Episode 7

1.8K 149 9
                                    

گولی چلنے کی آواز آئی تھی۔ لیکن اسے تکلیف محسوس نہیں ہوئی اس نے بے ساختہ اپنی پیشانی چھوئی۔پھر آنکھیں کھول کر سامنے کا منظر سمجھنے کی کوشش کی۔ زمین پر لہرا کر گرتے ابھیجیت کی پیشانی سے پھوارے کی صورت خون بہہ رہا تھا۔ اس نے پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا اور اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔
وہ ریوالور پہلو میں گراتا اس کی سمت بڑھا۔
"ہیلو مس ارسا ذکریا حیات۔ آئم، اے۔سی۔پی، زَمیل راجپوت ہیئر....!"۔
اس نے دائیں ہاتھ میں پکڑی ریوالور پیچھے کی جانب پینٹ کی بیلٹ میں اٹکاتے ہوئے‘بائیں ہاتھ سے،اپنا آئی ڈی کارڈ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
"زَمیل سر اس کا کیا کریں؟"۔
اس نے پیچھے سے آتے راجو کو دیکھا۔
"اسے یہیں تڑپتا مرنے کے لیے چھوڑدو...اس کی موت سارے کرمنلز کے لیے عبرت کا نشان بننا چاہیے..."۔
وہ اسے سنجیدگی سے آرڈر دیتا دوبارہ اس پتھر کی مورت کی سمت متوجہ ہوا۔
"آپ ٹھیک ہیں؟"۔
"چٹاخ...."۔
اس کا ہاتھ اٹھا اور اس کے چہرے پر اپنے نشان چھوڑ گیا۔
"کیوں مارا تم نے اسے....؟؟؟؟"۔
اب دوسرے گال پر پہلے سے بھی زوردار طمانچہ پڑا۔
"کیوں؟؟؟
کئی طمانچے ایک ساتھ اس کے منہ پر پڑے‘ اور پھر اس نے، اس کا کالر اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیا۔ وہ ہذیانی انداز میں چیختی اس کے سینے ہر مکے برساتی رہی اور وہ اس پوری کاروائی کے دوران خاموشی سے آنکھوں میں کرب و اذیت لیے اس کے جارحانہ رویے کو دیکھتا رہا۔
"میڈم آپ ڈیوٹی کے دوران ایک پولیس آفیسر پر ہاتھ اٹھانے کا انجام جانتی ہیں؟؟؟؟"۔
اس کا جونیئر دور سے کہتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھا۔ زمیل نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا۔ وہ اس کا اشارہ سمجھ کر خاموشی سے پیچھے ہولیا۔
"مجھے مارنا تھا اسے...مجھے اس کا خون کرنا تھا...اس کی جان نکالنی تھی!!"۔
اس نے جیسے اس انسپکٹر کی بات سنی ہی نہیں تھی جھٹکے سے، اسے اپنی جانب جھکاکر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر غرائی اس نے گہری سانس لے کر سر ہلایا۔
"مجھے اُس کی وہ غلیظ آنکھیں نوچنی تھیں جن سے اس نے میری بہن پر گندی نظر ڈالی تھی۔ وہ گنہگار ہاتھ کاٹنے تھے جن سے اس نے میری بہن کو چھوا تھا۔ اس دل کے ستر ٹکڑے کرنے تھے جس میں سمائی ہر لڑکی کی، زندگیاں وہ تباہ کردیتا تھا...!!!!"۔
وہ ہذیانی انداز میں چیختی، اس کی شرٹ کھینچتی نیچے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اس کی شرٹ کے سارے بٹن ٹوٹ کر زمین پر گر گئے اور شرٹ میں چھپا اس کا ورزشی جسم نظر آنے لگا۔ وہ اس کے ساتھ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھا اور اسے دھیرے سے خود سے لگایا۔
"مجھے مارنا تھا اسے....اس کی موت میرے ہاتھوں لکھی تھی۔"
وہ ابھی بھی  گھٹنوں کے بل بیٹھی بلک رہی تھی۔وہ دھیرے، دھیرے اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔
"میں آپ کو قاتل نہیں بننے دے سکتا تھا"۔
وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ اگر وہ سہی وقت پر ابھیجیت کو شوٹ نہ کرتا تو آج وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔
"تم نے مجھ سے جھوٹ بولا...تم نے ہر بار مجھ سے جھوٹ بولا...تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تم ایک پولیس آفیسر ہو..."۔
وہ قدرے سنبھل کر ہتھیلیوں سے آنسوں پونچھتی اس سے الگ ہوئی۔
"نہیں میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ میں بس اپنی دیوٹی نبھا رہا تھا"۔
اس نے سیدھے ہوتے ہوئے نظریں چراکر وضاحت دی۔
"اس کے باقی ساتھی..."۔
اس نے اس نیم مردہ جسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
"سب پولیس کی گرفت میں آچکے ہیں...!"۔
اس نے اس کی بات کاٹ کر کھڑے ہوکر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہوئی۔
"مجھے بھی گرفتار کروگے؟؟"۔
"وہ تو کرنا پڑے گا..."۔
وہ اس کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھ رہا تھا۔ گیٹ پر جاکر راجو کو دیکھ کر رکا۔
"انسپکٹر شوائے اس کلب کو سیل کرنے کے آرڈرز دے دو...."۔
"سر آپ میڈم کو بھی گرفتار....؟؟؟"۔
وہ اس کے حکم پر سر ہلاتا، حیرانی سے سوال ادھورا چھوڑ گیا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"کرنا تو پڑے گا...."۔
وہ مسکراہٹ چھپاتا، اس کا ہاتھ تھامے باہر نکل گیا۔

***

میں ایسا کیا کروں کہ،
دل تیرے بغیر لگ جائے؟
(ازخود)

وہ پچھلے دو دنوں سے اس کمرے میں قید تھی۔ وہ اسے یہاں چھوڑ کر ایسا غائب ہوا تھا کہ دوبارہ اس کا حال احوال تک پوچھنے کی زحمت نہ کی تھی۔ کمرے میں ہر آسائش موجود تھی۔ کھانا، پینا ایک اڈھیر عمر ملازمہ آکر دے جاتی۔
ابھی بھی وہ کھانا رکھ کر جاچکی تھی۔ وہ چپاتی ہاتھ میں لیے چکن گریوی سے انصاف کر رہی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
"آجاؤ...!!"۔
اسے لگا ملازمہ ہوگی کیونکہ وہ اس کے کھانا کھانے کے فوراً بعد فریش اورنج جوس لاتی تھی۔
"کیا حال ہے؟؟؟"۔
دھیمی مگر خوبصورت مردانہ آواز پر اس نے سر اٹھاکر اسے دیکھا۔
بلیک ہاف سلیوز ٹی۔ شرٹ میں سے جھانکتے کسرتی بازو۔ دھلا، دھلایا چہرہ، ہلکی، ہلکی شیو، اور خوبصورت و شفاف، کشادہ پیشانی پر گیلے، چپکے گھنے ڈارک براؤن بال۔لبوں پر مقابل کو اپنے سحر میں جکڑ لینے والی مسکراہٹ سجائے وہ ہاتھ میں اورنج جوس کا گلاس تھامے  آنکھوں میں لو دیتے جذبے لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا اس وقت وہ اسے دنیا کا سب سے وجیہہ مرد لگا۔
لیکن پھر بھی ناراضی جتانا ضروری جانتے ہوئے اس نے اسے پوری طرح نظرانداز کرکے، منہ موڑ کر پلیٹ میں بچی باقی کی گریوی، پلیٹ کو منہ سے لگاکر پی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا جوس کا گلاس سائیڈ میں بنے اسٹڈی ٹیبل پر رکھا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"کھانے کے بعد یہ جوس بھی پی لینا"۔ 
اس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے..."۔
جواب ندارد۔
"میں تو یہاں آپ کے لیے شادی کا پرپوزل لایا تھا۔ لیکن آپ تو مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کر رہیں، شادی تو بہت دووووور کی بات ہے..."۔
وہ"دوووووور" کو کھنچتے ہوئے کچھ زیادہ ہی دور لے گیا اور مصنوعی مایوسی و شکست چہرے پر سجائے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جلدی سے کھانا پینا چھوڑ کر اس کے رستے میں آکھڑی ہوئی۔
"تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہیں پسند نہیں کرتی؟؟؟؟دیکھو میری آنکھوں کی طرف اور بتاؤ کیا دکھ رہا ہے....!!!!"۔
اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر پوچھا۔ وہ کچھ لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
"ڈارک سرکل....!!!"۔
"کیا؟؟؟"۔صدمہ...
"مجھے لگتا ہے آپ پچھلی راتوں میں سہی سے سو نہیں پائی اس لیے کمزوری کے باعث آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے آگئے ہیں...چلیں کوئی نہیں ابھی یہ جوس ختم کرکے کچھ گھنٹے آرام کرلیں۔فریش فیل کریں گی اور اس ٹاپک پر اب رات میں بات ہوگی...."۔
وہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا اور وہ شل سی وہاں کھڑی رہ گئی۔
"اسے میری آنکھوں میں ڈارک سرکل نظر آرہے ہیں؟؟"۔
وہ بھی اپنا چہرہ آئینے میں دیکھنے پر مجبور ہوگئی بے بسی کی انتہا تھی۔
وہ اس کے جذبات سمجھ نہیں رہا تھا، اور وہ کھل کر اس کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس نے جوس کا گلاس اٹھاکر دیوار پر دے مارا۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے اپنے ہینڈ بیگ سے اپنی پسندیدہ لیڈیز پسٹل نکال کر اسے پرسوچ نظروں سے دیکھا۔ اور دروازے کی جانب بڑھی۔

***

Mashgala-E-Ishq (Complete)Where stories live. Discover now