آتشِ غم

1.9K 118 99
                                    

باب نمبر 11

بے سرو سامان ڈوب گیا میں آتشِ غم میں
بہہ گئی ہستی صنم اسی فہم میں

ڈوب کر تنکے کی تلاش میں سرگرم تھا میں
میرے اوسان خطا سارے تیرے بچھڑنے کے وہم میں

ہے تو بیگانہ تو غم کیسا میرے ہمنوا
ڈبو دی اپنی ہستی ہم نے تیری ہی فکر میں

اب نہیں ہے پاس تو بھی سہل نہیں ہے حیات اپنی
وجود مسلسل وجد میں ہے تیرے ملنے کی آس میں

ایمن خان

تمام افراد اسی کی جانب متوجہ تھے مگر وہ کسی خاموش تماشائی کی طرح اپنے سامنے موجود نکاح نامے کو گھور رہا تھا لب کاٹتی باہمین زاہرہ اس کی نگاہوں کے پردے پر رقص کررہی تھی غزالی آنکھیں اپنے پورے عتاب کے ساتھ اس کے سامنے تھیں نگاہوں میں امید کے جگنو جھلملا رہے تھے آبیان کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوئی تھیں آنکھوں کی پتلیوں میں دھندلاہٹ چمکی تھی چہرے کو جھکا کر اس نے اُمڈنے والی نمی کو اپنے اندر اتارا تھا اس کے ہاتھوں کی انگلیاں یخ بستہ ہورہی تھیں کہ ان انگلیوں کے وسط میں دبا ہوا پین لرز رہا تھا۔
"سائن کریں بخت پتر!"
بی بی سرکار کا ہاتھ اس کے کندھے پر تھا اس نے ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالی تھی اس کا تمام خاندان اس کے گرد جما تھا ایک گہری سانس فضا کے سپرد کرکے اس نے اپنے وجود کے لرزے پر قابو پایا اور سپاٹ تاثرات کے ساتھ نکاح کے کاغذات پر دستخط کردیے مبارک باد کا شور بلند ہوا تو اس نے کسی روبوٹ کی طرح ملنے والوں سے مبارک باد وصول کی اور واپس سے اپنی نشست پر براجمان ہوگیا۔
"ہم آپ سب کے بے حد مشکور ہیں جو آپ ہماری دعوت پر ہمارے پوتے اور اس گدی نشین کے نکاح میں شریک ہوئے آپ سب کو جان کر خوشی ہوگی کہ پیر سید زرگل بخت کے جانشین پیر سید آبیان بخت اب سے دستار کے معاملات سنبھالیں گئے ہم انہیں باقائدہ طور پر دستار پر بیٹھاتے ہیں راجن پور کے پیر ابھی بھی پیر سید زرگل بخت ہی ہیں دعا کے لیے اور روحانی مسائل کے لیے بیٹھک یونہی لگا کرے گی مگر دستار کے مسائل گاؤں کی مشکلات زمینوں کے معاملات لال حویلی کے تمام فیصلے ہمارے بعد انہی کا حق ہے۔"
بولتے ہوئے ان کے لہجے میں ازلی وقار نمایاں تھا سیاہ دوپٹہ قرینے سے سر پر جما کر سیاہ چادر کندھوں پر ڈالے ہاتھوں اور کانوں میں اپنا خاندانی زیور پہنے وہ ماحول پر چھائی ہوئی تھیں آبیان ان کی بات پر حیرت زدہ سا انہیں دیکھ رہا تھا مگر اس لمہے اس میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر کچھ بول سکتا وہ ساکت و جامد اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا بی بی سرکار نے ایک سفید دستار اس کے سر پر سجائی تھی گلے میں گلاب کے پھولوں کا ہار ہنوز موجود تھا وہ لب پینچے بیٹھا ہوا تھا اطراف سے شور اٹھا تھا۔
"بخت سرکار! زندہ باد! بخت سرکار! زندہ باد!"
بی بی سرکار نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بولنے پر اکسایا تھا اس نے ایک نظر اپنے باپ اور تایا پر ڈالی تھی جن کے چہرے مسرت سے جگمگا رہے تھے وہ اپنی نشست سے کھڑا ہوا تھا ہاتھوں کو فضا میں بلند کرکے اس نے گویا اپنے حق میں ابھرنے والے نعروں کو روکا تھا۔
"آپ سب کا بے حد شکریہ جو آپ ہر اچھے اور بُرے وقت میں لال حویلی کے ساتھ رہتے ہیں بے شک یہ دستار ہم پر ایک بہت اہم زمہ داری ہے اور شاید ہم خود کو اس اہل بھی نہیں سمجھتے کہ یہ زمہ داری نبھا سکیں مگر چونکہ یہ دستار ہمارے باپ دادا کا ورثہ ہے تو ہمیں اس پر بیٹھ کر اس ورثے کی حفاظت ہر حال میں کرنی ہے اللہ کو حاضر ناضر جان کر ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمام فیصلے حق اور انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں گئے کوشش کریں گئے ہماری وجہ سے کسی زی نفس کی دل آزاری نہ ہو اور اگر جانِ انجانے میں ہم کسی کا دل دکھانے کے زمہ دار ہوں تو آپ سب سے معافی کی درخواست ہے اللہ ہماری مدد کرے شکریہ۔"
لہجے میں ازلی نرمی تھی رویہ سے انکساری جھلک رہی تھی اطراف میں ایک بار پھر شور بلند ہوا تھا۔
"بخت سرکار! زندہ باد! بی بی سرکار! زندہ باد!"
اس کے بعد تمام لوگ کھانے کی جانب متوجہ ہوگئے جبکہ وہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا دل پر منوں بوجھ آپڑا تھا ہر چیز سے دل جیسے اچاٹ ہوگیا تھا دل کی بے چینی اور آنکھوں کی دھندلاہٹ بڑھتی جارہی تھی اپنی زندگی کی سب سے اہم زمہ داری بھی آج اس نے اپنے کمزور کندھوں پر لے لی تھی سب مناظر دھندلا گئے تھے۔
کھانے کے بعد مہالہ کو آبیان کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا سرخ پھولوں سے سجی ہوئی سیج یقیناً کسی اور کا حق تھی جس پر آج وہ ناچاہتے ہوئے بھی براجمان تھی سرخ گلابوں کی بھینی بھینی خوشبو اس کے تمام اعصاب معطر کررہی تھی اس کے سامنے بیٹھی بارینہ بیگم اپنی بیٹی کو دلہن کے روپ میں دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
"دیکھیں افروز جان!"
اسے ٹھوڑی سے پکڑ کر انہوں نے اپنی جانب متوجہ کیا تھا مہالہ کی آنکھوں کی بڑھتی ہوئی سرخی بارینہ بیگم سے مخفی نہیں تھی۔
"یہ جو مرد ہوتا ہے نہ بیٹا! وفادار اور تابعدار عورت کا نا چاہتے ہوئے بھی ہوجاتا ہے کیونکہ مرد کو اپنی زندگی میں موجود وفا شُعار اور تابعدار بیوی کی ان صلاحتوں کی عادت ہوجاتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے وہ ان صلاحتوں پر انحصار کرنا شروع کردیتا ہے۔"
اس کے پُر حدت ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر انہوں نے نرمی سے تھپکا تھا۔
"کوشش کیجیئے گا کہ آپ بخت کی تابعدار اور وفادار بن کر رہیں اب آپ کوئی عام سید زادی نہیں ہیں آپ بیگم بخت ہیں لال حویلی کے گدی نشین کی بیوی اپنے رتبے کے وقار کو قائم رکھیں گی تو اپنے شوہر کے کندھے سے کندھا ملا کر چل سکیں گی۔"
انہوں نے ماں ہونے کے اپنے تمام فرائض نبھائے تھے اور اس کا چہرہ تھپتھپا کر کمرے سے باہر نکل گئی تھیں۔
********************

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now