Eighteenth Episode._.(1)

479 16 5
                                    

#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#قسط_نمبر_18

پارٹ 1

" ماما "
جھٹکے سے ایک بار پِھر اسکی آنکھ کھلی اور تیز روشنی کی وجہ سے دوبارہ بند ہوگئی
کمرے میں ہر جگہ جا با جا تیز روشنی کے بلب لگائے گئے تھے اسے تکلیف میں مبتلا کرنے کے لیے
اسے نہیں یاد تھا وہ دوبارہ کب سو گئی تھی
مندی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اسنے غائب دماغی سے نظریں اٹھا کر سامنے موجود دیوار غیر شیشے کو دیکھا
اِس بار اس میں اس کا عکس کچھ الگ تھا
اسنے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی اور دیکھا
اب رسیوں کی جگہ وہاں بیلٹ موجود تھے
اس کے ہاتھ پاؤ اب بیلٹ سے بندھے ہوئے تھے اور ایک بیلٹ پیٹ پر اور ایک سینے پہ باندھ کر اسکی ذرا سی بھی جنبش کو نا ممکن بنا دیا گیا تھا
بیلٹ اتنے ٹائیٹ تھے کے انکا چمڑا اسے اپنی کھال میں گھستا محسوس ہو رہا تھا
گردن سے رسی اب اُتَر چکی تھی مگر وہ اب بھی ایک طرف ڈھلکی ہوئی تھی ،
اس نے گردن اٹھانی چاہی تو ایک بار پِھر اتنی شدید دَرْد کی لہر ریڑھ کی ھڈی میں گزری کہ وہ کانپ گئی
کچھ لمحوں بَعْد ایک بار پِھر نظریں اٹھا کر اسنے غور سے خود کو دیکھا پہلے وہ شاید دیکھ نا پائی تھی مگر اب غور کیا تو پتہ چلا کے وہ اب بھی اپنے نکاح کے جوڑے میں ہی ملبوس تھی
البتہ سَر پہ موجود دوپٹہ اور ساری جیولری ندارد تھی
آہستہ آہستہ اس کے وجود میں وحشت سی پھیلنی لگی
پہلے آہستہ آہستہ پِھر ایک دم وہ تیزی سے خود کو بیلٹوں کی قید سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر ہر جنبش پر بیلٹ کا چمڑا پہلے سے زیادہ اسکی کھال میں گھسنے لگتا
اپنی بےبسی پر وہ یکدم بِلک بلک کر رُو پڑی تھی
" ماما... کوئی ہے ، میری مدد کرو_ " آنسوں کے ساتھ سوچے سمجھے بغیر وہ مدد کے لیے پکارنے لگی
" ہیلپ می پلیز " مگر آنسوں کا گولا اس کے حلق میں پھانستا اسکی آواز دبا گیا
" شہریار_ " اسنے سسکتے ہوئے شہریار کو پکارا
" شہریار آجاؤ پلیز، شہریار کہاں ہو، مجھے بچالو، ماما، پاپا، آمان " وہ خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرتی چیخ چیخ کر سب کا نام پکارنے لگی پِھر تھک کر آنکھیں موند گئی
" پاپا کہاں ہیں آپ _ " تھک ہار کر اسنے کرسی کی پشت پہ سَر ٹکا لیا اور آنکھیں موندے سسکنے لگی
" آپ سب ٹھیک تھے... میں غلط تھی... پلیز مجھ سے ناراض مت ہو پلیز مجھے بچا لیں... پلیز آجاؤ کوئی_ " آنسوں آنکھوں سے متواتر بہہ رہے تھے اور وہ ایک طرف گردن ڈھلکائے سسک رہی تھی
کہ ایک دم آنکھیں کھولیں اور اپنا ہاتھ جھٹکا "آہ_" بیلٹ کا کنارہ ہاتھ میں گھسہ ہوا تھا مگر اسے اِس دَرْد کی پرواہ نہیں کرنی تھی
وحشت سے وہ تیزی سے اپنے دونوں ہاتھ جھٹکتی چییختی ہوئہ بے دردی سے اپنے ہاتھ آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگی
اور اس کے اِس طرح ہاتھ پاؤں جھٹکنے سے کرسی جو بری طرح ہل رہی تھی ایک جھٹکے سے ابریش سمیٹ زمین بوس ہوگئی
وہ کرسی سمیت منہ کے بل گری تھی ، ایک لمحے کے لیے دَرْد سے اس کا سانس تک تھم گیا ، کرسی کی پشت کا کونا بہت زور سے اسکی گردن پر لگا تھا ، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں کرسی اور زمین کے بیچ دب چکی تھیں اور ماتھا ، ناک اور ہونٹ بری طرح زمین پر لگے تھے کہ اسکے ہونٹ اندر سے دانتوں کی وجہ سے اور باہر سے زمین کی وجہ سے پھٹ گئے تھے
وہ اوندھے منہ زمین پر پڑی کرا رہی تھی، کرسی کے کونے کا سارا دباؤ اسکی گردن پر تھا
" اللہ _ " وہ پِھر سسکنے لگی تھی
کمرے کی تیز روشنی بھی جیسے اسے اندھا کررہی تھی
اسے لگ رہا تھا جیسے کچھ منٹ تک وہ ایسی پڑی رہی تو یہیں مر جائے گی
" زریاب_ " بےبسی میں وہ گھٹی گھٹی آواز میں اپنے دشمن کو ہی پکارنے لگی
اگلے ہی لمحے اسے کمرے کا دروازہ کھلنے اور پِھر بند ہونے کی آواز آئی تو جیسے اسے کچھ سکون ہوا
مگر پِھر زریاب کی ہنسی سنائی دی
" کوشش کررہی ہونگی خود کو چھڑانے کی ہیں نا_" وہ اس کے سَر کے پاس کھڑا ہنس رہا تھا
پِھر اسنے جھک کر اسکی کرسی کو واپس سیدھا کیا
اور خود اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
" کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی میں نے، کرسی کا آگے والا پایا باقی سب سے چھوٹا ہے تم جب جب ایسا کروگی تب تب گروگی اور مجھے پتہ چل جائے گا تم نے بھاگنے کی کوشش کی ہے_ " وہ روکا اور گردن ٹیڑھی کرتا اسے دیکھنے لگا پِھر بولا
"اور پِھر... وہی کام جسے کرنے میں مجھے بہت مزہ آتا ہے... میں کروگا..._ " وہ اس کے قریب جھکا اور گہری سرگوشی میں بولا " سزا... سزا دونگا_ " وہ مسکرایا اور گہری نظروں سے اس کے پھٹے ہوئے ہونٹ سے بہتا خون دیکھنے لگا
اِس وقت اسکی آنکھوں کی چمک حد سے سوا تھی جیسے وہ بہت خوش ہو اسے کوئی من چاہی چیز مل گئی ہو
اس کے ہونٹ دیکھتے اچانک اسنے اپنا ہاتھ بڑھا کر انہیں چھونا چاہا مگر ابریش نے بھی فوراً سختی سے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا تو اس کے ہونٹ چھونے کے لیے اٹھے اپنے اس ہی ہاتھ سے زریاب نے زور دار طمانچہ اس کے چہرے پر دے مارا اور سختی سے اس کا جبڑا پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچا
" ایک بار میرا ہاتھ جھٹکنے کی غلطی کرچکی ہو، اس دن چھوڑ دیا تھا مگر یہ مت سمجھ لینا کہ ہر بار ایسا ہوگا، آئندہ اگر ایسا سوچا بھی، تو نا تو زندوں میں رہوگی نا مُردوں میں _ " اس کا جبڑا سختی سے مٹھی میں بھینچے وہ گرا رہا تھا اور وہ ساکت و جامد اسے دیکھتی گئی
پِھر ایک ہاتھ سے اس کا جبڑا پکڑے زریاب دوسرے ہاتھ سے اس کا زخمی ہونٹ چھونے لگا، بے بسی سے آنسو بھل بھل اسکی آنکھوں سے بہنے لگے پِھر نا جانے اس کے من میں کیا سمائی اس نے بری طرح سے اس کا زخمی ہونٹ اپنے ہاتھ کے انگھوٹے سے رگڑ دیا، جہاں اسکی آنکھوں میں چمک آئی تھی وہیں ابریش تکلیف سے تڑپ گئی
" خیر _ " وہ گہرا سانس لیتا اس سے دور ہوا اور دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا
اور پھر اچانک ہنسنے لگا اسے ہنستا دیکھ کر ابریش نے کچھ کہنے کی ہمت کی
" ت... تُم م... مجھے یہاں کیوں ل... لائے ہو... پلیز مجھے جانے دو_ " وہ بیلٹوں میں جکڑی سہمی بیٹھی اس سے التجا کر رہی تھی
اس کی بات پر وہ ہنستے ہنستے رکا اور گہری مسکراہٹ لیے اسے دیکھا
" ارے تُم بھی کمال کرتی ہو... کیوں جانے دوں؟ابھی تو لایا ہو، ابھی تو تم یہاں 2,3 مہینے ہو، آرام سے رہو _ " 
زریاب کی بات پر وہ نئے سرے سے کانپ گئی
"نہیں... میں نے ت... تمہارا کیا بگاڑا ہے آخر... کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ایسا... _ " اسے لگ رہا تھا اس كہ دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی
اسکی جانب دیکھتا وہ سیدھا کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا
"نہیں تم نے تو واقعی کچھ نہیں بگاڑا، البتہ تمھارے مجازی خدا نے ضرور بگاڑا ہے, تم جو یہاں اس وقت اس حال میں ہو نا یہ 'شہریار حسن سکندر خان' کی وجہ سے ہی ہو_"
"ک..کیا مطلب_" وہ چونکی
وہ کچھ دیر خاموش رہا جیسے کچھ سوچ رہا ہو پھر بولا
"مطلب تمہارا شوہر یعنی شہریار حسن سکندر میرا بھائی ہے اور تمہیں یہاں اس حال میں رکھنے کو مجھے اس ہی نے کہا ہے_"
زریاب کی بات پر وہ یکدم سکتے میں آگئی، ہاتھ میں شہریار کا اپنے ہاتھوں سے پہنایا گیا بریسلیٹ سچ میں ہتھکڑی لگنے لگا
"اور وہ کیونکہ میرا بڑا بھائی ہے تو اس کا ہر حکم سر آنکھوں پہ، اور یہ والا تو کچھ زیادہ ہی، بھائی ہے میرا وہ اس کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں_" زریاب خود کلامی کے سے انداز سے کہتا کمرے کا طواف کررہا تھا
لیکن وہاں سن کون رہا تھا وہ تو جیسے کوئی بت بن گئی تھی ، زریاب کی آواز اسے سنائی تو دے رہی تھی لیکن کوئی بھی لفظ دماغ تک پہنچ کر اس کی سمجھ میں آنے سے انکاری تھا
("مجھے پکڑ کے دیکھائیں شہریار،آپ مجھے نہیں پکر سکتے_" اس کے کانوں میں بچپن کی بھولی بسری یادوں کی آواز گونجی
وہ فراک پہنے پورے صحن میں بھاگتی پھر رہی تھی
"اف، ابریش تم سارا دن کتنا بھاگتی پھرتی ہو، کسی دن میں تمہیں کرسی سے باندھ کر بیٹھا دونگا_")

"اور یہ سارا انتظام شہریار نے ہی تو کیا ہے، یہ تیز لائٹس یہ کرسی پر بیلٹوں سے بندھی تم یہ سب..._" وہ مستقل بولتا جارہا تھا

("اتنا مت چلو ابریش تمہارا زخم خراب ہو جائے گا" صالحہ بیگم اسے کتنی بار ٹوک چکی تھیں مگر اسکا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا
"مجھے بیٹھنے میں مزا نہیں آتا ماما_"
"ابریش بیٹھ جاؤ_" اس بار شہریار نے اسے ٹوکا، وہ چھٹیوں میں پاکستان آیا تھا
"شہریار مجھے نہیں بیٹھنا_" اس کی جانب دیکھتے ابریش نے جیسے اپنا ہتمی فیصلہ سنایا
مگر شہریار نے اسکا بازو پکڑ کے ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پر بیٹھایا تھا
"اگر اب تم یہاں سے ہلیں نہ تو میں تمہیں اس بیڈ سے ہی باندھ دونگا_" اس نے اسے وارن کیا تو جوابا وہ منہ بنائے اسے گھورنے لگی)

"میں نے پہلے تمہیں رسیوں سے باندھا تھا مگر پھر شہریار آیا اور اس نے کہا رسیوں سے نہیں تمہیں بیلٹوں سے باندھوں، حالانکہ مجھے رسیاں زیادہ پسند ہیں، مگر جو بھائی کی خواہش... پھر میں نے باقی چیزوں کے ساتھ بریسلیٹ بھی اتارنا چاہا تو شہریار نے منع کردیا یہ کہہ کر کہ یہ تمہاری ہتھکڑی ہے... _"
"میں نے کہا یہ کیسی ہتھکڑی ہے، کم از کم اسے کرسی سے گزار کر پھر تمھارے ہاتھ میں باندھ دیں ،کہ کچھ تو ہتھکڑی کا گمان ہو ، تو وہ کہنے لگا کہ تم اس کھیل میں ابھی کچے ہو ، ایک وار جسمانی ہوتا ہے ایک دماغی اور ایک... دِلی، یہ وار دِلی ہے... _" وہ چہرے پر دھیمی مسکراہٹ سجائے اب تک کمرے میں ٹہل رہا تھا

مگر ابریش اس کی جانب کہاں متوجہ تھی اس کے دماغ میں تو جھکڑ چل رہے تھے
" کیا تُم میری محبت میں قید ہونا پسند کروگی؟... تم بلکل پاگل ہو... اور یہ سارا انتظام شہریار نے ہی تو کیا ہے،... زربانِ قلب من... یہ تم پر بہت سوٹ کررہا ہے... یہ تیز لائٹس یہ کرسی پر بیلٹوں سے بندھی تم... سوچ لو، کبھی رہائی نہیں ملے گی...بنی... ایک وار جسمانی ہوتا ہے ایک دماغی اور ایک... دلی، یہ وار دلی ہے_"
وہ چیخنا چاہتی تھی زور زور سے، اتنی زور سے کہ اس کی دماغ کی نسیں پھٹ جائیں ، وہ ہی کیوں؟وہ اب کس پر یقین کرے ، کیا سچ تھا کیا جھوٹ ، کس سے پوچھے... نہیں کسی سے نہیں... اب اور کسی پر یقین نہیں... نہیں اب نہیں

جب کچھ بھی اپنے بس میں نہ محسوس ہوا تو وہ ہارا ہوا وجود ہوش و حواس سے بے گانہ کرسی پر آگے کی جانب ڈھلک گیا... ایک یہی راہِ فرار تھا... مگر اس کے ڈھلکنے کی دیر تھی کہ اپنے تین پایوں پہ کھڑی وہ کرسی ایک بار پھر زور دار طریقے سے زمین بوس ہوئی تھی
اور پھر اس کمرے میں کسی کے جاندار قہقہے کی پھر قدموں کی آہٹ کی اور پھر دروازہ کھلنے اور زور دار طریقے سے بند ہونے کی آواز گونجی...
وہ اسے اس حال میں ہی چھوڑ کر جا چکا تھا

*Hubun* (On Pause)Onde histórias criam vida. Descubra agora