قسط نمبر ١٢

2.3K 151 175
                                    

اس نے کمفرٹر کو خود میں بھینچا ۔۔اک لمبی پرسکون سی سانس اندر کھینچی ۔سونے کا مزید ارادہ کئے اس سے پہلے وہ ایک بار پھر نیند کی وادی میں اترتی۔ہواوں نے پردوں کے ساتھ شرارت کی تو وہ لہرا دئے۔۔یوں جھومتے پردوں کو دیکھ کر سورج کی کرنوں نے فورا سے بیشتر اپنا پیغام پہنچانا مقصود سمجھا اور اس کی بند آنکھوں پر بھی اپنا احساس چھوڑنے لگیں۔۔وہ سورج کی اس شرارت پر مسکرا دی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا ۔۔آنکھیں ابھی بھی کھلنے سے انکاری تھیں۔اس نے ایک بار پھر سے انہیں بند کرکے کھولا۔وقت پر نظر پڑتے ہی وہ فورا سے سیدھی ہو بیٹھی۔ بارہ بجنے میں صرف ایک منٹ باقی تھا۔اسے حیرت ہوئی ۔۔وہ آج اتنی دیر تک کیسے سوتی رہی۔اس نے کراون سے سر ٹیکتے ایک بار پھر آنکھیں بند کرلیں۔

"کیا اس لئے کہ وہ اپنے گھر میں ہے۔یا اس تحفظ کے احساس کی بدولت جو اس محل کے شہزادے نے اسے دلایا تھا۔۔اس کے پاس وہ تھا جو وہ چاہتی تھی۔۔" اگلے ہی پل اس نے آنکھیں کھولتے ہی اپنے خیال کو جھٹک دیا۔

"کیسا گھر کیسی چار دیواری جس میں صرف گھٹن ہو۔۔کیسا تحفظ جب دل کیا ہاتھ پکڑ کر زمانے کے سامنے رسوا ہونے کیلئے چھوڑ دیا۔۔میں وہ زندگی چاہتی تھی جو مجھ سے چھین لی گئی نہ کہ وہ جس سے نواز دیا گیا۔۔" وہ اپنے سلیپر پہنتی باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا ممکن نہیں تھا کہ وہ آفس جانے سے پہلے اپنی ماں کے پاس نہ آئے۔۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ ان کا حق ادا کئے بنا ہی اپنے مقصد کی تکمیل میں جٹ جائے۔اب تو وہ ٹھیک ہوچکی تھیں وہ کیسے ان پلوں کو دنیا کی دھول میں اڑا دیتا۔ گاڑی گھر کے باہر ہی کھڑی کرتے وہ اندر چلا آیا۔ بوا کے علاوہ وہاں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔وہ بھی جھاڑ پونچھ کرنے میں مصروف تھیں۔انہیں سلام کرتے وہ اپنی ماں کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

وہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا آیا وہ اٹھ چکی ہوں گی یاں نہیں اس لئے اس نے دروازہ بہت آہستہ سے کھولا۔ اور پھر ادھ کھلے دروازے سے ہی لبوں پر مسکراہٹ سجائے اندر جھانکا۔وہ دروازے کی جانب ہی دیکھ رہی تھیں۔اس پر نظر پڑتے ہی وہ مسکرا دیں۔

"آجاو میری جان۔۔میں جاگ رہی ہوں۔" اس کی مسکان نایاب معلوم ہوتی تھی۔ ایسی مسکان کو اس کے چہرے پر دیکھے عرصے ہی بیت گئے تھے۔بشپن میں جب وہ کہیں ان سے چھپ جاتا تو پکڑائی دینے پر وہ یوں ہی ہنستا تھا۔

"آپ کو کیسے پتا چلا کہ دروازے پر کوئی ہے۔جبکہ میں نے تو آواز بھی پیدا نہیں ہونے دی۔۔" وہ ان کے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹتے بولا۔

"تمہارے ہی انتظار میں تھی جانتی تھی تم آو گے۔۔"

وہ کسی بچے کی مانند ان سے لپٹ گیا۔

"مہرو کو بھی لے آتے۔۔" اس نے سر تھوڑا سا اوپر کو اٹھا کر شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تو وہ ہنسنے لگیں۔

شبِ غم گزار آئے Shab E Gham Guzar ayeWhere stories live. Discover now