Episode 12

306 27 2
                                    

"حریم کی باتوں پر مجھے پورا یقین ہے مگر آپکی آنکھیں تو مجھے کوئی اور ہی داستان سنا رہی ہیں۔" مہزلہ خان نے کافی دیر بعد اپنے دل کی بات کہہ ہی دی تھی جو وہ کب سے زبان پر نہ لانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔
"میں کچھ سمجھا نہیں مورے۔" اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے اس نے جلدی سے استفسار کیا۔
"اب میں نے اتنی مشکل بات بھی نہیں کہہ دی جو آپ کو سمجھ نہ آئے۔" مہزلہ خان کی جانچتی نگاہیں اس پر ہی ٹکی تھیں۔ وہ خاموش رہا۔
"ہانیہ کا یہاں رہنا کچھ مناسب نہیں ہے، آپ اگر سچ میں ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈ کر ان کی شادی کروا دیں ویسے بھی ان کی ابھی عمر ہی کیا ہے۔" زوھان کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ اپنی جگہ پہلو بدل گیا جو مہزلہ خان نے صاف محسوس کیا۔
"اگر آپ کی نظر میں کوئی لڑکا ہے تو بتائیں نہیں تو میں دیکھتی ہوں ان کیلئے کوئی لڑکا۔" مہزلہ خان کی باتیں اسے بےچین کر رہی تھیں۔
"آپ ہانیہ سے اس کی مرضی دریافت کر لیں باقی سب میں خود دیکھ لوں گا۔" وہ لاکھ چاہنے کے باوجود اپنے تاثرات پر قابو نہ پا سکا۔ حریم کے ساتھ ادھر ہی آتی ہانیہ  پر ایک نظر ڈالتے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ ہانیہ کے چہرے سے صاف واضح تھا کہ وہ ان کی باتیں سن چکی تھی۔
"میں آپ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کروں گی بس اتنا کہوں گی کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے حورعین کے بارے میں بھی سوچ لیجیے گا، کل کو اگر زوھان کی شادی ہوتی ہے تو ان کی بیوی تو ان کا آپ سے اور حورعین سے ملنا بالکل پسند نہیں کریں گی، میں امید کرتی ہوں آپ سمجھ رہی ہیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں۔" وہ ہانیہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سمجھانے والے انداز میں گویا ہوئیں کیونکہ وہ اس کے تاثرات سے اندازہ لگا چکی تھیں کہ وہ صاف انکار کرنے والی ہے۔
ہانیہ سر کو خم دیتے سیڑھیوں کی طرف چلی گئی، زوھان کی شادی آج نہیں تو کل تو ہونی ہے تو پھر وہ کہاں جائے گی، اورفینیج یا ہوسٹل کے ماحول میں اپنی بیٹی کو رکھنے کی غلطی وہ نہیں کر سکتی تھی۔ مہزلہ خان کی باتوں نے اس کی سوچ کو نئی راہ دکھائی تھی۔
"مورجان کیا آپ کو لالا کی آنکھوں میں وہ نظر نہیں آیا جو مجھے نظر آتا ہے۔" حریم نے اچنبھے سے پوچھا۔
"کیا نظر آتا ہے آپ کو ان کی آنکھوں میں؟" مہزلہ خان نے آئیبرو اچکائے۔
"ہانیہ کی محبت۔" وہ سرشار سی بولی۔ مہزلہ خان نے اپنی ہنسی ضبط کر کے اس گھورا۔
"آپ نے کب سے آنکھیں پڑھنی شروع کر دیں؟" انہوں نے آنکھیں چھوٹی کیے بھنویں سکیڑیں۔
"بتائیں ناں مورجان کیا آپ کو ان کی آنکھوں میں ہانیہ کیلئے محبت نظر نہیں آئی۔" ان کے بات گھمانے پر بھی حریم اپنی بات کا جواب سننے پر باضد تھی۔
"ان کی آنکھیں تو محبت کی پوری داستان سنا رہی ہیں، وہ ایک بار زبان سے اقرار کر کے تو دیکھیں میں ان کی محبت، ان کی خوشی کے لیے خان کے مقابل بھی کھڑی ہو جاؤں گی۔" مہزلہ خان ایک جذب سے بولیں، ایسی خوشی انہوں نے اپنے بیٹے کے چہرے پر پہلی بار دیکھی تھی اور کسی کی جدائی کا سنتے ایسے بےقرار بھی وہ پہلی بار ہی ہوا تھا۔

••••••••

معید اپنے دھیان ہاسپٹل کے کاریڈور سے گزر رہا تھا جب کسی لڑکی کی آواز پر چونکا مگر اسے اپنا وہم سمجھتے سر جھٹک گیا لیکن جب دوبارہ وہی آواز کانوں سے ٹکرائی تو وہ خود کو اس آواز کی سمت دیکھنے سے نہیں روک سکا تھا۔ وہ لڑکی ریسیپشنسٹ سے کوئی بات کرتے ہنسی۔ اس کا رخ دوسری طرف تھا مگر جب پلٹی تو معید علی خان کو اپنی جگہ ساکت کر گئی۔ وہ کئی لمحے بغیر نظر جھپکائے اسے دیکھتا رہا ہوش تو اسے تب آیا جب وہ اسے نظر انداز کرتی اسکے پاس سے گزرتی آگے بڑھ گئی۔  اسے اپنا وہم سمجھتے وہ اپنا سر نفی میں ہلاتا وارڈ کی طرف چلا گیا۔

•••••••••

دھاڑ سے دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے نووارد کو دیکھا۔
"ڈاکٹر معید یہ میرا کیبن ہے۔" اس نے  اسے خوشمگیں نظروں سے گھورتے ابھی اپنی بات مکمل ہی کی تھی جب حریم بھی اسی کے انداز میں کمرے میں داخل ہوتے بغیر اس کی طرف دیکھے کرسی گھسیٹتے بیٹھ گئی۔
"یہ تم لوگوں کا بیڈ روم  نہیں ہے جو بغیر اجازت ایسے دھڑلے سے گھسے آتے ہو۔" وہ سخت  جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا تھا، حریم ارد گرد سے بے پروا زوھان کے سامنے پڑے چائے کے کپ کو اٹھا گئی۔ جبکہ معید حریم کے ساتھ والی کرسی پر براجمان ہستی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
دروازے پر دستک کی آواز پر زوھان نے'کم ان' کہا مگر ہانیہ کو اجازت لے کر اندر آتا دیکھ کر اسے حیرت ہوئی، مگر پچھلی بار ہانیہ کے بغیر اجازت آنے کے بعد جو کچھ ہوا تھا اس کے یاد آتے ہی زوھان کا قہقہہ کمرے میں گونجا، حریم کا بسکٹس کی طرف جاتا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا، مناہل اور معید نے بھی تعجب سے اس کی طرف دیکھا مگر ہانیہ تو بغیر وجہ ہی اپنی جگہ شرمندہ ہوگئی۔
"تمہیں کیا ہوا ہے؟" معید نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے پوچھا۔ ہانیہ کو آتے دیکھ کر حریم پھر سے اپنی چائے کی طرف متوجہ ہو گئی، چائے میں تو اس کی جان تھی۔
"کچھ نہیں اور تم مجھے یہ تم کہنا بند کرو، بڑا ہوں تم سے اور سینئر بھی۔" اس نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا اور کن آکھیوں سے ہانیہ کو بھی دیکھا جو ابھی تک سر جھکائے دروازے کے قریب ہی کھڑی تھی۔
"ہاں تو بس پانچ سال ہی بڑے ہو اور ہر بات پر اپنی سینئیارٹی کا روعب مت جھاڑا کرو۔" اس نے زوھان کی بات ہوا میں اڑائی۔
"ویسے یہ جو لڑکی حریم کے ساتھ بیٹھی ہے وہ مناہل ہی ہے یا صبح سے مجھے ہی وہ ہر جگہ نظر آ رہی ہے۔" معید نے اس کی طرف قدرے جھکتے ہوئے رازداری سے کہا مگر اس کی آواز سوائے ہانیہ کے وہاں موجود ہر کسی کے کانوں تک بآسانی پہنچ گئی تھی۔ مناہل نے اپنی ہنسی چھپانے کے لیے منہ نیچے کر لیا، حریم نے حیرت سے اپنی برابر کی کرسی کی طرف دیکھا وہ تو چائے کو دیکھتے ہی باقی سب کو بھاڑ میں بھیج چکی تھی۔
"ہانیہ وہاں کیوں کھڑی ہو اندر آؤ، میں نے تمہیں کسی سے ملوانے کے لیے بلوایا تھا۔" زوھان کی بات پر ہانیہ کی آنکھوں کے سامنے زمدا کا چہرہ لہرایا، وہ باہر نکلنے کے پر تول رہی تھی جب مناہل نے اس کے نام پر پیچھے مڑ کر اسے دیکھا، اسے دیکھتے ہی اس کی  بےیقینی خوشگوار حیرت میں بدلی۔ مناہل اپنی جگہ سے اٹھتے اس کے گلے لگی، وہ ابھی بھی بت بنی کھڑی تھی، آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں مگر اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھتے وہ فوری کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر سکی۔
"یہ ڈاکٹر مناہل ہی ہیں اور یہ اب سے یہیں جاب کریں گی۔" زوھان نے معید کو یقین دلانے کیلئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے کہا۔
"مناہل، لاہور، نہیں میرا مطلب یہ یہاں مگر یہ تو؟" حقیقت کا یقین ہوتے ہی معید کا دل الگ ہی لہہ پر دھڑکنے لگا، مناہل کی یہاں موجودگی اسے اندر تک سرشار کر گئی۔ 
تھوڑی دیر بعد زوھان کے کہنے پر مناہل ہانیہ کے ساتھ چلی گئی، وہ جتنی دیر یہاں رہی معید کو بالکل نظر انداز کرتی رہی۔ ان دونوں کے چلے جانے کے بعد بھی زوھان اور معید کی نظریں بند دروازے پر تھیں جہاں سے وہ دونوں گئی تھیں۔
"انٹرسٹنگ!" حریم کی پر جوش آواز پر وہ دونوں چونکے مگر شرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی سے اسے آنکھیں دکھانے لگے۔
"لالا مور جان کی تھوڑی دیر پہلے مجھے کال آئی تھی، وہ گھر جلدی آنے کا کہہ رہی تھیں انہیں آپ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے شاید۔" مہرماہ نے جتانے والے انداز میں کہا، زوھان کے مسکراہٹ میں ڈھلے ہونٹ سکڑے اس نے ضبط سے آنکھیں بند کیں۔
"ٹھیک ہے۔" ازلی سنجیدہ انداز میں لوٹتے اس نے دروازے کی طرف دیکھا، صاف اشارہ تھا کہ حریم میڈم اب آپ جا سکتی ہیں۔
"خان بی بی کب آئیں؟" معید نے پلیٹ سے بسکٹ اٹھاتے خوشگواری سے پوچھا۔
"کل۔" یک حرفی جواب دے کر وہ خاموش ہو گیا۔
"چھوڑ اسے، لنچ ٹائم ہے تو کہیں باہر چل کر لنچ کرتے ہیں۔" اس کے سامنے سے بسکٹس کی پلیٹ ہٹاتے وہ کچھ سوچتے ہوئے اپنا موبائل اور کیز ٹیبل سے اٹھاتے دروازے کی طرف بڑھا، معید حیرت سے اس کی پشت دیکھتا رہ گیا۔

•••••••••

آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں معید کے فیورٹ ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ زوھان نے معید کو اپنی پسند کا کھانا آرڈر کرنے کا کہا۔ زوھان تو آج  پے در پے اسے جھٹکے دے رہا تھا، پہلے لنچ کی آفر، معید کا فیورٹ ریسٹورنٹ اور پھر اسی کی مرضی کا آرڈر۔ اسے یہ سب ہضم تو نہیں ہو رہا تھا مگر موقعے سے فائدہ اٹھاتے چپ رہا۔
وہ پوری  دلجمعی سے پلیٹ کو جنگ کا محاذ سمجھے کسی سپاہی کی طرح ڈٹا ہوا تھا جب اسے زوھان کی آواز سنائی دی۔
"کیا کہا ایک بار پھر کہنا، مجھے لگتا ہے میں نے کچھ غلط سن لیا ہے۔" معید نے ایک پل کو اس کی طرف دیکھا، اس کی پلیٹ ابھی بھی خالی پڑی تھی۔ وہ یہ بات دوبارہ کہنے کی ہمت خود میں مفقود پاتا تھا۔
"مجھے لگا جیسے تم نے مجھے ہانیہ سے شادی کرنے کا کہا۔" معید نے اسے خانوش دیکھتے ہنستے ہوئے کہا۔
"ہاں تو میں نے یہی کہا ہے۔" معید کو اچھو لگ گیا۔
"نہیں تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟" معید نے تیز نظروں سے اسے گھورا۔
"اب میں نے ایسی بھی کوئی انہونی بات نہیں کردی۔" اس کے اتنے آرام سے کہہ دینے سے معید کو تو پتنگے ہی لگ گئے۔
"تم مجھے باہر ملو، میں یہاں کوئی تماشا نہیں لگانا چاہتا۔" اس نے پلیٹ میں چمچ پٹختے اردگرد نظر دوڑاتے انتہائی ضبط سے کہا۔
زوھان بل پے کرتے تھوڑی ہی دیر میں پارکنگ ایریا میں موجود تھا، معید نے تیر کی تیزی سے اس کی طرف بڑھتے اسے کالر سے پکڑا۔
"یہ کیا بکواس کر رہے تھے، ہوش بھی ہے کیا بول رہے ہو؟" زوھان نے اس کے ہاتھ اپنی کالر سے ہٹائے۔
"گاڑی میں بیٹھو۔" زوھان گاڑی میں بیٹھ گیا، معید نے کچھ غصے اور کچھ بےبسی سے اس کی طرف دیکھا۔
گاڑی میں پن ڈراپ سائلنس تھی، ایسا آج تک نہیں ہوا تھا کہ معید دو منٹ بھی خاموش رہے۔ جب خاموشی کا دورانیہ تھوڑا طویل ہوا تو گاڑی میں زوھان کی آواز گونجی۔
"مور جان چاہتی ہیں کہ ہانیہ کی شادی کر دی جائے، اس کا اس طرح میرے گھر رہنا مناسب نہیں ہے۔ ہانیہ کو ایک پارٹنر اور حورعین کو باپ کی ضرورت ہے۔" زوھان نے اسے وضاحت دی۔
"تو اس کے لیے میں ہی کیوں؟" معید نے بے سی سے کہا، آج ہی تو مناہل آئی تھی وہ اس سے بات کرنے کا پکا ارادہ کر چکا تھا اور اب زوھان اس سے اتنی بڑی قربانی مانگ رہا تھا۔
"میں ان دونوں کے معاملے میں تمہارے علاوہ کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔" زوھان نے ضبط سے کہا، ورنہ کل سے تو اس کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
"تو تم خود اس سے شادی کر لو۔" معید نے اپنی طرف سے اسے کمال کی تجویز دی تھی۔
"نہیں کر سکتا۔" وہ تلخی سے بولا۔
"کیوں، اوہ کہیں یہ وجہ تو نہیں ہے کہ وہ پہلے کسی اور کی بیوی رہ چکی ہے اور سردار ارباز جبار خان کا بیٹا کسی اور کی برتی ہوئی چیز استعمال کرے ایسا کیسے یو سکتا ہے بھلا۔" وہ طنزیہ ہنسا۔ زوھان نے بیچ سڑک میں ایک دم بریک لگائی، سیٹ بیلٹ نہ باندھنے کی وجہ سے معید کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکرایا، خون کی ننھی بوندیں ماتھے پر نمایاں ہوئیں۔
"بکواس بند کر اپنی۔" وہ ایک دم اس پر جھپٹا، زوھان نے اس پر تھپڑوں کی بوچھاڑ کرتے اس کا چہرہ سرخ کر دیا۔
"پتا بھی ہے کس کے بارے میں بات کر رہا ہے، ہانیہ نور ہے وہ، کوئی چیز نہیں جیتی جاگتی انسان ہے وہ۔" وہ اسکا منہ دبوچے غرایا، زوھان نے اسے چھوڑتے اپنا سر اسٹیئرنگ ویل پر گرا دیا۔ ہانیہ کے نام پر جو چمک زوھان کی آنکھوں میں آئی تھی اس نے معید کو منہ نیچے کر کے ہنسنے پر مجبور کر دیا وہ اسکے سامنے نہیں ہنس سکتا تھا اس کا کیا پتہ ایک دو اور لگا دے۔
"تم جانتے ہو بابا جان ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔" اس نے ویسے ہی سر گرائے کہا۔
"اور جو میرے ابا حضور اپنی خاندانی بندوق سے مجھے سلامی پیش کریں گے اس کا کیا۔" افسردہ ماحول میں بھی اس کی روتی صورت دیکھ کر زوھان کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
"دوست تو ایک دوسرے کے لیے جان بھی دے دیتے ہیں تو دوست کے لیے اب اتنا بھی نہیں کر سکتا۔" زوھان نے بچوں کی طرح اس کو پچکارتے ہوئے کہا۔
زوھان کی بات پر افسردہ سا مسکراتے سر کو خم دیتے وہ سیٹ کی پشت پر سر ٹیک گیا۔
"جو تم کہہ رہے ہو نہ یہ بھی کوئی خود کو اندھے کنویں میں دھکیلنے سےکم تو نہیں ہے، بابا جان تو بعد میں میری جان لیں گے پہلے میری بہنوں نے ہی میرا جینا محال کر دینا ہے اور مورے نے تو رو رو کر حویلی میں سیلاب ہی لے آنا ہے۔ اللّٰہ مجھ معصوم پر رحم کرے۔" اس نے مستقبل کا بھیانک نقشہ کھینچا، زوھان اس کی بات پر پھیکا سا مسکرا دیا۔
"زوھان تم جان مانگ لیتے میں اُف نہ کرتا، تم پر تو میں اپنی سو محبتیں قربان کردوں مگر یہاں بات میری نہیں تمہاری محبت کی ہے، زوھان ارباز خان کی محبت کی۔" اس نے سر گرائے دل میں سوچا وہ اسے رضامندی تو دے چکا تھا مگر دل میں مصمم ارادہ باندھ لیا تھا کہ وہ ہانیہ اور زوھان کو ایک کرنے میں جو بن پرا وہ کرے گا ۔


••••••••••

"مور جان اپنی ضد چھوڑ دیں پلیز۔" مہزلہ خان کی گود سے سر اٹھاتے وہ گڑگڑایا۔  اس وقت مہزلہ خان کو وہ ایک معصوم بچہ لگا تھا جو اپنا من پسند کھلونا دور ہوجانے کے ڈر سے بےچین تھا۔
"زوھان بس اب بہت ہو گیا، جب سے آئے ہیں آپ نے بس ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے۔ اگر وہ بغیر کسی تعلق کے اس گھر میں رہتی ہیں تو انگلیاں ان کے کردار پر اٹھیں گی، کیچر ان کی ذات پر اچھالا جائے گا، آپ کا تو کچھ نہیں جائے گا۔" مہزلہ خان نے سختی سے کہا، وہ صرف اپنے بیٹے کی ضد پوری نہیں کر سکتی تھیں۔ ہانیہ کوئی کھلونا نہیں تھی جسے اپنے بیٹے کی ضد پر کھیلنے کیلئے اسے تھما دیتیں۔ وہ ہر پہلو پر سوچ رہی تھیں۔ عورت ذات کی عزت، اس کا کردار نازک آئینے کی مانند ہوتا اگر اس پر کوئی ایک دراڈ پڑ جائے تو لاکھ تاویلیں، دلیلیں، وضاحتیں اس ایک دراڑ کو ختم نہیں کر سکتیں۔ کردار پر لگا داغ سفید کپڑے پر بدنما داغ کی مانند نمایاں نظر آتا ہے۔
"ہم ہانیہ کو اپنے ساتھ حویلی لے جاتے ہیں۔" اس کی خاموشی کو محسوس کرتے مہزلہ خان نے ایسا حل پیش کیا جسے وہ جانتی تھیں کہ صاف رد کیا جانا ہے۔
" خان صاحب حویلی میں پختون کے علاوہ کوئی اور ملازم رکھنا برداشت نہیں کرتے تو آپ کا کیا خیال ہے وہ اسے حویلی میں رہنے دیں گے۔" وہ تنفر سے بولا۔
"شرم کریں بابا جان ہیں وہ آپ کے۔" مہزلہ خان نے مصنوئی غصے سے کہا کیونکہ وہ جانتی تھیں زبان سے وہ ان کے سامنے کچھ بھی کہتا مگر لاکھ اختلافات کے باوجود وہ ارباز خان کی بہت عزت کرتا تھا۔
دروازے پر دستک دے دینے کے بعد اجازت ملنے پر ہانیہ اندر داخل ہوئی، وہ مہزلہ خان کو کل کی بات کا جواب دینے آئی تھی جسے سوچتے کل کی رات اور آج کا پورا دن گزر گیا تھا، مناہل کی باتوں سے اسے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی تھی۔ زوھان کو دیکھ کر وہ گڑبڑائی، وہ مہزلہ خان کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا اسے دیکھتے ہی اس نے آنکھیں موند لیں تھیں۔
مہزلہ خان کے اشارے پر وہ بیڈ کی ایک طرف پڑے صوفے پر بیٹھ گئی۔
"وہ۔۔۔۔۔" وہ مہزلہ خان کو مخاطب کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
"مور جان سب مجھے مور جان کہتے ہیں، آپ بھی وہی کہہ لیں۔" مہزلہ خان نے اس کی پریشانی سمجھتے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے سب کی طرح مورجان کہنے کی، میں مورے کہتا ہوں تم بھی وہی کہو۔" وہ آنکھیں بند کیے ہی سنجیدگی سے بولا، اس کی بات پر مہزلہ خان نے اپنی ہنسی دبائی۔ مہزلہ خان کو اب وہ کسی معصوم بچے کی جگہ پوسیسو ٹین ایجر لگا۔
پہلے زوھان کی موجودگی اسے کوفت کا شکار کر رہی تھی اور اب زوھان کی بات پر تو وہ جھنجھلا اٹھی۔
"مورجان، میں آپ کو اپنا فیصلہ سنانے آئے ہوں۔" مور جان پر خاصا زور دیا گیا جسے مہزلہ خان اور زوھان نے واضح محسوس کیا۔
"مورجان، میں نے آپ کی بات پر غور کیا، آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا جس پر میں اعتراض اٹھا سکوں۔" مہزلہ خان غور سے اس کی بات سن رہی تھیں، جیسے جیسے وہ بات کر رہی تھی زوھان کے دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہو رہی تھیں۔
"مگر اب بھی ڈرتی ہوں اگر پھر سے وہی سب ہوا تو؟؟" بولتے بولتے اس کی آواز رندھ گئی، وہ اپنے دل میں پیدا ہوتے وسوسوں اور اندیشوں کو زبان دے رہی تھی۔ زوھان کی بےترتیب ہوتی دھڑکنیں شدت اختیار کر گئیں۔
"پانچوں انگلیاں برابر بھی تو نہیں ہوتیں۔"  زوھان اس کی بلاوجہ کی اتنی لمبی تہمید سے جھنجھلا اٹھا، اب تو اسے اپنی دھڑکنوں کی آواز کانوں میں واضح سنائی دے رہی تھی۔
"بچے آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں، صاف صاف کہیں۔" زوھان کے چہرے پر پھیلتی بےچینی دیکھتے مہزلہ خان سیدھا مدعے پر آئیں۔
"ہم شادی کرنے کیلئے تیار ہیں۔" اس نے آنکھیں بند کرتے آہستگی سے کھولتے تیزی سے کہا، زوھان جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گیا وہ بےیقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ہانیہ کے نظریں جھکاتے وہ کمرے سے نکل گیا۔
زوھان کو باہر جاتا دیکھ مہزلہ خان مسکرائیں، ہانیہ کی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئیں جسے وہ اپنی آنکھیں بند کرتی باہر نکلنے سے روک گئی۔
"آپ کے فیصلے سے مجھے خوشی ہوئی ہے یہی آپ کے اور حورعین کے لیے بہتر ہوگا، اللّٰہ آپ کے نصیب اچھے کرے۔" اسے اپنے پاس بیڈ پر بٹھاتے مہزلہ خان نے شفقت سے کہتے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

••••••••

"شاہ میر آپ کے ڈیڈ کہاں ہیں؟" اس نے اپنی کرسی سنبھالتے استفسار کیا، وہ جب صبح اٹھی تھی تب سے اس نے ضرار کو نہیں دیکھا تھا۔ شاہ میر ہونٹ چباتے نظریں جھکا گیا جیسے بہت ضبط کر رہا ہو۔
"پتر وہ تو صبح سویرے ہی کسی کام سے چلا گیا، رات کو بھی لیٹ ہی آئے گا تم بیٹھو ناشتہ کرو۔" جواب شاہ میر کی جگہ ثریّا بیگم کی طرف سے آیا، مہرماہ نے حیرانی سے شاہ میر کی طرف دیکھا آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ کچھ پوچھے اور وہ خاموش رہے۔
"اماں بی سب ٹھیک ہے ناں؟" مہرماہ کا دل گھبرا رہا تھا، جب سے ان کے تعلق میں بہتری آئی تھی ضرار بتائے بغیر کہیں نہیں جاتا تھا اگر وہ سو رہی ہوتی تو ایک چِٹ ڈریسنگ روم کے دروازے پر لگا جاتا۔
"جی پتر جی سب کچھ ٹھیک ہے، تم آرام سے ناشتہ کرو۔" ثریا بیگم نے حتیٰ الامکان اپنی آواز کو نارمل رکھتے کہا۔ شاہ میر کا ضبط جواب دے گیا وہ برق رفتاری سے وہاں سے اٹھتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ مہرماہ کی پریشانی میں اضافہ ہوا، وہ ثریا بیگم سے مزید کچھ پوچھنے کا ارادہ ترک کرتے ناشتے کی پلیٹ کھسکاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ ثریا بیگم بھی اس کے جاتے ڈائننگ ٹیبل سے برتن سمیٹنے لگیں۔

•••••••

وہ راکنگ چئیر پر سر پشت پر گرائے آنکھیں موندے نیم دراز تھا، حورعین اس کے سینے پر سر رکھے سو رہی تھی، وہ وقتاً فوقتاً آنکھیں کھول کر اس پر نظر ڈالتے پھر سے بند کر لیتا۔ اسے آج بھی وہ لمحہ یاد تھا جب اس نے حورعین کو پہلی بار گود میں لیا تھا،وہ نہیں جانتا تھا کہ پدرانہ محبت کیا ہوتی ہے، ایک باپ اپنی اولاد کے لیے اپنے دل میں کیسے جذبات رکھتا ہے مگر حورعین کو دیکھتے اسے ایک الگ ہی خوشی محسوس ہوئی تھی جسے وہ آج تک نہیں سمجھ پایا تھا۔ ہانیہ سے جڑا رشتہ محبت کا تھا مگر حورعین سے اسکا رشتہ کچھ نیا تھا،کچھ الگ، کچھ انوکھا۔ حورعین کا پہلی بار بیڈ کو پکڑ کر کھڑا ہونا، زوھان کی انگلی پکڑ کر چلنا، خود سے چل کر اس کی طرف آنا، یک لفظی باتیں، ان تمام لمحات میں زوھان کی فیلیگنز ہو بہو وہی تھیں جو ایک باپ کی ہوتی ہیں۔ وہ کوئی اور نہیں اس کی بیٹی تھی، زوھان کی بیٹی، زوھان ارباز خان کی حورعین۔ وہ اس کیلیے خدا کی نعمت، رحمت، عنایت سب کچھ تھی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان کو خدا کی  ان نوازشوں کی قدر نہیں ہوتی جو اس کی جھولی میں ڈالی جائیں، بیٹی بھی اللّٰہ کی ایک ایسی ہی نوازش ہے جس کی قدر بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔ قدر اس کی ضروریاتِ زندگی پوری کر کے نہیں ہوتی، اس کا حق صرف دو وقت کی روٹی اور جسم کو دھانپنے والا کپڑا نہیں ہوتا، اس کی قدر اسے اپنا اعتماد، مان اور بھروسہ فراہم کر کے کی جاتی ہے، اس کا حق والدین کی بےلوث محبت ہوتی ہے۔ مگر کچھ لوگ تو خدا کی اس رحمت کو بوجھ کا نام دے دیتے ہیں۔ وہ بیٹی کیسے بوجھ یا زحمت ہو سکتی ہے جو ماں کی پرچھائی ہو، باپ کی بخشش کا وسیلہ اور بھائی کے لیے جہنم کی راہ میں رکاوٹ ہو۔
یہ بیٹی خدا کی وہ نعمت تھی جس سے خان حویلی محروم ہو کر بھی محروم نہیں تھی۔ بیٹی کی کمی کبھی مہزلہ اور ارذلہ کی شکل میں پوری ہوئی تھی تو کبھی مہرماہ اور حریم کی صورت میں۔ خان حویلی میں بیٹی کو وہ مقام حاصل تھا جو اسلام نے انہیں دیا تھا۔
جبران کے منہ سے اپنی ہی بیٹی کے لیے وہ غلیظ الفاظ سن کر زوھان کو غصہ نہیں آیا تھا بلکہ اس پر افسوس ہوا تھا، اس وقت زوھان کو ناجانے کونسی کشش حورعین کی طرف کھینچ رہی تھی۔ جو چیز ہمیشہ اسے حورعین کی طرف کھینچتی تھی وہ اس سے انجان تھا کہ وہ تو ایک باپ کی اپنی بیٹی کے لیے محبت ہے، اور یہ محبتیں تو خدا کی طرف سے دلوں میں ڈالی جاتی ہیں اور بےشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

زوھان کو کہیں نہ کہیں یقین تھا کہ ہانیہ شادی کے لیے کبھی نہیں مانے گی مگر اس کی یہ خوش فہمی دھری کی دھری رہ گئی، ہانیہ کی بات سنتے اسے اپنی تیز دھڑکنیں مدھم ہوتی محسوس ہوئیں، سانس تو جیسے سینے میں ہی اٹک گئی تھی۔ کئی گھڑیاں تو بےیقینی کی نظر ہو گئیں مگر جب ہوش آیا تو تلخ حقیقت نے اس کے پیروں سے زمین اور سر سے آسمان چھین لیا۔ وہ بمشکل خود کو سنبھالتے وہاں سے نکل آیا، معید سے وہ بات کر چکا تھا تو کیا اس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ ہانیہ کو کسی اور کا ہوتے دیکھتا مگر شاید اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اسے کسی اور کی بجائے اپنا بنا لیتا۔
محبت کرنا تو آسان مگر اسے نبھانا مشکل اور اس کا حصول مشکل ترین اور کبھی کبھار تو ناممکنات میں سے لگتا ہے۔

••••••••

ضرار رات کو کافی لیٹ گھر آیا، ہاتھوں میں کوٹ تھامے کمرے میں داخل ہوا۔ ماتھے پر بال بکھرے ہوئے تھے، آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھیں۔ بیڈ پر بےترتیبی سے لیٹی مہرماہ پر ایک نظر ڈالتے وہ سٹڈی روم کی طرف چلا گیا۔ آج اس نے ہمیشہ کی طرح اس پر کمفرٹر بھی نہیں ڈالا تھا جو وہ غصے اور ناراضگی میں بھی کبھی نہیں بھولتا تھا۔
وہ ناراض تھا مگر آج کی ناراضگی کی نوعیت مختلف تھی، وہ مہرماہ سے نہیں بلکہ خود سے ناراض تھا، ماند پڑتے زخم پھر ہرے ہوئے تھے، خود سے سارے شکوے شکایتیں پھر سے سر اٹھا گئی تھیں۔

••••••

جاری ہے۔

ھسک (✔️Completed) Where stories live. Discover now