Tenth Episode

125 7 0
                                    

#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#دسویں_قسط

وہ آج تھوڑی جلدی یونیورسٹی پہنچ چکی تھی اور اب رمشہ الماس کے ساتھ باتوں میں مصروف کلاس میں داخل ہوئی
" میں تو آج لنچ ٹائم میں لزانیا کھاؤں گی  _ "
" ابریش تمہیں ابھی سے لنچ کی پڑی ہے . . . ابھی تو گھر سے ناشتہ کر کے آئی ہو _ "
" ہاں تو یار خود سوچو 8 بجے ناشتہ کیا تھا میں نے اور اب 9 بج رہے ہیں، ہائے مجھے تو ابھی سے بھوک لگ گئی سوچ کے _ " وہ خیالوں میں لزانیا کھاتے آگے بڑھ رہی تھی کہ۔۔۔
* * * ڈھرم * * *
جی ہاں وہ جو لزانیا کے خیالوں میں گم الماس رمشہ کے ساتھ چلتی اپنی کرسی تک جارہی تھی
جاتے جاتے اس کا پیر ایک کرسی سے اَٹْکا تھا اور اب وہ ایک بار پِھر زمین بوس ہو چکی تھی
اور اس کے ہاتھ میں پکڑی کتابیں چیئر پہ بیٹھے اُس شخص کے سَر پر زور سے لگ کر ابریش کے پاس زمین پہ گرچکی تھیں ،ساتھ ہی بیگ اور موبائیل بھی گرا پڑا تھا اور الماس رمشہ کی ہنسی بے ساختہ تھی
" یارر ، یہ پِھر گر گئی ، سکون نہیں ہے تمہیں سیدھا دیکھ کے چلا کرو نا_ " رمشہ بری طرح ہنستے ہوئے کہتی زمین پر سے بکس اٹھانے لگی جب كے الماس نے ابریش کا گرا ہوا بیگ اور موبائیل اْٹھایا
اور اِس ہی وقت باہر سے گزرتی دو لڑکیوں نے ابریش کو گرا ہوا دیکھ کر افسوس سے کہا
" اوہو ، شاید کوئی اپنی چوٹی بہن کو یونیورسٹی لایا ہے _ " ہاں اور بیچاری بچی گر گئی ، " دوسری لڑکی نے بھی اسکی تایید کی . . .
" " میں بچی نظر آرہی ہو انہیں _ " ابریش جو زمین پر بیٹھی ہنس رہی تھی ان دو لڑکیوں کی باتیں سن کر اپنی اِس عزت افزائی پر جل بھن گئی اور ستم تو یہ کہ انکی بات الماس رمشہ نے بھی سن لی تھی اور پہلے سے زیادہ تیز آواز میں ہنسنا شروع ہوگئی تھیں
" ہنستے رہوگے کیا تُم لوگ ، مجھے بھی اٹھالو کوئی_ " اسکی بات پر الماس رمشہ نے اسکی طرف دیکھا اور اسے ایسے اْٹھایا جیسے یہ کام تو انھیں اب یاد آیا تھا
اور سامنے بیٹھا زریاب سکندر ان تینوں کے تماشے دیکھنے کے بعد تحمل سے بولا " یہ شاید کسی پُرانی بات کا بدلہ تھا_ " اس کا اشارہ سَر پر پڑنے والی بکس کی طرف تھا
اور اِس سب میں ان تینوں کی توجہ پہلی بار زریاب پہ گئی جو بلیک پینٹ پر بلیک شرٹ پہنے کافی ہینڈسم لگ رہا تھا اور اسکی ہیزل گرے آنکھوں میں آج بھی ویسی ہی چمک تھی جو آج بھی ابریش کو نہیں سمجھ آئی تھی
" سوری_ " ابریش نے اسے سنجیدگی سے معافی مانگی
" تُم کتنا سوری کرتی ہو یار . . تھکتی نہیں ہو ؟ مارتی بھی رہتی ہو اور سوری بھی کرتی رہتی ہو_ " زریاب نے عادتاً اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے فریش انداز میں کہا اور اسکی اِس ادا پر رمشہ گرتے گرتے بچی
" میں جان بوجھ کے تو نہیں مارتی _ "
" اچھا؟ رہنے دو میں سب جانتا ہو . . . _ " اس نے اسے چڑانے کے لیے کہا اور حسب توقع وہ چڑ بھی گئی
" پتا نہیں میں آئی ہی کیوں اِس کلاس میں_ " وہ الماس رمشہ کے ہاتھ سے اپنی چیزیں لیتی خفگی سے بڑبڑائی
" شاید . . . گرنے . . ._ " زریاب نے اسکی طرف دیکھتے پِھر شرارت سے کہا
" فضول _ " ابریش نے بیزاریت سے اسے دیکھا ایک تو اسے پہلے ہی زریاب پر بہت غصہ تھا اور پِھر اس کا اِس طرح سے برتاؤ کرنا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں . . . اسے اور غصہ دلا رہا تھا
" ویسے تم لوگوں کی دوست کو گرنے کا اتنا شوق کیوں ہے؟_ " زریاب اب تک اسے چیڑانے سے بعض نہیں آیا تھا
اور اسکی بات کے جواب میں ابریش کچھ کہنے کے لیے منہ کھول رہی تھی کے الماس بول پڑی " ہاں اسے بیماری ہے کونے کونے میں چلنے کی اور پِھر کسی چیز سے اٹک کر گرنے کی . . . ہمیں تو عادت ہے اب . . . _ "
" آپکو بھی ہوجاۓ گی . . . ." الماس ہستے ہوئے اپنا جملہ مکمل کرتی اسے پہلے رمشہ بول پڑی جس پر الماس نے کہنی مار کے اسکی زبان بند کرائی
" انتہائی فضول_ " ان کا پاگل پن دیکھتے وہ اپنا دکھا پیر پٹختی اپنی کرسی پر جا کر بیٹھ گئی

*Hubun* (On Pause)Where stories live. Discover now