جان کے بھی انجانا

1.8K 114 84
                                    

باب نمبر 13

وہ جو جان کر بھی انجانا ہے
اسے بے پرواہ کہتے ہیں

وہ جو آشنائی کا دعویدار ہے
اسے ہم آشنا کہتے ہیں

وہ جو بے رخی کی حدوں پر ہوتا
اسے بے حس گردانتے ہیں

وفا جس کی گھٹی میں نہ ہو
اسے بے وفا کہتے ہیں

جدائی دے کر جو چلا جائے
اسے ستم گر مانتے ہیں

ہم محبت میں چھوڑ جانے والوں کو
بے ضمیرا جانتے ہیں

ایمن خان
وہ آنے والی ہستی کو دیکھ کر حیرت کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوئی تھی مگر ایسا کوئی تاثر اس کے چہرے سے عیاں نہیں ہورہا تھا۔ اسے اپنے قریب آتے دیکھ کر باہمین زاہرہ کی مسکراہٹ خاصی گہری ہوئی تھی۔
"دیکھنے آئی ہو کہ شکست کے بعد میں کیسی دکھتی ہوں؟"
صوفے سے اٹھ کر وہ دلسوز کے قریب جا کھڑی ہوئی تھی۔
"نہیں دیکھنے آئی ہوں کہ اپنی ماں کی شکست کے بعد تم کیسی دکھتی ہو۔"
اس کے چہرے کے نقوش پر اپنی انگلیوں کو پھیرتے ہوئے دلسوز نے کہا تو باہمین کے آنسو ٹپ ٹپ اس کے گالوں پر بہے۔
"لو دیکھ لو سب ہارنے کے بعد میں ایسی دکھتی ہوں چلتی پھرتی زندہ قید لاش۔"
اپنی بانہوں کو پھیلا کر وہ سیدھی کھڑی ہوئی تھی گویا کہہ رہی ہو کہ غور سے میرا معائنہ کرلو۔
دلسوز حیرت سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی جس کا حسین شہابی چہرہ مرجھایا ہوا تھا جس کا حسن اب مانند پڑچکا تھا۔
"می۔۔میں نے کبھی بھی تمہارے لیے یہ سب نہیں سوچا تھا باہمین!"
اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر وہ گویا ہوئی تو باہمین مسکرائی۔۔۔چہرے پر ایک اذیت بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔
"میں نے تو خود اپنے لیے کبھی یہ سب نہیں سوچا تھا دلسوز!"
شانے اچکا کر اس نے بے بسی سے کہا تو دلسوز اس کے گلے لگ گئی۔
"میں بھی تھک گئی ہوں باہمین! مجھے بھی اب رہائی چاہئیے چاہے یہ رہائی مجھے موت کی صورت ہی کیوں نہ ملے۔"
اس کے نزدیک صوفے پر بیٹھتے ہوئے دلسوز نے کہا تو باہمین نے تڑپ کر اس کی جانب دیکھا۔
"یوں نہ کہو میں بھی بہت مایوس تھی مگر پھر ماہ جبین نے مجھے احساس دلایا کہ مایوسی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا یہ مثبت دعائیں ہی ہوتی ہیں جو انسان کی تقدیر بدلتی ہیں اور سکون بے شک اللہ ہی کی یاد میں ہے یہ میں آزما چکی ہوں ایک بار تم بھی آزما لو۔"
اس کے شانے پر بازو پھیلا کر باہمین نے کہا تو دلسوز خاموش ہوگئی۔
"مجھے وہ صبح ابھی بھی یاد ہے دلسوز! جب دمیر بخت پہلی بار میرے بستر کا حصہ دار بنا تھا۔ صبح جاگ کر اپنے سے کچھ فاصلے پر اسے موجود دیکھ کر اذیت کی جس بھٹی میں میرا وجود جلا تھا وہ ناقابلِ بیان ہے مجھے تم،میری ماں،انجیل بی اور وہ ساری میراج کوٹھی کی مظلوم طوائفیں یاد آئی تھیں جو اس اذیت سے دن رات گزرتی تھیں مجھے بے ساختہ تب احساس ہوا تھا کہ اس اذیت میں جلنا آپ کا اپنا فیصلہ کبھی نہیں ہوسکتا،خاص کر ایک عورت کا فیصلہ کبھی نہیں ہوسکتا یہ تو نصیب ہوتا ہے جو آپ کو اس نہج پر لا پٹختا ہے مگر پھر سوچا نصیب کے ساتھ ساتھ یہ مظلوم عورتوں کی بدقسمتی جبکہ ان عورتوں کی خوش قسمتی تصور کی جاتی ہے جو اپنی منشاء سے اس آگ میں کودنے کا فیصلہ کرتی ہیں جن کے لیے عزت بعد میں اور پیسہ پہلے ہوتا ہے۔"
کسی غیر مرعی نقطے پر نظریں جمائے وہ دھیرے دھیرے کہہ رہی تھی۔ جبکہ دلسوز خاموشی سے دم سادھے اسے سن رہی تھی۔
"مجھے لگا تھا باہمین! شاید تمہارا مقدر ہم سب سے مختلف ہوگا تم تو اپنی ماں کی لاڈوں پلی بیٹی تھی جس کی حفاظت اور پاکبازی کو قائم رکھنے کے لیے وہ پوری میراج کوٹھی سے لڑ جایا کرتی تھی مجھے لگا تھا کہ تم۔۔تمہارا خریدار اس دنیا کی بھیڑ میں تمہارے لیے وہ واحد انسان ثابت ہوگا جو تمہیں ذلت کی پستیوں سے نکال کر عزت کے منصب پر فائز کردے گا مگر پھر۔۔یہ کیا ہوا؟ مجھے لگا تھا وہ تم سے نکاح کرکے تمہیں اپنی عزت بنائے گا اور اس کی عزت بننے کے بعد تم آبیان بخت کے ہاتھوں سہی ہوئی بے عزتی بھول جاو گی۔"
دلسوز باہمین کا ہاتھ تھامے اسے دھیرے دھیرے کہہ رہی تھی جبکہ باہمین خاموش بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔
"ہونہہ! ایسے لوگ نکاح نہیں کیا کرتے دلسوز! دمیر جیسے امیر زادوں کے لیے لڑکی اور اس کی عزت کسی ایڈونچر سے کم نہیں ہوتی وہ نکاح تو اپنے اونچے خاندان کی شان کے مطابق کرتے ہیں مگر نکاح سے قبل اپنی ہوس مٹانے کے لیے اور نفس کی دہکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انہیں مختلف حسین لڑکیوں کی قربت کی ضرورت پڑتی ہے بالکل ایسے جیسے ایک انسان اپنے سامنے رکھے ہوئے مختلف پھلوں کا ذائقہ چکھتا ہے اسی طرح دمیر بخت اپنے نفس کی خواہش پر مختلف لڑکیوں کا ذائقہ چکھتا ہے جس کی قربت میں زیارہ شیرینی محسوس ہوتی ہے اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارا جاتا ہے اور جوں ہی مٹھاس ختم ہوتی ہے اسے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے بالکل آلو بخارے کے چھلکے کی طرح اسے منہ میں ڈالتے ہیں تو مٹھاس محسوس ہوتی ہے مگر کچھ ہی دیر میں وہ مٹھاس ختم ہوجاتی ہے اور ہم چھلکا باہر تھوک دیتے ہیں۔"
باہمین کی بات پر دلسوز نے حیرت و تعجب سے اس کی جانب دیکھا تھا کس قدر. صیح کہہ رہی تھی وہ۔
"لیکن تم فکر مت کرو دلسوز! ایسے بے لگام نفس کے مالک لوگوں کا انجام قابلِ دید ہوتا ہے نفس کی مار ناقابلِ برداشت ہوتی ہے کیونکہ اس مار کا تماشہ میں اپنی ماں کی زندگی میں دیکھ چکی ہوں۔ خیر اب تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ جب دمیر بخت اپنے نفس کی مار سے ہارتا ہے تو کیسا دکھتا ہے میں بھی زندہ ہوں تو فقط اس کی ہار کا تماشہ دیکھنے کے لیے ہی اس کے سوا اس زندگی سے کچھ نہیں چاہئیے مجھے اب تو انتظار ہے تو اپنی رہائی کا ہے ایک وقت آئے گا جب میں اور تم اپنی اپنی جگہ پر رہاہ ہوجائیں گئے۔"
اس کے لہجے میں چمکتے یقین اور نفرت کی چنگاری کو دلسوز نے بڑی ہی خندہ پیشانی سے دیکھا تھا اس کے اندر بھی تو میراج کوٹھی کے لیے برسوں سے ایسی ہی نفرت پل رہی تھی۔ بہت جلد ہر نفرت کی تسکین ہونے والی تھی ہر گناہ بے باک ہونے والا تھا۔ شاید آج دلسوز بائی کا دل ہلکا ہوا تھا مگر وہ کہیں شرمندہ بھی تھی باہمین زاہرہ کی بہترین دوست ہونے کے باوجود وہ اس حسد میں ضرور مبتلا ہوئی تھی کہ باہمین زاہرہ کی زندگی اس کی زندگی جتنی تلخ کیوں نہیں ہے مگر آج باہمین کو یوں دیکھ کر دلسوز کو افسوس ہوا تھا اور بے حد ہوا تھا۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now