آغاز آشنائی

6.7K 170 83
                                    

باب نمبر 1
وجود کے گرد لپٹی ہے نرم ٹھنڈی پھوار
شروع ہونے جارہا ہے ایک اور تلخ باب

سمندر میں وفا کے غوطہ زن ہے وجود
میسر نہیں پھر بھی سکون آور ماب

تڑپتی ہوئی روح کو بہلا رہے ہیں شب و روز
کہ ڈھونڈ رہی تھی یہ بھی ایک اندیکھا سراب

اکھڑی ہوئی سانسوں کو مل رہا ہے سہارا
اشک جو بہے تھے وہ اسی کا تھا بے رحم تلاب

ہورہا ہے آغاز آشنائی اس کی ذات سے
میرا وجود کچھ نہیں ہے فقط ایک ماہی بے اب

( ایمن خان )
رات کی تاریکی میں سنسان سڑک پر وہ دونوں لڑکیاں تیزی سے بھاگ رہی تھیں ان کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں مسلسل بھاگتے رہنے کے باعث ان دونوں کی ٹانگیں شل ہوچکی تھیں بھاگنے کے دوران وہ گاہے بگاہے نگاہ پیچھے بھی ڈال لیتی تھیں جہاں پوری سڑک ویران تھی کچھ فاصلے پر جلتے ہوئے سڑیٹ پولز اس اندھیری سڑک پر کچھ روشنی کے چھینٹے بکھیر رہے تھے جو ان دونوں کو آگے دیکھنے میں مدد دے رہے تھے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے جیسے وہ پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دینے کی خواہاں تھیں جس مقصد کے تحت وہ بھاگ رہی تھیں شاید اس کے ادھورے رہ جانے کا خوف ان کی ٹانگوں میں عجیب سی طاقت بھر رہا تھا۔ برستی ہوئی بارش میں ان دونوں کے کپڑے بھیگ کر ان کے جسموں کے ساتھ چپک گئے تھے جس دوپٹے کو انہوں نے سر پر لپیٹا ہوا تھا وہ ان دونوں کے جسموں کے خدوخال کو چھپانے کی مسلسل ناکام کوشیش کررہا تھا سڑک کا وسط مکمل طور پر بھیگ چکا تھا اور اسی کے ساتھ ان کا وجود بھی پسینے سے مکمل شرابور تھا۔ تیز گاڑی کی ہیڈلائیٹس ان دونوں لڑکیوں کی آنکھوں کی پتلیوں کو لمہوں میں ساکت کرگئی تھیں وہ دونوں اس تیز روشنی سے بچنے کے لیے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ گئی تھیں مگر تیزی سے نزدیک آتی وہ گاڑی بالکل ان دونوں کے سروں پر پہنچ چکی تھی اور پھر ان دونوں کو ہی اپنی آنکھیں بھاری اور بند ہوتی محسوس ہوئی تھیں پورا منظر اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ آج بھی اس کی دی ہوئی گھڑی اپنی کلائی پر باندھے ہوئے تھا خوبصورت سلور ڈائل اور بلیک پٹے والی وہ گھڑی اسے بے حد پسند تھی دو سال پہلے اس کی سالگرہ پر یہ گھڑی اس نے اسے تحفے میں دی تھی اسے اچھے سے یاد تھا جب وہ دونوں ہری گھاس پر رکھے سیمنٹ کے بینچ پر ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور وہ مسلسل روز کی طرح اپنی انگلیاں مسلتی ہوئی اسے نروس نظر آرہی تھی وہ بڑے انمہاک سے اس کے مسلسل پھڑپھڑاتے ہوئے دو آتشا لبوں کو دیکھ رہا تھا جو صرف پھڑپھڑا ہی نہیں رہے تھے بلکہ وہ مسلسل لب کاٹ رہی تھی اسے اپنا دل سمبھالنا مشکل لگ رہا تھا۔ بینچ پر اپنے ساتھ رکھے ہوئے گرے ہینڈ بیگ میں سے اس نے ایک سیاہ ڈبہ نکالا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس ڈبے میں کیا ہے اس نے ڈبہ ان دونوں کے درمیان میں رکھا تھا اور واپس نگاہیں جھکا کر بیٹھ گئی تھی اس کے بائیں جانب پہنی ہوئی لونگ چمک رہی تھی اور اس کی چمک دیکھنے والوں کو چونکا دیتی تھی اس نے ڈبہ کھول کر ایک نظر سلور ڈائل کی گھڑی کو دیکھا تھا اور ایک نظر اپنے سے چند انچ کے فاصلے پر بیٹھی ہوئی لڑکی کو جس کے چہرے کا اشتیاق اسے اپنے ہاتھ میں گھڑی پہننے پر مجبور کرگیا تھا۔ وہ لمہے کے ہزارویں حصے میں واپس حال میں لوٹا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنسو بیک وقت ابھرے تھے اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں آنسو زندگی میں وہ دو سال سے ہر لمہہ اس گھڑی کو پہنتے ہوئے بے بسی محسوس کیا کرتا تھا اسے وہ گھڑی اپنی خودغرضی کے ساتھ اس کی امید بھری آنکھیں بھی یاد دلاتی تھی اور وہ پھر سے خود کو دوش دیتا تھا کیوں کہ وہ مجرم تھا وہ بزدل تھا اس میں ہمت کی کمی تھی وہ اس کے ساتھ کے بدلے دنیا کا سامنا نہیں کرسکتا تھا وہ اپنی محبت ہار گیا تھا وہ سب کچھ ہار گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مدہم پیلی روشنی سے منور خود میں ہلکی سی زندگی کی رمق لیے وہ کمرہ اس وقت سناٹوں کی زد میں تھا جو واحد آواز اس کمرے میں گونج رہی تھی وہ ہمشہ اس کے مکین کے لیے اذیت کا باعث ہوا کرتی تھی اکیس سال سے وہ یہ آواز اپنے اس کمرے میں سنتی آرہی تھی۔ وہ شناسا آواز کسی اور چیز کی نہیں تھی بلکہ تواتر سے بجتے تبلے اور چھنچھناتے ہوئے گھنگھروں کی تھی جو بُری طرح ہمشہ اس کے اعصاب پر لگتے رہے تھے۔ اسے یاد تھا بچپن میں وہ جب یہ آواز اپنے کمرے میں سنا کرتی تو پُرجوش ہوجایا کرتی تھی اسے لگتا تھا پتہ نہیں اس کے گھر میں کونسی تقریب منعقد کی گئی ہے مگر شعور کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے رکھتے اسے ایک بات اچھے سے سمجھ آگئی تھی یہ تبلے کی آواز اور گھنگھروں کی چھنکار کسی تقریب کے منعقد ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کے گھر میں ہر روز ہوتا تھا رنگ برنگے آدمیوں کا آنا اور پھر مختلف زرک برگ لباس پہن کر اس کی ماں اور باقی عورتوں کے تھرکتے ہوئے بدن نہ صرف اسے حیرت میں مبتلا کرتے تھے بلکہ اس کے اندر لاتعداد سوالات بھی اٹھاتے تھے مگر ایک احساس جو یہ سب دیکھ کر اسے بڑی شدت سے ہوتا تھا وہ تھا کہ یہ جو ہورہا ہے وہ غلط ہے اس کے دل میں ایک بھی بار یہ خیال نہیں آتا تھا کہ وہ بھی جاکر اس محفل کا حصہ بنے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے یہ قبول کرلیا تھا کہ اس کا تعلق جس گھرانے سے تھا وہاں یہ سب عام بات تھی مگر جس چیز کا خیال اسے رکھنا تھا وہ یہ تھا کہ اسے خود کو اس سب سے دور رکھنا تھا اس کا خیال تھا کہ وہ نہ تو اتنی اچھی رقاصہ تھی کہ ناچ کر شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرسکے اور نہ ہی اسے یہ سب پسند تھا اسے اپنی ماں اور ان باقی عورتوں کی زندگی سے ایک عجیب سی گھن آتی تھی جو بچپن سے لے کر جوانی تک اس کے اندر پلتی رہی تھی۔ اسے پڑھنا تھا اور وہ شدید مخالفت کے باوجود پڑھ رہی تھی۔
مسلسل تیز ہوتی آواز اب اس کے اعصاب پر ہتھوڑے برسا رہی تھی وہ بے دلی سے اٹھی تھی بے شک اسے اب اس آواز سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا مگر وہ اس لمہے سکون چاہتی تھی دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے گہرا سانس بھرا تھا اور ایک نظر دروازے کے سامنے لگی ریلینگ پر ڈالی تھی جہاں سے نیچے ہال کا منظر صاف دیکھائی دے رہا تھا اس کی ماں کی جگہ اب وہاں ایک اور خوبصورت لڑکی رقص کررہی تھی۔ نیچے کے منظر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال کر وہ کمرے میں واپس آئی تھی اور اپنے پیچھے دروازہ بند کردیا تھا گویا وہ مزید یہ سب نہیں سننا چاہتی تھی۔
دروازہ بند کرنے کے بعد آواز کی شدت میں کمی ضرور آئی تھی مگر وہ ابھی بھی پوری طرح اس آواز سے جان نہیں چھڑوا سکی تھی اسے اللہ سے شکوہ تھا لیکن وہ ہمشہ کوشش کرتی کہ اس شکوے کو وہ اپنے اور اللہ کے درمیان ہی رکھے کوئی تیسرا شخص پھر چاہے وہ اس کی ماں ہی کیوں نہ ہو اس شکوے سے فیض یاب نہ ہو اسے شکایت تھی کہ وہ کیوں اس جگہ پیدا ہوئی ہے اسے شکایت تھی کہ کیوں اس کی ماں اپنے جسم کی نمائش ان غیر آدمیوں کے سامنے کرتی ہے اسے شکایت تھی کہ اس کا باپ کون ہے جو انکشاف اس کے سارے جسم کا خون سمیٹ لیتا تھا وہ تھا وہ ایک ناجائز اولاد ہے جس کی نہ تو کسی کو کوئی خواہش تھی اور نہ ہی تمنا جس کے دنیا میں آنے کا نہ تو کسی کو کوئی اشتیاق تھا اور نہ اس کی کوئی پہچان تھی پھر وہ کیوں زندہ تھی اسے مارا کیوں نہیں گیا اور اپنے اس سوال کا جواب لینے اسے کبھی بھی کسی کے سامنے نہیں جانا پڑا تھا کیونکہ وہ اس سوال کا جواب بہت اچھے سے جانتی تھی کوٹھوں میں پیدا ہونے والی لڑکیوں کو مارا نہیں جاتا خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز ان کی پرورش کی جاتی ہے انہیں تو سیکھایا جاتا ہے کہ "ایک دن تونے بھی اسی بازار کی چیز بننا ہے جو تب تک دکان میں سجائی جائے گی جب تک اس کا کوئی بہترین خریدار نہیں مل جاتا جیسے ہی کوئی خریدار ملا تیرا بھی سودا کردیا جائے گا پھر تو اور تیری شخصیت جائے بھاڑ میں اس پر غیر کی حکمرانی ہوگی۔"
اور اس خیال کے بعد اس کے وجود میں چلتی ہر سوچ دم توڑ دیتی تھی وہ ہار جاتی تھی وہ خوفزدہ ہوتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کا کمزور سہارا اس کی ماں اسے زیادہ عرصے تک اس دلدل میں پھسنے سے بچا نہیں پائے گی اسے آخر کار ایک دن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہے کہ اس کی حقیقت ایک طوائف کی بیٹی سے شروع ہوکر ایک طوائف ہونے پر ختم ہوجاتی ہے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سورج کی دلفریب کرنوں نے پورے راجن پور پر اپنا بسیرا کرلیا تھا صبح صبح کے وقت گاوں کے لوگ اپنے اپنے کاموں کے لیے نکل رہے تھے ہری بھری فصلوں کے بیچ کچی سڑک پر ایک سائیکل پر اخبار فروش تمام گاوں کے گھروں کے سامنے اخبار پھینک رہا تھا وہ گاوں ضرور تھا مگر وہاں جہالت بہت کم دیکھنے کو ملتی تھی اور اس کا سہرا گاوں کے کرتا دھرتا پیر زرگل بخت کو جاتا تھا جس نے راجن پور گاوں کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا گاوں میں سکول،فیکٹری، ہسپتال،کالج اور ایک یونیورسٹی بھی تھی جو گاوں کے بچوں کے لیے تعمیر کرائی گئی تھی پیر زرگل کے تعلقات حکومتی نمائندوں سے بھی تھے جس کے باعث وہ گاوں کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں سہل رہے تھے۔
گاوں کے بیچ چوک میں ایک وسیع برگد کا درخت تھا جہاں صبح صبح گاوں کے بزرگ بیٹھ کر گپ شپ لگاتے اور قریبی ہوٹل سے ناشتے کا شغل بھی فرماتے ان کی زندگی بہت اچھی بیت رہی تھی مگر جو چیز اس پورے گاوں میں رائج تھی وہ تھی لال حویلی کی مریدی لال حویلی کے مکینوں کو پورے گاوں میں ایک خاص اہمیت حاصل تھی سید پیر زرگل بخت کو پیر صاحب کا رتبہ حاصل تھا شام میں ایک مخصوص وقت پر حویلی میں بیٹھک لگا کرتی تھی جس میں پیر زرگل بخت گاوں کے لوگوں کے مسائل سنتے ان کا حل بتاتے اور ان میں سے باز کا روحانی علاج بھی کرتے یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اللہ نے ان کے ہاتھ میں ایک خاص شفا رکھی تھی اور ان کی زبان میں ایک الگ قسم کی تاثیر بھی جس سے گاوں کے سب لوگ فیض یاب ہورہے تھے۔
گاوں کے آخری کونے میں ایک بے حد وسیع مقام پر وسیع و عریض لال اینٹوں سے بنی وہ خوبصورت اور عالی شان حویلی اپنی پوری تمکنت سے کھڑی تھی کوئی دور سے دیکھتا تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر ورتہ حیرت میں مبتلا ہوجاتا اونچے اونچے ستونوں پر کھڑی وہ حویلی لال اینٹوں کے درمیان خوبصورت بڑے بڑے شیشوں سے آراستہ تھی سڑک پر اس کا ایک ہی گیٹ تھا جو چنیوٹی اور شیشم کی لکڑی سے مل کر بنایا گیا وہ گیٹ دیکھنے میں ایسا لگتا تھا جیسے کسی الگ ریاست کا دروازہ ہو۔ گیٹ پر چوڑی لکڑی سے دائرے بنائے گئے تھے اور ہر دائرے کے بیچ ایک چمکتا ہوا گول پتھر لگا ہوا تھا گیٹ سے داخل ہوتے ہی ایک درمیانے سائز کی روش تھی جس کے دونوں جانب ہری گھاس اور درخت لگائے گئے تھے بائیں جانب والی گھاس کے درمیان نوکیلے پتھروں کی روش بنائی گئی تھی جس پر چل کر باآسانی فوارے تک جایا جاسکتا تھا۔ وہ ایک وسیع خوبصورت پتھروں سے بنا ہوا ایک دائرہ تھا جس کے اندر پانی بھرا ہوا تھا اور اوپر ایک بڑی شارک مچھلی کی شکل کا مجسمہ تھا جس کے منہ سے پانی کی دھاریں اس نیچے گہرے بنے ہوئے ہود میں گررہی تھی جبکہ دوسری جانب لکڑی اور میٹل کے خوبصورت صوفے لگائے گئے تھے جن کے درمیان ایک میز تھا وہاں اکثر شام میں حویلی کے مکین چائے کا لطف اٹھایا کرتے تھے۔ فوارے کے دوسری جانب وہی نوکیلے پتھروں کی روش بنی ہوئی تھی جوکہ صدر دروازے تک لے کر جارہی تھی جبکہ کشادہ سڑک سیدھی کار پورچ میں جاختم ہوتی تھی جوکہ دائیں جانب والی گھاس کے پیچھے حویلی کے اندرونی حصے کے پیچھے بنایا گیا تھا جس کے اوپر لکڑی کی چھت خوبصورت لوہے کے ستونوں پر کھڑی تھی وہاں مختلف گاڑیاں ایک قطار کی صورت میں کھڑی تھیں۔ ہر مکین کی اپنی پسند تھی۔ صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک چھوٹا سا برآمدہ پڑتا تھا جس سے گزر کر حویلی کے آہنی حصے کی جانب جایا جاتا تھا برآمدے میں ایک خوبصورت سرخ رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا اور برآمدے سے باہر نکل کر ہی ایک وسیع و عریض صحن پڑتا تھا چھوٹی اینٹوں کا وہ صحن بے حد شفاف اور کشادہ تھا جہاں لکڑی کا ایک جھولا ایک تخت اور کین کی چار پانچ کرسیاں رکھی گئی تھیں تخت کے اوپر سفید چادر کے ساتھ ہم رنگ گول تکیے رکھے ہوئے تھے صحن کے چاروں جانب برآمدے بنے ہوئے تھے جہاں ہر برآمدے کے پار دو کمرے بنائے گئے تھے باہر والے برآمدے کے بالکل ساتھ بیٹھک بنائی گئی تھی۔صحن کے دائیں جانب والے برآمدے میں دو کمرے تھے جن میں سے ایک کمرہ زوجاجہ بیگم کے پاس تھا اور ان کے برابر والا زرگل بخت اور بارینہ بخت کے پاس جبکہ سامنے کے برآمدے میں باورچی خانہ اور ایک سٹور تھا اور بائیں جانب والے برآمدے کے دو کمروں میں سے ایک کمرہ زرشاہ اور ممتاہیم بیگم کے پاس تھا اور دوسرا مہمان خانہ تھا اور پیچھے کے برآمدے کے دو کمرے بھی مہمانوں کے لیے ہی استعمال کیے جاتے تھے کیونکہ حویلی میں اکثر باہر شہروں سے مہمانوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ صحن کے ایک جانب سے کشادہ ماربل کی سیڑھیاں اوپر کو جارہی تھی جس کی ریلنگ لکڑی کی لگائی گئی تھی اوپر کے حصے میں صحن کے اوپری حصہ بالکل خالی تھا وہاں سے کھلا آسمان صاف دیکھائی دیتا تھا جبکہ چاروں برآمدوں کے اوپر کمرے بنائے گئے تھے جس میں سے ایک کمرہ مہالہ افروز کے پاس تھا اس کے سامنے کے برآمدے والا کمرہ درناب کے پاس اور دائیں جانب کے برآمدے کے کمرے بالکل الگ تھلگ بنائے گئے تھے جو کہ گھر کا کوئی بھی فرد استعمال نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ آبیان بخت کی ملکیت تھے جن میں سے ایک کمرہ وہ سٹڈی کے طور پر استعمال کرتا تھا اس کا دروازہ اس کے بیڈ روم میں بھی کھلتا تھا اور دوسرا کمرہ اس کے ذاتی استعمال کے لیے تھا جبکہ سامنے کے برآمدے کا درناب کے ساتھ والا کمرہ اس نے جم خانے کے طور پر سیٹ کیا ہوا تھا جہاں وہ اپنی مشقیں کیا کرتا تھا وہ حویلی کل ملا کر بیس کمروں پر مشتعمل تھی جہاں بے شمار ملازمائیں تھیں وہاں کے مکین انتہائی شان سے اس حویلی میں رہتے تھے۔ باورچی خانے کے سامنے والے برآمدے میں اٹھارہ کرسیوں پر مشتعمل لمبا میز لگا ہوا تھا جہاں اس لمہے ناشتے کی تیاریاں چل رہی تھیں خادمائیں میز پر ناشتہ چن رہی تھیں بارینہ بیگم خادماوں سے اپنی نگرانی میں ناشتہ لگوا رہی تھیں جبکہ ممتاہیم بیگم باورچی خانے میں موجود تھیں صحن والے تخت پر زوجاجہ بیگم اپنی چھڑی رکھے تیزی سے ہاتھ میں تھامی ہوئی تسبیح کے دانے گرا رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں بند تھیں جبکہ ہونٹ تیزی سے حرکت کررہے تھے۔ آسمان پر پرندے اڑ رہے تھے۔
" لالی اری او لالی!"
انہوں نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے اپنی قریبی ملازمہ کو آواز لگائی تھی جو ان کے لیے گرم قہوہ لینے باورچی خانے میں گئی تھیں ان کی آواز پر وہ ٹرے میں کپ رکھے دوڑی آئی تھی۔
" یہ قہوہ بی بی سرکار!"
اس نے ٹرے ان کے سامنے کی تھی انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور پھر ٹرے سے کپ اٹھا لیا تھا۔
" بخت پتر! اٹھ گیا؟"
انہوں نے سب سے پہلے وہی سوال کیا تھا جو وہ روزانہ کرتی تھیں۔
" بی بی سرکار اٹھ گئے ہیں جی ورزش والے کمرے میں ہیں۔"
اس نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں انہیں آگاہ کیا تھا۔
" صبح بخیر بی بی سرکار!"
باہر سے زرگل بخت اور زرشاہ نے آکے باری باری ان کے آگے سرجھکایا تھا اور انہوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
" زمین کا معاملہ حل ہوا کہ نہیں؟"
وہ تسبح کے دانے ہنوز گرا رہی تھیں ساتھ میں گفتگو بھی جاری تھی۔
" ایسا ہوسکتا تھا بی بی سرکار! آپ کا لامہ جاتا اور معاملہ مزید لٹکتا۔"
زرگل بخت نے ان کے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا جس پر وہ ہولے سے مسکرائی تھیں ورنہ سختی ان کے چہرے کا خاصہ تھی وہ ایک سخت خاتون تھیں۔
" بڑی بہو! ناشتہ لگا کہ نہیں؟"
انہوں نے دور سے ہی بڑی بیگم کو مخاطب کیا تھا۔
" بی بی سرکار لگ گیا ہے آجائیں۔"
انہوں نے دور سے ہی بی بی سرکار سے کہا تھا۔
" جا لالی شیرا کو بول بخت پتر کو بھی بلا لائے اور تو دیکھ یہ مہالہ اور درناب کیوں میز پر نہیں پہنچیں ابھی تک۔"
وہ تخت کے پاس سے اپنی چھڑی سمبھالتی ہوئی کہہ رہی تھیں وہ جو بھی کررہی ہوتیں ان کی نظر پوری حویلی پر ہوتی تھی۔ ان کے حکم پر لالی باہر شیرا کی جانب بڑھی تھی اور اسے کہنے کے بعد خود وہ اوپر چلی گئی تھی۔
" افروز جان! بی بی سرکار ناشتے پر یاد فرمارہی ہیں۔"
وہ جو بالوں میں برش چلا رہی تھی لالی کی آمد پر اس کی جانب مڑی تھی۔
" ہاں بس میں آہی رہی تھی تم درناب کو اٹھادو وہ ضرور ابھی تک سورہی ہوگئی اگر بی بی سرکار کو معلوم ہوگیا تو سخت خفا ہوجائیں گی۔"
مہالہ نے لالی سے کہا تو وہ سر ہلا کر ساتھ والے کمرے کی جانب بڑھ گئی جہاں درناب کو اٹھانا کسی محاذ سے کم نہیں تھا۔ وہ سر تک چادر تانے بے خبر سو رہی تھی کمرے میں نیم اندھیرا کیے وہ جیسے سوتے ہوئے پوری دنیا سے بے خبر ہوجاتی تھی۔
"درناب بی بی!"
لالی نے سب سے پہلے آکر اس کے کمرے کی کھڑکی کے پردے سرکائے تھے جس کے پیچھے ہوتے ہی روشنی کی پیلی چمکدار کرنیں اس کے بستر پر پھیل گئی تھیں۔
" درناب بی بی! اٹھ جائیں بی بی سرکار ناشتے پر انتظار کررہی ہیں۔"
اس نے جیسے درناب کو آج کی سب سے اہم خبر دی تھی بی بی سرکار ناشتہ بہت صبح کرلیتی تھیں یہ ان کی عادت تھی وہ سب گھر والوں کے ساتھ ناشتے کی میز پر موجود ضرور ہوتی مگر کبھی اس بات پر استفسار نہیں ہوا تھا کہ کون آرہا ہے اور کون نہیں۔ لالی کی بات سن کر اس نے چادر سے منہ نکال کر لالی کی جانب حیرت سے دیکھا تھا اور پھر حیرت کے ساتھ لمہے میں ہی اس کے منہ کے زاویے بگڑے تھے۔
"یہ چندا کہاں روپوش ہے جو تم میرے کمرے میں پہنچ گئی ہو صبح صبح بی بی سرکار کی چمچی!"
بیڈ سے اترتے ہوئے اس نے پشت پر بکھرے ہوئے اپنے کندھوں سے زرا نیچے آتے بالوں کو سمیٹ کر جوڑے میں مقید کیا تھا لیکن سوالیہ نگاہیں لالی کے چہرے پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔
"وہ جی چندا تو باورچی خانے میں بڑی بیگم کے ساتھ ناشتہ لگوا رہی ہے۔"
لالی نے گھبرا کر چندا کے نہ آنے کی صفائی دی تھی تب تک درناب واشروم کے دروازے تک پہنچ چکی تھی۔
" جاو تم آتی ہوں۔"
اس نے لالی سے کہا اور خود واشروم میں بند ہوگئی۔
وہ ٹریڈ مل پر تیزی سے بھاگ رہا تھا جسم کے ساتھ چپکی ہوئی گرے ٹی شرٹ سیاہ ٹراوزر کے ساتھ پہنے کانوں میں ہینڈفری لگائے اپنے سنجیدہ تاثرات کے ساتھ وہ مسلسل بھاگ رہا تھا بورے بال پسینے سے ماتھے کے اوپر چپکے ہوئے تھے سانس تیزی سے چل رہا تھا راحت علی ٹریڈ مل کے قریب اپنے ہاتھوں میں ایک سفید تولیہ لیے اس کے نزدیک کھڑا تھا جب دروازے پر شیرا نمودار ہوا تھا۔ راحت علی نے پیچھے کی جانب مڑ کر شیرا کو دیکھا تھا جو ہاتھ باندھے دروازے پر کھڑا تھا۔
" بخت سرکار کو بی بی سرکار ناشتے پر بلا رہی ہیں۔"
اس نے اپنی بات راحت علی کو کہہ دی تھی اور واپس مڑ گیا تھا۔
تب تک وہ ٹریڈ مل روک چکا تھا راحت علی نے سفید تولیہ اس کی جانب بڑھایا تھا۔ اس نے انہی تاثرات کے ساتھ اس کے ہاتھ سے تولیہ تھاما تھا اور اچھے سے اپنے چہرے پر آیا ہوا پسینہ پونچھا تھا۔
" سرکار! بی بی سرکار یاد فرما رہی ہیں آپ کو۔"
راحت علی نے اسے جوس کا گلاس تھماتے ہوئے بتایا تھا۔
" آتے ہیں! ہمارے کپڑے نکال دو راحت ہم شاور لے کر آرہے ہیں۔"
اس نے راحت سے کہا اور گلاس خالی کرکے اس کی جانب بڑھایا خود وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
ناشتے کی میز پر نواورنگ کے لوازمات سج چکے تھے بی بی سرکار سیاہ شلوار قمیض کے اوپر بڑی سی سفید چادر اوڑے کرسی پر براجمان تھیں ان کے دائیں اور بائیں جانب زرگل اور زرشاہ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کی کرسیوں کے پیچھے بارینہ اور ممتہیم بیگم کھڑی تھیں۔
" بیٹھ جائیں آپ دونوں بھی۔"
بی بی سرکار نے ان دونوں کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا جسے پاتے ہی وہ دونوں اپنی نشستیں سمبھال چکی تھیں۔ کچھ دیر میں ہی مہالہ خوبصورت اور جدید طرز کا ہلکے گلابی رنگ کا شلوار سوٹ پہنے بڑا سا دوپٹہ سر پر ٹکائے اپنی خاص ملازمہ رکھی کے ساتھ سیڑھیوں سے اترتی ہوئی دیکھائی دی تھی۔
"سلام بی بی سرکار!"
اس نے آگے بڑھ کر بی بی سرکار کا ہاتھ تھام کر بوسہ لیا تھا۔
" جیتی رہیے۔ درناب کہاں ہیں؟"
اسے دعا دے کر ان کی توجہ فوری درناب کی جانب گئی تھی۔
" میں یہاں ہوں بی بی سرکار!"
وہ گہرے نیلے رنگ کے چوڑی دار پجامے کو کرتے کے ساتھ پہنے ہوئے تھی سر پر دوپٹہ جمائے وہ مسکرا رہی تھی جو اس کے چہرے کا خاصہ تھی۔ بی بی سرکار بھی اس کی جانب دیکھ کر مسکرائیں تھیں۔
" سلام بی بی سرکار!"
مہالہ والا عمل ہی درناب نے بھی دہرایا تھا اور اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ گئی تھی جو کہ مہالہ کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔
" افروز جان! چھچھی!"
اس نے مہالہ کے کان میں سرگوشی کی کوشش کی تھی ساتھ میں اس کی ٹانگ پر ایک چٹکی بھی بھری تھی وہ بیچاری سی کرکے رہ گئی تھی۔
" کیا ہے؟"
مہالہ نے پھاڑ کھانے والی نظروں سے درناب کی جانب دیکھا تھا جس نے بیچارا سا منہ بنایا ہوا تھا۔
" اتنی سخت بھوک لگ رہی ہے اور بی بی سرکار کے ہوتے کوئی ناشتے کی جرات نہیں کرے گا جب تک بھا صاحب نہ آجائیں۔"
اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہیں تھی۔
" تو تم تھوڑا صبر کرلو بخت سرکار! بھی آتے ہی ہونگے۔"
اس نے اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تھا۔
" آہاں یہ صبر آپ پر تو واجب ہے ہم کیوں کریں بھئی۔"
اس نے آنکھیں مٹکائی تھیں۔
" چپ کرجاو درناب ہر وقت فضول گوئی کرتی ہو۔"
وہ جیسے عاجز آچکی تھی وہ اسے مزید کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر اس سے پہلے ہی اس کی نگاہیں اس کی جانب اٹھ چکی تھیں جو بلو جینز پر وائٹ شرٹ پہنے کف کوہنیوں تک موڑے کلائی میں قیمتی رسٹ واچ پہنے برآمدے میں داخل ہوا تھا مخصوص پرفیوم کی خوشبو پورے ماحول میں پھیل گئی تھی۔
" سلام بی بی سرکار!"
چہرے پر مسکراہٹ تھی اس نے بی بی سرکار کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ لیا تھا۔
" وعلیکم پتر! اتنی دیر لگا دی ہم کب سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔"
بی بی سرکار کے لہجے میں فوری سے بیشتر نرمی پیدا ہوئی تھی۔
" معاف کیجیے گا ہمیں تھوڑی دیر ہوگئی۔"
وہ چہرے پر شرمندگی کے تاثرات لیے ان سے کہہ رہا تھا۔ جو ناشتہ شروع کرنے کا عندیہ دے چکی تھیں سب سے پہلے درناب ناشتے پر ٹوٹی تھی اور مہالہ صرف اس کی حرکتوں پر افسوس کرتی رہ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
جدید طرز کے اس عالیشان بنگلے میں صبح کے سورج نے اپنے پر پھیلائے تھے وہ بھی منہ کے بل اپنے سٹائیلش بیڈ پر اڑھی ترچھی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔ ماہ وین بیگم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھیں اور اس کی حالت پر افسوس کرکے رہ گئی تھیں۔
" دمیر صاحب!"
انہوں نے بہت مشکل سے اپنے غصے کو قابو میں کیا تھا ورنہ اس کی حالت دیکھ کر انہیں اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
" دمیر بخت!"
اب کی بار لہجے میں صرف سختی نہیں تھی بلکہ آواز بھی قدرے بلند تھی۔
" جام علی!"
انہوں نے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ملازم کو مخاطب کیا تھا جو فوری سے بیشتر آگے آیا تھا۔
" جی میڈم!"
جام علی کے لہجے میں بلا کی تابعداری تھی۔
" ٹھنڈے پانی کا جگ بھر کر لاو۔"
انہوں نے تحکمانہ لہجے میں اس سے کہا تو وہ باہر کی جانب بھاگا تھا تقریباً آدھے منٹ کے بعد وہ پانی سے بھرا ہوا جگ لیے ان کے سامنے تھا۔
" اسے ہوش میں لاؤ ورنہ مجھے لگ رہا آج میں اپنا ٹیمپر لوز کرجاوں گئی۔"
ان کے لہجے میں برف کی سی ٹھنڈک تھی جام علی نے ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا جگ بیڈ پر اڑے ترچھے لیٹے دمیر بخت کے منہ پر انڈیلا تھا جس کے باعث وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا اپنے سامنے ہلکے آسمانی رنگ کے شلوار سوٹ میں دوپٹہ سر پر ٹکائے ماہ وین بیگم کو غیض و غضب کی تصویر بنے کھڑا دیکھا تو اس کی پیشانی پر لاتعداد شکنیں ابھری تھیں۔
" واٹسرونگ اماں!"
اس نے خود کو کافی حد تک قابو کرتے ہوئے کہا تھا۔
" جسٹ شٹ اپ دمیر بخت! یہ سب تمہارے باپ کی ڈھیل اور بے جا لاڈ پیار کا ہی نتیجہ ہے جو تم اپنی اقتدار مکمل فراموش کرچکے ہو تمہارے حد سے تجاوز کرتے شوق کسی دن ہمیں بیچ منجدار میں رسوا کروائیں گئے۔"
وہ شاہد ہی کبھی اس قدر اشتعال میں آتی تھیں لیکن اب دمیر بخت کی حرکتوں نے انہیں اپنی فطری نرمی بُھلانے پر مجبور کردیا تھا۔
" جام علی! گلاس میں دو لیموں نچوڑ کر لاؤ تاکہ اس کا نشہ اتر سکے اور یہ ہوش میں آئے۔"
جام علی کو حکم دینے کی دیر تھی وہ جلدی سے باہر بھاگا تھا گلاس میں لیموں پانی لے کر نمودار ہوا تھا۔
" پلاؤ اسے۔"
انہوں نے تلخی سے کہا تو جام علی نے آگے بڑھ کر گلاس دمیر بخت کے لبوں سے لگا دیا جس سے وہ ایک ہی سانس میں چڑھا گیا۔ نشہ جب اترا تو اسے اپنی حالت اور پوزیشن کا اندازہ ہوا تھا وہ ماہ وین بیگم کے سامنے قدرے شرمندہ بھی دکھائی دے رہا تھا۔
" آئی ایم ایکسٹریملی سوری اماں! "
وہ شرمندگی سے سر جھکا گیا تھا۔
" کہاں تھے رات بھر؟"
ان کا لہجہ ابھی بھی برف کی مانند ٹھنڈا ٹھار تھا۔ اسے ایک لمہے کے لیے لگا تھا جیسے وہ انہیں کوئی بھی جواب نہیں دے پائے گا مگر لمہے کے ہزارویں حصے میں وہ سمبھل کر گویا ہوا تھا۔
" فرینڈ کی طرف تھا پارٹی میں۔"
اس نے مختصر کہا اور بستر چھوڑ کر واشروم میں بند ہوگیا وہ بس اس کے چہرے کے تاثرات ہی جانچتی رہ گئی تھیں۔ ایک منٹ کی دیر کیے بغیر وہ اس کے کمرے سے نکل کر نیچے لاونج میں آئی تھیں جہاں ان کے شوہر صوفے پر براجمان اخبار کا مطالعہ کررہے تھے۔
" ضرار صاحب! دیکھا آپ نے آپ کا صاحبزادہ کل کی پوری رات پھر سے باہر گزار کر آرہا ہے۔"
وہ غصے سے بھری بیٹھی تھیں تب ہی موقع ہاتھ لگتے بیٹے کے کرتوتوں کے ساتھ باپ کو بھی لپیٹ میں لے گئی تھیں۔
" ماہ وین صاحبہ! وہ صرف میری ہی اولاد نہیں ہے آپ کا بھی کچھ لگتا ہے۔"
انہوں نے فریم لیس گلاسیس سے زرا سا چہرہ اٹھا کر گویا انہیں یاد دلایا تھا کہ دمیر بخت ان کی بھی لاڈلی اولاد ہے۔
"میری اولاد ہے اسی لیے تو اس کے لیے فکر مند ہوں نہ آپ برسوں پہلے وہ غلطی کرتے اور نہ۔"
اس سے آگے کا جملہ ان کے منہ میں ہی تھا جب ضرار بخت کی انگلی نے ان کے ہونٹ سی دیے تھے۔
" خبردار ماہ وین صاحبہ! اگر آپ نے اپنے منہ سے ایک لفظ بھی اور نکالا تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا۔"
ماہ وہن بیگم خاموشی سے بس انکا چہرہ دیکھتی رہ گئی تھیں۔
" مارننگ اماں!"
وہ ہک دک وہی کھڑی تھیں جب پیچھے سے میراب نے ان کے گلے میں بانہیں ڈالی تھیں۔
" مارننگ اماں کی جان!"
انہوں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے کہا تھا اور دونوں چلتے ہوئے ڈائینگ ٹیبل کی جانب آگئے تھے۔
" صبح صبح موڈ کیوں خراب لگ رہا ہے آپ کا اور یہ بھا جان کہیں نظر نہیں آرہے؟"
وہ ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے دمیر کے متعلق پوچھ رہا تھا۔
" ناشتہ کرو وہ بھی آجائے گا۔"
انہوں نے بے خیالی سے اسے ناشتے کی جانب متوجہ ہونے کے لیے کہا تھا اور خود بھی بے دلی سے ناشتہ کرنے لگی تھیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ برسوں پرانی بات کے خیال نے ضرار بخت کو سرد مہر بنا دیا ہو ہمشہ سے یہی ہوتا آرہا تھا جہاں ماہ وین بیگم نے کسی شکوے کے لیے زبان کھولی نہیں وہاں ضرار بخت کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوجاتی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ کوئی عالیشان قسم کی پرانی طرز کی بنی ہوئی کوٹھی تھی بڑے بڑے ستونوں،دالانوں اور برآمدوں پر مشتعمل وہ کوٹھی شریف لوگوں کی رہائش گاہ ہرگز نہیں تھی گیٹ کے ساتھ اور سامنے گجرے والے،پھول والے اپنی اپنی ریڑھیاں سجائے سارا وقت بیٹھے رہتے تھے کوٹھی کا گیٹ ہر وقت کھلا رہتا تھا اس کے سامنے ایک چوکیدار کرسی رکھے دن رات ڈیوٹی پر معمور ہوتا تھا۔ کوٹھی کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی سیدھی روش تھی جس کے ختم ہوتے ہی ایک برآمدہ تھا جہاں اندر کی جانب جانے والا دو پنوں کا رنگین دروازہ تھا جس سے زرک برگ لباس پہنے لڑکیاں اور عورتیں آ جا رہی تھیں۔ دروازہ پار کرتے ہی چپس کا فرش تھا جس کے مختلف کونوں میں مختلف طرز کے قالین بچھے ہوئے تھے دروازے کے سامنے ایک خوبصورت تخت رکھا گیا تھا دونوں جانب صوفہ سیٹ رکھے گئے تھے اور بڑے بڑے سرخ پردے لگائے گئے تھے تخت کے پاس ایک لکڑی کا خوبصورت اور بڑا سا جھولا رکھا گیا تھا۔ دائیں جانب ایک ہال نما کمرہ تھا جہاں ہر جانب سرخ قالین بچھا کر گول تکیے لگائے گئے تھے ایک جانب تبلے،ہارمونیم وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ بائیں جانب کے دالان میں ایک قطار کی صورت میں بہت سے کمرے بنے ہوئے تھے اور انہی کمروں کے ساتھ سیڑھیاں اوپر گول دائرے کی شکل میں جارہی تھیں چوڑائی کی صوت میں پورے حصے میں کمرے تھے جن کی کھڑکیاں ان کی بالکونیوں میں کھلتی تھی جو پیچھے کی جانب بنائی گئی تھیں چوڑائی میں لکڑی کی ریلنگ لگائی گئی تھی جہاں سے نیچے ہال کا منظر صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ ایک جانب کو بڑا سا ٹیرس نما حصہ تھا جہاں پر مزید ایک تخت رکھا ہوا تھا اور بہت سے پودے بھی جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے۔
نیچے ہال کے پاس والے تخت پر گل شیرہ بائی پوری تمکنت کے ساتھ جھل مل کرتا کاسنی غرارہ انتہائی تنگ قمیض کے ساتھ پہنے نیٹ کا دوپٹہ اوڑے بالوں کو جوڑے میں قید کیے جس پر دائرے کی صورت میں گجرہ سیٹ کیا گیا تھا وہ پان دان سے بڑی شان سے پان بنا کر کھا رہی تھیں۔
" اے چھمی! ادھر آیو نہ زرا!"
وہ پاس سے گزرتی ہوئی نوجوان لڑکی کو اپنی جانب بلا رہی تھیں جو اونچی سرخ قمیض گھیر دار شلوار کے ساتھ پہنے ہوئے دوپٹے کو لاپرواہی سے گلے میں ڈالے گھوم رہی تھی۔
" جی گل صاحبہ!"
اس کے لہجے میں بلا کا احترام تھا۔
" یہ سلسبیل اور اس کی وہ پٹاخہ نظر نہیں آرہی کدھر ہے؟"
وہ آنکھ دباتے ہوئے بڑی ہی راز داری کے ساتھ چھمی سے پوچھ رہی تھیں۔
" وہ جی باہمین بی بی تو پڑھنے گئی ہیں جبکہ سلسبیل بائی تو انجیل بی کے ساتھ ان کے کمرے میں ہیں۔"
چھمی نے پوری رپوٹ انہیں پیش کی تھی۔
" رات کے فکنشن کا سارا کا سارا انتظام دیکھ لیجیو ہم اب کچھ دیر آرام کریں گئے۔"
وہ کہہ کر اپنا پان دان بند کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں ان کا رخ اب انجیل بی کے کمرے کی جانب تھا جہاں پر سلسبیل بائی کو وہ ایک بار پھر سے تنبیہ کرنا چاہتی تھیں وہ حیران ہوتی تھیں کہ وہ کیوں سلسبیل بائی کی ہر بات آسانی سے مان جاتی تھیں شاید اس لیے کہ وہ ان کی لاڈلی رقاصاں تھیں من چاہی طوائف۔ ان کے چہرے پر لحظہ بھر کے لیے مسکراہٹ رینگی تھی اور پھر انہوں نے دھیرے سے دروازہ کھٹکھٹایا تھا جو کہ اندر سے بند تھا۔
چند پل کی تاخیر کے بعد دروازہ کھول دیا گیا تھا انجیل بی کے چہرے پر حیرت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی اور تاثر تھا وہ بس دروازہ کھول کر ایک جانب کو ہوگئی تھیں اس خواب گاہ کا ماحول بہت ہی خواب ناک ہوتا تھا ایک عجیب سا سرور لیے ہوئے اس لیے گل شیرہ بائی اپنے مہنگے گاہک سلسبیل بائی کے لیے اسی کمرے میں بھیجا کرتی تھیں۔
" خیریت گل صاحبہ! کوئی کام تھا کیا؟"
سلسبیل بائی ایک دم سے آگے آئیں تھیں۔
" باہمین پھر سے گئی ہے کوٹھی سے باہر؟"
وہ سوال بھی یوں پوچھتی تھیں جیسے اگلے بندے کی جان حلق سے کھینچ رہی ہوں۔
" بس آخری سال ہے اس کا پھر پڑھائی مکمل ہوجائے گئی جیسا آپ چائیں گئی پھر ویسا ہی ہوگا بس کچھ وقت دے دیں اسے میں تب تک اسے ذہنی طور پر تیار کرلوں گی۔"
سلسبیل بائی کا انداز منت بھرا تھا گل شیرہ بائی نے ان کا چہرہ دیکھا تھا اور پھر نخوت سے سر جھٹکتی ہوئی باہر چلی گئی تھیں بے ساختہ سلسبیل اور انجیل نے پرسکون سانس خارج کی تھی۔
" وہ نہیں مانے گی سلسبیل!"
انجیل بی کے چہرے پر فکر کی گہری لکیریں تھیں۔
" آخر کب تک پچاوں گی میں اسے آپا! لاکھ پاک دامن سہی ہے تو وہ ایک طوائف کی بیٹی کون شریف زادہ اسے اس کوٹھے پر بیاہنے آئے گا پھر ماننے نہ ماننے سے کیا ہوگا یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی کہ وہ سلسبیل بائی مشہور طوائف کی بیٹی اور انجیل بائی کی بھانجی ہے، گل شیرہ بائی کی پناہ گزیر ہے۔"
وہ تلخی سے کہہ رہی تھیں ان کی بات کے جواب میں انجیل بی نے بس چپ سادھ لی تھی کیونکہ کوئی بھی دلیل یہ سچ نہیں جھٹلا سکتی تھی۔
وہ دروازہ کھول کر باہر نکلنے ہی والی تھیں جب باہمین کو اپنے سامنے سوالیہ نظروں سے دیکھتے کھڑے پایا۔
" آگئی تم؟ "
انہوں نے اس کے تاثرات نظر انداز کرکے قدرے ہلکا پھلکا انداز اپنایا تھا۔
" آج کیا کہا ہے آپ کو گل صاحبہ نے؟"
اس کے تاثرات ایک دم برف کی مانند ٹھنڈے ٹھار تھے۔ سلسبیل بائی نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" کچھ بھی نہیں کہا چلو تم اپنے کمرے میں۔"
انہوں نے اسے شانے سے تھاما تھا اور وہاں سے لے کر سیڑھیوں کی جانب چل پڑی تھیں۔اب تو انہیں بھی پتہ لگ چل چکا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں جو حالات پیش آتے ہیں باہیمن زہرا ان حالات سے بے خبر نہیں ہے۔
کمرے میں پہنچ کر اس نے ان کا ہاتھ اپنے شانے سے ہٹایا تھا اور انہی برفیلے تاثرات کے ساتھ گویا ہوئی تھی۔
"گل شیرہ بائی کی چاکری کرنے سے آپ کو فائدہ ملتا ہوگا سلسبیل بائی! لیکن مجھے کوئی فائدہ نہیں ملتا اور نہ کسی ایسے بے بنیاد فائدے کی مجھے اس کوٹھے سے طلب ہے جہاں عزت بیچ کر کھائی جارہی ہو وہاں سانس بھی آپ کیسے لے سکتے ہو۔"
اس نے انتہائی تلخی سے اپنا جملہ پورا کیا تھا مگر جملہ مکمل کرتے ہی سلسبیل بائی کا زور دار تماچہ اس کا روئی سا گلابی گال سرخ کرگیا تھا مگر یہ تماچہ کھاتے ہوئے نہ تو اسے کوئی تکلیف ہوئی تھی اور نہ اسے جلن ہوئی تھی کیونکہ ایسی جلن اور تکلیف اس کی ذات کا حصہ بن چکی تھی۔ وہ اتنی تلخ ہوچکی تھی کہ اپنی ماں کو ماں نہیں کہتی تھی جو پوری کوٹھی پکارتی وہ بھی وہی پکارتی تھی وہ اس بات سے انجان تھی کہ اس دنیا میں جتنا اس کی ماں اسے بچاتی ہے شاید ہی کوئی بچاتا ہو اور یہ انکشاف بھی اس کی ذات پر جلد ہی ہونے والا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈھلتی ہوئی شام کے گہرے سائے دھیرے دھیرے نیلے آسمان کی زینت بن رہے تھے خوبصورت لکڑی کے ریسٹ ہاوس میں وہ آتش دان کے بالکل قریب ایزی چئیر رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے گھٹنے پر کوئی انگلش ناول رکھا ہوا تھا اور ناک پر عینک چڑھائے وہ انتہائی انمہاک سے ناول کا مطالعہ کررہے تھے۔ قریب رکھی چھوٹی لکڑی کی گول میز پر بھاپ اڑاتی کافی کا مگ رکھا ہوا تھا جس میں سے وہ مطالعے کے دوران گاہے بگاہے چسکیاں لے رہے تھے۔
" بابا میں زرا قریب لائبریری تک جارہی ہو کچھ کتابیں لوٹانی ہیں۔"
انہوں نے عینک سے ذرا کی دیر کے لیے نگاہیں اٹھا کر بیٹی کو دیکھا تھا۔
" اوکے لیکن جلدی آنا۔"
انہوں نے اجازت دینے کے ساتھ ساتھ جلدی لوٹنے کی تاکید بھی کی تھی وہ دروازے کے قریب پہنچی ہی تھی جب ان کی آواز نے اس کے قدم روک لیے تھے۔
" راغیص! ریحا کب واپس آرہی ہے؟"
انہوں نے عام سے لہجے میں ہی سوال کیا تھا۔
" بابا! وہ آجائے گی ڈونٹ وری۔"
اس نے قریب آکر ان کا شانہ تھپتھپایا تھا اور کندھے پر پہنے ہوئے بیگ کی سٹریپ درست کرتی ہوئی تیزی سے باہر نکل گئی تھی۔
ریحا اور راغیص دو ہی تو ان کی بیٹیاں تھیں پانچ سال ہوگئے تھے وہ شہر چھوڑ کر نیلم کے ان پہاڑوں میں آبسے تھے صرف سکون کے لیے جب سے ان کی بیوی کا انتقال ہوا تھا سکون جیسے ان کی زندگی سے رخصت ہوگیا تھا ریسٹ ہاوس کے قریب ہی ایک چھوٹے سے لکڑی کے گھر میں ہی لائبریری بنائی گئی تھی جہاں سے وہ اور راغیص اکثر ہی کوئی نہ کوئی کتاب لاکر پڑھتے رہتے تھے شہر والی پراپرٹی بیچ کر یہاں چند ریسٹ ہاوس خریدے تھے اور اب پانچ سال سے نیلم میں ایک ہوٹل اور دو ریسٹ ہاوس چلا رہے تھے ایک فلیٹ کراچی میں بھی خریدا تھا کبھی یہاں سے واپس جانے کا دل کرے تو کم از کم پناہ کے لیے جگہ تو ہو۔ ریحا ان کی چھوٹی بیٹی تھی خود سر اور بے حد ضدی ماں کی موت نے اسے ایک عجیب سے خول میں بند کردیا تھا جس سے نکلنے کے لیے وہ ہمشہ کوئی نہ کوئی راہِ فرار حاصل کرتی تھی اب بھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ نیلم کی سیر کو نکلی ہوئی تھی تین دن سے وہ گھر نہیں لوٹی تھی ایسے میں حزیمہ بختیار کو بیٹی کی فکر نہ ہو تو کیا ہو وہ اندر ہی اندر اسے لے کر بے حد پریشان تھے اور راغیص سے ان کی یہ پریشانی کسی طور بھی چھپی ہوئی نہیں تھی اس لیے وہ وقتاً فوقتاً باپ کو ریحا کی طرف سے حوصلہ رکھنے کی تلقین کرتی رہتی تھی۔ کبھی کبھی وہ سوچتے تھے کہ ریحا اللہ کی طرف سے ان کے لیے کوئی آزمائش ہے کتنی عجیب بات ہوتی ہے ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والی اولادیں لیکن فطرت اپنی اپنی یہ تو اللہ کی شان ہے ایک اتنی حساس اور نرم دل اور دوسری اتنی ضدی اور سخت انہوں نے گہرا سانس بھر کر خود کو دوبارہ مطالعے میں غرق کرنے کی کوشش کی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کی سیاہی جوں جوں آسمان پر پھیل رہی تھی لال حویلی کی ساری بتیاں روشن ہوتی جارہی تھیں۔ لال حویلی زرگل بخت کے دادا مبین بخت نے تعمیر کرائی تھی بالکل اپنی پسند اور مرضی کے عین مطابق مبین بخت کی وفات کے بعد دستار کے وارث زرگل بخت اور زرشاہ بخت کے والد محترم حنزلہ بخت ٹھہرے تھے اسی دوران میں ان کی شادی ان کی پھوپھو زاد زوجاجہ بخت سے ہوئی تھی جو کہ بخت خاندان کی آدھی جائیداد کی وارث کہلاتی تھیں کیونکہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں اور ان کے والد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے زوجاجہ بخت سے شادی کے بعد بخت خاندان کی دستار حنزلہ بخت کو مل گئی تھی اور انہوں نے اپنی زمہ داریاں انتہائی سہل طریقے سے نبھائی تھیں۔ حنزلہ بخت اور زوجاجہ بخت کے تین بیٹے تھے سب سے بڑے زرگل بخت ان سے چھوٹے ظرار بخت اور سب سے چھوٹے زرشاہ بخت ظرار بخت کو برسوں پہلے حویلی سے بے دخل کردیا گیا تھا اور اب ایسا تھا کہ کوئی لال حویلی میں ان کا ذکر بھی نہیں کرتا تھا ان کا ذکر کرنا جیسے لال حویلی کے مکینوں کے لیے ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ حنزلہ بخت کی وفات کے بعد جاگیر اور دستار کی ساری زمہ داری زرگل بخت کے کندھوں پر آگئی تھی کیونکہ اس وقت ان کی عمر چھوٹی تھی اس لیے وہ دستار اور جاگیر کی زمہ داریاں نہیں نبھا سکتے تھے اس لیے انہیں دستار کا وارث نامزد کردیا گیا تھا مگر جاگیر کی ساری زمہ داریاں زوجاجہ بخت خود نبھا رہی تھیں اسی دوران پورے گاوں کے لوگ انہیں بی بی سرکار کہنا شروع ہوگئے تھے اور دھیرے دھیرے انہوں نے خود کو گاوں والوں کے مسائل حل کرنے کے لیے وقف کردیا تھا پھر زرگل بخت نے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد دستار کی تمام تر زمہ داریاں احسن طریقے سے سمبھال لی تھیں اور اب تک سمبھال رہے تھے ان کے بعد دستار کے وارث کے طور پر زرشاہ بخت کے اکلوتے بیٹے آبیان بخت کو نامزد کیا گیا تھا وہ اگلا وارث تھا دستار کا بی بی سرکار کا لاڈلا پوتا جسے ہر گناہ ہر غلطی کی معافی تھی یا شاید وہ دے دیتی تھیں کوئی آج تک نہیں سمجھ پایا تھا۔وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں لالی ان کے پیروں میں تیل ڈال رہی تھی۔
" اری! سہی سے ڈال نہ ہاتھوں میں جان نہیں ہے کیا تیرے؟"
وہ دروازے میں کھڑا تھا جب اس کے کانوں میں بی بی سرکار کی آواز پڑی تھی وہ لالی کو سرزنش کررہی تھیں بے ساختہ اس کے لب مسکرائے تھے۔ اس نے دھیرے سے ان کے کمرے کے دروازے پر دستک دی تھی۔ انہوں نے چونک کر دروازے کی سمت دیکھا تھا وہ شب خوابی کا لباس زیب تن کیے ان کے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا تھا۔
"ارے بخت پتر! آجائیے! آج کیسے اپنی بی بی سرکار کی یاد آگئی آپ کو؟"
بی بی سرکار نے اپنے پیر سمیٹتے ہوئے اسے اندر بلایا تھا اور لالی کو باہر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ لالی کے باہر نکلتے ہی وہ اندر ان کے پلنگ پر بالکل ان کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
" پیروں میں کیا بہت درد ہے؟"
اس نے ان کے پیر تھامتے ہوئے تفکر سے پوچھا تھا اس کی فکر پر وہ جیسے نہال ہوگئی تھیں۔
" ارے بس یہ تو اب عمر کا تقاضا ہے یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے آپ بتائیے خیریت سے آئے ہیں؟"
انہوں نے اس کے چہرے پر ایک محبت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا تھا۔
" جی بی بی سرکار! ہمیں آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔"
اس نے ان کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے جیسے اجازت چاہی تھی۔
" سب خیر ہے نہ پتر!؟"
وہ اب صیح معنوں میں پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔
"جی سب خیر ہے اصل میں ہمیں شہر جانا ہے۔"
اس نے انتہائی دھیرے سے اپنی بات مکمل کی تھی۔
" شہر جانا ہے مگر پھر سے کیوں؟ آپ کچھ عرصہ قبل ہی تو اپنی تعلیم پوری کرکے ہمارے پاس واپس آئے ہیں اور اب پھر آپ ہم سے دور جانا چاہتے ہیں۔"
وہ حیرت سے اس سے مخاطب تھیں لہجے میں اس لمہے کوئی سختی کوئی حاکمیت نہیں تھی صرف محبت اور نرمی ہی تھی۔
"بی بی سرکار! ہم نے تعلیم اس لیے تو حاصل نہیں کی نہ کہ بیکار بیٹھ کر اسے ضائع کردیں ہمارے کچھ خواب ہیں اور ہم نے ان خوابوں کی تعبیر کے لیے بہت محنت کی ہے اور ہم پھر ہمشہ کے لیے تھوڑی نہ جارہے ہیں ویک اینڈ پر چکر لگاتے رہیں گئے آپ فکر مت کریں۔"
اس نے اپنی بات مکمل کرکے ان کے ہاتھ چومے تھے۔
" ٹھیک ہے اگر اس میں ہی آپ کی خوشی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن آبیان! ایک بات ہمشہ یاد رکھیے گا دنیا کی بھیڑ میں آپ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہو جو آپ کا اصل ہے اور جو آپ کی زمہ داریاں ہیں جن سے آپ جڑے ہوئے ہیں لوٹ کر آپ کو یہی آنا ہے اور جو طے ہوا ہے آپ کو ہر صورت وہی کرنا ہے آپ سے لاکھ محبت سہی لیکن ہم آپ کو اپنی دستار سے کھیلنے کی اجازت کسی صورت نہیں دے سکتے۔"
اب کی بار ان کے لہجے سے پہلے والی نرمی اور محبت غائب ہوچکی تھی اس لمہے صرف وہاں جاگیر اور دستار سے محبت بول رہی تھی لہجے میں حد درجہ سختی تھی اتنی کہ چند سیکنڈ کے لیے آبیان کچھ بھی نہیں بول پایا تھا۔
" بہتر بی بی سرکار!"
وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تھا چہرہ ہمشہ کی طرح از حد سنجیدہ ہوچکا تھا سفید ماتھے پر لکیروں کا جال قدرے گہرا تھا وہ تیزی سے وہاں سے نکلتا ہوا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا تھا اس کا رخ سیدھا اپنے کمرے کی جانب تھا۔
کمرے میں پہنچ کر اس نے دروازہ زور سے اپنے پیچھے بند کیا تھا اور آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تھا اس کے چہرے پر بی بی سرکار کی کچھ دیر قبل کی جانے والی گفتگو کے آثار ابھی بھی نمایاں تھے بورے بال سلیقے سے ایک پف کی صورت میں سیٹ کیے گئے تھے ہلکی بلوری روشن آنکھیں کھڑی ستواں ناک عنابی کشادہ ہونٹ سفید رنگت پر ہمشہ رہنے والے سنجیدہ تاثرات اس کے خوبصورت اور وجیہہ چہرے کو رونق بخشتے تھے ہلکی بڑھی ہوئی بوری داڑھی اس کی وجاہت میں مزید اضافہ کرتی تھی اس نے گہرا سانس بھر کر ایک ہاتھ اپنے بالوں میں چلایا تھا۔
" کیا ہم اس قابل ہیں کہ لال حویلی کی دستار کے وارث بن سکیں؟"
اس کا دل و دماغ ایک عجیب سی جنگ میں گرفتار تھا۔ اس کے بیڈ پر ایک جانب سیاہ سوٹ کیس تیار رکھا ہوا تھا جو راحت علی اس کے کہنے پر بہت پہلے ہی تیار کرچکا تھا۔ اس کے کمرے کے وسط میں خوبصورت چینوٹی لکڑی کا بیڈ رکھا گیا تھا ہلکے بادامی رنگ کا وال پیپر دیوار گیر آئینہ ایک جانب کو ڈریسنگ روم سامنے خوبصورت بادامی رنگ کا صوفہ سیٹ ہر چیز مکین کے اعلی ذوق کی گواہ تھی سوٹ کیس بیڈ سے اتار کر اس نے زمین پر رکھا تھا اور اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر آگیا تھا سیڑھیاں اترتے ہی اسے ہال کمرے میں زرگل اور زرشاہ بخت بیٹھے ہوئے دکھائی دیے تھے وہ بیگ وہی چھوڑ کر ان کے پاس ہی ہال کمرے میں آگیا تھا۔
" اسلام علیکم تایا سرکار! بابا جان !"
اس نے ایک صوفہ سمبھالتے ہوئے دونوں کو سلام کیا تھا۔
" وعلیکم اسلام! بخت کہیں جارہے ہیں آپ؟"
زرگل بخت نے اپنی تسبیح ایک جانب کو رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" جی تایا سرکار! ہم شہر جارہے ہیں۔"
اس نے زرشاہ کی جانب سے نگاہیں چراتے ہوئے انہیں جواب دیا تھا۔
" خیریت ابھی کچھ عرصہ قبل ہی تو آپ واپس آئے ہیں۔"
ان کے چہرے پر حیرت کے تاثرات واضح دیکھے جاسکتے تھے۔
" چھوڑیں انہیں پیر بخت! انہیں جانے دیں یہ اپنی سپورٹ سے اجازت طلب کرچکے ہیں اب انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کسی اور کی مرضی سے۔"
زرشاہ نے انتہائی سنجیدگی سے ان سے کہا تھا۔
" پلیز بابا جان! ہم آپ سے اجازت لے چکے ہیں۔"
وہ جیسے عاجز آچکا تھا۔
" اور ہم نے بھی آپ سے کہا تھا کہ آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔"
انہوں نے جیسے بات ہی ختم کردی تھی۔
" اماں سرکار کا خیال رکھیے گا ہمیں دیر ہورہی ہے۔"
وہ مزید ان کی بات نظر انداز کرتا ہوا وہاں سے اٹھ کر اپنے بیگ کی جانب بڑھا تھا اور پھر اپنے پیچھے آتے راحت علی کو اشارہ کرکے وہ خود حویلی کے صدر دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا پیچھے راحت علی نے بجلی کی سی رفتار سے اس کا بیگ گھسیٹ کر پورٹیکو کی جانب بڑھایا تھا جہاں لیٹسٹ ماڈل کی سیاہ اوڈی اپنی پوری چمک دمک کے ساتھ کھڑی تھی بیگ ڈیگی میں رکھنے کے بعد راحت علی نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی تھی جبکہ وہ خود پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا تھا راحت علی اس کا خاص ملازم تھا جو اس کے تمام چھوٹے بڑے کام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ سائے کی طرح رہتا تھا وہ اپنی گاڑی بھی اسی سے ڈرائیو کرواتا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ لاونج کے صوفے پر بیٹھے سگار کے کش لگاتے ہوئے مسلسل اپنا بائیاں گھٹنا ہلا رہے تھے ان کی اضطرابی کیفیت ان کی شدید بے چینی کا ادراک دے رہی تھی ماتھے پر گہری لکیروں کا جال لیے وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھے۔ ان کا انتظار زیادہ طویل نہیں ہوا تھا سیڑھیوں سے وہ انہیں اپنی طرف آتا دکھائی دے گیا تھا بلو جینز پر بلیک ڈریس شرٹ پہنے کف کوہنیوں تک موڑے سیاہ سلکی بال قرینے سے سیٹ کیے گندمی رنگت پر خوبصورت نقوش کا حامل ان کا بیٹا انہیں شروع سے ہی بہت پسند تھا اس کی کھلتی ہوئی گندمی رنگت اس کو بے حد پرسنلیٹڈ دکھاتی تھی چہرے پر ہر وقت کسی نئی چیز کی کھوج ایک الگ ہی عندیہ دے رہی ہوتی تھی وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا ان کے قریب آیا تھا اور ان کے سامنے والے صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا تھا سر صوفے کی پشت سے ٹکا کر وہ آنکھیں موند گیا تھا۔ ضرار بخت اس کے تاثرات اور حرکات و سکنات بڑے تحمل اور غور سے ملاحظہ کررہے تھے۔
" جام علی!"
اس نے آنکھیں موندے ہی اپنے ملازم جام علی کو آواز لگائی تھی۔
" جام علی! ایک کپ کافی پلاو سر میں شدید درد ہے میرے۔"
اس نے بلند آواز سے کہا تھا اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا تھا اسے اپنے چہرے پر ضرار بخت کی گہری نگاہیں تواتر سے محسوس ہورہی تھیں۔ اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر باپ کی جانب دیکھا تھا۔
" جی بابا! آپ نے بلایا تھا مجھے۔"
لہجے اور چہرے پر اس قدر شرافت تھی کہ کوئی دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ اس وقت اپنے باپ کے سامنے بیٹھنے والا شخص دمیر بخت ہے۔
" کیا کررہے ہو تم آج کل؟"
انہوں نے سگار ایسٹرے میں مسل کر تمام تر توجہ اس کی جانب کی تھی۔
" پڑھائی کے بعد ابھی ابویس سی بات ہے بابا! بزنس دیکھوں گا۔"
اس کا جواب بالکل ان کی عین توقع کے مطابق تھا۔
"پھر اب تک آپ آفس آئے کیوں نہیں صاحبزادے؟"
انہوں نے طنز میں ڈوبا ہوا ایک تیر اس کی جانب اچھالا تھا۔
" بس بابا! کچھ پلینز تھے میرے وہ ہوگئے ہیں کمپلیٹ اب کل سے انشاءاللہ میں آفس آؤں گا۔"
اس نے شرافت کے شدید دائرے میں رہتے ہوئے اپنے آنے کی اطلاع انہیں دی تھی۔
" اور ان پلینز کی نوعیت کیا ہے بیٹے!؟"
وہ اب کی بار اس سے خاصے نرمی سے پیش آئے تھے کچھ دیر قبل محسوس ہونے والا ان کا ٹھنڈا لہجہ اب نرمی میں بدل چکا تھا۔
" ایوری تھنگ از ناٹ نسیسری ٹو ٹیل یو بابا!"
اس نے کہتے ہی اپنا کافی کا مگ اٹھایا تھا جو کچھ دیر قبل جام علی اس کے لیے رکھ کر گیا تھا اور اٹھ کر باہر لان کی جانب بڑھ گیا تھا کیچن کے دروازے پر کھڑی ماہ وین بیگم نے ایک ملامتی نگاہ ضرار بخت پر ڈالی تھی اور واپس کچن میں چلی گئی تھیں۔ دمیر بخت کے ذہن کی سکرین پر کب کیا چل رہا ہوتا ہے یہ اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ دمیر بخت ایک پزل تھا جسے اس کے ماں باپ بھی حل کرنے سے قاصر تھے ایک اہم بات جو دمیر بخت کے قریبی اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے وہ یہ تھی کہ دمیر بخت گرلز ایڈکٹڈ تھا خوبصورت لڑکی اس کی کمزوری تھی اور خوبصورت لڑکی اس سے بچ نہیں سکتی تھی اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ شادی کرے گا اس کے نزدیک شادی اور نکاح جیسے رشتے کی کوئی ویلیو نہیں تھی جو وہ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ بغیر شادی کے باآسانی حاصل کرلیتا تھا لڑکیاں اس کے ایک اشارے پر سب کچھ لٹانے کے لیے تیار رہتی تھیں پھر وہ کیوں کر نہ اپنی وجاہت کا فائدہ اٹھاتا وہ بہت اچھے سے خود کو استعمال کرتا تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہی از آ وائز مین۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح کے سورج نے میراج کوٹھی پر اپنے پر پھیلائے تو ہر جانب ہل چل سی مچ گئی بہت سے کمروں کے بند دروازے رات کے اندھیرے کے بعد روشنی میں کھل گئے تھے بہت سے بوجھل دل آزاد ہوئے تھے بہت سے اٹکے ہوئے سانس بحال ہوئے تھے۔ تواتر سے بجتے دروازے نے اس کی آنکھ بھی کھول دی تھی اس نے اپنے سیاہ لمبے بالوں کو جلدی سے جوڑے کی شکل دی تھی اور دوپٹہ بستر پر ہی چھوڑ کر دروازے کی جانب بڑھی تھی۔ دروازے کی چٹخنی کھولتے ہی سامنے اسے دلسوز کا چہرہ دیکھائی دیا تھا جو انتہائی ستا ہوا لگ رہا تھا اسے دیکھ کر باہمین نے ایک گہری سانس بھری تھی اور پھر سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کی تھیں۔
" سلسبیل بائی نے بھیجا ہے تمہیں اٹھانے کے لیے یونی ورسٹی نہیں جانا کیا؟"
دلسوز نے اسے سلسبیل بائی کا پیغام دیا تو اس نے اسے اندر آنے کو کہا۔
" ڈیوٹی ہوگئی تمہاری پوری؟"
اس نے واشروم کی جانب جاتے ہوئے تلخی سے دلسوز سے کہا تھا جس کے جواب میں وہ بالکل خاموش رہی تھی۔
" لگتا ہے بہت تھک گئی ہو؟"
وہ فریش ہوکر واپس آچکی تھی مگر دلسوز وہی کی وہی کھڑی تھی۔
" ہر کوئی تمہارے جیسا خوش قسمت نہیں ہوتا باہمین! اور نہ ہی ہر کوئی سلسبیل بائی کی بیٹی ہوتا ہے جو کسی ڈھال کی طرح ہر لمہے اس کے سامنے کھڑی رہیں۔"
نہ تو اس کے لہجے میں کوئی تلخی تھی اور نہ ہی کوئی طنز پھر بھی باہیمن کو لگا جیسے کسی نے اسے ننگے پیر تپتی ہوئی ریت پر اتار دیا ہو۔
" سچ کہا تم نے ہر کسی کی ماں سلسبیل بائی نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر کسی کی ماں ناجائز اولاد بھی پیدا نہیں کرسکتی ہر کسی کی ماں طوائف نہیں ہوتی وہ بھی وہ طوائف جس کے ساتھ رات گزارنے کے لیے آدھے شہر کے رئیس زادے مر رہے ہو۔"
اس کا لہجہ نہیں تھا جلتے ہوئے انگارے تھے جو وہ برسا رہی تھی دلسوز نے افسوس سے اس کے قیامت خیز چہرے کو دیکھا تھا وہ ہمشہ سوچتی تھی سلسبیل بائی زیادہ خوبصورت ہیں کہ باہیمن زاہرہ اور یہ الجھن اسے زیادہ دیر تک الجھا کر نہیں رکھتی تھی کیونکہ دونوں کے چہرے دیکھنے کے بعد وہ باآسانی باہیمن کے حق میں فیصلہ سنا دیتی تھی جسے ہاتھ بھی لگاؤ تو جیسے میلی ہوجائے گئی لمبے کولہوں سے بھی نیچے آتے سیاہ چمکدار سلکی بال دودھیا سفید رنگ حد سے زیادہ سفید تھا کہ اس میں سے اس کی ابھری ہوئی ہری رگیں صاف
دیکھائی دیتی تھیں بڑی بڑی ہیزل بوری گہری آنکھیں جن پر لمبی خام دار پلکیں سایہ فگن تھیں کھڑی ہوئی پتلی ناک جس کے بائیں جانب ننھی فیروزے کی لونگ دمکتی تھی جو اس کے سفید چہرے پر خوب جچتی تھی دو آتشا دہکتے ہوئے گلاب جیسے نازک لب سراحی دار گردن پر ابھری ہوئی ہنسلی کی ہڈیاں اور اس پر دائیں جانب والی ہڈی کے عین اوپر ایک اور تل دیکھنے والے کو سب سے پہلے متوجہ کرتا تھا۔پرکشش سراپہ دودھیہ پیروں پر ہمشہ پہنی جانے والی وہ پازیب اس کے پیر کی ہمشہ زینت ہوتی تھی اسے پازیبیں بے تحاشہ پسند تھیں۔
دلسوز کی نگاہیں اپنے چہرے پر محسوس کرکے اس نے رخ موڑا تھا اور جلدی سے پیروں میں پہنی سینڈل کا سٹریپ لگایا تھا۔ انگوری رنگ کے ٹخنوں تک آتے پلین شفون کے کلیوں والے فراک میں وہ بغیر کسی زیبایش کے حسین لگ رہی تھی۔ سیاہ لمبے بال اس نے جوڑے میں ہی مقید رکھے تھے دوپٹہ سر پر ٹکا کر وہ اس کے ساتھ باہر آگئی تھی جہاں ناشتے پر گل شیرہ بائی کے ساتھ باقی سب بھی اس کے منتظر تھے۔
" آو باہمین تمہارا ہی انتظار ہورہا تھا۔"
گل شیرہ بائی نے اپنے سرخی سے رنگے ہوئے ہونٹ کشادہ کرکے اس کا استقبال کیا تھا وہ ان کی پیش رفت نظر انداز کرکے اپنی مطلوبہ کرسی پر بیٹھ گئی۔
"پڑھائی کب ختم ہورہی ہے تمہاری؟"
انہوں نے اس کے سراپے پر ایک تفصیلی نگاہ ڈال کر پوچھا تو جیسے نوالہ باہیمن کے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے یہ نوالہ اس کی خوراک کی نالی کی بجائے سیدھا سانس کی نالی میں جائے گا اور وہ وہی اپنی سانسوں کا ساتھ چھوڑ دے گی۔
سلسبیل بائی کی نگاہیں یک بارگی جھک گئی تھیں جیسے اس لمہے وہ اپنا ضبط آزما رہی ہوں۔
باہیمن ان کی بات کا جواب دیے بغیر اپنی کرسی کھسکا کر اٹھی تھی اور کندھے پر اپنا شولڈر بیگ پہن کر تیزی سے باہر کی جانب بڑھ گئی تھی۔ اس کا اس طرح سے اٹھ کر جانا وہاں بیٹھے سارے نفوس نے محسوس کیا تھا۔
" اس لڑکی کو نکیل ڈالو سلسبیل! اگر آج اس کوٹھے کے چراغ کو تم نے روشن کیا ہوا ہے تو کل کو اسے ہی کرنا ہے سمجھاؤ اپنی لڑکی کو جس معصوم پاکیزہ حسن پر یہ اتنا اکڑ رہی ہے اسے سیل زدہ ہونے کے لیے صرف چند لمہے کافی ہیں"
ان کے لفظوں میں چھپے معنی کو وہاں موجود سب نفوس اچھے سے سمجھ گئے تھے اور اسی لمہے سے سلسبیل بائی ڈرتی تھیں۔
" میں اسے سمجھا دوں گئی صاحبہ! آپ غصہ مت کریں۔"
وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھیں ان کے جانے کے بعد انجیل بائی نے ایک گہرا سانس خارج کیا تھا ہر بار کی طرح یہ لمہے ان کے لیے صبر آزما تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ناشتے کے بعد بی بی سرکار حسب معمول صحن میں اپنے تخت پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ لالی ان کے پیچھے کھڑی ان کے کندھے دبا رہی تھی ساتھ میں وہ گاہے بگاہے حُکہ بھی گڑگڑا رہی تھیں۔
" سلام بی بی سرکار!"
انہوں نے نگاہوں کا زاویہ شیرا کی طرف مبذول کیا تھا جو ابھی ابھی باہر سے صحن میں داخل ہوا تھا۔
" وعلیکم اسلام! بولو!"
انہوں نے سوالیہ نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کرتے ہوئے اسے بولنے کو کہا جو ہاتھ باندھے مودب بن کر کھڑا تھا۔
" وہ جی سدیس بائو آئے ہیں۔"
اس نے انہیں خبر پہنچا کر ان کے حکم کا انتظار کیا تھا۔
" تو اب تک باہر کیوں کھڑا ہے سدیس کتنی بار کہا ہے اس سے باز پرس نہیں کیا کرو بھیجو اسے۔"
انہوں نے شیرا کو ڈپٹا تو وہ بھاگ کر باہر کی جانب لپکا جہاں سدیس ملک کھڑا انتظار کررہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں ایک ہلکی براون شلوار قمیض کے ساتھ پشاوری چپل پہنے صاف رنگت اور تیکھے نقوش والا درمیانی عمر کا نوجوان داخل ہوا تھا جو بارعب شخصیت کا مالک معلوم ہورہا تھا۔
"سلام بی بی سرکار!"
اس نے سلام کرکے ان کے ہاتھوں کی پشت پر بوسہ لیا تھا۔
" جیتے رہیے آج کہاں سے یاد آگئی آپ کو حویلی کی سدیس میاں!"
بی بی سرکار کا لہجہ زمانے بھر کا شہد سموئے ہوئے تھا۔ دو ہی تو لوگ تھے جن سے وہ اس قدر نرمی سے پیش آتی تھیں آبیان اور سدیس۔
"بس کسی کام سے شہر گیا ہوا تھا بی بی سرکار رات ہی لوٹا ہوں تو سب سے پہلے آپ کو سلام کرنے پہنچا ہوں۔"
سدیس نے انتہائی عقیدت سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔
" ماسی سگرا کیسی ہے بھئی مدتوں ہوگئی اس کی بھی شکل دیکھے۔"
بی بی سرکار نے رنجیدگی سے سدیس کی دادی کی بابت پوچھا تھا جنہیں سب ماسی بلاتے تھے۔
" دادی کی طبعیت بس یونہی رہتی ہے۔"
اس نے گہرا سانس بھر کر ان کی بات کا جواب دیا تھا تب تک میتھن چائے اور لوازمات کی ٹرالی لے آئی تھی۔
درناب نے اوپری ریلنگ سے اچانک ہی نیچے جھانکا تھا جہاں سے صحن کا منظر صاف دیکھائی دے رہا تھا وہ بی بی سرکار کے تخت کے نزدیک ہی موڑھا رکھ کر بیٹھا ہوا تھا نگاہیں ادب و احترام کے تمام تر تقاضے نبھاتے ہوئے جھکی ہوئی تھیں درناب نے پلکیں جھپک کر اس کے سامنے ہونے کا یقین کیا تھا اور جب یقین ہوگیا تو اس کا ہاتھ سیدھا اپنے دل پر گیا تھا جو بے ہنگم انداز میں شور مچا رہا تھا۔ درناب کبھی بھی سدیس کو دیکھ کر اپنے جذبات پر بندھ نہیں باند پائی اسے یاد پڑتا تھا سدیس بچپن سے حویلی میں آتا تھا آبیان، مہالہ وہ اور سدیس بچپن میں حویلی کے آنگن میں اکھٹے کھیلا کرتے تھے وہ بچپن سے اسے ہر کھیل میں اپنا ساتھی بناتی تھی اور پھر اس پر زور دیتی تھی کہ آبیان اور مہالہ کو ہرا دے اور جب کبھی آبیان اور مہالہ جیت جاتے اس دن درناب سدیس کے ساتھ بہت لڑتی تھی۔ سدیس آبیان کا ہم عمر تھا مگر کبھی بھی درناب نے اسے بھائی نہیں بلایا تھا ہمشہ سدیس بلاتی جس پر آبیان سے خوب ڈانٹ سنی پڑتی مگر وہ تو صدا کی ہی ڈھیٹ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ درناب کا وہ کچا استحاق کب پکے جذبوں میں بدل گیا وہ خود نہیں سمجھ پائی وقت گزرنے کے ساتھ سدیس کے ساتھ اس نے کھیلنا چھوڑ دیا جب اسے یہ بتایا گیا کہ وہ بڑی ہوگئی ہے اور اچھی سید زادیاں نامحرم مردوں کے سامنے نہیں جاتیں تو اسے ایک عجیب سا خالی پن محسوس ہوا تھا ملنے کی رسم ضرور ٹوٹ گئی تھی مگر اس کا دل ابھی بھی منہ زور تھا جس پر چاہ کر بھی وہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرپائی تھی۔
" کبھی یوں تو ملو ہمیں
کچھ بات کرنی ہے
تمہیں سامنے بیٹھا کر
سرعام کرنی ہے
دھڑکتے ہوئے دل کی
مرہم پٹی کرنی ہے
منہ زور جذبوں کی
پزیرائی کرنی ہے
تمہیں کہنا ہے تم سے
ہر بار محبت کرنی ہے
منہ موڑوں گئے تو
شکایت کرنی ہے
کبھی یوں تو ملو ہمیں
کچھ بات کرنی ہے
روبرو کرنی ہے ہاں
سرعام کرنی ہے
ایمن خان
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now