رُخ موڑتی زندگی

1.8K 124 110
                                    

باب نمبر 14

پل پل بدلتے موسموں کی رنگینی سے
سکون کے لمحات مانگتی ہوں

کروٹ بدلتی رت کے پُر کیف سماں سے
ہنستی کھیلتی فضائیں مانگتی ہوں

اپنے من پسند نظاروں کے حسن سے
قدرت کی رعنائی مانگتی ہوں

پچھڑنے والوں کے تلخ رویوں سے
پناہ کی ایک لڑی مانگتی ہوں

رخ موڑتی زندگی کے سحر سے
باخدا ہمشہ نجات مانگتی ہوں

ایمن خان

رات آسمان پر گہری ہورہی تھی۔ گہری سیاہ رات میں اس لمحے وہ اپنے کمرے میں تنہا بستر پر چت لیٹی تھی۔ کتنے دنوں سے اس کمرے کا شریک اس کے ساتھ موجود ہوتا تھا مگر اب وہ جب یہاں نہیں تھا ایک عجیب سی ویرانی تھی۔ پورا کمرا جیسے سناٹوں کی زد میں لپٹا ہوا تھا۔ دل کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے وہ بستر سے اٹھی تھی۔ تکیے کے اطراف میں رکھے ہوئے اپنے دوپٹے کو سلیقے سے اوڑھ کر پیروں میں چپل اڑسا کر وہ انتہائی آہستگی سے باہر نکلی تھی۔ سیڑھیاں پھلانگ کر ہال کمرے میں آتے ہی اس کی نگاہوں نے کونے میں لگے ہوئے فون اسٹینڈ کو تلاشا تھا۔ جلد ہی اس کی تلاش مکمل ہوئی تو وہ احتیاط سے قدم اٹھاتی فون اسٹینڈ کے نزدیک آگئی۔ دماغ پر زور ڈال کر فون نمبر کے ان ہندسوں کو ایک بار دہرایا اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ نمبر پریس کیے۔ عجیب بات تھی اپنے محرم کو فون کررہی تھی مگر دل یوں دھڑک رہا تھا جیسے کسی نامحرم سے رات کی تنہائی میں چھپ کر گفتگو کرنی ہو۔ اس نے سر جھٹکا اور نمبر پریس کیا۔ دوسری جانب سے بیل جارہی تھی۔
"ہیلو!"
اس کی آواز ترو تازہ تھی۔ مہالہ کو حوصلہ ہوا تھا کہ رات کی تنہائی میں اس نے کم از کم آبیان کو ڈسٹرب نہیں کیا۔
"ہیلو۔۔۔"
مہالہ نے فون اسٹینڈ کے نزدیک صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تو دوسری جانب کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
"کیسی ہیں آپ؟"
اس کا لہجہ ہمشہ کی طرح بے حد نرم تھا۔
"کیسے ہیں آپ؟ جا کر فون تو کردیتے کم از کم۔۔"
ناچاہتے ہوئے بھی زبان سے شکوہ پھسلا تھا۔
"آئی ایم رئیلی سوری مہالہ! اصل میں آکر ایک بہت امپورٹنٹ کام میں پھنس گئے تھے اس لیے وقت نہیں مل پایا۔"
دوسری جانب سے آبیان مجرمانہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
"آپ کو ایک اہم بات بتانی تھی۔"
وہ ذرا سا ہچکچائی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ بات کیا رخ اختیار کر جائے گی۔
"جی بولیں ہم سن رہے ہیں۔"
آبیان مکمل طور پر اس لمحے صرف اس کی ہی جانب متوجہ تھا۔ اسے تجسس ہوا تھا کہ نجانے مہالہ نے اس سے کیا بات کرنی ہے۔
"آج خالہ بی آئی تھیں اور وہ بی بی سرکار کی رضا مندی سے درناب کو انگوٹھی پہنا کر گئی ہیں۔"
وہ اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوئی تو آبیان کو لگا جیسے اس نے سننے میں کوئی غلطی کی ہو۔
"کیا کہا آپ نے؟"
وہ تائید چاہ رہا تھا مگر مہالہ ایک دم پریشان ہوئی تھی۔
"جی آپ نے ٹھیک سنا ہے بخت سرکار! خالہ بی درناب کو آپ کے منع کرنے کے باوجود انگوٹھی پہنا گئی ہیں اس نے صبح سے رو رو کر اپنی بُری حالت کی ہوئی ہے۔"
مہالہ نے پریشان ہوکر کہا تو دوسری جانب آبیان خاموش ہوگیا۔
"آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے؟"
مہالہ نے کچھ دیر اس کی خاموشی محسوس کی تو آخر کو بول اٹھی۔
"ہم صبح واپس آتے ہیں پھر دیکھتے کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالنا آپ فکر مت کریں اور جاکر سکون سے سوجائیں یہ ہمارا مسئلہ ہے ہم خود دیکھ لیں گئے۔"
اس نے کہہ کر چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد فون بند کردیا۔ مہالہ نے ایک پُرسکون سانس فضا میں خارج کی تھی مگر یہ پُرسکون سانس کتنے لمحوں کے لیے تھی یہ مہالہ سمیت کوئی نہیں جانتا تھا۔
-----------------------------------
وہ آج اپنی چارپائی پر موجود نہیں تھا۔ آج وہ صحن میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ بار بار اس کی نگاہوں کے سامنے سجی سنوری درناب گھوم رہی تھی۔ اتنے عرصے میں پہلی بار اس کا دل درناب بخت کے لیے دھڑک کر ٹوٹا تھا۔ بار بار وہ لڑکی ہوکر بے باکی سے اس کے سامنے آئی۔۔ بے باکی سے اس نے سدیس ملک کے سامنے اظہارِ محبت کیا۔ اسے احساس دلایا کہ درناب بخت صرف اور صرف سدیس ملک کی ہے۔ درناب بخت کے وجود پر صرف اس کا حق ہے مگر ساری عمر لال حویلی کا نمک کھا کر وہ اسی کی عزت اپنا کر لال حویلی سے نمک حرامی نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اب جبکہ وہ اپنی آنکھوں سے درناب بخت کو کسی اور کی دلہن بنے دیکھ آیا تھا تو اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا چہرہ مرجھا گیا ہو،دل تیز تیز دھڑک کر تھک گیا ہو۔ زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے اندر شدید بے بسی محسوس کی تھی۔ وہ تو انتہائی مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ ایک بے حد مضبوط مرد جو یہ سوچتا تھا کہ اس کی زندگی میں اپنے باپ کی برسوں سے کمائی گئی عزت کو محفوظ رکھنا ہی اوالین فریضہ ہے۔ مگر یہ عزت محفوظ کرتے کرتے کب وہ اس درو دیوار کی عزت پر آنکھ رکھ بیٹھا اسے احساس ہی نہیں ہوا۔ وہ اپنا آپ جھٹلاتا رہا،وہ کہتا رہا کہ وہ اس لائق نہیں ہے کہ درناب بخت اس سے محبت کرے مگر جھٹلاتے جھٹلاتے کب وہ خود اس محبت کی گہری نیلگیوں میں اتر گیا کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا۔ ساری رات اس نے یونہی جاگنا تھا کیونکہ چاہ کر بھی وہ سو نہیں پا رہا تھا۔ نیند اس کی آنکھوں سے جیسے روٹھ گئی تھی۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now