Last Episode

3.3K 211 86
                                    

وہ اس کے کمرے سے باہر نکلا تو چہرے پر شرارتی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ وہ اسے اپنے سامنے بکھرتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ 
اسے اِرسا بے رحم پسند تھی۔
نڈر...اور سفاک۔
اور ہر وقت شوٹ کرنے کی دھمکی دیتی، بے خوف۔
محبت میں اس کے سامنے اپنی ہار ظاہر کرتی کمزور ارسا نہیں...!
وہ ابھی اپنے کمرے میں آکر بیٹھا تھا کہ وہ ہاتھ میں پسٹل لیے، دندناتی اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی۔
"تم سمجھ کر انجان بن رہے ہو یا سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے؟"۔
پسٹل کی نال اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر پوچھا۔ اس نے نئر اٹھاکر اسے دیکھا۔ بالوں کی ڈھیلی سی چوٹی باندھ کر آگے ڈالے۔ جس میں سے کچھ آوارہ لٹیں نکل کر اس کے شاداب عارضوں کو چوم رہی تھیں، ٹی پنک شلوار، شرٹ میں، سیاہ دوپٹہ شانوں پر ڈالے اور پیروں میں فلیٹرز پہنے وہ اپنے حلیے سے تو نہیں، مگر لہجے سے، وہی پرانی ارسا لگ رہی تھی۔
"ہاں میں بن رہا ہوں۔ میں آپ کو اپنے سامنے کمزور پڑتا نہیں دیکھ سکتا"۔
"تو پھر اب کیا کروگے میرے ساتھ...؟؟؟"۔
"وہی جو ایک اچھا لڑکا، ایک اچھی لڑکی کے ساتھ کرتا ہے۔ مطلب نکاح، شادی، ریسیپشن...!!!"۔
وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولا۔محبت سے چور دلنشین لہجہ۔
"تو اب میں یہ ریوالور ہٹالوں؟"۔
"آپ کی مرضی....!"۔
اسنے اس کی آنکھوں میں دیکھتے مسکراکر کہا۔ اس نے ریوالور ہٹالی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
"آپ کو پتہ ہے...میں نے آپ کو پہلی مرتبہ اس کلب میں تب دیکھا تھا۔ جب میری یہاں نئی،نئی پوسٹنگ ہوئی تھی۔ میں چاہتا تو اسی وقت آپ کو گرفتار کرلیتا مگر نہیں کیا۔ میرے دماغ میں بس یہی تھا کہ آپ بھی "ویسی" لڑکیوں میں سے ایک ہیں۔ لیکن اس چہرے کی معصومیت نے مجھے آپ کے اندر کی وہ رحمدل لڑکی کو تلاش کرنے پر مجبور کردیا...."۔
وہ بیڈ سے اٹھ کر اس کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔ وہ کافی لمبا چوڑا تھا۔ وہ اس کے کندھوں سے بھی نیچے آرہی تھی۔
زمیل نے اس کے ہاتھ میں سے ریوالور لے کر بیڈ پر اچھالی اور اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا۔
"پھر میں نے سر سے ریکوسٹ کرکے ابھیجیٹ کا کیس اپنے ماتحت لے لیا جبکہ اسے ایک سینیئر آفیسر ہینڈل کرے ہوئے تھے....اور آپ کو پتہ ہے وہ سینیئر آفیسر کون تھے؟؟؟۔"
وہ سنجیدگی سے بتاتے ہوئے آخر میں پراسراریت سے سوال ادھورا چھوڑ گیا۔اس نے ناسمجھی سے سر نفی میں ہلایا۔
"ہمارے باس...،پنکج مِشرہ...!!!!جو اصل میں انسپیکٹر پُلکٹ ٹِرپاٹھی ہیں...اور انھوں نے ہی مجھے آپ کے خلاف ریپورٹ درج کرنے سے منع کردیا ہے وہ محترم بھی آپ کا ماضی جاننے کے بعد آپ سے کافی متاثر ہیں"۔
اس نے بتاکر گہری سانس لی۔ ایک اور نیا بمب تھا جو اس کے سر پر پھوٹا تھا۔ وہ آنکھوں میں بے یقینی لیے اسے خاموشی سے سنتی رہی۔
"خیر....‘پھر میں نے ابھیجیت کا کیس اسٹڈی کرنے کے ساتھ، ساتھ۔ آپ کے متعلق  بھی سب پتہ لگایا۔ لیکن آپ کے متعلق ساری معلومات حاصل کرنے اور آپ کے ماضی کے بارے میں جاننے کے بعد مجھے آپ سے عشق ہوگیا اس وقت مجھے پتہ چلا کہ ایک صنف نازک جو اس دل میں گھر کر چکی ہے وہ اتنی بہادر بھی ہے کہ انتقام کے لیے شیر کی کھچار میں تن تنہا بھی کود سکتی ہے...اور پھر میں پہنچ گیا آپ کا چیلہ بن کر آپ کے سامنے آپ کی حفاظت کرنے،ویسے تو آپ بڑی توپ چیز ہیں اپنی حفاظت خود کرسکتی ہیں...لیکن میں اپنے اس دل کے ہاتھوں مجبور تھا اور پھر ایک لالچ یہ بھی تھا کہ آپ کو ذاتی طور پر جاننا تھا۔آپ کی نظروں میں آنا تھا۔آپ کو اپنی محبت میں گرفتار کرنا تھا...!"۔
اس کے ہاتھ ابھی بھی اس کی نرم گرفت میں قید تھے۔ آنکھوں میں محبت لیے اس کے ہاتھوں کو اپنے سینے پر رکھتے ہوئے،بڑی خوبصورتی سے اپنے سچے جذبات ظاہر کر رہا تھا۔ ٹھہراؤ لیے نرم و ملائم،شیریں لہجہ وہ تو اس کے اس روپ پر دل و جان سے فدا ہوگئی تھی۔وہ سنجیدگی سے باتیں کرتے ہوئے کتنا اچھا لگ رہا تھا۔افففف...
"خیر اس کے بعد کے کام تو میرے لیے، مطلب مسٹر زمیل راجپوت جیسے شاندار۔ اپنی تیس سالہ عمر میں ہی بہت سے کیس چٹکیوں میں سولو کرنے والے کے لیے‌، ’بہت آسان تھے...لیکن آپ کی زیادتیاں، اففف...‘وہ ٹومچ تھیں...ان کے بارے میں کسی اور دن بات کریں گے۔ تفصیلاً....!!!"۔
اس نے باوقار انداز میں بتاتے ہوئے، آخر میں شرارت سے شانے اچکاکر اس کی ستواں ناک کو اپنی چٹکی میں بھر کر دھیرے سے کھینچا اور اپنا چہرہ ہلکا سا جھکا کر اس کی پیشانی پر لب رکھ دیے۔ وہ آنکھیں بند کرکے دھیرے سے مسکرادی۔ اب اس کی آنکھوں سے بے یقینی کا تاثر کہیں چھومنتر ہوچکا تھا۔
"تو ایسے آپ مشغلۂ انتقام میں مصروف تھیں اور میں مشغلۂ عشق میں....!"۔
پھر سیدھے ہوکر اس کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگایا پھر لبوں سے۔
"تم بہت برے ہو زمیل...بہت برے....!"۔
اس نے اپنے ہاتھ کھینچ کر اس کے شانے پر ہاتھ جڑا۔
"اور آپ بہت اچھی...!"۔
اس نے ہنستے ہوئے دوبارہ اس کے ہاتھ تھامنا چاہے لیکن وہ نفی  میں سر ہلاتی مسکراکر دروازے کی طرف بڑھی۔ اسے ڈر تھا کہ وہ اس کے سامنے کہیں رو نہ دے۔ تشکر کے آنسوں کہیں اس کے سامنے ہی نہ بہہ نکلیں۔
"ارے پوری بات تو سن لیں....!"۔
اس نے قدم بڑھا کر اسے شانوں سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔
"کل میرے کچھ دوست اور مولوی صاحب آئیں گے۔ آپ تیار رہنا..!!"۔
"اور تمہاری فیملی...؟"۔
وہ چونکی۔
"صرف مما ہیں۔ وہ اوٹی سے بذریعہ ویڈیو کال ہم سے رابطہ کریں گی، نکاح کل سادگی سے ہوگا، پھر ایک ماہ بعد ہم وہاں جاکر بڑے ہی دھوم، دھام سے اپنے ویڈنگ فنکشنز سرانجام دیں گے..."۔
وہ اس کی جلد بازی پر نم آنکھوں سمیت مسکراکر رہ گئی۔
"اور اگر میں نکاح کرنے سے انکار کردوں تو؟"۔
اس نے رخ پھیرکر آنکھوں میں اٹکا آنسوں صاف کرتے ہوئے لہجے کو حتی المکان عام رکھتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
"تو میڈم، پہلے آپ کا پالا ایک ڈرپوک ٹائپ کے گلی کے اوباش سے پڑا تھا لیکن اب آپ کے مقابل ڈا گریٹ انسپکٹر زمیل راجپوت کھڑا ہے۔ اگر انکار کریں گی تو زبردستی اٹھاکر لے جاؤں گا...!"۔
وہ اس کے سامنے تن کر کھڑا ہوا۔ اس کے شانے ابھی بھی اس کی گرفت میں تھے۔
"تو ڈا گریٹ انسپکٹر زمیل راجپوت۔ مجھے بھی کوئی عام سی لڑکی سمجھنے کی بھول مت کرنا...میں بھی ارسا ذکریا حیات ہوں۔ تمہیں شوٹ بھی کرسکتی ہوں۔"
اس کے جتانے پر اس کے لب مزید مسکرا اٹھے۔ وہ کیا کسی سے کم تھی؟
"پسٹل تو ابھی بھی آپ کے ہاتھ میں ہے، کردیں شوٹ۔ دل سے تو گیا ہی ہوں، جان سے بھی جاؤں گا..."۔
اس کی آنکھوں میں کیا نہیں تھا۔ محبت، عزت، مان، اعتبار۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔
"ابھی میرا، موڈ نہیں۔ جس دن ہوگا اس دن ضرور کروں گی..."۔
"جب موڈ ہو آواز دے دینا۔ بندہ دل و جان کے ساتھ حاضر ہوجائے گا۔ ویسے بھی آپ سے گولی کھانے کا اپنا الگ ہی مزہ ہے۔"
جتنی نرمی سے اسے تھاما تھا اتنی ہی نرمی سے چھوڑ دیا۔
"تمہیں ماروں تو خود نہ مرجاؤں،
دل کی گہرائیوں میں بس چکے ہو تم"
(ازخود)
اس نے زمیل کا دایاں ہاتھ تھام کر جذبات سے پر لہجے میں شعر پڑھتے ہوئے،اس کی ہتھیلی کی پشت پر لب رکھ کر سر اٹھاکر، مسکراکر اس کے حیران چہرے کو دیکھا۔ پھر فوراً ہی کمرے سے نکل گئی۔
اور وہ پیچھے حیرانی سے مسکراتے ہوئے اپنی ہتھیلی کو دیکھ کر رہ گیا۔
"محبت کی پہلی مہر"۔
اس نے بھی بالکل اسی جگہ لب رکھ دیے جہاں کچھ دیر پہلے وہ اپنے ہونٹوں کا لمس چھوڑ کر گئی تھی۔
اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے اس کی آنکھوں سے تواتر سے آنسوں بہہ رہے تھے۔
خوشی کے آنسوں۔
تشکر کے آنسوں۔
اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ اسے‘ اس اندھیری دنیا سے، جس میں وہ انتقام کی آگ میں جلتے قدم رکھ چکی تھی ایسا زندہ دل، روشن شخص مل جائے گا جو اس کی زندگی کا مقصد ہی بدل کر رکھ دے گا۔
مشغلۂ انتقام کو مشغلۂ عشق میں تبدیل کرکے رکھ دے گا۔
اس کے چہرے پر بھی اب روشنی بکھر چکی تھی۔
محبت کی روشنی۔
عشق کی روشنی۔
جو عشق کرنے والوں کے چہروں پر، نور بن کر چمکتی ہے۔
اس کا چہرہ بھی عشق کی روشنی سے پرنور ہوچکا تھا۔
آج وہ بھی "مشغلۂ انتقام" سے نکل کر "مشغلۂ عشق"میں مصروف ہوچکی تھی۔

***

(ختم شد)

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: May 22, 2023 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

Mashgala-E-Ishq (Complete)Where stories live. Discover now