آغاز

9K 208 7
                                    

امی امی !کہان یہں یار !صوفے پر تھکے ہوۓ انداز میں بیٹھتے ہوۓ.
شور سن کر بھگتے ہوۓ آمنۂ ائ.                            

کیا  ہوا آپی!سانس کو بہال کرتے ہوۓ آمنۂ نے استفاد کیا
امی کہاں ہیں .
وہ اپی امی نا ..    .........
کہاں یہں یار بتا بھی دو !تھوڑا غصے میں بولتے ہوۓ  .
وہ چحچی کی طرف !آمنہ نے آنکھیں بند کر کے ایک  دم کہا .
کیا امی پھر چلیں  گئں..... بھڑبھڑاتے ہوۓ :ایک تو امی کو چین نہیں .
اب کھڑی کیا ہو جاو آمنہ !
کھانا؟
امی آئین گیں تو کھاوں گی .جاو اب!
........................................................................ 
یار معاف کردے !
نہیں کرنا معاف شاہزر .تجھے میری قسم
یار آسم! .معصوم سی شکل بناتے ہوۓ
معاف کردو دونوں بھائ نہیں ہو
ہر گز نیہں پہلے نہیں تو نے آنے سے پہلے بتایا تھا
اچھا معاف کردو کل پکا کھانا میری طرف 
ذلیل !آصم نے اسے روز سے گلے لگا لیا
اور تینوں ہنسے لگے
..........................................................
یار زونی امی کیوں نہیں سمجھتی !فون کو کان سے لگاۓ کہتی ہے
منھیٰ تو کیوں سوچتی ہے بھول جا نا!زونی نے سمجھانے والے انداز میں کہا
کچھ اچھا بھولنا آسان ہے برا نہیں .منھیٰ نے دکھ سے کہا اس سے پہلے زونی بولتی منھا نے نیچھے سے آواز سن کر خدا حافظ کہا اور فون بند کر دیا
..............................................  ..  .....
شاہ بھائ!!!منھیٰ زور سے پکارتے ہوۓ سیڑھیوں سے بھگتے ہوۓ اپنے بھائ کے گلے لگ گئ
آرام سے گڑیا ابھی گہر جاتی ! شاہ نے پرشانی سے کہا منھیٰ کھلکھلاتے ہوۓ !کچھ نہیں ہوتا بھائ ❤
مجھ سے نہیں ملنا گڑیا ؟آصم نے پیچھے سے آواز لگائ 
تو منھیٰ خوشی خوشی آصم کے گلے لگی اور آصم نے پیار سے اس کے سر پر پیار دیا
گڑیا امی کہاں ہیں ؟
یہ سن کر منہ بنایا اور کہا سلمہ بیگم کے گھر اس طرح بولنے پر آصم کا چہرہ تاریک ہوا مگر وہ سنبھل گیا
بری بات گڑیا !شاہ نے غصے سے کہا تو وہ برے برے منہ بنانے لگی جس پر آصم اور شاہ ہنسے لگے
کیوں کے وہ جانتے تھے کہ وہ بہت حساس ہے
..............................................................
آمی آپ کیوں گیئں تھیں !
بیٹا وہ بیمار ہیں 
امی وہ بس آپ سے کام کرنے کے بہانے ہیں
شاہ زر جو کب سے خاموش تھا ٹوک دیتا ہے جو بھی ہو گڑیا وہ ہمارے بڑے ہیں بس اب آپ چھوڑو اس بات کو
منھیٰ منہ بناتے ہوۓ کمرے سے چل دی اور افسوس سے شاہ زر کو دیکھا کہ وہ سمجھے
وہ اب ماں کی بات سمجھ گیا اور کہنے لگا امی بچی ہے سمجھ جاۓ گی
امی میں چلتا ہوں شہریار کی طرف کھانا ہے آج .
اللہّ کی سپرد بیٹا
...........۔.....................................
تائ! تائ پلیز آپو کو چھوڑ دیں پلیز زرش نے روتے ہوۓ فریاد کی .
تاشہ آپو آپ ٹھیک ہیں نہ زرش نے روتے ہوۓ پوچھا
زرتاشہ نے درد سے بےحال ہوتے ہوۓ اپنی چھوٹی بہن کو اپنے ساتھ لگایا اور وہاں بستر  پر ہی ڈھیر ہو گی
..........................۔....۔....... ........................
واہ یار آج تو خوب مزہ آۓ گا آصم نے ہوٹل کو دیکھتے ہوۓ کہا
یار شاہ اس ندیدے کو کیون ساتھ لے آیا ہے .شہریار نے شاہ کے کندھے سے ہلایا جو سڑک پر مجود روتی ہوئ بچی کو دیکھ رہا تھا ایک دم متوجہ ہوا
ہاں کیا ہوا!شاہ زر نے استفاد کیا
کچھ نہیں یہ پاگل ہے !آصم نے کہا تو شاہ زر کو خیال آیا کے وہ کب سے وہاں کھڑے ہیں تو اس نے کیا چلیں تو تینوں چل دے.
............................................................
آپو آپو کیا ہوا ہے آپ کو آپو اُٹھو زرش نے روتے ہوۓ زرتاشہ کو اُٹھانا چاہا جو اتنی مار کھا کر بے حال تھی .
آپو اپ روکیں میں پاس بازار سے دوا لے کر آتی ہوں
زری پیسے لے جاو میرے پاس 300 ہیں .باقی تائ نے لے لیے  دیکھنا ان میں آجائیں .
زرتاشہ نے نڈھال سہ کہا آپی آپ بےفکر رہیں میں ابھی آئ
.......... .....................................
وہ جو دکان سے دوائیں لے کر سڑک کراس کر رہی تھی.کہ تیز رفتار گاڑی ایک دم سے گزری کہ اس کے ہاتھ سے لفافہ زمین بوس ہوا اور وہ رونے لگی
یہ منظر شاہزر نے دیکھا تو ان دونوں سے excuse کرتا  ہوا سڑک کے دوسرے طرف آیا بچی ابھی بھی رو رہی تھی وہ بارہ /تیرہ سال کی کمزور سی بچی تھی  . اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا اور دریافت کیا. کیا ہوا ہے بچے تو بچی گھبرا کر پیچھے ہوئ .
گھبراو نہیں بچے آو میں آپ کو گھر چھوڑدوں .
یہ سن کر بچی کو خیال آیا کہ وہ کیوں آئ تھی تو اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو اگے .
رو نہیں مجھے بتاو ابھی اس کی بات ادھوری تھی کہ شاہ زر نے اس کی نظرون کے تعاقب میں دیکھا تو دوائیوں کا شاپر تھا اس نے وہ اُٹھایا تو اس میں کچھ درد کے خاتمہ کی دوائیں تھیں اس نے بچی کو دیں .اسے بچی سے خاص انسیت سی محسوس ہوئ بچی جانے کے لیے مڑی تو وہ پکار اُٹھا .
کیا نام ہے بچے ؟
زرش.
بہت پیارا نام ہے اپ کا. آو آپ کو گھر چھوڑ دوں .نہیں میرا گھر وہ ہے اس نے پاس بنے گھر کی طرف اشارہ کیا .اور چل دی اور ایک دم سے رکی اور مڑی آپ بھی اچھے ہیں اور چل دی .
بچی کے جاتے ہی وہ واپس ہوٹل میں داخل ہوا جہاں وہ دونوں کھانے پر انتظار کر رہے تھے
ان دونوں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگا کچھ نہیں اور کھانا کھانے لگے.
................................................
امی ! بھائ کہاں ہیں .آج کھانا نہیں کھانا .
اس کی آج دوست کی طرف کھانا ہے منھیٰ آو ہم کھاۓ اور وہ لوگ کھانا کھانے بیٹھ گے
.............. ........................................
So here's first episode and its my first attempt so guys plz ignore the mistakes and so comment and vote .😎I am new writter .😇 And wait 4 next epi inshaAllah soon .

  دلِ نادان از علمیر اعجاز Completed✅Where stories live. Discover now