Fifteenth Episode

110 9 0
                                    

#حُبّ
#پندرہویں_قسط
#از_لائبہ_نوید

"  آمان ، آمان_ " وہ آمان کو آوازیں دیتی سیڑھیوں سے نیچے آئی تو امان نے اسکی آواز سنتے ہی خود کو موبائل میں مصروف کر لیا کہ وہ جانتا تھا ابریش کو کوئی کام ہی ہوگا
" یہاں بیٹھے ہو ، کب سے آوازیں دیں رہی ہوں " وہ اس کے سَر پہ پہنچی
" ہاں تو کیا مسئلہ ہوگیا ہے جو آمان آمان لگائی ہوئی ہے_ " وہ موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر بولا
"مجھے مارکیٹ جانا ہے ، کچھ سامان لینا ہے، مجھے مارکیٹ لے کر جاؤ بھئی _ "
" دماغ خراب مت کرو ، خود جاؤ _ " وہ ہاتھ سے اسے دفع ہوجانے کا اشارہ کرتا کہنے لگا
" ایسے تو مت کرو میں کچھ ہی دن کی مہمان ہو یار_ "
" کیوں مرنے والی ہو ؟ _ " موبائل میں گم اسکی آواز آئی
" یار امان_ " اس نے وہیں کھڑے پاؤں زمین پہ پٹھکا
" کیا ہے جاؤ نا یہاں سے _ "
" مجھے مارکیٹ لے کر جاؤ ابھی ورنہ اچھا نہیں ہوگا_ " وہ انگلی اٹھاتے اسے دھمکی دینے لگی
اور اسکی بات پہ امان جل بھن گیا اور موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے بولا
" یار ایک بات بتاؤ تمہیں گاڑی کس لیے لے کر دی ہے ہم نے ؟ اِس ہی لیے نا کہ ہر وقت ان بازاروں کے چکروں سے میری جان چھوٹے ، گاڑی بھی ہے تمھارے پاس اور چلانی بھی آتی ہے تمہیں لیکن نہیں پِھر بھی میری جان پہ سوار رہنا ہے ہر وقت۔ " اسے اچھی خاصی سناتے وہ دوبارہ موبائل میں مصروف ہو گیا تو وہ اس پہ لعنت بھیجتی واپس کمرے میں آ گئی
" بہت ہی کوئی بدتمیز انسان ہے ، کوئی کام نہیں کرتا میرا " وہ غصے سے کھولتی دھب سے بیڈ پر بیٹھی
پِھر سَر جھٹکتی اپنا انگوٹھا دیکھنے لگی جسکا ناخن اس دن نکلا تو نہیں تھا مگر کچھ جگہوں سے گوشت سے جدا ہو گیا تھا ، اس وقت کے دَرد کو سوچتی وہ پھر سے کانپ اٹھی تھی ،
پِھر اداسی سے مسکرائی ، اسے یاد آیا اس دن کس طرح اسے گھر میں ایسی حالت میں داخل ہوتا دیکھ کر امان تڑپ گیا تھا ، کیسے وہ سب سے پہلے تیزی سے اس کے پاس آیا اور اس کا انگوٹھا اپنے ہاتھوں سے دبانے لگا کہ کہیں خون نا جم جائے اور وہ دَرْد سے روتی بلکتی اسکے کاندھے پر سر رکھے ہوئے تھی اور وہ ساتھ ساتھ پیار سے اس کے گال سہلاتے اسے ہمت دلا رہا تھا
بے شک بھائی بہت پیارے ہوتے ہیں ، آپ سے لڑتے ہیں آپکو تنگ کرتے ہیں مگر آپ کی زرا سی تکلیف پر تڑپ جاتے ہیں،بہن بھائیوں کی لڑائی میں بھی بہت محبت چھپی ہوتی ہے وہ سَر جھٹکتی بیڈ پہ لیٹ گئی ، پِھر چھت کو گھورتی بڑباڑانے لگی
" خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد میں دیا جلانا ، جلا کے رکھنا کمال یہ ہے_ "
سب کے سامنے اس نے خود کو سنبھال لیا تھا لیکن ایک وہی جانتی تھی کہ اس کے دِل کی کیا حالت ہے اسے یونیورسٹی سے بھی نکال دیا گیا تھا . . اسے اسکی دوستوں سے پیچھے کردیا گیا تھا ،جن کے ساتھ وہ بچپن سے تھی آج وہ اس سے آگے بڑھ رہی تھیں اور وہ وہیں ٹہر سی گئی تھی . . .اس کا سال ضائع ہو گیا تھا اور ظاہر تھا اب وہ یورنیورسٹی میں ان کے ساتھ ویسی نہیں رہ پائے گی جیسے رہتی تھی ، پہلے تینوں کے سبجیکٹ سیم تھے کلاسز سیم ٹائم پر تھیں وہ تینوں ساتھ ہی کلاس سے بریک لیتی کیفے میں بیٹھا کرتی تھیں اور ساتھ ہی کلاس لینے بھاگتی تھیں مگر اب وہ ایک سال آگے چلی جائیں گی ان کی کلاسز کی ٹائمنگ چینج ہوجائیں گی... اور وہ...
اور وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کے اِس سب کا ذمےدار وہ کسے ٹھہرائے . . . خود کو وقت کو . . . یا اس شخص کو جو اسکی زندگی میں تھا بھی اور نہیں بھی . . . کون تھا وہ کیا چاہتا تھا . . . کیوں صرف اسے اذیت پہنچا رہا تھا اِس * کیوں * کا جواب جب بھی وہ سوچنے بیٹھتی الجھ جاتی تھی...
گہرا سانس لیتی وہ خود کو پرسکون کرنے لگی لیکن گزرے دنوں کی ساری باتیں اس کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنے لگی تھیں

*Hubun* (On Pause)Onde histórias criam vida. Descubra agora