انجانے راہی

1.8K 103 141
                                    

باب نمبر 8
ڈھلتی شام میں ملے تھے
وہ دو انجانے سے راہی
برستی بارش میں ملے تھے
وہ دو انجانے سے راہی
تاریک سایوں میں ملے تھے
وہ دو انجانے سے راہی
موسم بہار میں ملے تھے
وہ دو انجانے سے راہی
برسوں بعد بچھڑ کر ملے تھے
وہ دو انجانے سے راہی
ہجر کے بعد ملے تھے
وہ دو انجانے سے راہی
محبت کے بعد ملے تھے
وہ دو انجانے سے راہی
ایمن خان

لال حویلی میں دنوں کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تیاریوں کا زور بھی بڑھتا جارہا تھا شادی تو ہونی ہی تھی اور ہوکر رہنی تھی ایسے میں وہ کیا کرسکتی تھی کچھ بھی نہیں نہ خود کی خوشی کے لیے اور نہ ہی اس کی خوشی کے لیے مہالہ افروز نے اپنے آپ کو کبھی اتنا بے بس محسوس نہیں کیا تھا جتنا وہ اس لمہے کررہی تھی ایک طرف اس کی محبت اور وقار تھا اس کی خوشی اور رضا تھی تو دوسری جانب پورا کا پورا آبیان بخت کھڑا تھا اپنے دل میں کسی اور کی آگ لیے وہ مہالہ افروز کو جھلسانے کے درپے تھا اس کی حدت سے مہالہ کو یوں محسوس ہوتا کہ وہ پگل جائے گی اور پگل کر اس کے سامنے ہی پانی کا ایک ڈھیر ہوجائے گی۔ وہ اٹھ کر درناب کے کمرے کی جانب بڑھی تھی دروازہ نیم وا تھا کھڑکی کے ساتھ لگ کر وہ بیٹھی کسی گہری سوچ میں غرق تھی۔
" کیا بات ہے کیا سوچ رہی ہو؟"
اس کے نزدیک بیٹھتے ہوئے مہالہ نے پوچھا تو وہ ٹیک چھوڑ کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
" کچھ بھی تو نہیں آپ بتائیں کہ آپ کی شادی کی تیاریاں کیسی جارہی ہیں؟"
وہ قدرے لہجے کو بشاش کرتے ہوئے بولی تو مہالہ کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔
" تمہارے سامنے ہی تو ہوتی ہیں ساری تیاریاں ٹھیک جارہی ہیں اب تم مجھے یہ بتاو کہ تم نے اپنے کمرے سے باہر آنا کیوں چھوڑ دیا تمہیں پتہ چچی جان کتنی پریشان تھیں تمہاری وجہ سے؟"
اس کے بال نرمی سے سہلاتے ہوئے مہالہ نے کہا تو وہ ندامت سے نگاہیں جھکا گئی۔
" افروز جان! کچھ چیزوں پر آپ کا اختیار نہیں ہوتا آپ وہ نہیں کرنا چاہتے مگر پھر بھی خود بخود وہ ہوتی چلی جاتی ہیں شاہد وہ مقدر کے کسی ایک پوشیدہ کونے میں لکھی ہوتی ہیں اس لیے۔"
وہ اپنے تئی بات کرکے مطمعن ہوگئی تھی کہ اس کا لگایا گیا اندازہ بالکل درست ہے۔
" چیزوں کے اختیار میں ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ ہمشہ اپنے ماحول کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے درناب! کہ جس جگہ پر آپ نے آنکھ کھولی اور پرورش پائی وہاں سے آپ کو کس طرح کے اختیارات دیے جارہے ہیں اگر اپنے جذبات ان تعینات کردہ اختیارات کی حدود میں ہی رکھے جائیں تو سہل رہتے ہیں مگر جہاں بغاوت کرکے اختیارات سے باہر پاوں نکالا جاتا ہے وہی پر حد یاد کراکے پیروں کو کچل دیا جاتا ہے۔"
وہ اس کی بات سے بہت سمجھداری کے ساتھ اسے اپنی بات کی جانب لے آئی تھی درناب کے چہرے کا ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جارہا تھا۔
" کیوں افروز جان! آخر کیوں جذبات ان اختیارات سے باہر نہیں ہوسکتے؟"
اسے نہیں معلوم تھا مگر اس کا ایک آنسو اس کی گال پر بہا تھا مہالہ نے اسے بازو سے تھام کر اپنے نزدیک کیا تھا۔
" مقدر ہم میں سے کوئی نہیں لکھ سکتا درناب! یقین جانو اگر یہ مقدر لکھنے کی اجازت ہم انسانوں کو ہوتی تو میں سب سے پہلے سب سے قیمتی سیاہی سے سنہرے حروف میں تمہاری خوشیاں اور خواہشات لکھ دیتی مگر ریتوں سے کوئی نہیں جیتا ہے۔"
اس کے لہجے میں بھی گہرا دکھ پوشیدہ تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس کے دکھ پر زیادہ روئے اپنے یا پھر اپنی جان سے عزیز بہن درناب کے وقت ایک سیدھی سادی سلیٹ کی طرح ہر گن واضح کرکے سامنے لانے والا تھا جس پر مہالہ کی قسمت بھی تھی اور درناب کی بھی صرف اس سلیٹ کے آنے کا انتظار تھا اور وہ یقیناً جلد آنے والی تھی۔
************************
پوری رات سڑکوں پر گزری تھی اس سے پہلے وہ کبھی شکستہ حال نہیں ہوا تھا مگر اب ہوا تھا اس کی غلطی نہیں تھی واقعی ہی اس سے گناہ ہوا تھا کتنا کم ظرف نکلا تھا وہ کہ ایک سید زادہ ہوکر ایک عورت کے سر پر عزت کی چادر بھی نہیں ڈال پایا تھا۔
" ایک عورت کو تو عزت دے نہیں پایا میں دوسری عورت کو کیسے دے سکتا ہوں بی بی سرکار! میں کوئی عورت اپنی زندگی میں نہیں چاہتا میں عورت کو سمبھال ہی نہیں سکتا جس مان جس عزت کی وہ حقدار ہوتی ہے میں کیسے اسے دے سکتا ہوں۔"
گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا آنکھیں موندے وہ بڑبڑا رہا تھا۔ رات سے کئی بار راحت علی اسے گھر چلنے کے لیے کہہ چکا تھا مگر وہ گھر نہیں گیا تھا اس کے پورے وجود میں شدید گھٹن کا احساس بڑھ رہا تھا۔
" پہلی بار میں نے محبت کی تھی راحت علی اور پھر اس پہلی ہی باری میں اسے کھو دیا کس وجہ سے صرف خود کی وجہ سے۔"
بالوں میں ہاتھ چلاتے اس نے شکست خردہ لہجے میں کہا تھا۔
" سرکار! جو چیزیں تقدیر میں نہیں ہوتی وہ آپ کے قریب ترین کرکے بھی دور کردی جاتی ہے۔"
راحت علی نے اب کی بار اس کے پوچھے بنا ہی گاڑی گھر کی طرف موڑ لی تھی۔
" اگر قریب کرکے دور ہی کرنا ہوتا ہےتو قرب کا مزہ چکھا کر خواہش بھی کیوں پیدا کی جاتی ہے۔"
لہجہ ہنوز ٹوٹا بکھرا ہوا تھا۔
"قرب کا مزہ اس لیے چکھایا جاتا ہے کہ دل آنے والی تبدیلی کے لیے خواہش پال لے سرکار ہم سب سمیت آپ بھی یہ جانتے ہیں کہ آپ کی شادی شروع سے ہی افروز بی بی سے ہونا تھی اگر اس میں آپ کا دل کہیں اور نہ لگتا تو یہ کام اب تک ہوچکا ہوتا محبت تو کھو ہی دی ہے آپ نے کم از کم جس کے لیے کھوئی ہے اسے ہی بچا لیں۔"
راحت علی کی بات اپنے اندر سچائی کا پورا جزیرہ لیے ہوئے تھی۔ واقعی ہی وہ کتنا درست کہہ رہا تھا دستار بچانے کے لیے اس نے محبت کھو دی تھی اور اب تو وہ دستار بھی بچانے کے قابل نہیں بچا تھا۔
گاڑی بخت ہاوس کے گیٹ کے سامنے رکی تھی ہارن کی آواز پر چوکیدار نے گیٹ کھول دیا تھا راحت علی نے گاڑی روش پر لاکر روکی تھی کوٹ اتار کر اس نے ہاتھ میں تھاما تھا اور گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب بڑھا تھا بغیر کسی کی جانب دیکھے وہ سیدھا سیڑھیوں کی جانب بڑھا گیا سر درد سے پھٹ رہا تھا کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنا فون کوٹ کی جیب سے باہر نکالا تھا جوں ہی فون آن کیا لاتعداد مسجز اور کالز نے اس کی توجہ کھینچی جس میں سے تین کالز تو حویلی سے آئی تھیں۔
دُکھتے سر کو نظر انداز کرکے اس نے حویلی کے نمبر پر دوبارہ کال کی تھی کچھ ہی دیر بعد فون اٹھا لیا گیا تھا دوسری جانب اپنی ماں کی آواز سن کر اسے شدت سے ان کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔
" اسلان علیکم اماں جان!"
لہجے میں ہی بھاری پن گھلا ہوا تھا۔
" وعلیکم اسلام آبیان! کیا آپ ٹھیک ہیں میرے بیٹے؟"
دوسری جانب ممتہیم بیگم کی آواز میں پریشانی سمٹ آئی تھی آبیان کا لہجہ اس کی آواز کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
" ہم ٹھیک ہیں اماں جان! آپ بتائیے کوئی پریشانی ہے کیا؟"
جوتوں سمیت کاوچ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ کر اس نے فون کرنے کی وجہ پوچھی تھی۔
" آپ کی شادی کے دن نزدیک آرہے ہیں اور بی بی سرکار چاہتی ہیں کہ اب آپ حویلی آجائیں اور آپ کو کچھ چاہیے تو شہر سے اپنی شاپنگ کرکے لے آئیں۔"
ان کے جملے اس کے مفلوج اعصاب پر کسی زور آور ہتھوڑے کی مانند لگے تھے۔
" کیسی ماں ہیں اماں جان! آپ کیا آپ کو اپنے بیٹے پر ذرہ برابر بھی ترس نہیں آرہا ہمارا پورا وجود ریت کے زروں کی مانند بکھر گیا ہے لال حویلی کی دستار کی خاطر آپ نے ہم سے اتنی بڑی قربانی مانگی اور ہم نے اپنا دل مار کر یہ قربانی دے دی اماں جان! کم از کم اب ہمیں سوگ منانے کا تو کچھ وقت دے دیں کہ اب ہماری سانسیں بند کرکے ہی بی بی سرکار کو سکون ملے گا۔"
اس کے لہجے میں کیا کچھ نہیں تھا بے بسی تھکاوٹ۔ ممتہیم بیگم کے دل پر اس کی باتیں سن کر ہاتھ پڑا تھا۔
" کیسی باتیں کررہے ہیں آپ انشاءاللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔"
دوسری جانب سے وہ تڑپ کر گویا ہوئی تھیں۔
" جب ہمارا دل کرے گا ہم آجائیں گئے فلحال ہم لال حویلی نہیں آنا چاہتے بتا دیجیے گا بی بی سرکار کو۔"
مزید ان کی کوئی بھی بات سنے بغیر اس نے فون بند کردیا تھا دماغ میں ٹیس سی اٹھی تھی دکھتے سر کو تھام کر وہ وہی پر آنکھیں موند گیا تھا۔ اسے حقیقتاً سکون کی ضرورت تھی۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now