تقدیر کے کھیل نرالے

2K 97 72
                                    

باب نمبر 3
سارا بچپن بتا دیا اس کو اپنا کہتے
انجان ہوگیا وہ کچھ اس طرح

غرور سے مہر لگائی تھی اس کے وجود پر
نکلے تقدیر کے بھی کھیل ہی نرالے

وہ باسی تھا کسی اور ڈال کا
واپس اڑ گیا اپنی ہی بستی میں

میں انتظار کرتی رہ گئی
میری صبح و شام کٹ گئی
ایمن خان
وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کھولے کھڑی تھی۔ لال حویلی کے پچھلی جانب بنے اس کے کمرے کی بڑی سی سلائیڈنگ ونڈو تھی جسے کھولے وہ کھڑی آسمان پر چمکتے گہرے چاند کی ٹھنڈی میٹھی روشنی اپنے اندر اتار رہی تھی۔ پورا وجود عجیب سے سناٹوں کی زد میں تھا۔ سفید دوپٹہ بستر پر ایک جانب کو رکھا ہوا تھا پشت پر بورے بال بکھرے ہوئے تھے گہری سیاہ آنکھوں میں عجیب سی بے چینی ہلکورے لے رہی تھی۔
" میری بے تابی، میری بے چینی اسے کیوں دیکھائی نہیں دیتی میری ذات سے وہ اتنا بے پرواہ ہے یا بنتا ہے؟"
عجیب سے سوال تھے جو اس لمہے اس کے اندر سر اٹھا رہے تھے اس کی بیگانگی دیکھتے دیکھتے وہ تنگ آگئی تھی۔
" ساری بیگانگی، ساری پے پرواہی لڑکیوں کے ہی مقدر میں کیوں ہوتی ہے کیا ان کے نصیب میں محبوب کے ہاتھوں تڑپ ہی لکھی ہوتی ہے؟"
جب دل بغاوت پر اترا ہوا ہو تو نا چاہتے ہوئے بھی ایسے سوالات سر اٹھا لیتے ہیں جنہیں کبھی سوچنے کا بھی تصور نہیں کیا ہوتا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے سفید چہرے کو فرحت بخش رہے تھے آنکھیں بند کرکے اس نے اس چلتی ہوئی بے پرواہ ہوا کی ٹھنڈک کو گہرائی سے محسوس کیا تھا دروازہ کھٹکنے کی آواز پر جیسے اس کی محویت ٹوٹی تھی آبیان بخت کی ذات کے سحر سے وہ یک مشت نکلی تھی رکھی ہاتھ باندھے کھڑی تھی اس کے رخ موڑنے پر وہ گویا ہوئی۔
" افروز جان! بی بی سرکار یاد فرماتی ہیں۔"
اپنے ازلی مودب لہجے میں رکھی نے اسے بی بی سرکار کا پیغام دیا تھا۔ پیغام سن کر ہی اسے اپنی بے ساختگی یاد آئی تھی۔
" جانتے بوجتے ہوئے بھی جو غلطیاں بے ساختگی میں ہو جائیں ان کی پوچھ گچھ کے لیے تیار رہنا چائیے۔"
اس نے سر جھٹکتے ہوئے سوچا تھا اور دوپٹہ اوڑھ کر باہر آئی تھی اس کا رخ اب بی بی سرکار کے کمرے کی جانب تھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کوئی مجرم ہو جسے دربار میں اعتراف جرم کرنے کے لیے یاد کیا جارہا ہو بی بی سرکار کے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور دروازہ کھٹکایا۔ جواب کا انتظار کیے بغیر ہی وہ دروازہ دھکیل کر اندر چلی گئی سامنے بی بی سرکار نماز والی چوکی پر بیٹھی عشاہ پڑھ رہی تھیں وہ بیڈ کے ساتھ رکھے ہوئے صوفے پر ایک طرف ہوکر بیٹھ گئی دل کی دھڑکن یک لخت ہی تیز ہوئی تھی اور وجہ وہ باز پرس تھی جو کچھ دیر بعد اس سے ہونے والی تھی بے ساختہ اس نے دل میں اپنے آپ کو کوسا تھا۔
وہ مسلسل گود میں رکھے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔ بی بی سرکار سلام پھیر چکی تھیں انہوں نے ایک نظر صوفے پر بیٹھی مہالہ پر ڈالی تھی اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے انتہائی تسلی سے دعا مانگنے کے بعد وہ جانماز کا کونہ موڑ کر چوکی سے نیچے اتر کر اپنے بستر تک آئی تھیں۔ وہ ابھی تک مسلسل منہ میں کچھ پڑھ رہی تھیں شاہد کوئی دعا یا پھر وظیفہ اسے سمجھ نہیں آیا تھا۔
" اپنی محویت کے ہاتھوں انسان نے بڑی مار کھائی ہے چاہے پھر وہ جنگ کا میدان ہو یا گھروں کے آنگن!"
ان کے جملے پر اس نے سر اٹھا کر ان کی جانب دیکھا جو کسی بھی تاثر کے بغیر تھیں مہالہ ان سے برہمی کی امید کررہی تھی مگر ان کے سپاٹ تاثرات ہمشہ ان کے غصے سے زیادہ اثر انداز ہوتے تھے۔
" محبت کرنا گناہ نہیں ہے مگر اس کا اشتیار لگانا گناہ ہے اگر محبت خاموش ہو تو نہ بھی ملے تو جگ ہنسائی نہیں ہوتی مگر اگر محبت بدنام ہو تو نا ملنے پر ہنستے اور مذاق اڑاتے چہروں کا سامنا کرنا زندگی کا سب سے مشکل کام لگتا ہے۔"
اب سپاٹ چہرے پر نرمی کا تاثر ابھرا تھا۔ مہالہ کے چہرے کی الجھن مزید گہری ہوئی تھی۔
" میں نے کب اشتیار لگایا بی بی سرکار!"
اس کے سوال پر حیرانی تھی بے حد حیرانی جس نے بی بی سرکار کو مسکرانے پر مجبور کیا تھا۔
" بھری محفل میں محبوب کو حاضرین کو یکسر فراموش کرکے ایسے دیکھو کہ لگے اس محفل میں آپ کے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جبکہ کتنی ہی آنکھیں آپ کی اس محویت کا تماشہ دیکھ رہی ہوں تو اشتیار تو لگ گیا پتر!"
ہاتھ میں تھامی ہوئی تسبح انہوں نے سائیڈ میز پر رکھی تھی۔ وہ خاموش ہوگئی تھی جیسے اپنی صفائی میں کہنے کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔
" نامحرم سے محبت دیکھائی نہیں جاتی اسے تو ایسے سینت کر دل کے کونے میں دفن کیا جاتا ہے کہ اس کی بڑھتی ہوئی تاثیر صرف آپ کے وجود کے ناہہ خانوں کو ہی جھلسائے اس کی تپش وجود سے باہر جائے گئ تو آپ کے مجبوب رشتوں کے چہروں کو بھی جلا دے گی۔"
بی بی سرکار کے الفاظ نہیں تھے بلکہ وہ کوئی دہکتے ہوئے انگارے تھے جو مہالہ افروز کے پورے وجود کو جلا رہے تھے۔
" بی بی سرکار! محویت پر آپ کا اختیار ہی کہاں ہوتا ہے آپ نے مجھے کہا ہے ہمشہ کہ افروز جان! آبیان بخت اس دستار کا وارث ہے راجن پور کا گدی نشین ہے اور وہ تمہارا ہے اسے یہ گدی اسی صورت میں ملے گی جب وہ تمہارا ہاتھ تھامے گا کیونکہ میں اس کے حالیہ گدی نشین کی صاحب زادی ہوں ان کی اکلوتی وارث میرے دل میں ہوش سمبھالتے ہی اس کے ساتھ کی خواہش نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں پھر میں کیسے اس کی ذات میں خود کو محو ہونے سے روکوں؟ مجھے خوف آتا ہے کہیں وہ میری حد بندی سے نکل نہ جائے۔"
اس کے چہرے کے خوف کو بی بی سرکار نے پڑھ لیا تھا اس کی سیاہ آنکھوں میں ہلکی سی نمی چمکی تھی بی بی سرکار نے گہرا ہنکارا بھرا اور پھر اپنے بستر سے اٹھ کر صوفے پر اس کے مقابل آگئیں۔
" ہم انسان صرف وہ منصوبے بناتے ہیں جو ہمیں فائدہ مند نظر آتے ہیں پتر! ان کی معیاد کتنی ہوگی نہ ہم جانتے ہیں نہ کبھی جان سکتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر ہم اپنے منصوبے بنانے میں اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ یہ یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ ایک منصوبے بنانے والا اوپر بھی بیٹھا ہوا ہے جس نے ہم سب کی زندگیوں کی ایک ڈگر مقرر کی ہے ہم اس کی مقرر کی گئی ڈگر کو اس کی بتائی گئی سیدھ میں لے کر جائیں گئے تو خوش رہیں گئے مگر جہاں ہم نے اس کے راستے سے ہٹ کر اس کی ڈگر اپنے راستے پر ڈالی وہی سے ہماری زندگیوں میں بوچھال کی شرواعت ہوجائے گئی انتظار کرو جب تک وقت نہیں کہتا کہ کر گزرو تب تک انتظار کرو۔"
وہ اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
" محبت کو اپنی کمزوری نہیں طاقت بنائیں افروز جان! کمزور چیزیں ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں جبکہ طاقت ور کی گرفت ہمشہ مضبوط ہوتی ہے جائیں آرام کرئیں شاباش!"
انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور خود واشروم کی جانب بڑھ گئی۔
اس کا دل بیک وقت دو طرح کی کیفیات کا شکار تھا مثبت اور منفی مثبت اس لیے کہ محبت کو دل کے خانوں میں قید کرنے کی راہ سجھائی دے گئی تھی اور منفی اس لیے کہ جو راہ سجھائی دی تھی وہ اس قدر کٹھن تھی کہ اس پر چلتے ہوئے اس کے پاوں لہو لہان ہوسکتے تھے۔ نتیجے پر پہنچنے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔
" سود مند راستے ہمشہ کٹھن ہی ہوتے ہیں پلیٹ میں رکھ کر تو کوئی پانی بھی پیش نہیں کرتا۔"
بستر پر لیٹ کر آنکھیں موندنے سے پہلے یہ آخری بات تھی جو اس نے سوچی تھی اس کے بعد نئی صبح اور نیا سفر شروع ہونا تھا۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now