Episode 2(a)-نورا بنتِ عزیزہ

365 15 17
                                    

بِسمِ اللہ الرّحمنِ الرَحیم

شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرے

قسط: 2

نورا بنتِ عزیزہ

"ہر چیز جو اس زمیں پر ہے،فنا ہو جانے والی ہے اورصرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی رہ جانے والی ہے۔پس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟"

(سورۃ رحمان: آیت 26-28)

٭٭٭

بتیاں بجھیں مگر جب دوبارہ روشن ہوئیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ نور بس وہیں ساکن وجود کے ساتھ اکڑی سی کھڑی رہ گئی۔ حبیب تیزی سے اندر آیا اور اسے وہیں جامد سا کھڑا پایا۔

"نور؟" اور نور کو کچھ بھی سنائی نہ دیا۔ اس کی نظروں میں اب بھی وہ بھیانک سا منظر چل رہا تھا، جو اس نے اس آدمی کی آنکھوں میں دیکھتے ہی اپنی نظروں میں محسوس کیا تھا۔ یہ منظر اس آدمی سے زیادہ بھیانک تھا۔ وہ کھڑی تو تھی مگر اسے محسوس ہوا کہ جیسے اس کی ٹنگوں سے جان سی نکل رہی ہے۔ حبیب دروازے میں ہی کھڑا تھا گو نہ اندر، نہ باہر۔ پیچھے سے مریم اور عثمان بھی آ گئے۔

نور جیسے بےہوشی کے عالم میں گرنے لگی، حبیب نے آگے ہو کر اسے پکڑ لیا۔ مریم اور عثمان بھی آگے آئے۔ مگر اسکی آنکھیں بند تھیں۔ مریم کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے۔

"نور! نور!" اس نے نورکے گال تھپتھپائے مگر نور ہوش میں نہیں تھی۔"عثمان دیکھو اسے کیا۔۔" تینوں کے چہروں پر تشویش سی تھی۔ سپاٹ تھا تو بس نور کا چہرہ۔

"حبیب چلو واپس گھرچلتے ہیں۔۔ شایدشور کی وجہ سے اسے چکّر آ گئے اور یہ گر گئی۔" اس نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا۔ عثمان اور حبیب دونوں نے اسے بازوؤں سے پکڑا اور باہر کو جانے لگے۔ مریم بھی دھیما دھیما روتے ہوئے پیچھے کو لپکی۔ لوگ مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھےاور راستہ دے رہے تھے۔ وہ جلدی سے باہر نکلے اور نور کو گاڑی کے پیچھے بٹھایا۔ اسے اب بھی ہوش نہیں آیا تھا۔ مریم بھی اندر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں بھی بیٹھ گئے۔ اور گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔

٭٭٭

یہ سن 1989ء چل رہا تھا۔دولۃ القطر کے شہر دوحۃ سے چند کیلومیٹر کے فاصلے پر شہر 'ام صلال محمد' کا واقعہ ہے۔ رات ہو رہی تھی اور لوگ گھروں میں غافل سو رہے تھے۔ اس زمانے میں وہ ایک گاؤں سا ہی تھا۔ آج کے'ام صلال محمد' سے ملتا جلتا مگر قدرے پیچھے۔

ایک بنجر سا علاقہ تھا۔ اندھیرسی خاموش رات تھی۔ پھر ایک ہیولہ سا اندھیرے کو چیڑتے دبے قدموں چلتا علاقے کے اندرداخل ہوتا نظر آیا تھا۔ بیچ کے ایک گھر کے آگے آ رکا۔ پھر اپنے مخصوص کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب سے کوئی نوکیلی شے نکالی۔پھر دروازے کے لاک کے قریب کیا اور تھوڑی دیر میں دروازہ کھل چکا تھا۔ بنا چاپ کے اندر کو داخل ہوا اور تھوڑی دیر بعد اس کے بازو میں ایک بچّہ تھا۔ گھر سے نکلا ہی تھا کہ اندر سے کچھ آوازیں آئیں۔ وہ فوراً آگے کو بھاگا۔

*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرےWhere stories live. Discover now