انجام کے بعد

3.1K 168 194
                                    

آخری باب

بے فکر لمحوں کی قید سے
بے بس لمحہ فکریہ پھوٹ پڑا

بے پرواہ تھے جو انجام سے
ان پر یک مشت لمحہِ اختتام آن پڑا

باندھ رکھی تھی جس نے رشتوں کی ڈوری
نگاہوں کے سامنے چیتھڑے سنبھال پڑا

پیار ،محبت،عشق سب تمام ہوا
درد کا ایسا زور آور حملہ پڑا

کھیل ختم ہوا سہل حیات کا
انجام کے بعد سب بکھر پڑا

ایمن خان

زندگی دھیرے دھیرے معمول پر آرہی تھی۔ لال حویلی کے گردو نواں میں بے حد خوبصورت اور حسین صبح اتری تھی۔ بی بی سرکار اب اپنے کمرے سے کم ہی باہر آیا کرتی تھیں جیسے کوئی روگ تھا جو ان کی جان کو چمٹ گیا تھا زرشاہ جیسے کسی روبوٹ کی مانند ہوگئے تھے۔ سارا دن زمینوں پر گزار کر کہیں رات گئے تک واپس لوٹتے۔ پیر زرگل بخت اپنی بیٹھک تک ہی محدود تھے۔ ان کا سارا دن لوگوں کے مسائل حل کرنے میں گزر جاتا۔ ایسے میں صرف وہ تنہا تھا جو دستار کی زمہ داریوں کو احسن طریقے سے سنبھال رہا تھا۔ دل درد سے بھرا ہوا تھا مگر اسے لال حویلی کے مکینوں کے لیے ہر حالت میں مسکرانا ہی تھا اور وہ یہی کیا کرتا تھا۔ صبح صبح لائیبریری میں حسبِ معمول جانماز بچھائے وہ فجر کی نماز پڑھ رہا تھا۔ مہالہ ابھی تک سو رہی تھی۔ آبیان نے اسے جگانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ پہلے خود سکون سے نماز پڑھنا چاہتا تھا۔ اپنی مکمل تسلی کے ساتھ نماز پڑھ کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے گر کر اٹھی ہوئی ہتھیلیوں میں جذب ہوگئے۔ اس کے لبوں پر پھر سے وہی دعا تھی جو اس دل سے ہونٹوں تک ہر روز، ہر نماز کے بعد ادا ہوکر شاید سیدھی عرش پر جاتی تھی۔
"یااللہ! یا میرے پروردگار! میں تیرا بے حد کمزور اور عام سا انسان ہوں۔ میں بے ضرر ہوں۔ مجھ پر میری اسطاطت سے زیادہ بوجھ مت ڈالنا میری غلطیوں،کوتاہیوں کو معاف فرمانا میرے مالک! میری غلطی کی سزا اس معصوم کو مت دینا۔ وہ بہت معصوم ہے۔ بے شک وہ میرا نصیب نہیں تھی یا اللہ! مگر اس کے نصیب خوبصورت کرنا اسے در در کی ٹھوکروں سے بچا لینا۔ تیرے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے میری دعاؤں کے صدقے اس کی حفاظت فرمانا اس کے لیے بہترین کرنا۔ میرے یقین کی رسی کو ٹوٹنے مت دینا۔ باہمین زاہرہ کو خوشیاں عطا کرنا اتنی کہ وہ پیر سید آبیان بخت کا غم بھول جائے،میری کوتاہیاں اسے یاد نہ رہیں، میرے ظلم وہ فراموش کرجائے۔ آمین۔"
بھیگے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اس نے دعا ختم کی تھی۔ لائیبریری کے دروازے کے باہر کھڑی مہالہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کا گڑگڑانا دیکھا تھا۔
"خوش قسمت تھی تم باہمین! تم سے اتنے پیارے شخص نے محبت کی تھی۔ اتنی محبت کہ کسی اور سے شادی کے بعد بھی وہ ہر دعا میں تمہاری سلامتی اور خوشیاں مانگتا ہے۔ بار بار رو رو کر اپنی کوتاہی کی معافی طلب کرتا ہے۔ تم واقعی ہی خوش نصیب تھی۔ تمہارے بعد میں خوش نصیب ہوں کہ اللہ نے یہ پیارا شخص میری جھولی میں بھر دیا آبیان سے محبت چھین کر مہالہ کو دے دی۔ میں واقعی ہی شکر گزار ہوں اس کی وہ جو کرتا اس میں مصلحت ہوتی ہے۔"
دروازے سے ہٹ کر وہ واشروم کی جانب بڑھی تھی جبکہ آبیان جانماز طے کرکے باہر آیا تو بستر خالی دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا کہ مہالہ جاگ چکی ہے۔ وہ پیروں میں قیمچی چپل پہن کر بی بی سرکار کے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔ جہاں وہ روز صبح اس کا انتظار کیا کرتی تھیں۔

چھنکار مکمل✅Where stories live. Discover now