگتا ہے تم دونوں ہی پاگل ہو گئے ہو۔" وہ اس کے ہاتھ جھٹکتے چینخا تھا۔
"لالا مجھے ہاسٹل ڈراپ کر دیں، میں نے ابھی کل کے ٹیسٹ کی تیاری بھی کرنی ہے۔" وہ شازیم کی نظروں اور زوھان کے غصے کو یکسر نظرانداز کرتی گاڑی کی طرف بڑھی۔
"لالا پلیز۔" وہ اس کے ہاتھ پکڑتے گڑگڑایا۔
"گاڑی میں بیٹھو۔" اس کی آنکھوں میں ابھرتی نمی دیکھتے وہ نظریں چرا گیا۔
"لالا میرا ہاسٹل تو دوسری طرف ہے۔" گاڑی میں گونجتی حریم کی آواز پر اس نے سامنے دیکھا، راستے کو دیکھتے ہی اس کی نظریں چمک اٹھی تھیں۔

زوھان انہیں اپنے فلیٹ پر لے آیا تھا، جہاں نکاح خواں اور کچھ گواہان کا انتظام کرتے زوھان نے ان دونوں کا نکاح کروا دیا تھا۔ زوھان کے لیے یہ کرنا کچھ اتنا مشکل بھی نہیں تھا حریم کے آسلام آباد کے کالج میں پڑھنے کی وجہ سے مہزلہ خان اور ارباز خان نے ہی اسے حریم کا سرپرست بنایا تھا۔


زوھان کے سب کچھ بتا دینے کے بعد شانزے نے حریم کی طرف دیکھا تھا جو سر جھکائے فرش پر ہی بیٹھی تھی۔
"کیوں کیا ایسا بچے، وہ تو چلا گیا تم نے اپنی بھی زندگی برباد کر لی۔" ان کی بات پر حریم نے تڑپ کر ان کی طرف دیکھا، وہ بھی صبر کے گھونٹ پی رہی تھیں۔
"آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟؟ پاپا بولیں ناں مما کو ایسی باتیں مت کریں۔" وہ جھٹکے سے اٹھتی احراز کے پاس آئی تھی جو اس سے نظریں چرا گیا تھا۔
"وہ ٹھیک ہو جائیں گے نا؟" وہ بےبسی سے آنکھوں میں آس لیے اسے دیکھ رہی تھی، احراز چپ رہا کیونکہ کہنے کیلیے کچھ تھا ہی نہیں۔ وہ کہاں سے اسے امید دیتا جب ڈاکٹرز ہی صاف جواب دے چکے تھے۔
"ثابت کر دیا نا کہ ہے تو یہ ارذلہ کی ہی خودسر بیٹی۔ جب ماں نے اپنے محسنوں کا خیال نہ کیا تو اس کی بیٹی بھی تو کوئی ایسا ہی گُل کھ۔۔۔" لاونج کی خاموشی میں موحد خان کی تحقیر آمیز آواز گونجی، سب نے غصے اور افسوس سے ان کو دیکھا۔
"چپ کر جائیں آغا جان، میں ارباز خان نہیں ہوں جو آپ کے سامنے خاموشی اختیار کر لوں گا میں احراز خان ہوں اگر  میری بیٹی کے بارے میں آپ نے مزید ایک لفظ کہا تو میں سارے لحاظ بھول جاؤ گا۔" وہ سردمہری سے کہتا حریم کی طرف متوجہ ہوا جو اب بھی جواب طلب نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی
اس کی خاموشی کا دورانیہ بڑھا تھا جسے برداشت نہ کرتے حریم وہیں لہرا کر گئی سب سے پہلے زریاب اس تک پہنچا تھا اس کے ہاتھ جھٹکتے زوھان حریم کو اس کے کمرے میں لے گیا۔



•••••••

"لالا۔" وہ باہر لان میں رکھی کرسی پر بیٹھا تھا جب زریاب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"تم گئے نہیں ابھی تک۔" زوھان نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا اس کا لہجہ کسی بھی تاثر سے خالی تھا۔
"لالا میری بات تو سنیں۔" وہ اس کا ہاتھ پکڑے اس کے سامنے لان کی گھاس پر بیٹھتے منت بھرے لہجے میں بولا۔
"ہاں بولو کیا سنوں؟؟ کہاں تھا ناں دور رہو اس سے، جب سے ہاسپٹل آئے ہو کتنی بار کہا تھا بھول جاؤ اسے وہ منگ ہے شازیم کی تو کیوں کیا یہ سب؟؟۔" وہ بولا نہیں پھنکارا تھا۔ اس کے غصے سے ان سے تھوڑا فاصلے پر کھڑی زمدا بھی کانپ گئی تھی۔
"لالا مجھے کچھ بھی نہیں پتا تھا، میں ہر بات سے اتنا ہی انجان تھا جتنا آپ اور حریم۔" حریم کا نام لیتے وہ شرمندگی سے دوچار ہوا تھا، ہر بات سے انجان ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو ہی حریم کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا۔ زوھان خاموش رہا۔
"وہ ٹھیک تو ہے ناں لالا؟" اس نے بےقراری سے پوچھا مگر اس بار وہ حریم کا نام نہیں لے سکا تھا۔
"ہاں ٹھیک ہے اب، سٹریس کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی۔ شام ہو رہی ہے تم اب حویلی کیلئے نکلو، اندھیرا ہو گیا تو مشکل ہو گا۔" اس نے اس کا ہاتھ تھپکتے، زمدا کو ناگواری سے دیکھتے کہا۔
"ٹھیک ہے لالا، اللّٰہ حافظ۔" وہ الوداعی کلمات ادا کرتے پلٹا زمدا کو وہاں کھڑے دیکھ کر اس تک آیا۔
"چلیں بجو، پھر کافی دیر ہو جائے گی۔" سمعیہ خانم اور ژالے تو موحد خان کے ساتھ واپس جا چکی تھیں، بس زمدا اور زریاب ہی یہاں تھے۔
"تم جاؤ میں یہی رہوں گی۔" وہ زوھان کی طرف دیکھ رہی تھی جس تک اس کی آواز کافی آسانی سے پہنچ گئی تھی اس کی گرفت کرسی کے ہتھے پر سخت ہوئی تھی۔
"مگر کیوں؟" زمدا کی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے اس کا لہجہ سخت ہوا۔
"تم اپنے کام سے کام رکھو۔" وہ بیزاری سے کہتی زوھان کی طرف بڑھ گئی۔ زریاب بھی اسے اس کے حال پر چھوڑتا چھوٹی حویلی کیلیے نکل گیا۔
"تو آپ اپنی بیوی اور بیٹی کو خان حویلی لے ہی آئے۔" وہ ایک ادا سے بال کان کے پیچھے کرتی مسکرائی۔ زوھان خاموشی سے پورچ کی طرف دیکھتا رہا۔
حویلی کی پچھلے باغیچے سے ادھر آتے ہانیہ نے بس زمدا کا مسکرانا اور اس کا زوھان کے قریب کرسی دھکیل کر بیٹھنا ہی دیکھا تھا، وہ جن قدموں پر آئی تھی انہی قدموں پر واپس لوٹ گئی۔
زوھان اس کی آمد سے بےخبر تھا مگر زمدا نے اس کے چہرے پر پھیلتے دکھ اور افسوس کو بغور دیکھا تھا۔ ہانیہ کے جانے کے بعد زوھان بھی زمدا کی کرسی قریب کرنے والی حرکت پر ناپسندیدہ نظر اس پر ڈالتے اٹھ کر چلا گیا۔
"انٹرسٹنگ!" زوھان کے جانے کے بعد زمدا کھل کر ہنسی۔

••••••••

"حور بولو با ۔۔ با۔" زوھان صبح سے حورعین کو بابا بولنا سکھا رہا تھا، ہانیہ کمرے میں داخل ہوتی کبرڈ کی طرف بڑھ گئی۔
"با، مما۔" بابا بولتے بولتے اس نے ہانیہ کو دیکھتے ہی اسے پکارا، زوھان نے اپنی اتنی دیر کی محنت پر پانی پھر جانے کے غصے میں اسے بیزاری سے دیکھا۔
"کیا یار تم تھوڑی دیر بعد نہیں آ سکتی تھی۔" ہانیہ اس پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر تہہ شدہ کپڑوں کو دوباہ تہہ کر کے کبرڈ میں پٹخنے لگی۔
"کیا ہوا اتنا منہ کیوں پھلایا ہوا ہے؟" زوھان حورعین کو بیڈ پر بٹھاتے اس کے قریب آیا، ہانیہ نے ناراضگی سے منہ پھیر لیا۔
"ویسے میں جانتا تو ہوں مگر خیر پھر بھی تم بتا دو۔" وہ بازو سینے پر باندھے کبرڈ سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا۔
"کیا جانتے ہیں آپ؟" وہ گڑبڑائی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ زوھان اس سے یہ کہے کہ وہ زمدا سے جیلس ہو رہی ہے۔
"نہیں رہنے دو تمہیں اچھا نہیں لگے گا کہ میں جانتے بوجھتے تمہیں ناراض کر رہا ہوں۔" وہ مصنوئی سنجیدگی سے کہتے کبرڈ سے الگ ہوا۔
"نہیں اب آپ بتائیں کہ آپ کیا جانتے ہیں؟" اس نے اس کا بازو تھامتے اسے روکا۔
"بتادوں؟" اسنے اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھا۔
"بتا بھی دیں اب۔" وہ جھلا اٹھی۔
"اسی لیے کہ میں یہاں حویلی آنے کے بعد تمہیں  وقت نہیں دے پا رہا۔" وہ مصنوئی افسوس اور شرمندگی سے گویا ہوا، ہانیہ کا تو حیرت سے منہ ہی کھل گیا۔
"ہاں پشاور میں تو جیسے میرے آگے پیچھے گھومتے رہتے تھے نا۔" وہ کہتے ساتھ ہی زبان دانتوں تلے دباتی رخ موڑ گئی۔
"تو کیا تم چاہتی ہو کہ زوھان خان تمہارے آگے پیچھے گھومے۔" زوھان نے اس کے دوپٹے کا پلو تھامتے اسے روکنا چاہا مگر ڈوپٹہ اس کے سر سے سرکتا چلا گیا، اس کے گھنگھڑیالے کالے بال کسی آبشار کی مانند کمر پر بکھرے ہوئے تھے، اس نے ہانیہ کے بال پہلی بار دیکھے تھے۔ ہانیہ نے سرعت سے ڈوپٹہ دوبارہ سر پر ٹکایا۔
"پلیز اپنے جذبات اور وقت ہم پر ضائع مت کریں۔" وہ سردمہری سے کہتے آگے بڑھی۔
"میری بیٹی کو جھوٹی اور عارضی خوشی مت دیں۔" زوھان ناسمجھی سے اسکی پشت کو دیکھ رہا تھا جب وہ دروازہ کھولتے پلٹے بغیر منت بھرے لہجے میں بولی۔
"مطلب کیا ہے تمہاری اس بات کا۔" زوھان نے ایک جست میں اس کے سر پر پہنچتے اسے دروازے سے لگایا۔
"یہی کہ آپ اس کے باپ نہیں ہیں تو بننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔" وہ سنگدل بنی اس کی محبت کو عارضی اور جھوٹا کہہ رہی تھی۔
"آج تو یہ بکواس کر لی ہے اگر آئندہ کی نا تو میں تمہیں بولنے لائق نہیں چھوڑوں گا۔" وہ اس کا منہ دبوچے دھاڑا۔ وہ کئی آنسو دل میں اتارتی باہر نکل گئی۔

•••••••

ہانیہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی بےآواز رو رہی تھی جب سامنے نظر پڑتے اس کی آنکھیں ساکت  ہوگئیں، ارباز خان کو سامنے دیکھ کر اسے اپنے جسم میں خون جمتا محسوس ہوا۔
"ابھی آپ اندر کیا کہہ رہی تھیں؟" وہ دبی دبی آواز میں چلائے، ہانیہ اپنی آنکھیں بند کر گئی۔
"حورعین زوھان کی بیٹی نہیں ہے؟" وہ اب بھی خاموش رہی۔ ارباز خان حریم کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے چونکہ زوھان اور حریم کا کمرے آمنے سامنے ہونے کی وجہ سے وہ کھلے دروازے سے ان کی باتیں بآسانی سن چکے تھے۔
"ہے کہ نہیں؟" وہ غضبناک تیور لیے چینخے۔
"نہیں ہے وہ ان کی بیٹی۔" ان کی آواز پر زوھان بھی باہر نکل آیا تھا۔ وہ فکرمندی سے ہانیہ کی طرف بڑھا جو زمین پر ڈھے سی گئی تھی۔ حریم کے کمرے سے باہر نکلتے شانزے نے ہانیہ کو سنبھالا۔
"فوراً مردان خانے میں پہنچو۔" وہ قہر بھری نظر ہانیہ پر ڈالتے آگے بڑھ گئے۔
"آپ کو جو بات کرنی ہے یہیں کریں۔" وہ ان کے پیچھے آتے لاؤنج میں داخل ہوتا بولا۔ ہانیہ بھی شانزے کیساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی۔
"تم نے ہم سب سے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا۔" ان کی بات پر زوھان الجھن کا شکار ہوا۔
" میں کچھ سمجھا نہیں آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟" زوھان نے ہانیہ کی طرف دیکھا جو نم آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ سب لوگ لاؤنج میں جمع ہو گئے تھے۔
"یہی کہ حورعین تمہاری بیٹی ہے۔" ان کے تنفر سے حورعین کا نام لینے پر زوھان نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔
"میں نے تو آپ کو کچھ بتایا ہی نہیں تھا باباجان، آپ کو تو جو بھی بتایا تھا زمدا نے بتایا تھا اور آپ اس کی کہی ایک ایک بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر گئے۔" وہ تلخ لہجے میں کہتے ہانیہ کی طرف آیا۔
"چلو روم میں۔" وہ اسے نرمی سے اپنے ساتھ لگاتے بولا۔
"میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی۔" زوھان نے سپاٹ چہرہ لیے ان کی طرف دیکھا۔
"طلاق دو اس لڑکی کو۔" ہانیہ نے اپنی گرفت زوھان کے بازو پر سخت کردی جیسے وہ ابھی ارباز خان کے کہنے پر اسے چھوڑ دے گا۔ زوھان تلخی سے ہنسا۔
"بس کر دیں باباجان، انسان ہوں میں جذبات رکھتا ہوں کوئی کٹھ پتلی نہیں ہوں جسے آپ اپنے اور زمدا کے اشاروں پر نچانا چاہتے ہیں۔ زمدا کسی اور کو پسند کرتی تھی تو آپ نے چاہا میں منگنی توڑ دوں، زمدا نے کہا کہ اب مجھے شادی کر لینی چاہیے تو آپ نے مجھے شادی کے لیے پریشر رائز کیا، اب زمدا کے کہنے پر آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔" وہ تلخی سے کہتے انہیں افسردگی سے دیکھ رہا تھا۔
"تاسو والے دے زمدا پہ بارے کے سوچ کائی بابا جان آخر زے ہوم ستاسوں زوئی یم" ("کیوں زمدا کے بارے میں سوچتے آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ میں بھی آپ کا  بیٹا ہوں باباجان")۔ وہ دل گرفتگی سے کہتے ہانیہ کی طرف مڑا جو اس کی گرفت میں بھی ڈر سے ہلکا ہلکا کپکپا رہی تھی۔
زوھان کی بات نے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا تھا، سب کی آنکھوں میں انہوں نے اپنی لیے واضح خفگی دیکھی تھی۔

••••••

"حریم کی طبیعت کیسی ہے اب؟؟" وہ ابھی حریم کو میڈیسن دے کر آیا تھا، حورعین اس کی گود میں سو رہی تھی۔
"خود جا کر دیکھ لو۔" اس نے حریم کی طرف دیکھا جو بازو گھٹنوں کے گرد باندھے ان پر سر رکھے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"میں باہر نہیں جاؤں گی۔" وہ پھرتی سے کمفرٹر منہ تک اوڑھے لیٹ گئی، ایک مسکراہٹ زوھان کے چہرے کا احاطہ کرتے جلد ہی معدوم ہو گئی۔
"ہانیہ۔" اس نے اس کے منہ سے کمفرٹر ہٹاتے اس کا رخ اپنی جانب کیا۔
"اٹھ کر بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔" کچھ دیر اس کا شفاف، پاکیزہ چہرے دیکھنے کے بعد وہ ملائمت سے بولا۔
"آپ مجھے طلاق۔۔۔" وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے بیٹھ گئی، طلاق کا لفظ ادا کرتے ہانیہ کے چہرے پر وہی تلخ مسکراہٹ تھی جو ہاسپٹل میں جبران سے ملاقات کے وقت تھی مگر آج آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔
"اگر اب یہ لفظ تمہارے منہ سے نکلا نا تو  میں تمہیں دو لگا دوں گا۔" زوھان نے درشتگی سے اس کی بات کاٹی،  ارباز خان کے بعد اب ہانیہ کا یہ لفظ بولنا اس کے غصے کو ہوا دے گیا تھا۔
"ہانیہ آئندہ کبھی بھی تم لڑ کر  یا غصے میں یوں کمرے سے باہر نہیں نکلو گی۔" زوھان نے اپنا غصہ ضبط کرتے اپنے لہجے کو نارمل کرتے آہستگی سے کہا، ہانیہ محض سر ہلا کر رہ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ آج یہ سب اس کی وجہ سے ہوا تھا۔
دونوں لیٹ تو گئے تھے مگر نیند دونوں کی آنکھوں میں نہیں تھی۔ زوھان ارباز خان کو منانے کے متعلق سوچ رہا تھا تو ہانیہ کی سوچیں زمدا تک محدود تھیں۔

••••••

"مورجان آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔" سٹریس کی وجہ سے مہزلہ خان کا بی پی شوٹ کر گیا تھا۔ عریبہ ان کے سرھانے بیٹھی انہیں دلاسہ دے رہی تھی اور زرنش ان کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی۔
"یہ آپ مجھے تسلی دے رہی ہیں یا خود کو۔" مہزلہ خان آنکھیں کھولتیں پھیکا سا مسکرائیں۔ عریبہ خاموش نظروں سے انہیں دیکھنی لگی وہ واقعی ان سے زیادہ خود کو تسلی دے رہی تھی۔
"آپ کیا سوچ رہی ہیں بجو؟" دوا کھلا دینے کے بعد وہ دونوں کمرے سے باہر نکل آئی تھیں۔
"حریم اور ہانیہ کی وجہ سے مورجان اور چچی جان اتنا پریشان ہیں اور ہم کچھ کر بھی نہیں پا رہے۔" وہ بےبسی سے بولتی کچن میں داخل ہوئی جہاں اس کی بات سنتے ہانیہ کا فریج کی طرف جاتا ہاتھ تھم گیا تھا۔
"بجو کیا ہم باباجان سے بات نہیں کر سکتے، مورجان کا بی پی آج بھی اتنا۔۔۔۔" عریبہ ہانیہ کی موجودگی سے انجان تھی، زرنش نے ہانیہ کو دیکھتے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ہانیہ آنسوؤں کو آنکھوں کی باڑ توڑنے سے روکتی باہر نکل گئی، عریبہ اور زرنش افسردہ سی سر جھکا گئیں۔

••••••


شانزے نیند سے جاگیں تو حریم بیڈ پر نہیں تھی وہ فکرمندی سے اٹھیں، کھڑکی کے پاس پڑی کرسی پر اسے بیٹھے دیکھ کر شانزے نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ اس کی طرف آئیں، اس کا چہرہ کھڑکی کی طرف تھا وہ شازیم کی تصویر گود میں رکھے اس پر ہاتھ پھیر رہی تھی، آنسو گال سے ٹپکتے تصویر پر گر رہے تھے۔
"میری جان کیوں خود کو اتنی تکلیف دے رہی ہو۔" وہ اس کے سامنے کی کرسی سنبھالتے رنجیدگی سے بولیں۔ حریم نے ان کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ کچھ ہی دنوں میں مرجھا گیا تھا، گلابی رنگت زرد پڑ گئی تھی، آنکھوں کے گرد حلقے نمایاں تھے رونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔
"مما وہ ٹھیک ہو جائیں گے نا؟؟" بےآواز روتے وہ پھر سے اپنا وہی سوال دہرا رہی تھی جو وہ پچھلے دو دنوں سے ہر فرد سے پوچھ رہی تھی، اس آس پر کہ شاید کوئی امید کی کرن نظر آ جائے۔
"حریم ادھر اپنی مما کی طرف دیکھیں، میری بیٹی اتنی مایوسی والی باتیں کب سے کرنے لگی؟؟" شانزے نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتے اوپر اٹھایا۔
"ہم ہر بات سے انجان ہیں مگر اللّٰہ تو ہمارے آنے والے کل سے واقف ہے، اس ذات سے مانگیں اور سب کچھ اسی پر چھوڑ دیں، وہ جو کرے گا ہمارے حق میں وہی بہتر ہوگا۔" وہ پرسکون سی کہتیں ہلکا سا مسکرائیں۔
"اگر شازیم کے نصیب میں زندگی لکھی ہے تو اللّٰہ اسے صحت والی زندگی عطا کرے اور اگر نہیں تو اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور ہمیں صبر دے۔" وہ ماں تھیں جس نے اسے اس دنیا میں لانے کیلئے تکلیف برداشت کی تھی مگر وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ شازیم اللّٰہ کی امانت ہے وہ جب چاہے اسے واپس لے سکتا ہے۔
"مما۔" وہ تڑپ اٹھی تھی، کمرے میں اس کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔
"اپنی مما کیلئے چپ ہو جائیں، ادھر شازی مشینوں میں جکڑا پڑا ہے اور ادھر آپ کو اس تکلیف میں دیکھ کر ہمارا دل کٹ رہا ہے۔" وہ اس کے اگے بےبس ہوئی تھیں، ان کو روتا دیکھ کر حریم نے اپنے آنسو صاف کیے اور ان کے سینے سے جا لگی۔

••••••

ہانیہ حورعین کی ضد پر حویلی کے پچھلے طرف بنے باغیچے میں رکھے جھولے پر بیٹھی ہوئی تھی، زوھان صبح سے نکلا ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔ اماز، عزم، بہرام اور اذیان بھی پاس ہی فٹ بال کھیل رہے تھے۔
"تمہیں شرم تو نہیں آتی؟" تحقیر آمیز آواز پر اس نے اپنا سر اٹھایا سامنے ہی زمدا بازو سینے پر لپیٹے اسے نفرت سے دیکھ رہی تھی۔
"اگر میری وجہ سے سب اتنے پریشان ہوتے میں تو اسی وقت یہاں سے چلی جاتی۔" اس کی بات پر بہرام کے ماتھے پر بل پڑے، وہ غصے سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"میں کچھ سمجھی نہیں آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں؟" وہ جھولے سے اٹھتی کھڑی ہوئی، ان کی طرف آتے سب بچے بھی وہیں رک گئے تھے۔
"یہ معصوم بننے کی ایکٹنگ نا کسی اور کے سامنے کرنا میں اچھے سے جانتی ہوں تم جیسی لڑکیوں کو۔" وہ ناک چڑھاتی حقارت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"ویسی کافی خوشی ہو رہی ہو گی نا تمہیں یہ دیکھ کر کہ زوھان تمہارے لیے باباجان کے سامنے کھڑا ہوا۔" ہانیہ اسے اگنور کرتی اس کی سائیڈ سے نکلنے لگی۔
"تمہارے خود کے پیرنٹس ہوتے تو تم زوھان کا درد سمجھتی کہ اسے کیسا محسوس ہو رہا ہوگا کہ اس کے باباجان اس سے ناراض ہیں اور مورجان باپ بیٹے کی لڑائی کے سبب بیمار ہو گئی ہیں۔" وہ طنزیہ لہجے میں کہتی چلی گئی، غصے اور اہانت سے ہانیہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ بہرام نے آگے بڑھتے اس کا ہاتھ پکڑا وہ اسے دیکھتے پھیکا سا مسکرا دی۔

•••••••


وہ کافی دیرسے کروٹ بدلتی زمدا کے الفاظ اپنے دماغ سے جھٹک رہی تھی مگر ہر بار ناکام رہتی۔ اس نے زوھان کی طرف دیکھا جو اپنا ایک بازو سر کے نیچے اور دوسرا حورعین پر رکھے سو رہا تھا اس کے چہرہ پر سوتے وقت وہ سکون نہیں تھا جو وہ اتنے دنوں سے اس کے چہرے پر دیکھتی آئی تھی۔اس کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا  وہ بستر سے اٹھتی  ٹھنڈی ہوا کی غرض سے باہر نکل گئی، اسے پچھلے لاؤنج میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، تھوڑا دوری سے ہی وہ جان گئی تھی لاؤنج کی کرسی پر بیٹھی ہستی زمدا ہے۔
"ہاہاہاہاہاہا، زوھان اور اس سے محبت نو نیور۔" وہ وہی سے پلٹ جانا چاہتی تھی جب زمدا کے قہقہے اور لفظوں نے اسے آگے بڑھنے سے روک لیا۔
"میں اچھے سے جانتی ہوں آج بھی وہ مجھ سے ہی محبت کرتا ہے، اگر وہ اس لڑکی کیلیے کچھ محسوس کرتا بھی ہے تو وہ محض ہمدردی ہی ہو سکتی ہے۔" اس کے پریقین لہجے میں کہنے پر ہانیہ کا دل ڈوبا۔
"بس تھوڑا ناراض ہے غلطی بھی تو میری ہی ہے میں نے اس کی محبت کو ٹھکراتے ماہیر کو چنا تھا ، اس کی ناراضگی بنتی بھی ہے۔ ویسے بھی میں اسے منانے کیلئے ہی تو یہاں آئیں ہوں اور میں جانتی ہوں وہ جلد مان بھی جائے گا، وہ مجھ سے زیادہ دیر ناراض بھی تو نہیں رہ سکتا۔" زمدا نے اسے کن آکھیوں سے دیکھتے آخری پتہ پھینکا تھا۔ ہانیہ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔
ہانیہ مرے قدموں سے چلتی واپس چلی گئی، زمدا کو اپنا چلایا تیر نشانے پر لگتا محسوس ہوا تھا۔ وہ ہانیہ کو تب ہی دیکھ چکی تھی جب وہ اپنی سوچوں میں گم باغیچے میں داخل ہوئی تھی۔


•••••••

جاری ہے۔

ھسک (✔️Completed) Where stories live. Discover now