mavrai muhobbat

597 23 13
                                    

قسط نمبراٹھ
ارون یار میں تو بہت کنفیوز ہو وہ منہوس تو لے اڑا نا برگیڈیر کو عالیان نے جنجھلا کر کہاں
عالیان یہ تو میرا اب خود سے عہد چاہے مجھے پاتال سے بھی ڈھونڈنا پڑے تو میں ڈھونڈو گی پہلے تو یہ میری زد تھی اب اس میں احساسات بھی شامل ہو گے ہے تمہیں پتا ہے وہ فبیحا کے نانا ہیں وہ سیدھا ہو بیٹھا عالیان نے پھٹی ہوی انکھوں سے اسے دیکھا
نا کر یار کیا مزاخ ہے عالیان نے ناک سے مکھی اڑای تو ارون نے اسے گھورا تو وہ چپ ہوا
یار اب مجھے سمجھ ای کے وہ کیوں اتنی بدظن تھی اس پرفیشن سے اسے لگتا تھا کے اس پرفیشن کی وجہ سے اس کے نانا کا انتقال ہوا اور انہوں نےپوچھا بھی نہیں وہ سرد اہ بھرتا بولا کیا کیا نا سہا تھا اس بیچارے نے وہ سوچ کر ہی ارون کو غصہ ایا تھا
او ہو یار یہ تو تیرے ساتھ بہت ظلم ہوا یعنی کریں کوی اور بھرےکوی بیچارا چچ چچ عالیان اسے چیڑاتے ہو ے بولا تو ارون نے سخت گھوری سے نوازا
اچھا اب تو پتا چل گیا نا اب تمہیں بھابی کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے وہ اس سے مخلصانہ مشورہ دیا
بہت شکریہ اپ کے مشورے کا وہ نمبر ملا ہے نا تو ٹریس کروں اسے اور لوکیشن بتاو انٹیلیجنس سے تو میری بات ہوی ہے تم کام شروع کروں تھیک ہے وہ کہہ کر دوبارہ لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلای تو وہ بھی سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا
********************
بہت بہت مبارک ہو اپ کو حید صاحب اپ سوچ نہیں سکتے کے مجھے اپ نے کتنی بڑی خوشی دی ہےوہ علیحہ کو پیار کرتے ہوے بولے تو وہ مسکرا دیے
احسن صاحب اپ کیوں مجھے شرمندہ کر رہے علیحہ اپ کی بھی بیٹی ہے ہمیں تو اس رشتہ سے پہلے بھی اعتراض نہیں تھا اب تو ہماری بیٹی نے بھی ہاں کر دی وہ علیحہ کو محبت سے خود سے ساتھ لگاتے ہوے بولے جو بے تاثر چہرے کے ساتھ سر جھکاے کھڑی تھی فبیحا کب سے علیحہ کے چہرے کو دیکھ رہی تھی اور کچھ کھوجنے کی کوشش کر رہی تھی
ڈیڈ اپ لوگ شادی کی ڈیٹ فکس کریں میں علیحہ کو لے کر جا رہی ہو چاے پیجیے فبیحا علیحہ کو لے کر اس کے کمرے کی طرف بڑھ گی
کمرے میں اکر اس نے علیحہ کو بٹھایا اور غور سے دیکھنے لگی
کیا ہوا بھابی ایسے کیا دیکھ رہی ہیں وہ دھیمے لہجے میں بولی
دیکھ رہی ہو لوگ ڈبل فیس کیسے ہو سکتے اپنے چہرے پر دوھڑا نقاب چڑھا کر پھرتے پر میں ایک بات بتاو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا وہ بغور اسے دیکھتے بولی تو علیحہ نظریں چڑا گی
بھابی وہ ابھی کچھ بولتی کے وہ بات کاٹ گی
میری بات پوری ہونے دو وہ دھیمے سے بولی تو علیحہ چپ ہوگی
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے تم کسی کے دباوں میں اجاو گی اور ڈر سہم کر فیصلہ کروں گی تف ہے تم پر علیحہ تم میری بہن ہو تمہیں مجھ سے شیر کرنا تھا اگر تم اس رشتہ سے خوش نہیں ہو تو میں ابھی سب کچھ ختم کر دیتی اس کے بولنے کی دیر تھی علیحہ تو زور وشور رونا شروع ہو گی کے فبیحا بوکھلا گی تھی
علیحہ پلیز کول ڈاون چپ کروں اور بتاو کیا ہوا وہ بولی تو علیحہ نے ساری بات اس کے غوش گزار دی علیحا کا تو میٹر ہی شاٹ ہو گیا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے فواد اس طرح کی حرکت کر سکتا ہے اس کو بہت شرمندگی ہوی تھی
مجھے معاف کر دو علیحہ میں تمہاری تکلیف ہی نہیں سمجھ پای فبیحا واقعہ ہی شرمندہ ہوی تھی
بھابی اپ کیوں شرمندہ ہورہی ہے غلطی اپ کی تو نہیں جس کی ہے وہ مان نہیں رہے کوی بات نہیں شاید قسمت میں یہی ہے ڈونٹ وری وہ بظاہر مسکرا کر بولی تھی اندر تو دل خون کے انسوں رو رہا تھا
ایم سوری علیحہ اس کے توکان میں کھینچو گی اس کا طریقہ غلط تھا پر وہ تم سے محبت کرتا ہے پلیزانکار مت کرنا میں تمہیں یقین دلاتی ہو سب ٹھیک ہو گا فبیحا نے یقین دلایا تو وہ بس سر ہلا گی
********************
سردی اپنے جوبن پر تھی جنوری کا وسط تھا لاہور میں رات ڈھلی ہوی تھی ہر سو خنکی چھای ہوی تھی پرند چرند سب اپنے گھروں میں جا گھسے تھے ارون بھی اپنی ہیلیکس کو پورچ میں پارک کرتا ہوا اندر کی جانب بڑھ گیا اج اس کے انگ انگ میں تھکن واضع محسوس ہورہی تھی اس کے اعصاب سخت تھکے ہوے تھے وہ بس سونا چاہتا تھا مسلسل کام کرنے کی وجہ سے اس کے پورے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا وہ کمرے میں داخل ہوا جہاں اس کی متاعے حیات گہری نیند کی وادیوں میں تھی ارون کے لب خوبصورت مسکراہٹ میں ڈھلے تھے فبیحا کا سر ٹیک لگنے کی وجہ سے ادھا نیچے ڈھلک رہا تھا ارون نے اگے بڑھ کر اس کا سر تکیے پر ڈالا اور اس کے چہرے سے بال پیچھے کیے اور فریش ہونے چلا گیا پانچ منٹ بعد وہ ڈھیلے ڈھالے ٹراوزر شرٹ میں واپس ایا تو وہ ابھی بھی سکون سے سو رہی تھی وہ اج فبیحا کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا تھا وہ اس کے قریب کھسکا اور اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا اور اس کے کان کے قریب جا کر اہستہ سے بولا تو فبیحا ہڑبڑا گی بے اختیار اس کی نظر ارون پر گی تو اس کی شرارت سمجھ گی
اپ اپ کب اے وہ اپنے تاثرات نارمل رکھتے ہوے بولی تو ارون ہنس دیا
ابھی ایا ہو جب تم کدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی وہ اس کو اپنے قریب کھسکاتے ہوے بولا فبیحا کا تو سارا خون چہرے میں سمٹ ایا
ویسے کیا ہو جاے کیپٹن صاحب اگر اپ اپنا یہ چھچھوڑ پن والا انسان اندر سے نکال دے فبیحا اسے گھورتے ہوے بولی جو اس کی گھوری کا اثر لیے بغیر اپنے کام میں مصروف تھا
کیا کروں جا جسے اپ چھچھوڑپن کہہ رہی ہے وہ رومینس ہے اور اپ یہ حرکتیں کر کے ہمیشہ میرے رومینس کا نست مار دیتی ہے اور ویسے بھی یہ تو ہر مرد کی فطرت ہوتی ہے جو کبھی نہیں بدلتی وہ اس کی گردن پر لب رکھتے ہوے بولا تو فبیحا نے نفی میں سر ہلایا
اچھا چھوڑیں مجھے سونا ہے پھر صبح افس کے لیے بھی اٹھنا ہوتا ہے وہ اسے نو لفٹ کا بورڈ دکھاتے بولی
فبیحا ایک بات بتانا سچ سچ اور تم یہ بات بتاو گی تمہیں شایستہ انٹی کی قسم ارون ایک دم سنجیدہ ہوا فبیحا تو حیران رہ گی کے ارون کو اچانک کیا ہوگیا
کیا مطلب کیا کہنا چاہ رہے ہے ایس کون سی بات ہے جس کے لیے اپ کو میری مری ہوی ماں کو بیچ میں لانا پڑ رہا ہے فبیحا کو ارون کی بات بلکل پسند نہیں ای تھی ارون اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا بولا
ایم سوری جاناں اگر تمہیں بڑا لگا پر یہ ضروری تھا تم اج مجھے بتاو کے تمہیں ایر فورس کیوں اتنی نا پسند ہے کیوں تم اس شعبے سے نفرت کرتی ہو میں بتا نہیں سکتا جب تم اس شعبے کے لیے ذہر اگلتی ہو میرے دل پر کیا گزرتی ہے میں نے بچپن سے اس شعبے کے خواب دیکھے ہے اور اس خواب کو پروان چڑھایا ہے میں اس کے لیے بہت حساس ہو یہ جو یونیفورم اور بیجیز ہے یہ صرف پریزنٹیشن نہیں ہے اپ پہن لے تو بہ خوبصورت لگے گے عام لوگوں کے لیے یہ صرف عام یونیفورم ہ پر ہمارے لیے یہ ہماری زںدگیی کی حقیقت ہے ہم جیتے ہے اس یونیفوم کے لیےاور مرے گے بھی ایسے اس یونیفورم کو پانے کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ بہت دردناک ہوتے ہے یہ شعبہ اپ کے اندر احساس مار دیتا صرف محبت بچتی ہے وطن کی محبت اور ایسے میں کوی اپ کو کہہ دے کے نفرت ہے اس شعبے سے تو سوچوں کیسا لگے گا اس انسان کو جس نے اسے پوری زندگی دے دی ہو وہ بول کر چپ ہوا اور فبیحا کو دیکھنے لگد جو بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی
اتنی تقریر کا مقصد کیا ہے کیپٹن صاحب وہ کیپٹن پر زور دے کر بولی زخم جیسے پھر سے کرید لیے گے تھے وہ بے اختیار چوبیس سال پیچھے چلی گی تھی
اس تقریر کا مقصد یہی ہے جانم کے میں جان سکو کے اخر کیوں اتنا ذہر ہے تمہارے دل میں وہبھی سنجیدگی سے بولا
میرے نانا برگیڈیر تھے ایر فورس میں انہیں بھی اپ ک طرح عشق تھا اپنی قوم سے وطن سے وہ کہتے تھے پرواز میرا جنون ہے میں اڑنا چاہتا ہو اور پاکستان کو بھی بلندیوں پر دیکھنا چاہتا ہو ان دنوں نانا کو نیا نیا برگیڈیر کا عہدہ ملا تھا اور وہ بہت خوش تھےان کے تو پاوں زمین پر ناٹکتے تھے ماما اور میں نانا کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ ڈیڈ جرمنی ہوتے تھے میں نانا کو پاپی کہتی تھی ان کو اپنا بابا سمجھتی تھی وہ سکول سے مجھے لے کر انا جانا میری ہر چھوٹی بڑی خواہش پوری کرتے ماما ان کی اکلوتی بیٹی تھی نانی تو ماما کے انٹر کے دوران ہی فوت ہو گی تھی مجھے وہ اپنا گولو کہتے تھے انسوں فبیحا کی انکھوں سے لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے پورا وجود ہچکیوں کے ذد میں تھا ارون نے اس کو چپنہیں کرایا جو لاوا اس کے اندر پک رہا تھا خود سے محبت کرنے والے لوگ جب بچھر جاے تو انسان کس اذیت سے گزرتا ہے یہ تو وہ انسان ہی بت سکتا ہے جس پر بیتی ہو
فبیحا کیا ہوا تھا ان کے ساتھ کچھ وقت کے توقف کے بعد ارون بولا تو فبیحا کے اندر درد کی لہر سرایت کر گی
ان دنوں نانا بہت پریشان تھے انڈیا کے انٹیلجنس اورکچھ سیاست دان بہت اہم راز اگلوانا چاہتے تھے انہوں ںے دو تین فضای حملہ کیے جس کا نانا نے انہیں منہ توڑ جواب دیا اس ٹیم کو نانا لیڈ کر رہے نانا کے بہت کلوز فرینڈ تھے دانش انکل جو ان سے نچلے عہدے پر تھے وہ دونوں رات دن محنت کر رہے تھے اپنی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کے ایک فون کال نے میری اور ماما کی زندگیمیں ادھم مچا دیے ان کے بیس سے فون ایا کے برگیڈیر اویس شہید ہو گے ہے اور دفنا دیا گیا ہے پر میں اچھے سے جانتی ہو یہ حقیقت نہیں ہے میں تو چھوٹی تھی ژو ماما لوگوں نے کہاں میں نے سچ مان لیا مجھے نفرت اس لیے ہوی کے کسی نے بھی میرے نانا کو ڈھونڈھے کی کوشش نہیں کی کیا فایدہ اس عھدے کے لیے ژان مارنے کا اب کےوہ بولتے ہوے پھوٹ پھوٹ کر رو دی ارون نے اسے اپنے مضبوط حصار میں لیا تھا وہبھی اس کی پناہوں میں اپنا دل کا بوجھ ہلکا کرنےلگی
فبیحا میرے پاس ایک اچھی خبر ہے وہ اس کا چہرہ اوپر اٹھاتے بولا تو فبیحا نے نا سجھی سے اسے دیکھا
تمہارے نانا زندہ ہے بس انہیں کچھ لالچی لوگوں نے کیڈنیپ کر لیا ہے پر تم فکر نا کروں یہ میرا تم سے وعدہ ہے میں انہیں تم سے ضرور ملاو گا اور صحیح سلامت وہ اس کی پیٹھ سہلاتے ہوے بولا تو فبیحا بھی انکھیں موند گی تھی
******************
اسلام وعلیکم سر ارون برگیڈیردانش سلیوٹ مارتے ہوے بوا تو وہ ارون کا اطمینان چہرہ دیکھ کر شرشار ہو گے تھے وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے بولے تو بھی بیٹھ گیا
وٹ ہیپنڈ جینٹل مین بڑے ریلیکس ہو وہ دونوں ہاتھ اپس میں جکڑے اگے کو ہوے تو ارون ہلکا سا مسکرا دیا
سر جب انسان کا دل ودماغ ریلیکس ہو تو چہرہ پر بھی تاثرات نارمل ہی رہے گے نا وہ مسکرایا
ڈیٹس گوڈ ناو کم ٹو پواینٹ کیا ریپورٹ ہے اس گھٹیاں ادمی کا ٹھکانہ پتا چلا کہاں پر ہے وہ برگیڈیر دانش سنجیدگی سے بولے وہ پل میں اپنے تاثرات بدل لیتے تھے یہی تو اس پروفیشن کا فن ہوتا ہے کے اپ اپنے اپ کو حالات کےمطابق ڈھال لے چاہے اپ کے اندر کتنے بھی جکڑ چل رہے ہو اپ لوگوں کو مسکرا کر دکھایا اسی کا نام تو ضبط ہے
یس سر الحمداللہ اب تک تو جو جگہ ٹریس ہوی ہے وہ ابھی وہی ہے پنڈ دادن خان میں ایک جھونپڑی نما گھر میں موجود ہے پر سر یہ تو اپ انتے ہے کے ایسے لوگ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ویسے تو سب کچھ پری پلین ہی ہو رہا ہے جس انڈیا کے گینگسٹر کو اس نے ہیرے دینے تھے وہ اس وقت ہمارےقبضے میں ہے اور اس کی جگہ ہمارا اپنا بندہ اس کے پاس گیا تھا اور سارا کچھ اگلوایا لیا اب وہ جہاں بھی جاے گا ہمارا فوکس اسی پر ہے ڈونٹ وری نا تو میں ان رازوں کو کہیں جانے دو گا نا ہی برگیڈیر اویس کو یو جسٹ ویٹ اینڈ واچ سر شاید گناہ کرنے والے کو اللہ معافی دے دیں پر غدار کو کبھی معافی نہیں ملتی اور اس کو تو میں نہیں چھوڑو گا اس کی انکھیں شعلے لپیٹے ہوے ضبط سے مٹھیاں بینچ لی تھی
ارون سزا تو اس کو ملے گی اس نے ہماری ساخ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے مجھے تو سمجھ نہیں اتی ایسی نیت کے لوگ کیوں داخل ہو جاتے اس فیلڈ میں جہاں ملک کی ترقی کے لیے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان ایک کر دیتے ہے وہی کچھ غدار ملک کی جڑیں کاٹنے کے لیے سر گرم رہتے ہے پر جو لوگ اپنے انجام کی پرواہ کے بغیر کام کرتے ہے ان کی سزا بھی سخت نویت کی ہوتی ہے نا صرف یہاں بلکے اللہ کے پاس بھی ایسے لوگ جن کے اندر احساس اور سہی غلط کا فرق ختم ہو جاتا ہے وہ لوگ انسانوں کی کیٹیگری سے نکل جاتے ہے اور ان کے لیے معافی کی کہی کوی گنجایش نہیں بچتی اب بس ہم اس کے بہت قریب ہے پلیز ہر کام سیفلی کرنا بیسٹ اف لک
یس سر تھینکیو سر ارون سلیوٹ مار کر باہر کی طرف بڑھ گیا برگیڈیر دانش ذرا ڈھیلے ہو بیٹھے اب دیکھنا یہ تھا کے ارون اپنے مشن میں کس حد تک کامیاب ہو سکتا یا ایک نیا موڑ اے گا زندگی میں یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے
*****************
اپیا پلیز کان تو چھوڑیں ٹوٹ جاے گا فواد اپنا کان چھڑواتے ہوے بولا جو فبیحا کی گرفت میں تھا
دل تو میرا کر رہا ہے تمہیں جوتے لگاو وہ سخت لہجہ لیے بولی تو فواد کو حیرت ہوی
کیوں اپیا اپ ایسے کیوں بول رہے کیا کیا ہے میں نے وہ کان سہلاتے ہوے بولا
تم نے علیحہ کو ڈرایا اور ہر وقت اس پر غصہ کرتے رہتے ہو میں پوچھ سکتی ہو کس بنا پر وہ تیوری چڑھا کر بولی انداز میں سنجیدگی گھلی ہوی تھی
یار اپی وہ میری محبت ہے جسے اپ سمجھ رہی ہے کے میں اسے ڈراتا ہو وہ تو بس اس کی عقل ٹھکانے لگانی تھی وہ ارام سے بولا تو فبیحا کو اور تاو ایا
سدھر جاو فواد وہ اتنی معصوم پیاری لڑکی ہے اور تم کیسے پیش ارہے ہو اس کے ساتھ یہ کام بلکل ٹھیک نہیں ہے ای سمجھ سب کچھ زبردستی نہیں ہوسکتا ای سمجھ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے اور اس میں دلی امادگی ہونی بہت ضروری ہے وہ اپنے بھایوں کی لاڈلی ہے یہ تم نے کبھی سوچا ہے اگر ارون کو یہ بات پتا چلتی کے تم نے کیا کیا ہے تو میں کیسے جواب دیتی اگر تمہیں اس کی کسی بات سے مسلہ ہے تو اس کو ارام سے بھی تو حل کیا جا سکتا ہے نا وہ اس کا بازوں تھامتی بولی اور فواد تو اس کے پیارا اور معصوم کہنے پر غش کھا گیا
خدا کا خوف کریں اپیا وہ اور معصوم اتنی گز بھر لمبی ڑبان ہے اس کی فواد تو تنک کر بولا
تو تم کیا چاہتےہو تم جو مرضی ظلم ڈھاوں اس کے ساتھ اور وہ گونگی بنی سہتی رہے ابھی شادی ہوی نہیں ہے اس لیے لمٹ میں ہی رہو وہ اسے گھورنےلگی
اپیا اچھا سوری نا میں نے اسے ایسی ڈریسنگ کرنے کے لیے منا کیا تھا کیونکہ اس طرح مجھے اچھا نہیں لگتا تھا جس کو اپ پسند کریں پہلے اس کی عزت کی حفاظت اپ پر لازم ہوتی ہے بس مجھے غصہ اگیا اور کوی بھی مرد کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کے اسکو ریجیکشن ملے بس یہی وجہ تھی فکر نا کریں میں کر لو گا ٹھیک نا ہوی تو کوی اور حربہ ازمایں گے وہ ایک اکھ دبا کر بولا تو فبیحا نےایک چپت لگای تو وہ مسکرا دیا
*********************
اج ایک ظعیف وجود کو سرد فرش پر لٹایا گیا تھا اور اس کے ہاتھ باندھے گے تھے اتنے سالوں قید میں رہنے کے بعد تو اچھےخاصے انسان میں بھی سختی اجاتی ہے اور جو پہلے سے مضبوط ہو وہ اور سخت ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے برگیڈیر اویس بھی سخت جان ہو گے تھے ٹھنڈے جسم میں ان کا جسم اکڑ سا گیا تھا چوبیس گھنٹے ایک جگہ پر سخت جامد بیٹھنا ایک مشکل مرحلہ ہے پر برگیڈیر بلال نے قسم کھای تھی وہ کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں انے دےگے چاہے جان چلی جاے پر وطن سے غداری نہیں کریں گے وہ ابھی زہن میں تانے بانے جوڑ رہے تھے کے کوی ان ک پشت پر ٹھڈا مارا
میرا خیال ہے اتنی اذیت کافی ہے برگڈیر اویس اب جلدی سے راز اگل دو ورنہ اس سے بڑا کروں گا اس سے بڑا کیا ہو گا رانا کے تم نے اتنی سختی کی ہے کے اب مجھ میں روح کی بس ہلکی سی امیزش رہ جاتی ہے اور جسم کھوکھلا ہو جاتا اور خالی پھوک کو کیا تکلیف ہو سکتی تم نے جتنا ٹل لگانا ہے لگا لو نست ونابود ھو گے تم تمہارے نصیب میں دردناک موت ہے رانا میں نے تمہیں کہا تھا کے اپنی بربادی کا انتیظار کروں
کر لی بکواس تمہیں کتنی دفہ کہا ہے کے بلاوجہ کا لیکچر نا دیا کروں سمجھ گے نا میں جیسا ہو ویسا ہی ٹھیک ہو تمہاری طرح ہوتا تو اج اس چالت میں ہوتا وہ تنظیا بولا
یہ تو تمہیں بہت جلد اندازہ ہو جاے گا کے کون فایدہ میں اورکون کھسارے میں رہتا ہے وہ انکھوں میں نفرت لیے بولے تو رانا اسطاظیہ ہنسا
تم مرنے کو پہنچے اورپھر بھی اتنی لمبی لمبی ہانک رہے یہ تمہیں سوٹ نہیں کرتا وہ ان کا منہ دبوچتے بولا تو وہ ہنس دیے
رانا دل ہی بہلانا جو مرضی کہہ کربہلا لو پر اندر سے تو روح تمہاری کانپ ہی اٹھی ہے کے یہ تمہارا قصہ ختم وقت سب کچہ سکھا دیتا ہے اور تمہارا انجام وقت ہی تمہیں بتایں گا بس دیکھتے جاو وہ نفرت سے پھنکارتے رانا کو لاجواب کر گے تھے اور سچ تو یہی ہے بڑے کا بدلا بڑ ا ہی ہوتا ہے دل بہلا لینے سے اپ کا مکرو چہرہ نہیں چھپتا اپ دنیا سے تواپنا اپ چھپا لیتے ہے پراس ذات سے کیسے چھپایں گے جو شے رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہوتا ہے انسان کے پر انسان سب کچھ جانتے ہوے بھی اندھا بن جاتا ہے
***************
کہتے ہے زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور یہ سچ بھی ہے اسی زندگی میں اگر ہم اچھے کام کرتے ہے تو دنیا بھی بہتر اور اخرت تو بہتر ہی ہو گی کیوں کے ہمارا دنیا میں انے کا مقصد اپنی اخرت کی تیاری کرنا ہے ہم نماز روزہ کرتے ہے تو سمجھتے ہے ہمارا فرض پورا ہو گیا جب کے سچ تو یہ ہے کے یہ تو فرضی عبادت ہے جو کرنا لازم ہے ہم نے کبھی یہ غور و فکر کیا ہےکے ہم کیوں نہیں چھوڑتے جھوٹ کو کینہ اور حسد کو لالچ کو یہ سب اگر ہم چھوڑ دے تو ولی نا ہوجاے بات تو نفس کی ہے جو ہمارے اندر نیے سے نیے جزبے کو پنپتا ہے یہی حال رانا کا ہے اس کو اتنی بار شکست ملی پر ہدایت وہی لیتا ہے جیسے اللہ چاہتا ہے ہدایت ملے پر کچھ لوگوں کےنصیب میں ہدایت نہیں ہوتی وہ تو دنیا میں اتےہی اس لیے ہے کے عبرت کا نشان بن سکے اور لوگوں کے لیے عملی نمونہ کے غلط نیت والوں کا انجام بھی دردناک ہی ہوتا ہے
سر میں نے تو اپنی طرف سے ہر کوشش کر کے دیکھ لی پر سب بے سود وہ تو کچھ نہیں اگل رہا بڑا ہی ڈھیٹ واقع ہوا ہے رانا کی انکھوں میں شعلے تھے جو مخالف کی بات سن کر اور بھڑک گے
سر سر پلیز بات کو سمجھے اپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا باہر ساری پراپرٹی میں نے بہت محنت سے اکھٹی کی تھی اپنا پروفیشن بھی اس لیے چھوڑا تھا کیونکہ مجھے دولت کی چاہ تھی جو کے اس پروفیشن میں رہتے سالوں بھی میں اتنے نا کما سکتا جتنے میں نے چند سالوں میں کماے ہے مجھے بس اخری موقع دے میں وعدہ کرتا ہو اپ کو مثبت جواب ملے گا وہ ایک ہی سانس میں بولا پر مخالف تو جیسے کان لپیٹے بیٹھا تھا کچھ بھی سنے بغیر فون بند ہو چکا تھا اور رانا ہیلو ہیلوں کرتا رہ گیا اس کا دل کیا دنیا کو اگ لگا دے اگلے ہی نمبر اس نے فوناٹھایا اور نمبر ملایا نمبر مصروف جا رہ تھا اور رانا کا ظبط ختم ہو رہا تھا اس سے پہلے وہ فون دیوار میں مارتا دوسری جانب فون اٹھا لیا گیا تھا
ہاں عقیل تم اپنا کام کب کر رہے ہو میرے پاس بلکل وقت نہیں ہے جو کرنا جلدی کروں وہ اپنی کہہ کر فون رکھ گیا اور سگار جلا لی اپنے اندر پکتے لاوے کو بھی تو ٹھنڈا کرنا تھا پر رانا جانتا نہیں تھا کے بڑے کام کی صرف ایک مدت ہوتی ہے زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا اور رانا گا وقت اچکا تھا
*******************
اوکے زیشان صاحب اپ کی پریزنٹیشن تو بہت اچھی ہے ای ہوپ ہم دوسری کمپنی والوں کو کنٹریٹ کے لیے کنوینس کر سکتے ہے ویلڈن ابھی کچھ دیر میں وہ لوگ اتے ہو گے اپ میٹنگ روم کا راونڈ لگاے اور مجھے انفورم کریں اوکے وہ مینجر کو ہدایت دے کر خود اپنے کام میں جٹ گی وہ بھی سر ہلا کر باہر نکل گیا
سی گرین شرٹ کے ساتھ پلین سکن ٹراوز بالوں کو کیچر میں قید کیے میک اپ کے نام پر لپ سٹک لگاے وہ کام میں بےحد مصروف تھی اج کل ایک بڑی پاڑٹی سے ان کی میٹنگ ہو رہی تھی جس کی ساری تیاری فبیحا نے ہی اپنی ذیر نگرانی کروای تھی اب بھی وہ لیپٹاپ میں گھسی ہوی تھی اور ڈسکس ہونے والے مین پوانٹس نوٹ کر رہی تھی کے میز پے پڑا اس کا فون چیخا جو فبیحا نے نمبر دیکھے بغیر ہی اٹھا لیا
اسلاموعلیکم وہ بولی تو مخالف کے ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چھوا
واعلیکم اسلام کیسی ہے حسین لڑکی وہ بے تکلفانہ لہجے میں بولا پر فبیحا کی تیوری منٹ میں چڑی تھی
ایکسکیوزمی کیسی چیپ باتیں کر رہے اپ اور بتانا پسند کریں گے کو ن ہے اپ وہ غصیلے لہجہ میں بولی پر مخالف تو ڈھیٹ بنا ہوا تھا
ہاے جان لے گی ہمیں اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو ایک عمر پڑی جب دو راہی ہو ساتھ تو گھبڑانے کی نہیں ہے بات اور ساتھ کا مطلب تو بخوبی اپ سمجھ ہی گی ہوگی وہ خالص چھچھوڑے لہجے میں بولا فبیحا کے تو سر پے لگی
دیکھیے ناو یو کروس یور لیمیٹس اپ کو اگر اپنا یہ چھچھوڑپن جھاڑنا ہے تو کی اور جھاڑیں میرے پاس یہ چیپ باتیں سننے کا وقت نہیں ہے ماینڈ اٹ وہ کہہ کر فون رکھنے لگی جس پر عقیل نے کہکا لگایا
سٹوپڈ کہیں کا پتا نہیں کہاں کہاں سے اجاتے ہے سارا ٹیمپو خراب کر دیا وہ منہ بنا کر دوبارہ کام میں جٹ گی جسکو فبیحا عام سی بات سمجھ رہی تھی اگے جا کے اس کے لیےایک طوفان کھڑا کرنے والی تھی
********************
اسلام وعلیکم انٹی فواد حسنہ بیگم کو سلام کرتے بولا تو انہوں نے بھی اس کو جواب دے کر پیار کیا کہوں کیسا جا رہا ہے افس وہ اس کے قریب بیٹھتے تو وہ مسکرا دیا کالی انکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا تھا جی انٹی الحمداللہ سب بہت اچھا جا رہا ہے وہ بولنے کے ساتھ ادھر ادھر نظر دوڑا رہا تھا
بیٹا جس کو تم تلاش کر رہے ہو وہ دوست کی طرف گی ہوی ہے حسنہ بیگم نے مسکراہٹ دبای تو وہ رج کے شرمندہ ہوا اور سیدھا ہو گیا
نہیں نہیں انٹی میں تو ایسے ہی وہ اپنی جھجھک مٹانے کو بولا
نہیں بیٹا بلکہ اب تو کافی ٹایم ہو گیا ہے اسے گے ابھی تک کیوں نہیں ای حسنہ بیگ پریشانی سے بولی تو فواد کے تاثرات بھی سنجیدہ ہوے
انٹی اپ مجھے اڈریس دے دیں میں لے اتا ہو ویسے بھی ڈیڈ نے مجھے اس لیے ہی بھیجا ہے کے میں اسے شاپنگ کرا دو اسکی بات سن کر حسنہ بیگم نے سر ہلایا اور اڈریس اسے دیا تو وہ سر ہلا کر باہر نکل گیا
دس منٹ بعد وہ علیح کی دوست عایشہ کے گھر کے اگے تھا اس نے ہارن دیا تو چونکیدار باہر نکلا
جی صاحب کس سے ملنال ہے وہ اس سے تفشیش کرنے لگا
علیحہ کو بولاے بولے اس کا منگیتر ایا ہے وہ سٹیرنگ پے ہاتھ جماتے ہوے سامنے دیکھ کر بولا تو چوکیدار بھی سرہلا کر اندر چلا گیا کچھ دیر بعد علیحہ باہر ای اور اندھا دھند بولنا شروع ہوگی یہ دیکھے بغیر کے لینے کون ایا ہے کیونکہ چوکیدا بتانا بھول گیا تھا
غلام دین چاچا اپ کو کہاں بھی تھا کے میں رات تک رکوں گی اپ پھر اگے یہ ماما نے ہی بھیجا ہو گا ایک تو ماما بھی نا وہ اپنی لے میں ہی بول رہا تھا کے سامنے دیکھ کر اس کی زبان بند ہوی
میڈم اگر تقریر ختم ہو گی ہو تو اکے گاڑی میں بیٹھ جاے وہ اپنے تاثرات ڈھیلے کرتے بولا تو وہ بھی چو چڑا کیے بغیر بیٹھ گی فواد گاڑی اگے بڑھا لے گیا
*********************
دیکھوں برگیڈیر نا تو میں تم پر اج کوی جسمانی تششدد کروں گا نا ہی ذہنی بس یہی کہوں گا کے چاہے کوی بھی ہو وہ کسی بھی فیلڈ سے تعلق رکھتا ہو اسے اپنے عہدے سے کتنی ہی محبت ہو وہ اپنی فیملی اپنے خون کے اگے بےبس ہو جاتا ہے سب کچھ چھوڑ دیتا ہے برگیڈیر یہ جو اپنی فیملی اور لوگ ہوتے ہے اپ ان کی خاطر کچھ بھی چھوڑنے کو اور کرنے کو تیار ہو جاتے ہو وہ بلکل اس کے قریب بیٹھا باتیں کر رہا تھا
تم کیا کہنا چاہتے ہو سیدھے سیدھے کہوں تمہارے ہر نقاب سے میں اچھے سے واقف ہو وہ بھی برگیڈیر بلال تھا چاہے اتنے سالوں کی قید نے اسے کمزور اور لاگر بنا دیا تھا پر دماغ ابھی بھی فرقی کی مانند گھومتا تھا وہ رانا کی ہر چال سے واقف تھا اس کی بات پر رانا کا کہکا جاندار تھا
او ہو میں تو بھول ہی گیا تھا میں دا گریٹ برگیڈیر اویس سے بات کر رہا ہو جو اڑتے ہوے چڑیا کے پر بھی گن لیتا ہے وہ ماتھے میں ہاتھ مارتا بول برگیڈیر بلال کو اس کے ڈرامہ دیکھ کر اور تاو ارہا تھا
اچھا تو پھر سنو وہ تمہاری نواسی کیا نام تھا وہ سوچنے لگا ہاں فبیحا بھی بڑا نام ہے اس لڑکی کا بزنس میں واہ وہ فخریہ اندز میں بولا تو برگیڈیر اویس کی انکھوں میں محبت ہلکورے لینےلگی کتنا عرصہ بیت گیا اسے دیکھے وہ تو اس کے بچپن میں ہی اس درندے کے ہاتھ چڑ گے تھے اب اس سے منہ سے اپنی نواسی کی کامیابی سن کر رشک ہوا پر اگلے ہی لمحہ ان کا ماتھا ٹھنکا
اس ٹایم اس کا یہاں کیا ذکر وہ تیوری چڑھا کر بولے تو رانا شاطیرانہ نگاہیں اس پر مرکوز کر کے بولا
مقصد تو تمہیں بہت جلدی پتا چلے گا وہ کیا ہے نا میرا بیٹا تمہاری نواسی کی خوبصورتی سا اثیر ہو گیا ہے وہ کچھ وقت اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اس کام بھی ہو جاے گا اور میرا بھی وہ بھرپور حیوانیت لیے اسے بول رہا تھا برگیڈیر اویس کی تو گویا سٹی ہی گم ہو گی تھی اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے وہ یہ سب نہیں ہونے دے سکتے تھے پر مجبور تھے ایک طرف وطن کی حفاظت دوسری طرف اپنے جگر کے ٹکڑے کی
خبردار میری نواسی کو کچھ بھی کیا تو جان لے لو گا یاد رکھنا رانا میں چاہے اپنے ساتھ ہوے مزالم معاف کر دو پر میرے گھر کے کسی بھی فرد کو کچھ بھی ہوا تو زندہ زمین میں گاڑھ دو گا اس کی بات پر رانا نے بھرپور نظر اس کی حالت پر ڈالی سنگلیوں سے بندھا وجود بازوں اور منہ پر زخم جن سے خون رس رس کر اب جم چکا تھا بال بڑھے ہوے شکن الود پھٹے کپڑے وہ اسے دیکھ استاظیہ ہنسا تو برگیڈیر بلال کو تاو ایا
اپنی حالت پر غور کرتے تو یہ نا کہتے برگیڈیر اب تو میرا وقت شروع ہوا کتنے وقت سے مجھے انتیظار تھا میں تمہاری دکھتی رگ پکڑو اب میرے ہاتھ یہ موقع ایا ہے تو میں کیوں اس سے مستفید نا ہو وہ ان کو چیڑاتے ہوے بولا اور جانے لگا کے برگیڈیر اویس کی بات پر اس کے قدم زمین پر جم گے
کفار نے بھی اپ پر خوب ظلم ڈھاے اور ہر طرح سے اپ کو زک پہنچانے کی کوشش کی پر اپ نے ان کی ہر غلطی کو معاف کیا اور ہدایت طلب کی اور ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا بے شک اللہ بہتر منصف ہے اور رانا اللہ جیسا انصاف کہیں نہیں ظالم کو اس کے کیے کی سزا اللہ کی عدالت میں ضرور ملے گی تم جتنے مرضی جتن کروں میں اللہ کے سپرد اپنی بچی کی عزت کو چھوڑتا ہو وہ کہر برساتی نگاھوں سے دیکھتے ہوے بولا تو وہ بنا کھ کہے دروازہ بند کرتب نکل گیا اور برگیڈیر اویس کا دل خون کے انسوں رو رہا تھا
******************
ارون اب تک تو سب کچھ پلین کے مطابق ہی جا رہا ہے رانا کےگھر پر ہر وقت ہماری نظر ہے اور برگیڈیر اویس تک بھی ہم پہنچ ہی چکے ہے تقریبا اب اگے کا کیا لاحہ عمل طے کرنا ہے عالیان اس کو اپنی اب تک کی پروگریس سے اگاہی دے رہا تھا جو اب نقشہ پر جھکا ہوا تھا اور دور کسی غیر مری نقتے پر غور کر رہا تھا
ہاں اب تک تو سب ٹھیک ہے عالیان میں نے سر کو ساری رپورٹ دے دی ھے اب ہم نے رانا کی ساری ہسٹری نکال لی ہے کے اس نے کتنی ناژایز جایداد بنای ہوی ہے نا صرف یہاں بلکے بیرون ملک میں بھی پہلے تو ہمیں ان ساری پراپرٹی کو سیل کرنا ہے اور جن لوگوں سے یہ سب اس نے ناجایز وصولہ ہے ان تک پہنچانا ہے اس کے بعد جب وہ بے یارو مدد گار رہ جاے گا ہم اس پر ڈھابہ بولے گے بول تو بھی بھی ہمارے کاڑٹ میں ہے اور میں چاہتا ہو یہ کام تم خود کروں تم ہر اس ملک جاو جہاں اس کے پراپرٹی ہے ساری بیچوں اور جو پیسہ ملے گا اس سے غریبوں اور ارفنیج وغیرہ میں ہم ڈونیٹ گے میں جانتا ہو یہ کام اسان نہیں ہے پر مجھے یقین ہے تم کر لو گے وہ اس کے کندھے پر دباوں ڈالتا بولا تو وہ مسکر دیا
شکریہ یاذ مجھے اس قابل سجھنے کے لیے میرے لیےبس سے بڑھ کر اور عزاز گی بات کیا ہو گی کے میں دس مشن کا حصہ ہو وہ مسکرایا تو ارون بھی مسکرا دیا
تم سر سے مل او میں تمہاری ٹکٹس کنفرم کرواتا ہو وہ اس کے گلے لگتے بولا تو وہ بھی سر ہلا کر باہر نکل گیا تو ارون نے کارڈلیس اتھا کر نمبر ڈایل کیا دوسری طرف حدید تھا
ہاں حدید دیکھو اب وقت اگیا ہے ایکشن کا پلین تو تمہیں پتا ہے تم نے کیا کرنا ہے دیکھو گھبڑانا نہیں یہ ہےتو بہت رسکی میں جانتا ہو پر ہماری ذرا سی کوتھای بہت مصیبت کھڑی کر سکتی ہے جو کے فلحال ہم افورڈ نہیں کر سکتے وہ بنا سانس روکے بول گیا
میں جانتا ہو ارون یہ مشن بہت ایمپورٹینٹ ہے ٹرسٹ می میں مکمل تیاری کے ساتھ جاو گا جیت ہماری ہی ہو گی ان شاء اللہ وہ اسے تسلی دیتے بولا
ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا پر تم نے گھبرانا نہیں ہے میں تم سے ان ٹچ رہوں گا وہ اسے یقین دہدنی کراتے بولا تو وہ بھی تاعی کر کے فون رکھ گیا اب ارون کا رخ برگیڈیر دانش کے روم کی طرف تھا وہ بذت خود انہیں ساری بریفینگ دینی تھی
*****************
علیحہ مجھے تم سے اس بے وقوفی کی امید نہیں تھی تمہارے ساتھ کون سا ایس غلط کر دیا میں نے کے تم اپی سے میری شکایت کرنے لگی تم نے مجھے ریجیکٹ کیا تو میں کیسے برداشت کرتا وہ بولا تو علیحہ اسطاظیہ ہنسی
واہ فواد صاحب کیا کہنے مرد ریجیکٹ کریں عورت کو تو غیر اگر عورت کریں تو مرد کی غیرت جاگ جاتی ہے کچھ تو انصاف پند بنے عورت اپ کے لیےایک چابی والی گڑیا ہے کے جہاں اس کی چابی گھمای وہ اسی سمت چل پڑی نہیں فواد صاحب ہم انسان ہے ہمارے بندر جزبے ہے ہماری بھی عزت نفس ہے جس کو اپ لوگ پاوں تلے روندھ دیتے ہے اینڈ ایم سوری ٹو سے اپوبھی انہی مردوں میں سے ہے وہ دیک ذہر الود نگاہ اس پر ڈال کر منہ موڑ گی فواد کی سٹیرنگ سخت ہو گی جبڑے بیچ لیے ایک پل کو تو علیہ کا دل لرزا پر اگلے ہی لمحہ سمبھل گی
تم لڑکیوں کو لگتا ہے کے تم پر ظلم ہو رہا ہے روک ٹوک کرنا پر اصل میں یہ حفاظت ہوتی ہے اس دن اگر میں نا پہنچتا تو جانتی ہو وہ لفنگےتمہارے ساتھ کیسا سلوک کرتے اوپر سے تمہاری ڈریسنگ وہ لوگ جن نظروں سے تمہں دیکھ رہے تھے فواد کا تو وہ سب سوچ کر ہی غصہ اجاتا تھا مرد چاہے جیسا بھی عورت کی ڈھال ہوتا ہے اس پر اٹھتی ہر گندی نظر کا جواب دیتا ہے عورت چاہے کتنی بھی مضبوط کیوں نا ہو اسے مرد کا سہارا ضرور چاہیے ہوتا ہے اس دنیا میں درندے گھات لگاے بیٹھا ہوتا ہے علیحہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہو مانتا ہو مجھےلمبی چوری غزلیں نہیں اتی نا ہی کبھی میں نے دپنے رویہ سے تمہیں محسوس کروایا جو کے میری غلطی تھی ایم سوری فار دیٹ مجھےاپنے غصہ پر کنٹرول ہی نہں ہے پر رشتے باہیمی رضامندی سے چلتے ہے اگر دونوں میں ہی رضامندی نہیں تو رشتہ کا کوی فایدہ نہیں میں تم سے شادی کر بھی لو پر تمہاری دلی رضامند ی شامل نا ہو ایسا میں نہیں چاہتا میرا مقصد تمہیں قید کرنا نہیں خوش رکھنا ہے اگر تم راضی نہیں ہو تو ڈیٹ از اوکے میں ڈیڈ سے بات کروں گا اور جہاں تک رہی کپڑوں کی بات تو وہ بھی میں اس لیےمن کیا تھا کے جس نظر سے ہم دنیا کو دکھتے اپ لوگ نہیں دیکھ یکھ سکتے ہم پوری دنیا میں گھومتے ہر طرح سے لوگوں سے ملتے ہے اور اچھے سے جانتے ہے کے وہ کس نہج پر سوچتے ہے اینی ہاو اپ کا گھر اگیا اینی ہاو سوری ونس اگین انٹی سے معزرت کر لیجیےگا وہ اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوے بولا پر وہ ایک انچ نہیں ہلی
علیحہ ہم پہنچ ے ہے پلیز اتریے وہ تھوڑا پیچھے کو ہوا علیحہ کو اس کا ایک دم سے اجنبی بن جانا تکلیف دے رہا تھا
اپ مردوں کا یہی ڑا مسلہ ہے کے اپ لوگ س کچھ اپنے سے ہی سب کچھ اخز کر لیتے ہے میں نے اپنی رضامندی سے ہی رشتہ کے لیے حامی بھری ہے سمجھے اپ اے بڑے وہ کہہ کر اندر کی طرف بڑھ گی تو فواد نےکہکد لگایا اور گاڑ میں بیٹھ کر گاڑی زن سے بھگا لے گیا
******************
ارون بیٹا کیا بات ہے کافی تھکے تھکے لگ رہے ہو اوراج کل تو اتنی لیٹ واپس انے لگے کچھ تو خیال اپنی صحت کا کروں صحت اسھی ہو گی تو تم سام بھی ٹھیک سے کر پاوں گے مجھے تو ویسے یہ محکمہ ہی نہیں پسند پہلے تمہاے باپ کی وژہ سے کھٹکا لا رہتا تھا اورب تم بھی حسنہ بیگم واقع پریشان تھی ارون نے تاسیف سے سر ہلایا اور ماں کے گھٹنوں میں بیٹھ گیا
ماما یہ ژاب میری ان ہے مدن ہے سب سچھ ہے اور اپ کو پتا ہے میں تو اللہ کا جتنا شکر کروں کم ہے کے اس نے مجھے اس قابل سمجھا اور وطن کی حفاظت کےلیے چنا ہے وہ انکھوں میں چمک لیے بولا
پر بیٹا میرا دل بہت ڈرتا ہے تمھاری بیوری ہے اللہ خیر کرے اگے بچے ہو گے مجھے تو شایستہ کےبابا ہی نہیں بھولتے برگیڈیر ہی تھےکے ایک کیس میں ایسے الجھے کے واپس پلٹ کر نہیں اے میں نے شایستہ کو بے یارومددگبر ڈیکھا ہے اس لیے ڈرتی ہو
او ہو ماما سب تو ایک جیسے نہیں ہوتے نا کچھ بابا جیسے بھی ہوتے ہے اب بس اللہ پر بھروسہ رکھے سب ٹھیک ہو گا اور فبیحا کے نانا کو بھی میں ضرور ڈھونڈ لاو گا اپ کو پتا ہے میں انہی کا کیس دیکھ رہا ہو وہ جوش سے بولا
اللہ تجھے کامیاب کریں تو نے کون سا میری سن لینی ہے کرنی تو اپنی ہی ہے وہ خفگی سے بولی تو ارون مسکرا دیا
مای موم ژسٹ چل سب کچھ ٹھیک ہو گا اپ بس بھروسہ رکھے
اچھا رون احسن صدحب کا فون ایا تھا وہ فبیحا کو رہنے کے لیے بولا رہے ہے تم کیا کہتے ہو وہ اس سے بولی جس کا بات سن کر چھرہ اتر گیا تھا
نو موم یہ نہیں ہو سکتا وہ روزانہ مل تو لیتی ہے وہ بالوں میں انگلیاں چلاتے بولا تو حسنہ بیگم نے اسے گھورا
ارون وہ ایک بار بھی میکے رہنے نہیں گی تم چھوڑ انا اسے بس وہ کہہ کر اٹھی تو ارون نے بے بسی سے ظالم ماں کو دیکھا و کندھے اچکا گی
*****************
فبیحا اٹھو اٹھو ارون کب سے اسے اٹھا رہا تھا وہ بے چاری بھی لیٹ ہی سوی تھی اس لیے اٹھ نہیں رہی تھی
کیا مصلہ ہے ارون سونے دے وو کہہ کر رخ موڑ گی
سںونے دے سی بچی اٹھو اور کافی دو وہ اس کے رہنے والی بات سن کر ابھی تک تلملا رہا تھا جب پانچ منٹ بھی وہ نا اٹھی تو ارون جھکا اورواس کی نیند بہت اچھے سے بھگا دی فبیحا تو گنگ رہ گی اس کا تنفس پھولا ہوا تھا چہرا لال اور وہ ارون کو گھور رہی
یہ کیا حرکت تھی ارون یہ بھلا کوی طریقہ ہے عقل اپ میں ہے کے نہیں وہ غصہ سے بولی
میں نے تو ہر حربہ استعمال کر کے دیکھ لیا ژب تم نہیں اٹھی تو مجبورا یہ کرنا پرا وہ معصومیت سے بولا و فبیحا کے تو لگ گ
اب یار گھورنا بند کروں ایک تو میں تھکا ہارا گھر ایا و اور میری بیوی ارام قر ڑہی ہے ناٹ فیر وہ اس کی ناک مڑوڑتا بولا
مجھے کافی بنا دو وہ اس کی خفگی کو نظرانداز کرتا بولا
میرا دماغ بلکل صحیح ہے الحمداللہ اپ کی طرح حراب نہیں کے رات کے تین بجے میں کافی بناو سمجھے وہ کروٹ لے کر لیٹ گی تو ارون سا تو منہ کھل گیا
فبیحا اٹھ رہی ہو یا میں کوی اور طریقہ اختیار کروں وہ اس کے قریب بیٹھا اور یہ تمہاری میکے جا کے رہنے کی سزا ہے وہ بیڈ پر نیم دراز ہو کر بولا تو فبیحا تلملا کر اٹھ بیٹھی کے ا س کے علاوہ کوی چارا نہیں تھا
بہت بڑے ہے اپ میں میکے جاو گی اور پورا مہنہ وہاں رہو گی دیکھ لیجیے گا میری شکل کو بھی ترسے گے وہ پیر پٹختی وہاں سے نکل گی تو ارون مسکرا دیا
****************
جی ڈیڈ ای نو بہت ایمپورٹینٹ میٹنگ ہے میں بس پہنچ رہی ہو بس یہاں ایکچولی ٹریفک بہت ہے فبیحا گاڑی کا شیشا اوپر چڑھاتے ہوے بولی
فبیحا بیٹا ڈیلیگشن کب سے ایا ہوا ہے بیٹا اس طرح ایمپریشن کتنا برا پرے گا احسن صاحب پریشانی سے بولے تو فبیحا کو اور ٹینشن ہونے لگی تھی
ڈیڈ بس پانچ منٹ میں پہنچ رہی ہو وہ کلای میں بندھی گھڑی دیکھتے ہوے بولی
تم بیٹا ادھر ہی رہو میں افس کے ڈرایور کو بھیجتا ہو وہ اسے تسلی دیتے بولے
ٹھیک ہے ڈیڈ ای ایم ویٹینگ وہ ڈرایور کو بھیج کر بولی ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کے سفید ہنڈا سیوک اس کے پاس رکی اور ایک ادمی باہر نکلا
چلے میڈم سر ویٹ کر رہے ہے وہ مودب انداز میں بولا تو فبیحا حیرانگی سے دیکھنے لگی یہ تو اتنی جلدی اگیا
ا گے اپ ایک منٹ میں ڈیڈ کو فون کر دو وہ فون ہاتھ میں پکڑے نمبر ملانے لگی کے اسے اپنی کنپٹی پے دباوں محسوس ہوا تو اس کو نے دیکھا کے وہ ادمی اس پر بندوق تانے کھڑا تھا فبیحا کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گی
چپ چاپ بنا کسی ہوشیاری کے گاڑی میں بیٹھوں وہ اسے اشارہ کرتا ہوا بولا
کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو فبیحا ہمت جمع کرتی ہوی بولی
بہت جلد پتا چل جاے گا تمہیں فکر نا کروں شرافت سے چلو
لیکں وہ ابھی کچھ بولتی کے وہ اس کی ناک پر رومال رکھ کر بولا تو وہ چند ہی سیکنڈز میں ہوش وخرد سے بیگانہ ہو گی تو اس نے اسے گاڑی میں ڈالا اور گاڑی زن سے اگے بڑھا لے گیا
*****************
اسلام وعلیکم رانا صاحب کیسے ہے اپ ایک سوٹیڈ بوٹیڈ بندہ انکھوں میں عینک لگاے رانا کے پاس بیٹھا تھا اس کے روعب اور دبدبے سے رانا چپ بیٹھا تھا
ہاں جی یزدانی صاحب سب ٹھیک ہے میں اج اپ کے انے کا مقصد پوچھ سکتا ہو وہ تھوڑا اگے جھک کر بولا تو حیدر کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گی اب کیا بتاو تجھے کے تیری موت بن کر ایا ہو وہ محض دل میں ہی سوچ سکا سیوں کے ابھی اصلیت دکھانے کا وقت نہیں تھا
اب کیا کرے رانا صاحب اپ تو اچھی طرح ہماری طلب جانتے ہے جب اپ ہمیں کوی مثبت جواب نہیں دیں گے تو ہمیں ہی اپ کے محل میں حاضری دینی ہوگی وہ بھرپور تنظ کرتے ہوے بولا تو رانا کی جان ہوا ہونے لگی
اہو یذدانی صاحب کیا ہو گیا کام کی بات بھی پوری کر دے گے اور طلب بھی پہلے پیٹ پوجا تو کر لیں وہ بات کو ٹالتے ہوے بولا جو حدید نے صاف محسوس کیا پر جو بھی اسے اج کے اج برگیڈیر اویس سے ملنا تھا اور ان کی حالت ارون اور ہیڈ افس تک پہنچاے اس نے زیرک نگاہوں سے رانا کو دیکھا
رانا صاحب اپ ایک مہینے سے مجھ سے مل رہے ہے اور میری عادت کو نہیں سمجھ سکے مجھے کام کے وقت کام ہی پسند ہے اس لیے فضول گوی سے پرہیز کریں اپ اور مدعے پر اے کیا بنا اگلوا سکے ان سی کوڑڈ کے نہیں؟؟وہ سوالیہ نظریں اس پر مرکوز کر کے بولا جس پر رانا نظریں چرا گیا
تمہاری ان چراتی نظروں کا کیا مطلب سمجھو ایک بات میری یاد رکھو اسی کڑور دیے ہے میں نے سیکیوڑٹی کوڈز جاننے کے عوز میں کوی بہانہ برداشت نہیں کروں گا اور یہ تو تمہیں پتا ہی ہے کے میں حساب کتاب میں کتنا پکا ہو سو ڈونٹ ویسٹ مای ٹایم الینڈ ٹیل می ایوری تھنگ بلکہ رہنے دو مجھے برگیڈیر اویس سے ملنا روبرو ملاقات ہی ہوجاے اور تم سے تو کچھ ہونے والا ہے نہیں میں اب میں اپنے طریقے سے اگلواوں گا مجھے گھنٹہ دو ان کے ساتھ وہ اٹھتا ہوا بولا
ارے ارے اپ کہاں اتنی تکلیف کریں گے میں وعدہ کرتا ہو ہفتہ تک اپ کو سارے کورڈز مل جاے گے وہ اس کا بازوں تھامتا ہوا بولا تو حدید نے غصہ سے اسے دیکھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا اس گھٹیا انسان کا منہ توڑ دیں
تم میرے راستہ میں مت او میں اور یہ لاڑے برداشت نہیں کر سکتا چلو لے کر اس کمرے تک ورنہ تم مجھے جانتے ہو وہ اپنا ہاتھ جھٹکتا بولا تو وہ بھی ناچار ساتھ چل دیا
****************
یس ارون کیا رپورٹ ہے اپ کے دو جانباز دوستوں کی طرف سے کوی رپورٹ دی برگیڈیر دانش ریلیکس ہو کر بیٹھے اور ارون کو بغور دیکھا
سر اللہ کا شکر ہے سب بہت اچھا جا رہا حدید نے تو رانا کو مکمل حراس کر لیا ہے وہ مکمل اس کے قبضے میں ہے اور جہاں تکرہی عالیان کی بات لنڈن اور امیریکہ کی پراپرٹی وہ سیل کروا چکا ہے اس پر ناجایز کیس کر کے سیل کر وا چکا ہے دو ایک ملک رہ گیا ہے پھر رانا چاروں خانہ چت وہ مسکرا کر بولا اج تو اس کے ہر انگ سے خوشی جھلک رہی تھی
ویری ویل ڈن ارون ایم پراوڈ اف یو اب بس ہم جیت سے کچھ قدم ہی دور ہے وہ اسے داد دیتا بولا
سر ےہ کیس پہلے بھی میرے لیے بہت ایمپورٹینٹ تھا پر جب سے مجھے پتا چلا ہے کے وہ فبیحا کے نانا ہے تو بس میں نے دن رات ایک کر دیا وہ خوش ہوتے بولا
ہاں میاں پہلے فرض کا معاملہ تھا پھر دل کا محنت تو لازم تھی وہ انکھوں میں شوخی لیے بولے تو ارون مسکرا دیا ابھی ارون کچھ بولتا کے کیپٹن عمر اندراے اور دونوں سلیوٹ کیا
یس کیپٹن عمر برگیڈیر دانش فورا سنجیدہ لہجے میں بولے
سر وہ کیڈٹس کیپریکٹس تھی انہوں نے طیارہ کریش کر دیا وہ ٹھرے لہجے میں بولے
وٹ ڈو یو مین باےدیٹ اپ وہاں بیٹھے جھک مار رہے تھے اپ کی ڈیوٹی کا پتا اپ کی پر فورمینس سے ہی چلتا ھے اگر اپ کو یہ ریسپونسیبیلٹی دی تھی تو یو ہیو ٹو فل فل یور ڈیوٹی ناو اٹس اپ ٹو یو ہاو ٹو فکس اٹ یو ہیو ٹھٹی فایو سیکنڈز گو وہ غضبناک تیور لیے بولے ایک پل کو تو ارون بھی لرز گیا یہی تو برگیڈیر دانش کی خاصیتتھی وہ پل میں اپنے اپ کو ہر سیچویشن میں ڈھال لیتے تھے
*****************
فبیحا کی انکھ کھلی سر بھاری ہو رہا تھا انکھوں کے پپوٹے سوجے ہوے تھے بامشکل انکھیں کھولی وہ ایک ڈربے نما چھوٹا سا گھر تھا دیواروں پر کلی اکھڑی ہوی تھی جگہ جگہ کاٹ کباڑ پڑا تھا اور پورا کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اس کمرے میں ایک ہی روشن دان تھا جس سے کچھ روشنی کی کچھ کرنیں کمرے کو روشن کرنے میں نا کام ہو رہی تھی فبیحا کو تو اس اندھیرے سے خوف انے لگا وہ ابھی کمرے کا جایزہ ہی لے رہی تھی کے اسے کسی کی اہٹ محسوس ہوی اس نے سامنے نظر دوڑای تو وہی چہرہ اس کے سامنے تھا اس کو دیکھ کر فبیحا کے تاثرات یک دم بدلے
کیوں لاے ہو مجھے یہاں بتاو نکالوں مجھے یہاں سے فبیحا اس پر جھپٹتی ہوی بولی
چچ چچ نا میری ان اپنے اپ کو اتند ہلکان نا کروں اور سیدھی شرافت سے تمہیں پتا چل جاے گا وہ اسے کرسی پر دھکا دیتا ہوا بولا
نوید تم جاو یہاں سے عقیل اندر داخل ہوتے بولا تو فبیحا سیدھی ھو بیٹھی ایک اور انجانہ چہرہ دیکھ کر وہ ٹھٹھک گی اور عقیل رانا تو اس بر نظریں گاڑھے کھڑا تھا فبیحا کو الجھن ہوی نوید جا چکا تھاوہ قدم قدم چلتا ہوا اس تک ایا فبیحا کی انکھوں میں خوف ہلکورے لینے لگا
کو کون ہو تم فبیحا انکھوں میں الحھن لیے بولی اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تو وہ بولی عقیل کے ہونٹوں کو جاندار مسکراہٹ نے چھوا
کیوں فکر کرتی ہو تمہیں پتا چل جاے گا ہ اس کے قریب ہوا تو فبیحا نے ناگواری سے اسے دیکھا
کیا چاہتے ہو تم کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا وہ ڈایریکٹ مدعے پر ای تو عقیل نے سرد اہ بھری
پہلا یہ کے میں کیا چاہتا ہو تو میں تمہیں چاہتا ہو بے پناہ اور دوسرا تم نے میرا کیا بگارہ ہے تم نے مجھ سے میرا دل لے لیا ہے میں میں نہیں رہا وہ گہری نظروں سے فبیحا کو دیکھ رہا تھا فبیحا کا تو دماغ کھول اٹھا
اپنی یہ واہیات بکواس بند کروں اور مجھے جانے دو ورنہ سمجھ لو تمہارے لیے اچھا نہیں ہو گا وہ خود میں ہمت جمع کرتے ہوے بولی
دیکھوں بےبی یہ تو ممکن نہیں تم عقیل رانا کی محبت ہو اور میری ہو صرف وہ اس کے چہرے پر انگلی پھیرنے لگا تو فبیحا نے اس کا ہاتھ جھٹکا اس کی نظر اچانک اپنے موبایل پر پڑی اس سے پہلے وہموبایل پکڑتی عقیل نے اس کے تاقب میں دیکھا اور فورا اس سے موبایل جھپٹ لیا
نانا بےبی یہ چالاکی نہیں کرنی چپ کر کے یہ کھانا کھاو اور ریسٹ کروں مزید میں کوی بکواس نہیں سونوں گا وہ اسے تنبیح کرتے ہوے بولا اور باہر نکل گیا فبیحا کا تو دماغ ہی سن ہو گیا تھا کچھ سمجھ نہیں ارہی تھی کیا کرے
********************
وہ ابھی ساری بریفینگ دے کر برگیڈیر دانش سے افس سے ایا تھا اور اپنے افس میں اکر ریلیکس ہو کر بیٹھا کے اس کے فون پر بیل ہونے لگی دوسری بیل پر اس نے اپنی موندی ہوی انکھیں کھولی اور فون اٹھا کر کال کرنے والے کا نام دیکھا احسن صاحب کا نام دیکھ کر اس کے ماتھے پر تفکر کی لہریں ابھری اس نے یس کر کے فون اٹھایا
اسلام وعلیکم انکل وہ اپنے اپ کو نارمل رکھتے ہوے بولا
واعلیکم اسلام بیٹا اس وقت کہاں پر ہو وہ بات کا اغاز کرتے بولے تو ارون کو کسی انہونی کا احساس ہوا

Mavrai MuhobbatWhere stories live. Discover now