Twelfth Episode

104 7 0
                                    

#حُبّ
#از_لائبہ_نوید
#بارھویں_قسط

وہ اپنے کمرے میں بیٹھا کسی پیشنٹ کی فائل پڑھ رہا تھا جب کمرے كے دروازہ پر دستک ہوئی " آجائیں _ " مصروف سے انداز میں فائل پڑھتے بولا
" ڈاکٹر شہریار ایک ایمرجنسی کیس آیا ہے ، کیمیکل سے ہاتھ جلا ہے پیشنٹ کا _ " نرس نے اندر آکر اطلاع دی تو وہ اجلت میں فائلز سمیٹتا اس سے پوچھنے لگا "اوکے اپنے فرسٹ ایڈ دی؟ _ "
" نہیں سر وہ پیشنٹ بہَت ضد کررہی ہیں چھونے بھی نہیں دے رہیں اپنے ہاتھ کو _ "
" ٹھیک ہے میں ہینڈل کرلونگا ، نام کِیا ہے ؟ _ " وہ ضَرُوری سامان سمیٹتا سرسری سا پوچھنے لگا
" ڈاکٹر ، ابریش ذوالفقار. . . _ "اور اس سے پہلے کہ نرس بات پوری کرتی شہریار چونکا اور " اوہ نو " کہتا ہوا ایک دم کمرے کے دروازے سے باہر بھاگا
" انہیں کِیا ہوا_ " نرس بھی فوراً اس کے پیچھے ہولی
* * * * * * * *

نہیں پاپا کو بلاؤ پہلے میں نہیں کرواونگی کچھ ، میرے ہاتھ میں بہَت جلن ہورہی ہے _ " وہ اپنا ہاتھ اپنی پیچھے چھپائے بچوں کی طرح ضد کر رہی تھی
" یار ابریش کیوں ضد کر رہی ہو ، کروالو نا بینڈیج_ " رمشہ الماس کافی دیر سے اس کا رونا برداشت کررہی تھے مگر وہ ضد پر اڑی ہوئی تھی" نہیں پاپا کو بلاؤ پہلے_ "
" ارے پاپا کی پرنسز ، کردیتے ہیں کال انکل کو مگر پہلے بینڈیج تو کروالو  ، دیکھو ہاتھ خراب ہو رہا ہے تمہارا_ " الماس کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسے کس طرح سنبھالے
" ہاں یار ابریش انھیں دیر لگے گی آنے میں تُم بینڈیج کروالو پلیز _ " رمشہ اسے سمجھا رہی تھی کہ شہریار دروازہ کھول کر ایمرجنسی روم میں داخل ہوا جو کہ تقریباً خالی تھا
" کِیا ہوا ہے اسے _ " وہ الماس رمشہ سے پُوچھتا تیزی سے ابریش کی طرف بڑھا
" دکھاؤ ہاتھ _ " وہ اسکے پیچھے سے اس کا ہاتھ نکالنے لگا چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ بہَت پَریشان ہے
" نہیں میں نہیں دیکھاؤنگی درد ہو رہا ہے بہت_ " وہ ہچکیاں لیتے اپنا ہاتھ چھڑانے لگی ، ایک تو پورے شہر میں ایک یہی اسپتال ملا تھا الماس رمشہ کو . . .
" تو دکھاؤ گی نہیں تو درد کیسے ٹھیک ہوگا ، دکھاؤ مجھے _ " اسنے نرمی سے ابرش کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے کِیا ، ہاتھ زیادہ جلا تھا اور چھالے بھی کافی پڑ گئے تھے
" آپ ایک باؤل میں پانی بھر کر لے آئیں ساتھ ایک خالی باؤل لے آئیں اور . . . . _ " وہ نرس کو ہدایتیں دیتا انھیں جلدی کرنے کا کہتا دوبارہ ابریش کے ہاتھ کی طرف متوجہ ہوا جب کہ الماس ابریش کے لیے کچھ کھانے کے لیے لینے چلی گئی
" یہ . . اپنے پانی کیوں منگایا ہے_ " اسے دوبارہ اپنے ہاتھ کی طرف متوجہ ہوتے دیکھ کر ابریش نے خوفزدہ ہوتے پوچھا

" ٹریٹمنٹ کرنے سے پہلے ہاتھ دھونا ہوگا ورنہ کیمیکل ہاتھ میں رہ جائے گا " وہ اسے تفصیل سے بتانے لگا تھا لیکن ابریش کی ہوائیاں اڑ چکی تھیں "نہیں میں ہاتھ نہیں دھلواؤنگی_ " اسنے درد کی پرواہ کیے بغیر جلدی سے شہریار کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا
" کیوں بھئی ؟ _ "
" درد ہوگا شہریار_ " آنکھوں میں پِھر سے آنسوں آچکے تھے اور اس کے آنسو دیکھ کر رمشہ نے اپنا سَر پکڑ لیا پتہ نہیں کہاں سے لاتی تھی یہ اتنے آنسوں
" نہیں ہوگا درد، میں آرام سے کرونگا تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا _ " وہ اسے سمجھانے لگا اتنے میں  نرس پانی اور دوایاں لے آئی "لاؤ شاباش ہاتھ دو_ " وہ اس سے ہاتھ مانگنے لگا لیکن وہ ابھی بھی اپنے پیچھے ہاتھ چھپائی ہوئی تھی

*Hubun* (On Pause)Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon