Episode 1

4.1K 181 28
                                    

"مشغلۂ عشق"
از قلم راجپوت اقصیٰ

یہ ایک نائٹ کلب کے پچھلے حصے میں بنے بوسیدہ سے کمرے کا منظر تھا جہاں اندرونی دروازے کے بالکل سامنے، چار نوجوان کرسیوں پر بیٹھے کیرم کھیلنے کے ساتھ، ساتھ ہر چند منٹ بعد لکڑی کے چھوٹے سے ٹیبل پر رکھے کانچ کے گلاس میں بھرے زہریلے مشروب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر پانچ، چھے مرد زمین پر بیٹھے، پلاسٹک میں بھرے سفید پاؤدر کو سگریٹوں میں بھر کر ان کے کش لگانے میں مصروف تھے کچھ دور صوفے پر بیٹھے دو نو عمر لڑکے اپنے ہاتھ میں پکڑے انجیکش کو دوسرے ہاتھ کی نسوں میں پیوست کر رہے تھے۔ غرض اس کمرے میں بیٹھا ہر شخص نشے میں دھت اپنی، اپنی خوابوں کی دنیا میں کھونے کی کوشش کر رہا تھا۔
ان سب سے نظر ہٹاکر دیکھو تو اتنے مردوں، میں صرف ایک لڑکی۔ سیاہ جینز پر سفید سلیولیس شارٹ شرٹ کے اوپر بلیو جیکٹ پہنے۔ بالوں کا ڈھیلا سا، میسی جوڑا باندھے۔چہرے کو ہر طرح کے میک اپ سے پاک رکھے۔ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز کمرے کے آخر میں بنے کیبن کے اندر، اپنے ٹیبل کے پیچھے کرسی پر بیٹھی چیونگم چباتے، مزے سے پیر جھلاتے ہوئے، ہاتھ میں ریوالور پکڑے سامنے دیوار پر لگے ٹارگٹ بورڈ کا نشانہ تان رہی تھی۔ اور ہر بار اس کا نشانہ کسی پروفیشنل شوٹر کی طرح ریڈ ڈاٹ پر لگ رہا تھا۔وہ اس کے سامنے بیٹھا اس کی سرگرمیوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
"آپ سب سے الگ ہیں...مطلب ساری لڑکیوں سے مختلف  ہیں...!!"۔
"اچھا...؟؟کیا میرے دو سینگ اور ایک پونچ ہے یا میں چکن،مٹن کی جگہ انسانوں کا گوشت کھاتی ہوں؟؟!"۔
"ارے نہیں....آپ صرف انسانوں کا خون چوستی ہیں..!!"۔
اس نے ترچھی سخت نظروں سے اسے گھورا۔اس نے بے ساختہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھا پھر جھینپ کر مصلحت کے تحت بات آگے بڑھائی۔
"نہیں...مطلب...میرے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں آپ جیسی نڈر لڑکی نہیں دیکھی."۔
وہ سیدھی ہوئی اور اسے غور سے دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
"دیکھو اگر باس نے یہاں تمہیں میری چاپلوسی کرنے بھیجا ہے تو تم یہاں سے دفع ہوسکتے ہو...مجھے اپنی تعریفیں سننے کی عادت نہیں ہے...مجھ جیسی لڑکی کو یہ دنیا ہمیشہ بری نظر سے دیکھتی تھی، دیکھتی ہے اور دیکھتی رہے گی اب تو مجھے ان نظروں کی اتنی عادت ہوچکی ہے کہ کوئی میری تعریف کرے تو وہ مجھے صرف چاپلوسی لگتی ہے...!"۔
اس نے ریوالور سے نکلتے دھویں کو پھونک مارکر، ٹیبل پر رکھتے ہوئے تیکھی نظروں سے اسے گھورا۔
"میں ہمیشہ سچ کہتا ہوں...اگر لہجے پر یقین نہ آئے تو آنکھوں میں دوڑتی سچائی بھی پڑھ سکتی ہیں!!!"۔
وہ دھیرے سے مسکرایا۔ بے شک وہ بلا کا ہینڈسم تھا اور بہت باتونی بھی‌ اور یہ بھی حقیقت تھی کہ اسے زیادہ باتیں کرنے والوں سے چڑ تھی۔ بے وجہ پٹر،پٹر بولنے والے زہر لگتے تھے لیکن باس نے اسے‘ اس کے پاس بھیجا تھا اور خاص خیال رکھنے کا حکم بھی صادر کردیا تھا اس لیے وہ خاموشی سے اسے جھیل رہی تھی۔
"اچھا....پھر جو پوچھوں اس کا جواب صرف سچ میں دینا...!!!"۔
وہ بغور اس کا جائزہ لیتے ہوئے چیونگم ایک طرف تھوک کر بولی۔ اس نے سر اثبات میں ہلایا۔
"ہاں پوچھیں...!!"۔
"یہاں کیسے پہنچے؟؟؟"۔
"وہاں وہ سامنے دروازے سے اندر...!!"۔
وہ دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتا رہا تھا لیکن سر میں لگنے والی پسٹل کے ہتھے کی ضرب سے بلبلا اٹھا۔
"آہ...ہ...ہ...!!!"۔
"سیدھے بیٹھو...اتنی زور سے نہیں مارا،جتنی تم ڈرامے بازیاں کر رہے ہو...اور سوال کا جواب سیدھے طریقے سے دو....اس دھندے میں کیسے پہنچے؟؟؟!!!"۔
وہ اس کے دپٹنے پر سر ہلا کر سیدھے بیٹھا اور کسی معصوم بچے کی طرح رٹا ہوا سبق سنانے لگا۔
"میں اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ہوں جب صرف دس سال کا تھا تب میرے ماں،باپ کو گاؤں کے چودھریوں نے اپنے خلاف گواہی دینے پر جان سے ماردیا اور ان کی لاشوں کو ندی میں بہادیا۔ میرا چاچا مجھے یہاں ممبئی لے آیا۔ وہ یہاں کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا غریب آدمی تھا اور اپنے چھ بچوں کے ساتھ میری پرورش میں اسے بڑی دشواری ہوتی تھی اور پھر چچی کا برتاؤ بھی میرے ساتھ اچھا نہیں تھا...اس لیے کچھ سالوں تک ان کا ظلم سہنے کے بعد میں گھر سے بھاگ آیا اور مجھے ہمارے باس ملے...پھر انہوں نے اپنے ساتھ کام پر رکھ لیا....وہ تو اب وہاں کچھ مسئلہ ہوگیا تو انہوں نے مجھے یہاں بھجوادیا ہے....!!!"۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے بتا رہا تھا اس نے تحمل سے اس کی باتوں پر دھیان دیتے ہوئے اس کے حلیے کو دیکھا۔ کئی مرتبہ دھلی پچرنگی رنگ کی فنکی سی ٹی شرٹ، پرانی جینز اور سلیپرز پہنے، ایریا کے چھوٹے، موٹے اوباش جیسے روپ میں بھی وہ غضب ڈھا رہا تھا۔
"ایسے نا دیکھیں...پیار ہوجائے گا....!"۔
اس کی نظریں اپنے اوپر محسوس کرتے ہی وہ پٹڑی سے اترا۔ اس نے بے ساختہ اس کے منہ پر مکا جڑا۔
"اوقات میں رہ کر بات کیا کر...!!!"۔
ابھی وہ مزید اس پر اپنے ہاتھ صاف کرنے لگی تھی کہ اچانک روم میں پھیلتی ہلچل پر چوکس ہوکر ٹیبل پر رکھی پسٹل اٹھائی۔
"باجی....کلب میں پولیس کی ریڈ پڑی ہے...!"۔
ایک بچہ ہانپتا ہوا آیا۔ ماحول میں یکدم بھگڈر مچ گئی۔ وہ دراز میں سے بلیٹس نکالتی۔ کیبن سے نکل کر، کمرے کی وسط میں آکر کھڑی ہوئی۔ وہاں موجود سب نشہ آور لوگ بھی اپنی مصروفیات چھوڑ کر پولیس کے ڈر سے گھبراتے ہوئے بے چینی سے یہاں سے وہاں بھاگنے لگے۔
"پولیس کی ریڈ پڑی ہے....، سارے نشیڑی پیچھے والے رستے سے بھاگو....چنٹو تم یہ نئے لڑکوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ...میں اسے لے کر سب سے آخر میں آتی ہوں....!"۔
وہ اپنے ساتھیوں کو ہدایت دینے  کے ساتھ ریوالور میں بلیٹس ڈال رہی تھی، پیچھے دیکھے بنا اسے اشارے سے اپنی سمت بلاکر آگے بڑھی۔ لیکن اسے اپنی جگہ پر، پرسکون ایستادہ کھڑا دیکھ اس کے لب بھینچ گئے پلٹ کر خونخوار نظروں سے اسے  گھورا ۔
"مجھے پتا ہے کہ میں خاصا ہینڈسم ہوں...لیکن اگر آپ مجھے پرپوز کرنے لگی ہیں، تو میرا جواب نہ سمجھیں....!!"۔
اس نے چہرے پر معصومیت لیے،  شرمگیں مسکراہٹ لبوں پر سجائے سر جھکا کر  اسے باز رہنے کے لیے ایسے کہا جیسے وہ سچ میں اسے پرپوز کرنے والی تھی اور ہاتھوں میں ریوالور نہیں بلکہ گلابوں کا گلدستہ پکڑ رکھا تھا۔  وہ خشمگیں نظروں سے اسے گھورتی دوبارہ چل کر اس کے قریب آئی۔ اپنے بھاری بوٹس اس کے پیر پر رکھ کر اس کا پیر کچلنے کی حد تک مسلا۔ وہ تڑپ کر رہ گیا۔
"ہائے اللّٰه...."۔
"ایک تو اس الو کے پٹھے کو بھی باس نے میرے ہی پلے باندھنا تھا نہ ماحول دیکھتا ہے نہ وقت...بس گدھوں کی طرح مذاق کرنا شروع کردیتا ہے....۔"
مڑتے ہوئے طیش سے بڑبڑائی۔
"اب چل رہے ہو یا تمہیں ہی شوٹ کردوں؟؟"۔
گردن موڑ کر  کھلے عام دھمکی دے کر آگے بڑھ گئی۔  وہ جو سلیپرز میں سے پیر نکال کر زخم کا معائنہ کرنے ہی جا رہا تھا۔ دوبارہ پیر  سلیپر میں ڈالتا اس طوفان کے پیچھے لپکا۔
"حیوانوں کی ملکہ"۔
زیرلب لقب دینا نہ بھولا۔

***

وہ اپنے وجود کو شال سے ڈھکے، ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھامے اور دوسرے ہاتھ سے ریوالور پکڑے، نظریں چاروں طرف دوڑاتی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ اپنی مسکراہٹ چھپائے اس کی تقلید کرتا اس کے پیچھے بڑے آرام سے چل رہا تھا۔پولیس نے ان کے کلب کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا‌۔ وہ لوگ تہہ خانے میں بنے خفیہ راستوں کی بدولت بہت سی تنگ گلیاں عبور کرکے۔ روڈ کی دوسری سمت آچکے تھے۔ سامنے کھڑی جیپ کو دیکھ کر اس نے اپنی رکی سانس خارج کی۔
"دوسرے اڈے پر چلو جلدی سے...."۔
وہ شال سے اپنا آدھا منہ ڈھکتی پسنجر سیٹ پر بیٹھ گئی۔ وہ سر ہلاتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ اور جیپ اسٹارٹ کردی۔

***

Mashgala-E-Ishq (Complete)Where stories live. Discover now