part7

2.2K 145 6
                                    

شاہ نکاح کے بعد وہاں روکا نہیں اور پوری رات  سڑکوں پر ادھر اُدھر گھمتا رہا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ آج اپنے آپ کو بےبس محسوس کر رہا تھا . ضبط سے اس کی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھی . اس کی نظر گھڑی پر پڑی تو رات کے چار بج رہے تھے  اس نے تمام سوچوں کو اپنے آپ تک محدود رکھتے ہوۓ گھر کی طرف چل دیا.
............. ...............  ......................................
شاہ گھر داخل ہوا تو سب اپنے کمرے میں سوۓ ہوۓ تھے وہ خاموشی سے کمرے میں چلا گیا اُس کو سگیڑیٹ پینے کی کوئی خاص عادت نا تھی مگر وہ اس وقت ذہنی انتشار کا شکار تھا وہ کمرے میں داخل ہونے کے بعد  صوفے پر بیٹا مسلسل سیگڑیٹ پر سلگا ریا تھا . کے سیگڑیٹ کے دھواں میں ایک دم ایک عکس نمودار ہوا جس میں سلیمان صاحب ایک 3سال کی بچی کو 6سال کے شاہ کی گود میں بیٹھا رہے تھے .. اس کو وہ وقت یاد آیا .
بابا یہ پرنسس میری ہے ..وہ معصوم سا بچا سوال کر ریا تھا .اس سوال پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئ.
ہاں بلکل یہ زری پرنسس آپ کی ہے مگر ابھی یہ ہمارے ساتھ رہے گی بعد میں جب بڑی ہو گی تو آپ لے جانا ..
شاہ کی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کر گہرا مگر وہ بےپرواہ تھا .. اب وہ آنکھیں مندے بڑبڑا رہا تھا .
زری کہاں ہو پلیز ایک بار واپس آجاو میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتا میں آج ابھی اس ہی جگہ پر ہوں جہاں تمہے چھوڑ کر گیا تھا .. وہ اور بھی بہت کچھ بڑبڑا رہا تھا ...........اور یوں رات گزر ہی گئ

زندگی کو سگریٹ کے دھوئیں میں پھونک کر    
میں ہر بار اپنے غم کا مذاق اڑاتا ہوں!!
........................................................................
صبح سب کھانے کے میز پر موجود تھے آصم اور زونی بھی .. آصم کا فلیٹ شاہ کے گھر سے 5 مینٹ کے فاصلے پر تھا. عائشہ بیگم نے انھیں یہاں روکنے کا کہا کے اب وہ یہاں رہے مگر وہ نا مانا مگر زیادہ وقت یہاں ہی ہوتا.
........................................................................
وہ سب باتوں میں مصروف اور ناشتہ کر رہے تھے کے زرتاشہ نے عائشہ بیگم کو متوجہ کیا ..
امی وہ شاہ ابھی تک نہیں آۓ وہ کبھی بھی اتنی دیر تک نہیں سوۓ ..
عائشہ بیگم یہ سن کر مسکرائی اور ابھی کچھ بولتی شاہ آتا ہوا دیکھائی دیا.....
یہ لو آگیا تمہارہ مجازی خدا یہ سن کر وہ تھوڑا شرمندہ بھی ہوئی اور شرم سے لال بھی جو بھی ہو وہ اب اس کی ساس ہیں ..
........................................................................
اسلام علیکم !شاہ نے مشترکہ سلام کیا اور آصم کے گلے ملا ..
اس کی آنکھیں حد سے زیادہ سرخ تھی جو کسی کی بھی نظروں سے پوشیدہ نہ تھی عائشہ بیگم تو اسے اس حال میں دیکھ کر گھبرا گئیں مگر ان سے پہلے منھیٰ بول پڑی ..
بھائ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا..
جی میری جان میں بلکل ٹھیک ہوں بس سر میں تھوڑا سا درد ہے وہ ٹھیک ہو جاۓ گا .. شاہ نے کھڑے ہوتے ہوۓ جواب دیا اور منھیٰ اور زرش جو ساتھ ساتھ بیٹھے تھے دونوں کے سر پر پیار کیااور باہر کی طرف جانے لگا کے آصم کی آواز سن کر روک گیا.....
اوو ہیرو کہاں چل دیے .....عائشہ بیگم بھی ساتھ ہی بولی .
شاہ میری جان ناشتہ تو کر جاؤ .
میری کچھ ضروری میٹنگ ہیں اس لیے آفس جارہا ہوں  اور اگر رات کو لیٹ ہوگیا تو میرا انتظار مت کریےگا وہ سنجدگی سے کہتا باہر کی طرف جارہا تھا کے ایک دم روکا اور پھر بولا ..
آصم میاں آپ دو ہفتے کی چھٹیوں ہیں تو آفس آنے کا مت سوچیے گا 
اب میں چلتا ہوں ..اللہّ حافظ
.....................۔.......     ........................          ......
وقت کا کام ہے گزرنا ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور شاہ نے گھر میں کم سے کم رہتا آج شاہ کام کے سلسلے سے لاہور گیا ہوا تھا اور عائشہ بیگم زرتاشہ اور زرش کے ساتھ آصم اور زونی کے گھر گے تھے.منھیٰ کل والی چحچا چحچی کی ملاقات کی وجہ سے کچھ ذہنی انتشار میں مبتلا تھی اس لیے بیمارء کق بہانہ کر کے گھر روک گئ..
.....................................................................
آصم نے سب کا اچھے سے استقبال کیا شہریار بھی وہیں موجود تھا اور اس کی نظریں منھیٰ کو ڈھونڈ رہی تھی کے زونی کے سوال نے اس کی مشکل آسان کر دی ..
آنٹی منھیٰ نہیں آئی میں کب سے اس کا انتظار کر رہی تھی .
بیٹا اس کی کچھ طبیعت نہیں ٹھیک بیٹا اس لیے وہ گھر ہی روک گی..
وہ کل تو ٹھیک تھی زیادہ ٹینش والی تو کوئی بات نہیں ہے نا .. تائی آصم نے استفاد کیا ..
نہیں وہ ریسٹ کرے گی بھائی تو ٹھیک ہو جاۓ گی . زرتاشہ نے جواب دیا . کیعنکہ کل کی دعوت کے بعد وہ منھیٰ کا بھوجہ ہوا چہرہ دیکھ چکی تھی اس لے اس کو کچھ وقت دیا . وہ سب مطمیں ہو گے مگر ایک وہ تھا جو یہ سب باتیں سن کر بےچین ہوگیا تھا...
.....................................................................
منھیٰ سونے کے لیے لیٹی تو اس کو چحچی کی باتیں اپنے اردگرد سنائی دی
"یہ تو ہے ہی بدکردار ,منحوس بات کو کھا گئ میرے بچے کو بھائی بنا کر اس کے نام کے ساتھ اپنا تصور کرتی رہی ... " وہ ایک دم چیخ اُٹھی نہیں یہ یہ سب جھوٹ ہے وہ میرے بھائی ہے وہ ایک دم سے  چیخنے لگی مگر گھر پر کوئی نہیں تھا .. اس نے شقہ کو فون کیا مگر نمبر بزی تھا وہ 10 سال کی عمر سے ہر بات شاہ سے کرتی آئی تھی ..
وہ ایک دم سے سرجھٹکتی نیند کی دوا لے کر سونے کے لیے لیٹ گئ جو وہ اب بہت کم لیتی تھی ..
..........................................................۔...............
وہ ابھی سوئی ہی تھی کے اس کا ذہیں دس سال کی بچی کے پاس چل گیا ....
امی ابو کو کہیں نا اُٹھ جائیں پلیز .. ...
امی ابو ہمیں کیوں چھوڑ گے.....
امی پلیز آپ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں ابو بھی نہیں ہیں..
تو تو ہے ہی منحوس ماری مار دیا باپ کو پیدا ہوتے ساتھ ہی دادا دادی کو کھا گی ..
دفعہ ہو جاو نکلو میرے گھر سے نکل جاو .....
بھائی مجھے بہت ڈر لگتا ہے اس کمرے میں چحچی نے بھی امی کو رکھ لیا ..
چحچ مجھے مت ماریں پلیز .. میں سب کام کروں گی .. ابھی  اور اس طرح کی باتیں اس کے ذہین میں گردش کر رہی تھی کے وہ چیختے ہوۓ اُٹھی ..
تو پاس پڑا فون بج رہا تھا . اس کا سانس بےترتیب تھا اس نے جھٹ سے فون اُٹھا تو شاہ کی کال تھی ..
گڑیا کیا ہوا آپ کی .. ابھی اس کی بات منہ میں تھی کے منھیٰ کے رونے کی آواز نے چونکی دیا ..
کیا ہوا گڑیا ...
بھائی مجھے بچا لیں بھائی بھائی ابا میری وجہ سے چھوڑ گی بھائی ...منھیٰ ہیزیانی انداز میں چیخ رہی تھی شاہ زر کو کچھ سمجھ نا آیا . اتنے میں کال کٹ گئ ... منھیٰ کمرے کی ہر چیز تہس نہس کر چکی تھی مگر اس کا کسی بھی یاد سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سک رہی تھی ..
..........................................................
سب خوش گپیوں میں مصروف تھے .. کہ ایک دم سے شہریار کا فون بجا ...
شاہ کا فون اس نے کچھ سوچتے ہوۓ کال اُٹھائی تو ایک دم سے شاہ کی آواز ابھری ...
آصم کہاں ہے شہری ...
وہ میرے پاس ہے آپ بولیں فون سپیکڑ پر ہے..
یکدم شاہ کی گھبرائی ہوئی آواز ابھری ..
آصم منھیٰ منھیٰ کہاں ہے  مجھے لگ رہا ہے کچھ گڑبڑ ہے . اس کے پاس جاو میں بھی ابھی یہاں سے نکل رہا تم پلیز جلدی جاو...
..................................................................
شہریار اور کچھ سنے بغیر فوراً شاہ کے گھر کی طرف نکلا .5مینٹ کا راستہ 2 مینٹ. میں طہ کیا  مگر اس نے جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو ہر چیز ادھر اُدھر بکھری ہوئی تھی .. اس نے منھی کو آواز دی مگر جواب ندارد .....
...................................................................
ہر شہ زمیں پر بکھری ہوئی تھی .جگہ جگہ کانچ ٹوٹا ہوا تھا . شہریار کو صوفے کے پاس آنچل لہراتا ہوا محسوس ہوا تو وہ فوراً صوفے کے پاس گیا تو وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی اس کا پورا وحود ہچکھیوں کی زرد میں تھا. . ............
شہریار کو سمجھ نا آیا کے وہ کیا کر ..
منھیٰ منھیٰ آپ ٹھیک ہیں ...
منھیٰ نے چہرہ اوپر اُٹھایا تو وہ آنسوں سے مکمل طور پر بیگھا ہوا تھا اور رونے کی شدت کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا..
منھیٰ آپ ٹھیک ہیں نا ..ابھی وہ کچھ اور بھی بعلتا منھیٰ ہیزیانی انداز میں چیخنے لگی ..
میں بدکردار نہیں..وہ میرے بھائی.. بابا میری وجہ سے۔...میں بہت بری۔....مجھے مت ماریں وہ بے ربط جملے  بول رہی تھی .. شہریار کو اس سے خوف آیا .. منھیٰ ہوش کرو ... بھائی مجھے بھائی کے پاس .. وہ کہتے کہتے اس کی بہاوؤں میں جھول اُٹھی ..
منھیٰ ی ی ی ..... ۔......عائشہ بیگم اور باقی سب گھر پہنچے تو منھیٰ کو بےہوش دیکھ کر چیخ اُٹھے اور فوراً ہسپتال لے گے ....
........................................................................
To be continued......
Must share your reviews guys its my request ..
Insta account :novels_by_meeru

  دلِ نادان از علمیر اعجاز Completed✅जहाँ कहानियाँ रहती हैं। अभी खोजें