راز الفت

1.8K 98 80
                                    

باب نمبر 9
سنو جاناں! کچھ بات ہوجائے
روبرو چند راز و نیاز ہوجائیں

الفت کے پرکیف لہموں میں
ہماری گفتگو کے لمہے یوں عام ہوجائیں

سامنے تم بیٹھے ہو مسلسل اور
میری راتیں یونہی تمام ہوجائیں

ہاتھ میرا گال پر ہو میری اور
محویت کے سارے منظر زدعام ہوجائیں

تو یوں مسکرائے جیسے کھلتے گلاب ہوں
میرے گردونواں سارے سرشار ہوجائیں

کبھی سن لے میری بھی داستان مجھ سے
میرے عشق کے قصے سارے سرعام ہوجائیں
ایمن خان
لال حویلی کی بیٹھک میں آج بھی مریدوں کی کثیر تعداد موجود تھی پیر زرگل بخت اپنی گدی پر بیٹھے آنے والوں کے مسائل کو سن رہے تھے کچھ مسائل گاوں سے وابستہ تھے تو کچھ لوگوں کی ذاتی زندگی سے کبھی کبھی دوسروں کے مسائل سنتے سنتے آپ کو اپنی زندگی الجھی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اپنے مسائل کے لیے آپ کے پاس کوئی تجویز اور کوئی حل موجود نہیں ہوتا انہیں لگتا تھا جیسے ان کی زندگی کا اہم مقصد لوگوں کے مسائل کا حل تھا انہوں نے جب گدی سمبھالی تھی تو ان کی تربیت ہی اس انداز میں کی گئی تھی کہ وہ اس گدی کو سمبھال سکتے تھے ان کے بعد ان کی گدی ان کے چھوٹے بھائی پیر ضرار بخت کو ملنی تھی مگر اس سے پہلے ہی ضرار بخت کہیں غائب ہوگئے برسوں بیت گئے تھے انہوں نے اپنے بھائی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور اب ان کے بعد اس گدی کا ایک ہی وارث تھا مگر اس میں گدی نشینوں والی کوئی حرکت کوئی بات نہیں تھی شاہد اس لیے کہ وہ ہمشہ حویلی اور دستار سے دور رہا تھا وہ اپنی گدی پر بیٹھے خیالوں کی بھٹی میں بُری طرح جل رہے تھے ہر چیز جیسے دھیرے دھیرے ان کے ہاتھوں سے پھسلتی جارہی تھی۔
بیٹھک ایک بار پھر سے خالی ہوچکی تھی مگر وہ بوڑھا وجود آج بھی سب کے جانے کے بعد جوں کا توں موجود تھا۔
" اماں جی! گئی نہیں آپ ابھی تک؟"
انہوں نے قدرے حیرت سے بوڑھی کو مخاطب کیا تھا جو نگاہیں جھکائے اپنا ڈنڈا ہلا رہی تھیں۔
" ایسا کیوں لگتا پیر صاحب! کہ اب آپ کی دعاوں سے اثر ختم ہوگیا؟"
اماں نے اپنا نحیف چہرہ اٹھا کر سامنے حیرت کا مجسمہ بنے بیٹھے پیر زرگل بخت کو کہا تھا۔ جس پر پہلے تو وہ مسکرائے تھے پھر اپنی گدی سے اٹھ کر بوڑھی سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے۔
" اماں! اللہ نے اس دنیا میں کسی بھی کام کی ضمانت نہیں دی ہے ہاں اس نے یہ ضرور کہا ہے کہ مجھ سے مانگو اور مانگتے رہو اگر تمہاری وہ مانگ تمہارے لیے اچھی ہوگی تو اس مانگ سے تمہاری خالی جھولی بھر دی جائے گی مگر اگر وہ مانگ تمہارے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہو تو اللہ تمہارے گڑگڑانے پر بھی تمہیں وہ نہیں عطا کرے گا ہاں اگر تم ضد کرکے اپنی خواہش پوری کروا لو تو وہ وقتی طور پر وہ خواہش پوری ہوکر تمہیں خوشی تو ضرور دے گی مگر پھر آہستہ آہستہ وہ اپنی خوشی اور اہمیت کھو دے گی اور پھر وہ وقت آئے گا کہ تمہیں اس خواہش کے پوری ہونے پر پچھتاوا ہوگا۔"
ان کا لہجہ ہمشہ کی طرح بے حد دھیمہ اور شیرینی سمیٹے ہوئے تھا لفظوں اور لہجے میں ایک وقار ایک ٹھہراو تھا جو سامنے والے کے سیدھا دل میں اترتا تھا۔
" پھر اللہ کے نیک بندوں سے سفارش کیوں کروائی جاتی پیر صاحب!"
بوڑھی کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو چمکے تھے۔
" اللہ کے نیک بندوں کے اختیار میں بھی صرف دعا ہوتی ہے اماں اس کے پورا ہونے کی ضمانت نہیں یقین جانو اگر دعاوں کے پورا ہونے کی اللہ کے نیک بندے ضمانت دے دیں تو دنیا کبھی بھٹکی ہوئی راہوں کو نہ چنیں وہ سب دعاوں کے پورا ہونے کا یقین اور دل میں چمکتی ہوئی آرزویں لے کر سیدھی ڈگر پر قدم بڑھا لیں۔"
مسکراتے ہوئے لہجے میں وہ بہت خوبصورت انداز سے اپنی بات کرگئے تھے کیونکہ انہیں محسوس ہوا تھا بوڑھی سخت مایوس ہوچکی ہے وہ دعا اور یقین کرتے کرتے تھک گئی ہے اس کی زندگی جیسے کسی آس میں اس کے حلق میں اٹکی ہوئی ہے۔
" پھر میں کیا کرو کیا میری دعا اتنی ناجائز ہے کہ کبھی پوری نہیں ہوسکتی؟"
لہجہ ایک بار پھر سخت مایوسانہ تھا آنکھیں اشک بار تھیں پیر زرگل بخت نے گہرا سانس بھرا تھا۔
" آپ کی مسافت تمام ہونے کو ہے آپ نے بہت لمبا سفر طے کیا ہے اب آپ اپنی منزل کے قریب ہیں بس منزل تھوڑی اوجھل ہے مگر اس کے نظر آنے تک امید کی رسی مت چھوڑیں یقین کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں رہیے انشاءاللہ فتح آپ کا مقدر ہوگی۔"
اس بار یقین پیر زرگل کے لہجے میں تھا ان کی آنکھوں کی بڑھتی ہوئی چمک یہ عندیہ دے رہی تھی کہ بوڑھی کا انتظار بس اب ختم ہونے کو ہے اسے اس کی منزل ملنے والی ہے۔ وہ مسکرائی تھیں مسکرا کر آنکھوں میں چمکنے والے آنسوں کو صاف کیا تھا اور کانپتے ہاتھوں سے ڈنڈا زور سے فرش پر مار کر کھڑی ہوئی تھیں۔
" اللہ حق ہے۔۔۔اللہ حق ہے۔۔۔وہ سب کی سنتا۔۔۔ان کی بھی جو اسے نہیں مانتے۔۔۔۔وہ سب کو دیتا۔۔۔مجھے بھی دے گا۔۔۔میری بھی سنے گا۔۔۔اللہ ہمشہ رہنے والا ہے۔۔۔وہ ہر چیز پر قادر ہے۔"
وہ مسرت سے کہتی ہوئی گاہے بگاہے ڈنڈا فرش ہر مارتی ہوئی بیٹھک سے باہر نکل گئی تھیں ان کے جانے کے بعد انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا تھا مہالہ شہر گئی تھی مگر نجانے کیوں آج انہیں اس کا بڑی شدت سے خیال آیا تھا ورنہ وہ اپنی بیٹی اور بیوی کو وقت نہیں دے پاتے تھے بدقسمتی سے وہ زندگی میں توازن قائم نہیں رکھ پائے تھے۔
قریب رکھے ہوئے فون سے انہوں نے آبیان کا نمبر ملایا تھا کچھ دیر بات کرنے کے بعد انہوں نے مہالہ کی خیرت پوچھی تھی ان کے پوچھنے پر نجانے کیوں وہ خاموش سا ہوگیا تھا اور جب بولا بھی تو لہجہ بڑا روکھا سا محسوس ہوا آبیان کا رویہ ان کے دل میں سخت اندیشوں کو ہوا دے گیا تھا بی بی سرکار کا یہ فیصلہ انہیں نجانے کیوں کچھ کھٹائی میں لگا تھا۔
***************************
لاہور میں رات کے سائے دھیرے دھیرے آسمان پر گہرے ہورہے تھے بخت ہاوس کی بتیاں بس بند ہونے کو ہی تھیں وہ اپنے کمرے میں اضطراب کی کیفیت میں ٹہل رہی تھی اصل میں وہ جس کام کے لیے آئی تھی وہ کرے کہ نہ اسے عجیب لگ رہا تھا کل صبح اسے شاپنگ پر جانا تھا اور پرسوں صبح واپس اس کے پاس حقیقتاً وقت نہیں تھا وہ گہرا سانس بھر کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشیش کررہی تھی اور اس کے بعد کمرے سے باہر نکلی نکلنے سے پہلے اس نے ایک نظر بستر پر سوئی ہوئی درناب پر ڈالی تھی اس کے گہری نیند میں ہونے کا اطمینان کرکے وہ دبے پاوں کمرے سے باہر نکلی تھی راہداری عبور کرکے وہ لاونج میں بنی سیڑھیوں کی جانب بڑھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس کا دل بُری طرح دھڑکا تھا وہ کبھی بھی اس طرح اس کے سامنے نہیں گئی تھی اس لیے پہلی بار کچھ بھی ایسا کرتے ہوئے اس کا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر ابھی باہر آجائے۔ اوپری منزل پر پہنچ کر اس نے گہرے گہرے سانس بھر کر خود کو ایک بار پھر پرسکون کرنے کی کوشیش کی تھی اب کی بار اسے اپنے وجود میں بہت انوکھی سی ہمت کا احساس ہوا تھا وہ شام میں ہی اندازہ لگا چکی تھی کہ آبیان کا کمرہ کونسا ہے۔ وہ اپنی ہی نظروں میں قدرے شرمندگی بھی محسوس کررہی تھی یوں ایسے رات کو کسی نامحرم کے کمرے میں جانا بلاشبہ بہت معیوب بات تھی مگر اس لمہے مہالہ افروز اپنے دل کے سامنے ہاری ہوئی تھی۔
آبیان کے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے ایک بار آنکھیں زور سے بند کرکے کھولی تھیں۔
" یہ ایک آخری کوشش ہے اس کے بعد یا تو سب صیح ہوجائے گا یا پھر صیح بھی غلط۔"
اس نے دل میں خود سے کہا تھا اور ہچکیچاتے ہوئے دروازہ بجایا تھا ہلکا مسٹرڈ دوپٹہ سر پر اچھے سے درست کیا تھا اندر سے اجازت مل چکی تھی وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے ٹھنڈک کا احساس ہوا تھا اے۔سی کی ٹھنڈک نے پورے کمرے کا ماحول خوابناک بنوایا ہوا تھا۔
وہ سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا شاہد کچھ فائلز دیکھ رہا تھا ابھی وہ آنے والے کی جانب متوجہ نہیں ہوا تھا اگر ہو جاتا تو یقیناً ٹھٹک کر ضرور حیران ہوتا وہ چُپ چاپ خاموشی سے اس کے متوجہ ہونے کی منتظر رہی جب کچھ دیر آنے والے نے اپنا مدعہ بیان نہیں کیا تو اس نے فائل بند کرکے اپنے پیچھے دیکھا اور وہی ہوا جس کا مہالہ کو ڈر تھا وہ بدک کر اپنی کرسی سے کھڑا ہوا تھا بلکہ صرف کھڑا نہیں ہوا تھا ہاتھ میں تھامی ہوئی فائل اس نے میز پر پٹخی تھی اور چہرے پر لمہوں میں غضب ناک تیور نمودار ہوئے تھے۔
" آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟"
اب کی بار وہ خود کو قدرے سمبھال چکا تھا مگر چہرے پر ابھی بھی سپاٹ تاثرات جوں کے توں موجود تھے۔
" مجھے آپ سے کچھ کہنا تھا۔"
چہرے کو باہم جھکائے وہ گویا خود میں ہمت پیدا کرنے کی کوشیش کررہی تھی۔
" ایسی کونسی بات تھی جس نے آپ کو ہمارے کمرے میں رات کے اس پہر چوروں کی طرح آنے پر محبور کردیا۔"
لہجے میں طنز نمایاں تھا۔
"آپ اگر یہ شادی نہیں کرنا چاہتے تو انکار کیوں نہیں کردیتے۔"
وہ شاید اپنے ضبط کے آخری مراحل پر کھڑی تھی۔
" اگر آپ کو مسئلہ ہے تو آپ انکار کردیجیے۔"
وہ واپس سے میز کی جانب ہی متوجہ ہوا تھا مہالہ میں نجانے اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی وہ اپنی جگہ سے چلتی ہوئی عین اس کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔
" آپ کو کس نے حق دیا کہ میری محبت کی یوں تذلیل کریں اسی سے شادی کریں نہ جس سے محبت کرتے ہیں۔"
وہ اس کا گریبان سراعت سے تھامے ہوئے جیسے چلا اٹھی تھی آبیان ششد کھڑا اس کی حرکت دیکھتا رہا گیا اسے ایک ہی لمہے میں غصہ عود کر آیا تھا۔
" آپ کی جرات کیسے ہوئی ہمارا گریبان پکڑنے کی اپنی حد میں رہیے مہالہ ہمیں مجبور مت کریں کہ ہم کوئی تماشہ لگا دیں۔"
اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکتے ہوئے وہ خاصہ غصے میں لگ رہا تھا۔
"تماشہ تو آپ نے ہمارا بنایا ہوا ہے بخت سرکار! آخر آپ اسی سے شادی کیوں نہیں کررہے جو آپ کے دل میں بستی ہے؟"
شدید ضبط کے باوجود اس کے آنسو نکل نکل کر اس کے گال بھگو گئے تھے وہ جیسے اس لمہے ٹوٹ کر بکھر گئی تھی وہ شدت سے روتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر وہ سسک رہی تھی۔ آبیان نے گہری سانس بھری تھی۔
" اٹھیں مہالہ! یہاں آئیں."
اسے کندھوں سے تھام کر آبیان نے کھڑا کیا تھا اور اسے بستر پر ایک جانب کو بیٹھایا تھا۔
" ہم جس قدر بے بس ہیں نہ شاید آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتیں۔"
اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا تو مہالہ نے سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا آبیان دھیرے دھیرے بول رہا تھا اور وہ ششد سن رہی تھی ساری بات سننے کے بعد مہالہ حیرت کی تصویر بنی اسے دیکھ رہی تھی وہ اپنے آنسو بھول کر صرف آبیان کی کہانی سن رہی تھی انسان کس قدر بے بس ہوتا ہے اسے آج اندازہ ہوا تھا۔ تو یعنی وہ ٹھیک تھی اس کے حوصلے اور ضبط کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی محبت سے اس کی محبت کی داستان سن رہی تھی۔
" اگر آپ اجازت دیں تو کیا میں اس سے مل کر بات کروں؟"
وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہہ رہی تھی اور وہ اس کی بات سن کر قدرے حیرت میں مبتلا ہوا تھا۔
"لیکن آپ کیسے؟"
وہ ابھی بھی راضی نہیں تھا۔
" کوشش کرنے میں کیا حرج اس کے بعد تو آپ کو مجھ سے شادی کرنی ہی ہے۔"
وہ کندھے اچکا کر خاصی لاپرواہی سے کہہ رہی تھی۔
" وہ نہیں مانے گی کوئی فائدہ نہیں ہے میں نے اسے بہت بُرے طریقے سے توڑا ہے۔"
وہ ایک بار پھر سے ہارا ہوا معلوم ہورہا تھا۔
" محبت ٹوٹے ہووں کو سمیٹ لیتی ہے۔"
اس کے لہجے میں یقین تھا۔
" ٹھیک ہے کوشش کرکے دیکھ لیجیے گا راحت علی سے بولیے گا وہ آپ کو وہاں لے جائے گا وہ کہاں ہے یہ تو نہیں معلوم مگر شاید میراج کوٹھی سے اس کا کوئی آتہ پتہ مل جائے۔"
اس کے لہجے میں امید کی ہلکی سی بھی چنگاری موجود نہیں تھی مگر مہالہ کا لہجہ پُرامید تھا شاید وہ اپنی آخری بازی میں کامیاب ہوجائے بہت جلد مہالہ افروز اور باہمین زاہرہ روبرو آنے والی تھیں وقت کس کا ساتھ دیتا یہ انہیں بہت جلد پتہ لگنے والا تھا۔
*************************
نیلم میں آج صبح سے ہی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں اتنی تیاریاں کیوں کی جارہی تھیں راغیص بختیار اس بات سے بہت حد تک بے خبر تھی بس اسے تو صبح ہی حزیمہ بختیار جاتے ہوئے سارا سامان پکڑا کر چلے گئے تھے اور ساتھ میں حکم بھی جاری کرگئے تھے کہ دوپہر سے پہلے کھانا تیار کرلے ان کے کچھ دوست آرہے ہیں اور وہ بیچاری صبح سے اکیلی گھن چکر بنی ہوئی تھی ابھی بھی وہ باورچی خانے میں کھڑی سبزیاں کاٹ رہی تھی جب قریب رکھا ہوا اس کا فون بجا تھا اوپر ریحا کا نام دیکھ کر وہ مسکرائی تھی بہت دنوں سے ریحا سے ٹھیک سے بات نہیں ہوئی تھی اس نے کال یس کرکے فون کندھوں اور گردن کے درمیان پھنسایا تھا۔
" اسلام علیکم بجو!"
دوسری جانب سے ریحا کی کھنکتی ہوئی آواز آئی تھی۔
"وعلیکم اسلام کیسی ہو تم؟"
شملہ مرچ کاٹ کر اس نے ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو؟"
اب کی بار راغیص نے کاٹنے کے لیے گاجر پکڑی تھی۔
" میں بھی ٹھیک کیا ہورہا؟"
لگ رہا تھا ریحا کافی فرصت سے فون کررہی ہے۔
" کچھ نہیں آج بابا کے کوئی بہت ہی خاص مہمان آرہے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ بہت اچھا سا کھانے کا اہتمام کروں بس وہی کررہی ہوں۔"
راغیص کا لہجہ کافی مصروف تھا نجانے کیوں ریحا کو اس کی بات سن کر خاصہ عجیب لگا تھا۔
" پانچ سال میں تو کبھی بابا کا کوئی دوست یا مہمان نہیں آیا تو اب ایسا کیوں ہورہا ہے کہیں بجو! تمہارے رشتے کے لیے تو نہیں۔"
وہ اپنی بات مکمل کیے بغیر ہی خاموش ہوچکی تھی مگر اس کی بات سن کر راغیص کے تیزی سے چلتے ہوئے ہاتھ ایک دم رک گئے تھے تمام منظر جیسے ٹھہر گیا تھا دل اندیشوں سے زور سے دھڑکا تھا۔ ریحا کیا بول رہی تھی اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا بس اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ لمہوں میں سات سال کی محبت ہار گئی تھی اسے شاید اب ارغن بخت کو سوچنے کا حق بھی نہیں تھا بغیر کچھ کہے خاموشی سے کسی کا غائب ہوجانا کبھی بھی کسی وضاحت کا محتاج نہیں رہا اگر جیسا ریحا کہہ رہی تھی ویسا تھا بھی تو وہ اسے ماننے پر مجبور تھی کیونکہ وہ اپنے باپ کو زبان دے چکی تھی ریحا بول رہی تھی مگر وہ فون بند کرکے واپس اپنے کام کی جانب متوجہ ہوچکی تھی۔
سچ کہتے ہیں زندگی صرف مل جانے کا نام ہی نہیں ہے یہاں تو نام کرکے بھی چیزیں چھین لی جاتی ہیں۔ زندگی عطا کرکے اگر خوشی دیکھتی ہے تو چھین کر غم دیکھنے کا بھی اسے لطف آتا ہے۔
دوسری جانب ریحا کے چہرے پر صرف حیرت نہیں تھی بلکہ وہ پریشان بھی تھی راغیص بختیار نے ہار مان لی تھی پانچ سال سے وہ ایک انگوٹھی اپنی انگلی میں سجائے اس امید پر جی رہی تھی کہ احساس ہونے پر اسے اس کی انگلی کی زینت بنانے والا پلٹ کر اس کی جانب ضرور آئے گا مگر خوش فہمیاں کب غلط فہمیوں کا روپ دھار لیتی ہیں سمجھ ہی نہیں آتی اور اب دھیرے دھیرے راغیص بختیار کی ہر خوش فہمی خود بخود ہی ختم ہوتی جارہی تھی بلکہ آج ختم ہوگئی تھی اسے اپنی آنکھیں نم محسوس ہوئی تھیں مگر ان میں امڈتی نمی وہ پلکیں جھپک کر اندر اتار چکی تھی کہ آنسو بھی تکلیف ہی دیتے ہیں تو بہتر ہے انہیں یوں ضائع کرنے کی بجائے ان سے سمجھوتہ کرلیا جائے اور وہ بھی اب شاہد سمجھوتے کی آخری سیڑھی پر جاکھڑی ہوئی تھی۔
فون بند ہوچکا تھا مگر وہ حیرت سے فون کی سکرین کو دیکھ رہی تھی شدت سے اسے محسوس ہوا تھا کہ اس وقت اسے اپنی بہن کے پاس ہونا چاہیے تھا اس کے قریب وہ جانتی تھی کہ وہ اب رو رہی ہوگی وہ لاکھ مضبوط ہوجائے مگر جب من چاہی خواہشیں یوں ادھوری رہ جاتی ہیں تو بدن سے گہری تکلیف اٹھتی ہے اپنا بیگ گود میں رکھے اس وقت وہ یونیورسٹی کے بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی وہ بُری طرح سوچوں کے گرداب میں تھی جب وہ آہستگی سے اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھا تھا شاہد ریحا اس کی آمد محسوس نہیں کرپائی تھی۔
"کیا ہوا تم ٹھیک ہو نہ؟"
اپنا بیگ مٹی کے فرش پر رکھ کر براق اس کی جانب متوجہ ہوا تھا جو اس کی آواز پر اس کی جانب متوجہ ہوچکی تھی۔
" آہاں! ریحا نے ایک گہری سانس فضا کے سپرد کی تھی۔
"کیا بات ہے پریشان لگ رہی ہو؟"
اس کے چہرے پر بھی اسے دیکھ کر اب پریشانی چمکی تھی۔
ریحا نے ناجانے کیوں اسے الف سے لے کر یے تک ساری بات بتا دی تھی۔
" تو اس سب میں تم کیا کرو گی جب تمہاری بہن ہی ہتھیار ڈال چکی ہے؟"
ساری بات سننے کے بعد براق نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا تھا۔
" وہ بیوقوفی کررہی ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی زندگی آگے کس قدر مشکل میں پڑسکتی ہے پھر بھی اتنے سال انکار کرنے کے بعد اب نجانے کیوں وہ بابا کی ایموشنل بلیک میلنگ میں آگئی ہے۔"
اسے نجانے کیوں سخت غصہ آرہا تھا۔
" تمہاری کیا تمہارے بابا سے بنتی نہیں ہے؟"
اس کے لہجے پر براق نے حیرت سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ سر جھٹک کر رہ گئی۔
" ہاں کچھ خاص نہیں۔"
اس کے لہجے میں لاپرواہی صاف دیکھی جاسکتی تھی۔
" کیوں؟"
نجانے کیوں براق کو اب انٹرسٹ ہورہا تھا۔
" کیونکہ ان کے پاس میرے پوچھے گئے سوالوں کے جواب نہیں ہوتے اس لیے اور اب مزید تم نے کوئی سوال کیا تو میں یہاں سے چلی جاوں گی۔"
اس کے سوال کا جواب دے کر ریحا نے تنبیہ بھی کی تھی جس پر وہ کھل کر مسکرایا تھا۔
" اچھا نہیں کرتا تم تو بھڑک ہی گئی ہو."
مسکراہٹ دباتے ہوئے وہ سرینڈر کرگیا تھا جس پر ریحا کچھ نہیں بولی تھی مگر اس کا دماغ اس ایک لمہے میں بہت کچھ سوچ چکا تھا اگر اس کا اندازہ درست نکلا تو اسے کیا حکمت عملی اپنانی ہے ریحا بختیار کا دماغ تیزی سے اس پر سوچ رہا تھا رات تک ساری بات کھل کر سامنے آنے والی تھی۔
*************************
ساری رات عجیب سی کشمکش میں گزری تھی اتنا بڑا دعوع؟ وہ حیران تھی شاہد خود سے وہ بہت زیادہ حیران تھی مگر دعوع کرکے پلٹنے سے وہ اس کی نظروں میں گر سکتی تھی دل بغاوت پر اتر آیا تھا کہ مہالہ افروز پاگل ہوکیا ایک چیز تمہیں بغیر کسی جدو جہد کے مل رہی ہے تمہاری جھولی میں گررہی ہے اور تم پھر بھی اس چیز کو اپنی بجائے اس کی من پسند چیز کے حوالے کرنے پر تلی ہوئی ہو عجیب لڑکی نہیں ہو تم جو یہ پاگل پن کررہی ہو؟ دل اس پر مسلسل زور آزمائی کررہا تھا مگر مہالہ افروز کے سر پر جوں بھی نہیں رینگی تھی ناشتے کی میز پر صرف درناب موجود تھی نجانے وہ ناشتے پر کیوں نہیں آیا تھا۔
وہ ہلکے پلم کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس آج دوپٹہ سر پر لینے کی بجائے شانوں پر ڈالے ہوئے تھی اس کے بورے بال ڈھیلی سی پونی میں بندھے ہوئے تھے چہرے پر عجیب بے چینی تھی جو درناب کی تو سمجھ سے باہر تھی۔
" مارننگ افروز جان!"
وہ جونہی میز کے نزدیک آئی درناب نے اسے سلام کیا تھا۔
" مارننگ درناب کیسی ہو نیند تو ٹھیک سے آئی نہ؟"
اپنی پلیٹ میں توس رکھتے ہوئے اس نے خاصے سرسری لہجے میں درناب سے پوچھا تھا۔
" جی ٹھیک سے آئی آپ یہ بتائیں کہ بازار کب جانا ہے؟"
درناب کو تو شہر کے بازار دیکھنے کی اتنی جلدی تھی کہ کوئی حد نہیں۔
" دوپہر کے بعد چلیں گئے ابھی تو کافی گرمی ہے باہر۔"
مہالہ نے نوالہ لیتے ہوئے کہا تو درناب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ناشتے سے فارغ ہوکر وہ دونوں اٹھ کر ٹی وی لاونج میں آگئیں جہاں بڑی سی دیوار گیر ایل ای ڈی روشن تھی۔
"سنو درناب!"
مہالہ نے آخر کو ہمت کرکے درناب کو اپنے جانے کے متعلق بتانے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا وہ بھی اس کی پکار پر جھٹ اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" میں ایک کام سے راحت علی کے ساتھ باہر جارہی ہوں جب واپس آوں گی تو بازار چلیں گئے۔"
مہالہ نے روانی میں اس سے کہا تو وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔
" کیا مطلب ہے آپ کا یہاں شہر میں آپ کو کیا کام ہے یہاں تو آپ کسی کو جانتی بھی نہیں ہیں۔"
درناب کے نہ صرف لہجے میں بلکہ چہرے پر بھی حیرت واضح تھی۔
" واپس آکر بتادوں گی ابھی مجھے جلدی ہے۔"
وہ عجلت میں کہہ کر مڑی تھی جب درناب نے سراعت سے اس کی کلائی تھامی تھی۔
"سچ بتائیں کہاں جارہی ہیں کس سے ملنے جارہی ہیں؟"
درناب کے چہرے پر مشکوک تاثرات تھے مہالہ نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" آر یو سریس درناب! کیا تمہیں لگ رہا ہے کہ میں کسی سے خفیہ ملاقات کرنے جارہی ہوں او مائی گاڈ لائیک سریس درناب ؟"
وہ چہرے پر حیرت بھرے تاثرات لیے مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی۔
" خدا نخواستہ افروز جان! میرا یہ مطلب نہیں تھا ایسا تو میں کبھی مر کر بھی نہیں سوچ سکتی مگر مجھے فکر ہورہی تھی نہ اس لیے۔"
درناب بیچاری نے سٹپٹا کر فوری سے بیشتر صفائی پیش کی تھی۔
"ایک کام کرو میرے ساتھ چلو تم بھی پتہ چل جائے گا کہ میں کہاں جارہی ہوں۔"
اس نے لمہوں میں فیصلہ کیا تھا درناب تجسس کی کیفیت میں اس کے ساتھ جانے پر راضی ہوئی تھی۔
" جمال بی! میری اور درناب کی چادر لے آئیں۔"
جمال بی سر ہلاتی ہوئی ایک جانب کو مڑ گئی تھیں اور جب واپس لوٹیں تو ان کے ہاتھ میں دو چادریں تھیں دونوں نے اپنی اپنی چادریں اوڑھی تھیں اور باہر کی جانب بڑھ گئی تھیں آبیان بخت شاہد آج راحت علی کے بغیر باہر گیا تھا کیونکہ اسے بھی معلوم تھا کہ مہالہ کو آج راحت علی کی ضرورت آبیان سے زیادہ ہے۔
پورچ میں راحت علی کھڑا مالی سے محو گفتگو تھا جب درناب اور مہالہ کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر مودب ہوگیا تھا۔
" میراج کوٹھی کا پتہ معلوم ہے نہ آپ کو؟"
مہالہ نے چادر سے چہرہ ڈھکے ہوئے اس سے پوچھا تھا جو ذرہ بھی چونکا نہیں تھا آبیان جانے سے پہلے اسے سب سمجھا گیا تھا۔
" جی بی بی معلوم ہے آئیں آپ."
اس نے ہاتھ باندھ کر سر ہلاتے ہوئے اس سے کہا تو وہ درناب کو اشارہ کرکے خود گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی اس کے بیٹھتے ہی فوری درناب نے بھی اس کے برابر کی سیٹ سمبھالی تھی راحت علی نے گاڑی کے دروازے بند کرکے خود ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی تھی اس کی گاڑی کا رخ ایک بار پھر سے اس جگہ کی جانب تھا جہاں اس کے سرکار کا دل بُری طرح کچلا گیا تھا جہاں اس کو معافی نہیں دی گئی تھی جہاں اس کی محبت کو دفن کیا گیا تھا جہاں اس کی لڑکھڑاہٹ اور آنسو بہے تھے جہاں سب جذبات ریزہ ریزہ ہوئے تھے جہاں وہ کتنی دیر اس دور جاتی ہوئی گاڑی کے پیچھے اُڑتی دھول کو دیکھتا رہا تھا۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now