mavrai muhobbat

589 26 8
                                    

قسط نمبر سات
یہ وہ جگہ ہے سر جہاں یہ ساری واردات ہوی تھی کیپٹن علی اسے ساری جگہ دکھا رہے تھے جہاں جنگ ہوی تھی اور سارا واقعہ رونما ہوا تھا
اس کا مطلب ہےبرگیڈیر اویس کو کوی پیچھے کے راستہ سے لے کر گیا تھا اور بڑی چالاقی سے کے کسی کو کانوں کان خبر نا ہو وہ جھاڑیوں کے پار اشارہ کرتے ہوے بولا تو کیپٹن علی تو اس کی عقلمندی پر دنگ رہ گیا
پر سر یہی تو مسلہ ھے کے اس چیز کا سوراخ نہیں مل رہا وہ پریشانی سے بولا تو ارون ہنس دیا
ڈونٹ ٹیک ٹینشن مسلے والی بات ہی نہیں ہے سب کچھ اس ایریے میں ہی ہوا ہے اور فل پروف پلینگ سے ہوا ہے پر وہ جو  کوی بھی ہے ہمارے شکنجے سے نہیں بچے گا ارون مٹھیاں بینچے ہوے بولا  تو علی بولا
سر پر اپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہے کے یہ کام اس نے ادھر ہی کیا ہے ای مین  ٹو سے کے وہ کہی دور بھی جا کر یہ کام کر سکتا تھا
یہی تو پوانٹ ہے علی کے اس کو لگا تھا کے سب مجھے دور دور ہی تلاش کریں گے کسی کا دھیالن یہاں نہیں جاے گا پر یہ اس کی سوچ ہے چور کتنا بھی چالاک ہو اپنا نشان چھوڑ ہی جاتا ہے وہ اس کو دیکھتے ہوے بولا
سر اپ تو مجھے ہر بار حیران کر دیتے  ہر بار لایک نیا انسان میرے سامنے اتا ہے ریلی سر کہنا پرے گا اپ کا ٹیلنٹ بہت کمال ہے اپ وہاں جا کر سوچتے ہے جہاں ہماری سوچ کی پہنچ ہے ہی نہیں وہ کھلے دل سے ارون کی تعریف کرتے ہوے بولا تو ارون مسکرا دیا
یار یہ تو بس انہیریٹیڈ ہے  میرے ڈیڈ اتنے کمال کے کمانڈر تھے کچھ نا کچھ اثر تو لینا تھا نا
ہاں سر اس میں تو کوی شک نہیں اوو سر مجھے یاد ایا برگیڈیر دانش اپ کو یاد کر رہے تھے ہمیں بیس چلنا چاہیے وہ کہنے لگا تو ارون بھی جیپ کی طرف بڑھ گیا
          ********************
     سردیوں کی ٹھرٹھراتی ہوی شام میں سب لوگ اکھٹے لان میں بیٹھی ہوے تھے یہ بھی شاویز کی زد تھی کیوں کے وہ پندرہ دنوں کے لیے یو ایس جا رہے تھے اسی لیے وہ گیدرنگ کرنا چاہتا تھا کھانا کھانے کے بعد سب نوجوان پارٹی لان میں نکل اے سرد ہوا کے تھپڑ سب کے چہروں کو سرخ کر رہے تھے فبیحا بھی شال لپیٹے بیٹھی تھی ہوا کے دوش سے اس کے سیاہ بال اڑ کر ارون کے چہرے کا طواف کر رہے تھے اور ارون کے دل کو طمانت بخش رہے تھے فبیحا کی نظر اپنے بالوں پر گی تو وہ شرمندہ سی ہو گی اور فورا بال باندھنے لگی تو ارون نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا وہ اسے گھورنے لگی سب بیٹھے تھے پر ارون کو پروا نا تھی
رہنے دے ان کالی گھٹاو کو ہمارے چہرے پر کہ
ان کے حجاب میں اپنے اپ کو موتر کرتے ہیں
وہ اس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ لاشعوری طور پر فاصلہ قایم کیا تو ارون نے منہ بنا لیا  تو فبیحا نے مسکراہٹ دبای شاویز کب سے ان کی حرکتیں ملاحظہ کر رہا تھا
بھای بھابھی اور مخلوق بھی یہاں موجود ہے اپ یہ کام بیڈ روم میں کریں وہ انکھوں میں شرارت لیے بولا تو وہ ارون گھورنے لگا اورفبیحا نے نظریں گھما لی
تو تم کیا چاہ رہے ہو بندہ اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا سٹیچو تو بننے سے رہا ایز لاق یو وہ فبیحا کے کندھے کے گرد بازوں پھیلاتے ہوے بولا تو فبیحا کی گالے جو پہلے ہی لال تھی اور ہو گی ارون تو اج پھیلے ہی جا رہا تھا اس نے گھوری دکھای پر ارون نے اگنور کیا سب لوگوں میں وہ بیٹھے تھے اسے اور غصہ ارہا تھا شاویز انوشہ فواد علیحہ
اوکے گایز بہت فضول بیٹھ لیا اب ہم اپنے درمان بیٹھے ایک سنگر سے گانا سنے گےجو  بلکل باتھروم سنگر نہیں ہے شاویز ہاتھوں کا مایک بناتے بولا تو ارون نے اسے گھورا پر ازر نادارد سب لوگ ارون کی طرف متوجہ ہوے
چلے بھای سب کو دکھاے اپنی اواز کے جوہر وہ اسے گٹار پکڑاتے ہوے بولا ارون نے تنبیحہ نظروں سے اسے گھورا اشارہ صاف تھا کے خیر مناے پر وہ تو جیسے کان منہ لپیٹے بیٹھا تھا سب لوگوں کی نظریں ارون پر تھی جس کی وجہ سے وہ اور زیادہ نروس ہو رہا تھا ارون نے گلا کنگالا فبیحا بھی اشتیاق سے اسے دیکھ رہی تھی اس نیی خوبی کا اسے اج پتا چلا تھا ارون نے گٹار پے ٹیون سیٹ کی
سوریلی اکھیوں والے سنا ہے تیری اکھیوں سے
بہتی ہے  نیندیں اور نیندوں میں سپنے  کبھی تو کنارے سے اتر میرے سپنوں پر اجا زمین پر اور مل جا کہی پے مل جا کہیں پے مل جا کہیں سمے سے پرے سمے سے پڑے مل جا کہیں تو بھی کبھی میری اکھیوں کی سن ارون کی مسحور کن اواز پورے ماحول کو وسوں خیز بنا رہی تھی اس نے گانا ختم کیا تو تالیوں کی اوازیں گونج رہی تھی ارون نے گٹار سایڈ پر رکھے مسکرا کر داد وصول کر رہا تھا فبیحا بھی مسکرا دی
واہ کیپٹن ارون اپ کی تو اواز کا بھی ژواب نہیں مان گے فبیحا اس کی دل سے تعریف کر رہی تھی
حب اپ کا محبوب اپ سے راضی ہو اور اپ کی زندگی خوبصورت ہو تو اواز میں سرور اہی جاتا ہے ارون اسے اپنی طرف کھینژتے ہوے بولا تو وہ اس کے سینے سے لگ گی ارون نے اس کی کان کی لو پے اپنے دہکتے لب رکھ دیے یو کمپلیٹ می مسز ارون حیدر ارون اس کی انکھوں پر لب رکھتے ہوے بولا تو فبیحا اک کی جسارت پر سرخ ہو گی
ویسے کیپٹن ارون اپ بہت بے شرم ہوتے جا رہے ہے وہ اس کے حصار سے نکلنے لگی
لو بیگم اب کیا بے شرمی کر دی ہے وہ معصومیت سے انکھیں مٹکای تو فبیحا کی ہنسی نکل گی
ہاے یہ مسکراہٹ  لڑکی کیوں قتل کرنے کا ارادہ ہے وہ سینے پے ہاتھ رکھتے ہوے ایک ادا سے بولا تو فبیحا گھورنے لگی
میں دیکھ رہی ہو بہت چھچھورے ہوتے جا رہے ہے مطلب حد ہوتی ہے وہ ارون کو گھورتے ہوے بولی
صرف اپ کے معاملے مای وافی وہ اس کے ماتھے پر لب رکھتا بولا اتنی دیر میں شاویز ان تک ایا اور انہیں دوبارہ لے ایا جہاں سب محفل جماے بیٹھے تھے
   **************************
تمہیں جو سمجھایا ہے سمجھ گے ہو نا اگزیکلی وہ دس بجے بیس سے نکلے گا اور تم بلکل میں سڑک پر ہو گے اور اس کو حیراسکروں گے مژھے ارون حیدر کی لاش چاہیے اگر تم نے یہ کام کر دیا تو خوش کر دو گا تمہیں ٹھیک ہو گیا اور اگر مجھے وہ زندہ نظر ایا تو تیرے لیے ملکولموت میں بن کر او گا اس نے کہہ کر ٹھک فون بند کر دیا
ارون حیدر پہلے تو میں تجھے اپنی سیٹ کے لیے ہٹانا چاہتا تھا پر اب تو دوسری وجہ بھی مل گی ہے جو بہت ہی خوبصورت ہے وہ شیطانی مسکراہٹ لیے سوچ رہا تھا گ انسان کو بہت بہکاتا ہے بظاہر تو وہ اسے نفس کا غلام بنانے کی سرطور کوشش کرتا ہے اور ہر بڑے کام کو اچھا بنا کر پیش کرتا ہے  تاکہ انسان اس کے بہکاوے میں گر گناہ کا مرتکب بنے حسد اورحوس انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے انسان درندہ بن جاتا ہے جو انسان اپنے نفس کو قابو کرنا جانتا ہے وو سب چیزیں مینج کر لیتا ہے انسان جسے دوست سمجھ کر اس کی روش پر چلتا ہے درحقیقت وہ اس کا دشمن ہوتا ہے جو صرف فانی چیزو کی لالچ کرتا ہے جو ختم ہو جانی ہے  ہمیں اضل تک جو شے ہے اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے ہمیشہ سب کچھ اچھا نہیں رہ سکتا پر برای کے مرتکب وجود کو یہ چیز دیر میں مجھ اتی ہے اورہجب اجاتی ہےجب وقت گزر چکا ہوتا ہے اور گزرا ہوا وقت ہاتھ نہیں اتا عقیل رانا جس راستہ پر چل رہا ہے  وہ ہے انا کا راستہ اقتدار کی جنگ حسد کی جنگ جس کے لیے وہ جنونیت اختیار کررہا تھا  صحیح غلط کا فرق انسان کو اجاے تو وہ سمبھل جاتا ہے پر عقیل رانا صرف ایک چیز دیکھ رہا تھا اور وہ تھا بدلہ پر اپنی تباہی کا انتیظار اسے کرنا تھا کیوں کے غلط راہیں چننے والوں کا انجام ہمیشہ غلط ہی ہوتا ہے پر یہ انسان ہی ہے جو پریکٹیکل کر کےسمجھتا ہے
           *****************
لاہور کے مال روڈ پر اج معمول سے زیادہ رش تھا اور لوگوں کی چہل پہل جاری تھی مختلف انواوں اقسام کی خوشبوں پورے ماحول پر طاری تھی ارون بھی یونیفورم پہنے یقینن وہ عجلت میں تھا وہ افس سے تھوڑا جلدی نکلا تھا کیونکہ اج حیدر ملک کی ویڈنگ اینیورسری تھی جس کے لیے انہوں نے گھر پر اہتمام کیا تھا رش بہت زیادہ تھا ٹریفک وارڈن جنگار رہے تھے اور گاڑیوں کی قطار میں رہنے کا کہہ رہے تھے ارون سخت جھنجھلایا ہوا تھا انتیظار ایک بہت کٹھن لمحہ ہوتا جس کو بہت ظرف سے گزارنا ہوتا ہے اورجو یہ لمہ خوش بختی اور صبر سے گزار لیتا ہے اس کےلیے اسا نیاں بڑھ جاتی ہے
شٹ ڈیمڈ سب لوگ انتیظار کر رہے ہو گے وہ سٹیرنگ ویل پر مکہ مارتے ہوے بولا سبیح پیشانی پر سلوٹیں بڑھ گی تھی اس نے پاس کھڑے وارڈن کو بلایا تو وہ جھٹ سےادھر ایا اور سلیوٹ کیا
افیسر کیا مسلہ ہے ٹریفک کیوں بلوک ہے وہ اس سے استفسار کرنے لگا
صاحب جی اگے بہت بڑا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ایک گاڑی نے ایک ٹھیلے کو ٹکر مار دی ہے جس کی وجہ سے رش بڑھ گیا ہم جلد از جلد اس ٹھیلے کو ہٹوا رہے ہے تاکہ ٹریفک کھل سکے بس پانچ منٹ کا کام ہے وہ تفصیل اس تک پہنچاتے ہوے بولا تو ارون نے سر سے اس کو جانے کا اشارہ کیا پھر واقعہ چھ سات منٹ بعد ٹریفک کھل گی اور گاڑیوں کا سمندر اپنی اپنی جگہ بہنے لگا تو اس نے بھی گاڑی کینٹ روڈ کیطرف ڈال دی چونکہ وہ علاقہ سنسان ہوتا ہے اس لیے وہ گاڑی کی سپیڈ بڑھا  چکا تھا پر مسلسل اس کی چھٹی حس کچھ غلط ہونے کا سنگنل دے رہی تھی مسلسل اسےمحسو ہورہا تھا کوی اس کا تعقب کر رہا تھا پر وہ نظر انداز کر رہا تھا موت ارون حیدر کے سر پر کھڑی تھی اسے موت کا خوف تھا ہی نہیں کیونکہ وہ اس کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا وہ حقیقت جانتا تھا کے ہمارا زندگی میں انے کا مقصد ایک ہی تھا ملک اور قوم کی حفاظت کرنا اپنی جان کی بازی لگانا اور وہ تو ویسے بھی اپنے ملک کے لیے حد سے زیادہ تڑپ رکھتا تھا اندھیرا ہر سو پھیل چکا تھا اچانک ارو کی گاڑی کے ٹایر کی ہوا نکلی اورگاڑی چڑڑ کی اواز سے رک گی ارون گاڑی سے باہر نکلا وہ پسٹل کا ٹریگڑ پے ہاتھ مضبوطی سے جماے ہوے تھا وہ باہر نکلا کے کسی نے سرعت سے اس کے حملہ کرنے سے پہلے اس کے سر پر بندوق ماری اور ایک گولی اس کے سینے کو چیر گی تھی اور کچھ ہی پلوں میں ارون حیدر ہوش وخرد سے بیگانہ ہو گیا تھا
          ******************
نہیں ارون کہا فبیحا دہل گی شاویز جو گھر میں تھوڑی بہت ڈیکوریشن تھی کروا رہا تھا علیحا فریش ہو کر نکلی تھی پنک ایمبراوڈڈ فراک پہنے تھی وہ فبیحا تک ای جس کے چہرے پے ہوایاں اڑی ہوی تھی فبیحا بھی رویل بلیو شارٹ شرٹ پہنے ہوے تھی ولڈن ٹراوزر پہنے بالوں کا جوڑا بناے وہ انسوں سے تر چہرہ لیے نا سمجھی سے علیحہ  کو دیکھ رہی تھی اسے فبیحا کی دماغی حالت پر شبہ ہوا
بھابی از ایوری تھنگ اوکے پانی پیے پلیز ریلیکس وہ اسے پانی دیتے بولی فبیحا گناگٹ سارا گلاس خالی کر گی شاویز بھی ادھر اگیا
بھابی کیا ہوا کچھ دیر پہلے تو ٹھیک تھی وہ اس پک بیٹھا انوشہ بھی اگی تھی
پتا نہیں شاوی میرا دل عجیب سے وسوسے  میں گھرا ہوا ہے پتا نہیں کچھ غلط ہونے والا ہے تم پلیز ارون کو فون کروں کہاں ہے وہ و مسلسل بول رہی تھی
فبیحا جان ریلیکس کروں ارون بھای بلکل ٹھیک ہے اوکے ریلیکس انوشہ اس کو دلاسہ دیتے بولی پرہاس کی ایک ہی زد تھی کےارون کو بلایں شاویز سایڈ پر ہو کر ارون کا نمبر ڈایل کرنے لگا پر فون بند جارہا تھا شاویز کے تو ہاتھ پاوں پھولنے لگے وہ اپنے اندیشوں میں گھرا ہوا تھا کے اس کا فون چیخا اسنے سامنے کر کے دیکھا تو فون پر انجان نمبر جگمگا رہا تھا شاویز نے خود کو کمپوز کر کےفون اٹھایا جو خبر اس نےسن تھی وہ اسے پتھر کرنے کے لیے کافی تھا وہ یونہی بے جان نظروں سے فون کی سکرین کو دیکھ رہا تھا جیسے  وہ ارون ہو حیدر ملک اس تک اے
کیا بات ہے برخوردار بت کیوں بنے ہوے ہو وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے بولا
ڈیڈو رون بھیا کو گولی لگی ہے وہ دل کے پاس ان کی حالت بہت تشویش ناک ہے ابھی ہوسپیٹل سے فون ایا تھا کسی نے ان کو ہوسپیٹل پہنچایا شاویز ساری تفصیل بتاتے ہوے بولا تو شےدر ملک کو سانپ سونگ گیا بے شک وہ بہت مضبوط مرد تھے پر خونی رشتہ ہر چیز پر حاوی ہوتے ہیں کیونکہ جزبات اور احساسات تو ہر انسان میں ہوتے دل تو سب کا ایک سا ہی ہوتا ہے
شاویز یہ اہت نازک وقت ہے ہنیں بہت سوچ سمجھ کر کام لینا ہو گا ہم لوگ ابھی ہوسپیٹل جاے گے کسی کو بھی علم نا ہونے دینا تم جانتے ہو اپنی ماں کی طبیعت چلو وہ کہہ کر باہر نکل گے
          ********************
دیکھے حیدر صاحب ارون سر بے شک اک مضبوط اعصاب کے مالک ہے پر جو حملہ ان پر ہوا ہے وہ شدت لیے ہوے تھا کسی نے مکمل کوشش کی ہے کے جان چلی جاے پر شاید اندھیرا ہونے کی وجہ  سے بچت ہو گی گولی تو نکال لی گی ہے پر خون بہت بہہ گیا ہے سر کےپیچے کسی بھاری چیز لگنے کی وجہ سے نروس پر اثر پڑا ہے  یہ چوبیس گھنٹے ان کے لیے بہت کڑیٹیکل ہے اپ لو گ بس دعا کریں انہیں ہوش اجاے ڈاکٹر انہیں بیچ چوراھے پر لٹکا کر وہاں سے چلے گیا طویل خاموشی کےبعد حیدر ملک شاویز سے بولے
تم گھر میں فون کر کے بتا دو میں ذرا ایک کام سے جا رہا ہو وہ اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوے بولے تو وہ بس سر ہلا گیا اسنے سب کو گھر سےبلا لیا فبیحا کے تو گویا حںاس کی منجمند ہو گے۶تھے وہ ساکن سی بیٹھی بس ایت کریمہ کا ورد کر رہی تھی کیونکہ بےشنک انسان مشکل اور تکلیف میں ہی اس پاک ذات کو یاد کرتا ہے اور وہ بھی ہر دم تیار رہتا ہے اپنے بندے کی مدد کو کیونکہ اس مفاد پرست دنیا میں صرف وہی پاک ذات ہے جو بغیر کسی غرض کے اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے بےشک وہ بنینو انسان کی شے رگ سے بھی زیادہ قریب ہے وہ جانتا ہے انسان مفاد پرست ہے اللہ کو یاد کرتا ہے صرف مطلب کے لیے اور جب مطلب پورا ہو جاتا ہے تو اللہ سے منہ موڑ لیتا ہے 
فبیحا انوشہ  نے اس کا کندھا ہلایا جو بے حس و حرکت بیٹھی تھی اس کی پکاڑ پر بھی اس کے وجود میں ذرا سی جنبش نہیں ہوی تھی وہ خالی انکھوں سے اسےدیکھنے لگی پھر بولی تو اتنا کے انوشہ دہل گی
انوشہ کیوں ہمیں اللہ ازماتا ہے کیوں جب وہ جانتا ہے کے اس کے بندے نہیں اتر سکتے اس ازمایش پر وہ تھکے ہوے لہجے میں بولی
فبیحا کبھی اللہ لے کر ازماتا اور کبھی دے کر یہ ہم انسانوں پر منحسر ہے کے ہم اس ازمایش کو کس طرح لیتے ہے ہم جو عبادت کرتے ہے وہ اپنے لیے ہوتی اللہ تو وہ ہے جو اپنے بندوں کو اس کی سوچ سےبھی زیادہ نوازتا ہے اس کی ازمایشیں بڑی نہیں ہوتی پر ہم انسان اسے سر پر سوار کر لیتے ہے انبیا۶ اکرام پر بھی ازمایشیں ای پر وہ ثابت قدم رہے اور اس ازمایش سے نکل اے تم
فکر نا کرو رون بھای بہت جلد ٹھیک ہو جاے گے بس تم اللہ پر بھروسہ رکھو وہ اس کو گلے لگاتے ہوے بولی تو انسوں لڑیوں کی صورت اس کےچہرے ذر بہہ گے اورفبیحا نے انہیں بہنے دیا
      *************************
تم بتاو ہمکو ہمرا مال کب تک دے گا ہیرے خالص ہیرے تم اتنے سالوں سے ٹال رہے ہو ہم کو  وہ ہٹا کٹا ہندوستانی پہلوان کرتا اور لاچا پہنے اس کو گردن سے دبوچے کھڑا تھا اور رانا کے اندر خوف کی لہر دور گی تھی کیونکہ اس کے ارادے بہت خطرناک لگ رہے تھے
کیشور صاحب بات کو سمجھنے کی کوشش کریں میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہو پر وہ اگل کر نہیں دے رہا وہ بے بس انداز میں بولا اس کے چہرے سے خوف ایاں تھا جیسےملکولموت اس کی روح قبض کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہےاور بے شک جو بڑای اور غلط کاموں میں ڈھلے ہوتے ہے جنہوں نے زندگی مین کبھی نیکی نہیں کی ہوتی اپنے اعمالوں سے اور انجام سے اچھی طرح واقف ہوتے ہے تبھی تو ان کو موت سے گبھراہٹ ہوتی ہے کیونکہ کےدنیا کی سختی تو ارضی ہے اور ہم انسانوں کو ارضی چیزوں سے ڈر لگتا ہے اور جب کے جو ازل سے ہے اس کا ہمیں کوی ڈر نہیں انسان پے جب تکلیف اتی ہے وہ دو پل کو سہی رستے پر اتا ہے پھر ویسے کا ویسا نیک انسان تو دنیا کو صرف اخرت کی تیاری کے لیے استعمال کرتا ہے اپنے نفس کو سلا دیتا ہے اور حقیقی زندگی کے لیے محنت کرتا ہے تبھی ان کی دنیا اخرت دونوں روشن ہوتی ہے اور موت کی کوی پرواہ نہیں ہوتی ان کے چہرے نور سے پڑ ہوتے ہے
اے بکواس نا کر کب سےتیری بک بک سن رہا ہو مفت میں تیرے سےکچھ نہیں مانگ رہا تجھے نوٹوں کی گڈیاں دی ہے یہ جو اتنا بڑا محل کھڑا کیا ہے وہ صرف کشور لاکھاری کے بلبوتے پر اب زیادہ شانہ پتی نہیں کرنے کا کیونکہ مجھے اپنا حق لینا بہت اچھے سے اتا ای بات کھوپڑی میں میں مفت میں کسی کو اپنا تھوک بھی نا دو ایک ہفتہ ہے تیرے پاس  پھر میں اوگا اور میں نہیں بولوں گا میری بندوق بولے گی اور اگر مجھے ہیرے نا ملے تو میں ساری کی ساری گولیاں تیرے سینوں میں اتار دو گا ای سمجھ وہ اس کی کنپٹی پر بندوق مارتے ہوے بولا رانا کا تو دماغ بھک سے اڑ گیا کہاں پھس گیا تھا لالچ نے اندھا جو کیا تھا
میں کو شش کروں گا کےاپ کو شکایت کا موقع نا ملے وہ اٹکتے ہوے بولا تو کشور اسے گھورنے لگا
کوشش کرنے والا کام گیا رانا اب مجھے نتیجہ چاہیے سمجھ گے نا وہ اس کو وارن کرتا اپنے ادمیوں کو لے کر باہر نکل گیا اب رانا کو فیصلہ کرنا تھا کیونکہ ہر طرف سے وہ پھس چکا تھا نتیجہ صرف موت تھا اب یہ موت کس کے ہاتھوں لکھی تھی یہ تو وقت کا فیصلہ تھا
         ***********************
سر اپ بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے میں کہہ رہا ہو ان کیڈٹس کی فاینل ٹرینگ میں کر لو گا اگر اپ اس پے نہیں مان رہے تو مجھے وہ کیس دے دیں جو کیپٹن ارون کو ہینڈ اور کیا ہے ا ول ہینڈل اٹ بیٹر عقیل رانا اج پھر برگیڈیر دانش کے افس میں موجود تھا اور وہی راگ الاپ رہا تھا جو پیچھلے چار دنوں سے الاپ رہا تھا اسے تو موقع مل گیا تھا ارون کی جگہ لینے کا اس کی غیر موجودگی میں اسکے تو رنگ ڈھنگ ہی بدل گے تھے پتہ مہیں انسان اتنا خوش فہم کیوں ہوتا ہے اپنے سے قیاس اریاں کیوں کرنے لگ جاتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کے وہ کاتب تقدیر اوپر ہی بیتھا جس نے سب کی قسمتوں کا فیصلہ کرنا کس کو عزت دینی ہے کس کو زلت یہ سب اسی کے ہاتھ میں ہے کیپٹن عقیل اول ٹیل یو دا سیم تھنگ لاسٹ ٹایم اف یو رپیٹ یور ورڈذ اگین سو شیورلی ا ول سسپینڈ یو انڈرسٹینڈ وہ کرخت لہجے میں بولے تو عقیل رانا کو تاو ایا پر وہ اپنے اندر اٹھنے والے اوبال کو دبا گیا
سر اپ بات کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے کیپٹن ارون اب فٹ نہیں ہے اور ہماری فیلڈ میں مس فٹ بندے کی کوی جگہ نہیں خواہ وہ کتنا ہی ٹیلینٹڈ کیوں نا ہو اب یہ تو قسمت قسمت کی بات ہے وہ ہنس کر بولا برگیڈیر دانش کو اس کا رویہ بہت بڑا لگا
ہماری فیلڈ میں تو قیاس اریاں بھی نہیں ہوتی کیپٹن عقیل ہم پریکٹکل چیزوں پر یقین رکھتے ہے یو مے گو ناو وہ تیوری چڑھا کر بولا
سر اگر کیپٹن ارون نے خود یہ کہاں ہو کے وہ ریزاین کر رہے تو وہ ایک پتہ پھینکتے ہوے بولا  دل
بھلانے کو غالب یہ خیال اچھا ارون برگیڈیر دانش کو سلیوٹ کر کے عقیل تک ایا جو کھا جانے والی نظ دل روں سے اسے دیکھ رہا تھا برگیڈیر دانش نے مسکراہٹ دبای
پہلے تو اپ کا بہت شکریہ کیپٹن عقیل کے اپ نے میری اتنی فکر کی کے میری جاب چھڑوانے پر تل گے ہے تاکہ میں لمبا ارام کروں دوسرا یہ کے میں کہاں سے مس فٹ ہو بتایں وہ اپنا ہیلمٹ ایک سایڈ پر رکھتے ہوے بولا تو عقیل نے دانت چباے
یہ تو بہت اچھی بات ہے تم ٹھیک ہو وہ دانت چبا کر بولا تو ارون مسکرا دیا
حلانکہ تم نے کوی کسر نہیں چھوڑی تھی مجھے مارنے کی پر وہ جو بندے تھے نا چچ چچ افسوس ان کا نشانہ چونک  گیاافسوس کی بات ہے نا وہ اس کے کان میں سر گوشی کرتے بولا لہجہ دھیما مگر تھیکا تھا عقیل نے اس کی طرف دیکھا جس کی انکھوں میں شعلے بھڑک رہے تھے اس نے
وہاں سے کھسک لینے میں ہی افیت سمجھی
سر دس از دا ریپورٹ اف پلیس ویر برگیڈیر اویس کڈنیپڈ وہ ایک خاکی رنگ کی فایل ان کے اگے رکھتے بولا تو برگیڈیر دانش نے اچپبے سے اس کی طرف دیکھا کے اس انسان کو بیماری میں بھی چین نہیں وہ ابھی بھی صرف فرض کے بارے میں سوچ رہا تھا ایسے انسان کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہے وہ حیران ہوے تھے
ویسے کیپٹن ارون جتنا میں اپ کےبارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہو اپ کی ذات اور مشکل ہو جاتی ہے وہ فایل کا مطالعہ کرنے کے بعد بولے ارون نے چار دنوں میں بھی ہر لمحہ اس کیس پر ہی کام کیا تھا وہ برگیڈیر دانش کی بات پر مسکرا دیا
سر ہمیں زندگی میں صرف ایک چیز سکھای ہے اپنے فرض سے محبت کرنا اور اس کو خوش اسلوبی سے پورا کرنا اکر کبھی اپنے اپ کو بٹھکتا محسوس کروں تو دل میں احد باندھ لو سچای کا ایمانداری کا سب کچھ اسان ہو جاتا ہے سر جب ہم اس مٹی کے لیے لڑتے ہے تو خود بھی مٹی بن جاتے ہے ہمیں دونوں زندگیوں کو الگ الگ لے کر چلنا پڑتا ہے یہاں ہر دن ہم کفن باندھ کر اتے ہے ا ہمارا اخری دن ہے اور ایسا نہیں ہے کے ہمیں موپ سے ڈر نہیں لگتا یہ تو ہر انسان کو انی ہے پر شہادت کے رتبے پے فایز ہونے والا خوشقسمت کہلاتا ہے اور سر میں اپنی جاب سے بہت فیر ہو میری بہلی ترجیح یہ ملک ہے اس کی حفاظت ہے پھر کوی اور چیز وہ ایک جزبے سے بولتا برگیڈیر دانش کو حیران کر گیا
ای ایم پراوڈ اف یو مجھے پورا یقین ہے تم میرے دوست کو ڈھونڈ لاو گے وہ اسے گلے لگاتے بولے تو ارون کی انکھیں چمک اٹھی
      ********************
علیحہ بیٹا تیار ہو جاو وہ بچہ کب سے ایا بیٹھا ہے فبیحا مال میں تمہارا ویٹ کر رہی ہے جاو بھی حسنہ بیگم اس کے سر پر کھڑی تھی جو بے نیاز بنی کانوں میں ہینڈ فری لگاےلیٹی ہوی تھی
تو ان کو کس نے کہاں ہے انتیظار کریں ثاے میں شودی ڈرایور کے ساتھ چلی جاو گی وہ کہہ کر پھر اپنے گزشتہ سغل میں مصروف ہو گی تھی اس کا یہ انداز حسنہ بیگم کو اور تاو دلا گیا
بہت ہی بڑی بات ہے علیحہ تم دن بدن بہت بدتمیز ہوتی جا رہی ہو یہ سب ارون کا قصور ہے ا لینے دو اسے دیکھو بھلا وہ اتنا سلجھا اتنا پیارا بچہ ہے کب سے ایا بیٹھا ہے مجال ہے ماتھے پے تیوری ڈالی ہو جی جی کرتا پھڑتا ہے اٹھو فورا اور چینج کر کے او بہت ہوگیا ڈرامہ وہ کہہ کر مڑ گی اور علیحہ تو ابھی تک شریف اورپیارے بچے پر اٹکی ہوی تھی بے اختیار اس کے منہ سے استغفراللہ نکلا تھا وہ سر جھٹک کر واشروم گھس گی کچھ دیر میں وہ بلیک ٹوپاور بلیو جینز میں پونی ٹیل کیے سنیکرز پہنے گلے میں مفلر ڈالے نیچے ای تو وہ جو چاے پی رہا تھا وہ اٹھا انکھوں میں ناگواری کا انثر شامل تھا جو علیحہ نے صاف محسوس کیا تھا
چلے وہ بیگ کندھے میں ڈالتے ہوے بولی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا
انٹی اف یو ڈونٹ ماینڈ ایک گلاس پانی مل سکتا ہے فواد مسکراتے ہوے بولا تو حسنہ بیگم کچن کی طرف بڑھ گی اور علیحہ جو چپس منہ میں ڈال رہی تھی اس تک ایا اس کا بازوں پکڑ کراپنی جانب کھینچا اور مضبوط حسار باندھ لیا علیحہ  تو اس اچانک افتاد پر بوکھاہی گی اوپر سے اس کی انگلیاں جو اس کے بازوں می کھب گی تھی
چھ چھوڑے مجھے اپ کا دماغ تو ٹھیک ہے وہ اپنا بازوں اس کی گرفت سے چھڑوانے لگی
دماغ تو تمہارا میں ٹھیک کرتا ہو تمہیں ایک بار کی بات سمجھ نہیں اتی نا میں نے کیا کہاں تھا کے دوبارہ مجھے تم ایسے کپڑوں میں نظر نا او سمجھ نہیں ایا تھا و دانت پیس کر سخت لہجے میں بولا تو علیحہ کا دل ایک دم سے حلق میں ایا پر اگلے ہی لمحہ وہ واپس ٹون میں ای
اپواپنی لمٹس میں رہے مسٹر فواد لاسٹ ٹایم میں نے اپ کا لحاظ اس لیے کیا تھا کے اپ بھابھی کے بھای ہے پر مجھ سے زیادہ فری مت ہو اور یہ پابندیاں اپنی کسی ہوتی سوتی کو لگایے گا ای سمجھ وہ بھی غصہ میں بولی تو فواد مسکرا دیا
شاید نہیں یقینن میں اپنی ہوتی سوتی کو ہی لگا رہا ہو وہ اس کو مزید قریب کرتے بولا تو علیحہ کے چہرے پر لالی گھل گی
ڈریس سینج کر کے او وہ حکمیا انداز میں بولا تو علیحہ دہل گی
نہیں جاو گی صاف گوی سے کام لیا گیا
اوکے ٹھیک ہے وہ چاے کا کپ اس کے کپڑوں پر اڈیلتے ہو ے بولاتو علیحہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی
اب جاو یو ہیو جسٹ فایو منٹس ورنہ میں خود او گا بدلنے منظور ہے تو بولو وہ اس تک ایا تو علیحہ پیر پٹختی اوپر کی طرف بڑھ گی
او ہو بیٹا یہ لو پانی وہ رکشندہ نے پلیٹس توڑ دی تھی صفای کروانے کے چکر میں پانی کا ذہن سے ہی نکل گیا وہ پانی اس کو پکڑاتے ہوے بولی
کوی بات نہیں انٹی وہ مسکرایا
ارے یہ لڑکی کدھر گی ایک تو اس کےنخرے
انٹی وہ چاے گڑ گی تھی تو بدلنے گی ہے وہ معصوم
  سی شکل بنا کر بولا تو حسنہ بیگم سر ہلا گی
                ************
ڈیڈ اپ نے مجھے اتنا ارجنٹ کیوں بلایا مری کون سی ایسی خاص ڈسکشن تھی جو فون پر نہیں ہو سکتی تھی عقیل جنجھلایا ہوا بولا و رانا کو اور تاو ایا
تم تو بس گدھے کے گدھے ہی رہنا اگر تم تھورے عقلمند ہو جاتے تو میں بھی اژ یہ دن نا دیکھ رہا ہوتا وہ میز پر مکہ جھڑتے ہوے بولے تو عقیل اسے نا سمجھی سے دیکھنے لگا
ڈیڈ اپ قو کتنی بار کہاں ہے کے ٹو دا پاونٹ بات کیا کرے مجھ سے  یہ پہیلیاں نہ بھجوایا کریں وہ بھی ستا ہوا تھا
تو اصل بات یہ ہے میری نالایق اولاد مجھے دھمکی مل چکی ہے اس پہلوان سے کے ہیرے دے پر وہ خبیس ذلیل کسھ نہیں اگل رہا اب تم ہی کچھ کر سکتے ہو اس میں تمہارا ہی فایدہ ہے ایک تیر سے دو شکار کرنے ہے وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے بولے
کیا مطلب اپ کا وہ ابھی بھی انجان تھا
بات یہ ہے کے تمہیں ارون حیدر کی کرسی چاہیے اور اس کی بیوی وہ کمینگی سے بولے تو عقیل کی انکھوں کی چمک بڑھ گی اس کو وہ دلکش بھوری انکھیں نظر ای جس نے اس کا سکون تیہو بالا کیا ہوا تھا اور دوسرا یہ کے یہ جو برگیڈیر ہے نا یہ تیری ماشوقا کا نانا ہے اب پلین کچھ یو ہے وہ اسے ساری تفصیل سے بتانے  لگا تو عقیل کی انکھوں کی چمک بڑھ گی تھی اسے اپنی منزل بہت قریب نظر ارہی تھی
بس فبیحا تمہیں میرا ہونے سے کوی نہیں روک سکتا تم میری ہو ارون حیدر بس بہت ہوگی اب تو ایسا وار کروں گا کے تمہاری پشتیں بھی یاد کریں گی ارون کے نام پر اس کی انکھیں شعلے اگلنے لگی
بس عقیل اب ہمیں بڑے سہج سہج کر قدم رکھنے پڑے گے کیوں کے ساری ملٹری اس برگیڈیر کو ڈھونڈ رہی ہے ہمیں احتیاط کرنی ہو گی تم اب جاو میں تمہیں بریف کرتا رہو گا وہ اسے بھیج کر ارام دہ کرسی پر بیٹھ کر انکھیں موند گیا
          *********************
اچھا انٹی اب ہم چلتے انہیں اتار کر مجھے افس جانا ہے وہ صوفے سے اٹھتے ہوے بولا علیحہ جو سیڑیوں سے اتر رہی تھی بلیک شیفون کے ایمبرایڈڈ فراک کے ساتھ سکن ٹراوزر پہنے شیفون کا ڈبٹہ گلے میں ڈالا تھا وہ خونحوار نظروں سےاسے گھور رہی تھی جو اطمینان سے  کھڑا تھا اس دل کر رہا تھا وہ اس کا سر کھول دے
بیٹا اتنی دیر لگا دی تمنے ماشا اللہ اتنی پیاری لگ رہی ہو چلو جاو بچی کب سے انتیظار کر رہی ہے وہ اسے گلے لگاتے بولی
چلے اگے ہی میں بہت لیٹ ہو چکا ہو وہانکھوں میں بھورے شیڈز لگاتے ہوے  بولا تو علیحہ تو تپ ہی گی
تو کس نے کہاں تھا اپ کو اپنا قیمتی وقت ذایع کرنے کو وہ بھی بغیر لگی لپٹی رکھے بولی تو وہ کہکا لگا گیا
وہ کیا ہے نا کچھ کام انسان کو مجبوری میں بھی
کرنے پڑتے ہے وہ قدم باہر کی طرف بڑھاتے بولا تو وہ بھی مجبورا اس کےساتھ ہو لی وہ گاڑی تک پہنچے تو فواد نے ڈرایونگ سیٹ سمبھال تو علیحہ بھی پیچھلی سیٹ کا دروازہ کھولنے لگی تو فواد کے ماتھے پر بل پڑے
ایکسکیوز می میں اپ کا ڈرایور نہیں ہو سمجھی اب کی بھابھی کا بھای ہو عزت دیں سمجھی اگے اکر بیٹھیں وہ اگے کا دروازہ کھولتے ہوے بولا
دیکھیں میرے اپ کے ساتھ ایسے کوی تعلق نہیں جو بلاوجہ لوگوں سے فری ہو اس لیے میں پیچھےہی بیٹھو گی وہ بھی زد کی پکی تھی
اپ اگے ارہی ہے کے میں کوی اور طریقہ ازماوں وہ غزبناک تیور لیے بولا تو علیحہ کا دل دہل گیا وہ فٹ سے اگے بیٹھی تو فواد نےگاڑی اگے بڑھا دی
        *****************
یہ لے کافی فبیحا کافی کا مگ اس کی طرف بڑھاتے ہوے بولی جسے ارون نے تھام لیا وہ بڑی گہری نظروں سے فبیحا کا مطالعہ کر رہا تھا وہ کنفیوز ہو گی
ایسے کیا دیکھ رہے ہے وہ نظریں پھیرتے ہوے بولی تو وہ مسکرا دیا
میں یہ دیکھ رہا ہو کے تم کتنی بے مروت ہو وہ اس کا بازوں کھینچتے ہوے خود میں بھینچتے ہوے بولا تو فبیحا نے خود کو چھڑوانے کی سعی کی
زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ہے کیپٹن صاحب اپ تو دن بدن شرم اتارتے جا رہے ہیں وہ اپنا سرخ چہرہ ہاتھ سے رگڑتے ہوے بولی جہاں ارون نے ایک شرارت کی تھی
بھی جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم اور میں بہت تھکا ہوا ہو مجھے تنگ مت کرنا اور ویسے بھی تم بہت ہی ظالم ہو انوشہ کو دیکھا ہےکیسے شاویز کے اگے پیچھے گھومتی ہے اور تم نے تو نو لغٹ کا بورڈ لگایا ہوتا ہے بیچارا میں وہ معصوم سی شکل بنا کر بولا تو فبیحا کی ہنسی چھوٹ گی ارون کا تو دل اس کی ہنسی میں ہی اٹک گیا تھا جن سے اپ کو محبت ہوتی ہے ان کی تو ہر چیز ہی بھلی لگتی ہے
تیری محبت سے شرشار ہو گے
دل لگی میں ہم کمال ہو گے
          خضرا
لوگ کہیں دیوانہ تو غم نہیں
دیوانگی پا کر تیری مشہور ہو گے
اپ نے شاویز کو دیکھا یقینن وہ اپ کی طرح چھچھورا نہیں ہوگا یقین مانیے وہ کہہ کر اٹھنے لگی تو ارون نے گھورا اور ہاتھ کھینچ کر اپنے قریب کیا
مسز ابھی تو میں نے چھچھوڑ پن دکھایا ہی نہیں ہے وہ اس کے گالوں پر لب رکھتے ہوے بولا
اچھا چھوڑیں انٹی بلا رہی ہے وہ اس کے تیور دیکھ کر بولی جو کے بلکل نیک نہیں تھے
خبردار کہیں گی تو اگے اتنی دیر بعد ہاتھ لگی ہو وہ اس کے گرد حصار  تنگ کرتے ہوے بولا تو فبیحا کو اپنی کم عقلی پر رج کے غصہ ایا
               ***************
کاریشی صاحب وہ جو ڈیلیگیشن انا تھا کب تک پہنچ رہا ہے فبیحہ لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوےبولی
جی میڈم ان کو فون کر دیا ہے بس پہنچتے ہو گے
ٹھیک ہے اپ ان کے لیے ریفریشمنٹ  کا انتظام کریں اور بابا کو بلا دیجیے
اوکے میم میں سر کو بولتا ہو وہ مودبانہ سا بول کر باہر نکل گیا ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کے احسن صاحب اندر داخل ہوے
ہاں جی میرے بیٹے نے مجھے کیوں یاد کیا وہ اس کا ماتھا چومتے ہوے بولے تو وہ مسکرا دی
اپ کی بیٹی نے ایک بہت بڑا کانٹریکٹ دلایا ہے وہ ایک ای میل  پاس کی تو احسن صاحب کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا وہ بے اختیار اس کے ماتھے پر بوسا دیا
مجھے فخر ہے تم پر تم ہمیشہ  میرا بازوں بنی ہو خوش رہو اور خوب ترقی کروں
شکریہ بابا اور اب اپنے بیٹے کے کارنامہ بھی سن لے وہ جو میری نند کو ستانے پر تلا ہے کل میرے بہانے اس بیچاری کو لے گیا ریسٹورینٹ اور اب وہ مجھ سے خفا ہے میرے سے تو ملاقات نہیں ہوی ورنہ پوچھتی اس کے ارادے کیا ہے کیاچاہتا ہے وہ فبیحا غصہ سے بولی
یہ پتا نہیں کن ہواوں میں ہے اس کے رنگ ڈھنگ تو میں بھی دیکھ رہا ہو بس لگتا ہے اس کا بھی انتظام کرنا پڑے گا اب تو خیر سے افس بھی جواین کر لیا ہے وہ کرسی سے اٹھتے ہوے بولے
ہاں لگاو گی چکر گھر پھر کھینچتی ہو اس کے کان کیوں معصوم کو پریشان کرتا ہے وہ بھی لیپ ٹاپ بند کرتی بولی اور وہ دونوں باہر نکل گے
             ***************
ہاں تو علی اپ کو میں نے جس کام کے لیے  بھیجا تھا کہاں تک پہنچا ارون اپنے سامنے کھڑے جوان کو دیکھتے بولا
سر اپ کے کہیں کے مطابق وہ گاڑی جس ادمی کی ہے وہ ادمی وہاں پر ایک ہٹ نما ہاوس ہے وہاں رہتا ہے پر جب میں رات کے وقت وہاں پہنچے تو وہ بلکل خالی تھا وہ نظریں چڑاتے ہوے بولا تو ارون ایک دم کھڑا ہو گیا
تو تم کیا سمجھ رہے تھے وہ جو کوی بھی تھا وہ تمہارا استقبال کرتا کے تم اسے ڈھونڈنے اے ہو وہ دانت پیس کر بولا تو علی اور شرمندہ ہو گیا
سر ہم تو پری پلین کر کے گے تھے پتا نیں کیسے وہ سر اٹھا کر ہلکا سا بولا تو ارون کو اور تاو ایا
کیپٹن علی اپ کیا سمجھتے ہے کے یہ لوگ انکھیں بند کرکے بیٹھے ہوتے ہے انہیں پل پل کی خبر ہوتی ہے اب مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا وہ کرسی پے ڈھے سا گیا
سر ایم سو سوری مجھے بلکل ایڈیا نہیں تھا کے ایسا کچھ ہو جاے گا ہم تو پوری تیاری سے گےتھے وہ شرمندگی سے بولا تو اڑون تھوڑا ڈھیلا پڑا
دیکھے کیپٹن علی یہ معملات بہت نازک ہے یہ کوی چھوٹا کیس نہیں ہے ہمیں ہر چال اور ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھاناہو گا کیونکہ کے ان لوگوں اپنے دوستوں سے زیادہ اپنی دشمنو کا معلوم ہوتا ہے اور سب سے مین بات وہ راز ہے جو اگر دشمن کے ہاتھ لگ گے تو ہماری ساخ کو بہت نقصان ہو سکتا ہے برگیڈیر اویس کو باعزت ہمیں واپس لانا ہے اب اپ جا سکتے ہے اگے کیا کرنا ہے یہ میں خود ہی دیکھ لو گا وہ ایک سانس میں بول گیا تو علی بھی سلیوت کر کے باہر نکل گیا
               *****************
اور سنایں احسن صاحب کیسا جا رہا ہے بیزنس بھی اپ تو مصروف ہی بہت ہو گے ہے چلے ہمیں نا سہی بیٹی کو ہی ملنے اجایا کریں حیدر ملک اپنے مخصوص انداز میں گردن اکڑا کر میٹھا سا شکوہ کرتے بولے تو احسن صاحب مسکرا دیے
اپ کا شکوہ بجا ہے میں اپ لوگوں سے ملنے ایا ہو اپنی بیٹی سے تو میں روز ہی ملتا ہو وہ پیار سے فبیحا کو دیکھتے بولے جو چاے سرو کر رہی تھی
ہاں جی وہ تو جانتے ہے ہم اور بتایں اج حاظر ہونے کا مقصد کیا ہے حیدر ملک چاے کی چسکی لیتے بولے تو احسن صاحب نے فبیحا کی طرف دیکھا کے بات شروع اس نے انہیں تسلی دلای
بات دراصل یہ ہے کے ہمیں اپ کی بیٹی علیحہ بہت پسند ای ہے میں فواد کے لیے اس کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہو ان کی بات پر فواد کے سہے پر قیزو قزراع کے رنگ بکھر گے پر حیدر ملک چپ سے ہو گے
احسن صاحب بات دراصل یہ ہے کے فواد تو مجھے بھی بہت پسند ہے ہر لحاض سے پرفیکٹ ہے اور کیا چاہیے ہمیں پر میں کوی بھی فیصلہ علیحہ کے رضامندی جانے بغیر نہیں کرو گا ای ہوپ اپ سمجھے گے حیدر ملک دھیمے لہجہ میں بولے
حیدر ملک صاحب علیحہ کو میں نے بھی اپنی بیٹی ہی مانا ہے فیصلہ اپ کا ہے اپ پوری تسلی کریں ای ہوپ میں نا امید نہیں لوٹوں گا احسن صاحب مسکرا کر بولے
پر میرا فیصلہ نا ہے میں یہ شادی بلکل نہیں کروں گی انکل ایم سوری ٹو سے مجھے ابھی پڑھنا ہے اپ میری طرف سے نا ہی سمجھے پتا نہیں علیحہ کب ای اور کب گی کچھ پتا نا چلا وہ فواد کی شعلہ اگلتی انکھوں کا اثر لیے بغیر وہ کہہ کر تن فن کرتی کمرے میں چلی  گی فواد نے اپنے لب بینچے حیدر ملک اور حسنہ بیگم اپنی جگہ شرمندہ ہوے
اچھا حیدر ملک صاحب ہم چلتے ہے پھر اے گے وہ ان کے گلے لگتے ہوے بولے وہ ان کو اور شرمندہ نہیں کرنا چاہتے تھے فواد بھی خوش اخلاقی سے ملا پر دل ہی دل میں علیحہ کی خبر لینے کا احد کر چکا تھا
           ***************
کیپٹن ارون عالیان اور کیپٹن احد اپ لوگوں نے بہت محنت کی ہے اس کیس میں جو کے اپ لوگوں کے کام میں مجھے نظر اہی رہا ہے ویل ڈن اخر کیپٹن ارون نے اپنی قابلیت دکھا ہی دی اور اس کھٹیا انسان کا نام معلوم کر ہی لیا اس سب کے پیچھے کیپٹن رشید رانا کا ہاتھ ہے جو کے انتہای لالچی انسان ہے اور اگر میں ٹھیک ہو تو وہ اسی بیچ میں تھا جس میں برگیڈیر اویس کام کرے تھے برگیڈیر دانش نے تینوں کی طرف دیکھا جو سنجیدہ سے کھڑے تھے ان کی بات پر تینوں نے تاعید کی
یس سر یو ار رایٹ اور یہ سب ایک سوچی سمجھی شازش ہے اور مری میں رکھا تھا انہیں اور وہ یہ چاہتا ہے کے ہیرے اور راز کے بارے میں ساری انفورمیشن اسے ملے تاکہ وہ انڈیا کےحوالے کر کے پیسے لے سکے ارون نے دانت پیس کر بولا
تھا سے کیا مطلب ہے ارون وہ اب مری میں نہیں ہے وہ ایک ابرو اچکا کر بولے
جی سر ہی واز لیو ڈیٹ پلیس بٹ یو ڈونٹ وری اسے تو میں پاتال سے بھی نکال لاو گا وہ ایک عزم سے بولا تو برگیڈیر دانش مسکرا دیے
خدا تم جیسا زبہ سب کو دے ہمیشہ یاد رکھنا جن کے ارادے مضبوط ہو اور اللہ پر کامل یقین ہو تو سب کچھ اپ کے حق میں ہوتا ہے کتنی ہی غزوہ میں مسلمان جیتے تھے کیونکہ کے ان کی تعداد اور اسلحہ کافروں سے ادھے سے بھی تھوڑا تھا پر وہ جیتے تھے کیونکہ ان کا ایمان مضبوط تھا اللہ پر یقین تھا اللہ اکبر کہہ کر سب کچھ اللہ کے حوالے کر کے وہ میدان جنگ میں اترتے تھے اور بے شک فتح یاب ہوتے تھے کیونکہ اللہ سے بہتر حکمران کوی ہو ہی نہیں سکتا اللہ تم لوگوں کی مدد فرمایں وہ بولے تو وہ تینوں مسکرا دیے
تھینکس سر اسلاموعلیکم وہ تینوں سلیوٹ کر کے جانے لگے کے ارون برگیڈیر دانش کی اواز پر رک گیا
یس سر وہ مودب سا بولا تو بر گیڈیر دانش نے مسکراہٹ دبای
کیپٹن ارون اپ کو پتا ہے برگیڈیر اویس اپ کی وایف کے نانا ہے برگیڈیر دانش نے بوم پھوڑا تھا اپ اب اپنے طریقہ سے ان سے پوچھیے گا وہ کہہ کر ارون کے سہرہ دیکھنے لگے
ک کیا برگیڈیر اویس فبیحا کے نانا اب مجھے اس کی غلط فہمی سمجھ ای وہ ڈھیلا پڑا تھینکیو سر اپنےیہ بتا کر پرابلم سولو کر دی وہ کہہ کر باہر نکل گیا اب اسے فبیحا کی غلط فہمی دور کرنی تھی
          ****************
علیحہ واشروم سے نکلی تھی اپنے سلیپنگ ڈریس میں تھی اچانک اسے کسی ہل چل  محسوس ہوی اس سے پہلے وہ کچھ بولتی کوی بہت بےدردی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا وہ اس اچانک افتاد پر بوکھلا ہی گی ابھی وہ سامنے چہرہ دیکھتی کے کوی اسے بے دردی سے دیوار سے لگا چکال تھا علیحہ نے پھٹی پھٹی انکھوں سے سامنے فودد کو دیکھا جو بلیک ٹیشرٹ پر گرے پینٹ پہنے انکھوں میں لالی لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا علیحہ تو اس کے تیور دیکھ کر دہل گی
چھو چھوڑیں مجھے درد ہو رہی ہے وہ اپنے بازوں اس کی گرفت سے نکلوانے کو مچلی جو اس کے گوشت کے اندر پیوست ہو گی تھی اس کے جارہانہ اندازپر علیحہ کے انکھوں سے سیل رواں تھا
کیا سمجھتی ہو تم خود کو تمہاری جرت کیسے ہوی انکار کرنے کی وہ اس کا منہ دبوچتے ہوے بولا تو علیحہ بھی بگڑی
اپ ایک انتہای جنگلی اور وحشی ہے میں اپ کی غلام نہیں ہو جو اپ کے ہر حکم کو سر انکھوں پر رکھو ای سمجھ میری مرضی میں نے کر دیا انکار اور اپ نے مجھے تکیف پہنچانے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے میں اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتی وہ تو پھٹ پڑی تھی فواد کو مزید تاو ایا
ابھی تو تمہیں میں نے جنگلی پن دکھایا ہی نہیں اور شادی تو تمہیں مجھ سے کرنی ہی ہو گی وہ اسے اپنی طرف کھینچتے ہوے بولا تو وہ ایک ٹوٹی شاخ کی مانند اس سے جا لگی وہ اس پر چھکنے ہی لگا تھا کے علیحہ کا سسکی سنای دی وہ صرف اسے ڈرانے ایا تھا کے وہ شادی کے لیے ہاں کر دے
چپ کروں وہ اس کے انسوں صاف کرتے  ہوے بولا تو وہ دور ہٹی 
خبردار جو میرے نزدیک اے اپ کو جان چکی ہو میں شادی کے لیے میں کر دو گی ہاں اور کچھ وہ برف لہجے میں بولی تو فواد اس کی پشت کو گھورتا باہر چلا گیا
      ******************

             

Mavrai MuhobbatWhere stories live. Discover now