قسط نمبر 1

733 21 6
                                    

"It doesn't matter how you get there, when you don't know where you're going"

سارجنٹ حادی پھٹا پھٹا جہاز میں بیٹھا. ٹائیکون کا کیس نمٹنے کے بعد حادی نے یہ تہیہ کر کے چھٹیاں لی تھیں کہ کم از کم ایک مہینہ تو اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارے گا اس لئے وہ اپنے شہر چلا گیا مگر ٹھیک سات دن بعد اسے داریان کا پیغام موصول ہوا جسے پڑھ کر حادی جھلا گیا لکھا،
پیارے حادی، جلد آؤ! تفریح رہے گی!
"کیا خاک تفریح رہے گی! بس دن رات جھک مارتے رہیے! سراغ رسانی سالی اوڑھنا بچھونا ہو کر رہ گئی ہے" حادی بڑبڑایا
بہرحال قہر درویش پر جان درویش. بستر باندھنا ہی پڑا اگر صرف افسری اور ماتحتی کے تعلقات ہوتے تو شاید وہ استعفیٰ ہی لکھ کر بھیج دیتا.

(* ٹائیکون کیس کے لئے جاسوسی کہانی کا پہلا ناول "مہمل" پڑھیں)
حادی جہاز میں وقت گزاری کے لیے اپنے ساتھ میگزین لے آیا تھا اور اسے پڑھنے میں مہو تھا کہ اس کے برابر والی سیٹ پر ایک بوڑھا آدمی آکر بیٹھا اور حادی سے مخاطب ہوا
"کہاں جا رہے ہو لڑکے؟ "
حادی چونکا" جہاں آپ جا رہے ہیں! " دو ٹوک بولا
" تمہیں کیا معلوم میں کہاں جا رہا ہوں.......! "بوڑھا بولا
" جہاں میں جا رہا ہوں " حادی نے کہا
" تم کہاں جا رہے ہو " بوڑھا نے سنجیدگی سے پوچھا
" اللہ میاں کے پاس.......! " حادی نے چڑ کر کہا
"اتنی جلدی......؟" بوڑھا افسوس کے ساتھ بولا "چلو کوئی بات نہیں لڑکے میں تمھارے لیے دعا کروں گا" اور بوڑھا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگا. حادی کو وہ بوڑھا جھکی معلوم ہوا اور اس نے خاموش رہنے میں ہی بہتری سمجھی. جیسے تیسے وقت گزرا اور بالآخر حادی داریان کے گھر کے سامنے کھڑا تھا. وہ گھر کے اندر داخل ہوا
"صاحب اسٹڈی میں ہیں جناب " ملازم نے حادی کو اطلاع دی گھر کے تمام ملازمین حادی سے اچھی طرح واقف تھے. حادی اپنا سامان رکھ کر اسٹڈی کی طرف چل دیا.
" آگئے برخوردار......! " داریان اسے آتا دیکھتا ہوا بولا
" بس رستے میں ہوں ابھی صرف میری آتما آئی ہے "حادی کھردرے لہجے میں بولا
" مرچیں کیوں چبا رہے ہو صاحبزادے" داریان اسے دیکھتا ہوا بولا
"میرا منہ خالی ہے...... یہ دیکھیں! " حادی داریان کو اپنا منہ کھول کر دکھاتے ہوئے بولا
" میرا پیغام تمہیں کل ہی مل گیا ہوگا " داریان نے بات بدلی
" جی..... فلائیٹ آج کی ملی تھی " حادی کرسی پر ڈھیر ہوتا ہوا بولا
" موڈ کیوں خراب ہے؟ " داریان نے پوچھا
" ایک تو چھٹیوں کے درمیان طلب کر لیا اور کہتے ہیں موڈ کیوں خراب ہے " حادی عورتوں کی طرح لچکتے ہوئے بولا
"اکیلے بور ہو گیا تھا سوچا تم بھی آجاؤ" داریان محظوظ ہوتے ہوئے بولا "خیر اب جا کر فریش ہو جاؤ کھانے کا وقت ہو گیا ہے" اور حادی وہاں سے آٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا.
...........................................
دونوں کھانے کی میز پر موجود تھے. اور حادی خاموشی سے کھانا ٹھونسنے میں مگن تھا
"پوچھو گے نہیں کیوں بلایا ہے " داریان بولا
" وہی پرانا سراغ رسانی کا چکر ہوگا اس لیے میں اپنا سوال محفوظ رکھنا بہتر سمجھتا ہوں " داریان برا سا منہ بنا کر اسے دیکھنے لگا
" ہم ظفر آباد جا رہے ہیں " داریان بولا
"کتنے دنوں کے لئے ....؟ " حادی نے سوال کیا
"معلوم نہیں..........! " داریان نے مختصراً کہا
" یعنی لمبی خواری.......! " حادی پانی کا گھونٹ لیتا ہوا بولا اور داریان اسے گھورنے لگا.
...................................................
پچھلی شام کو وہ ظفر آباد پہنچے تھے اور آج صبح سے داریان کسی کا منتظر تھا. ادھر حادی نے کچھ نہ پوچھنے کی قسم کھا رکھی تھی اور اپنے آپ کو بے تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا. ٹھیک دس بجے کسی نے کمرے کے دروازے پر دستک دی
"کم ان.......! " داریان نے کہا
ایک خاتون کمرے میں داخل ہوئیں. داریان اور حادی اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے
"تشریف رکھیے " داریان نے عورت سے کہا
" شکریہ "عورت نے کہا اور پھر حادی کی طرف دیکھنے لگی
" یہ سارجنٹ حادی ہیں " داریان بولا" اور حادی یہ ہیں ہمارے ڈی آئی جی کی بھانجی محترمہ فائیزہ "
" اب عمران صاحب کی حالت کیسی ہے؟ " داریان نے فائیزہ سے سوال کیا
" حالت ابتر ہے " فائیزہ بولی
"کیا مطلب؟" داریان بولا
"بس بار بار اٹھ کر ٹہلتے ہیں اور پھر اچانک بے ہوش ہوجاتے ہیں اور برابر کہتے رہتے ہیں کہ انہیں پھانسی ہو جائے گی " فائیزہ تشویش سے بولی
" انہوں نے والٹ کے بارے میں کچھ بتایا"داریان بولا
"وہ کہتے ہیں کہ کسی نے انہیں پھانسنے کے لیے سازش کی ہے اور پولیس بھی انہیں شبہہ کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے "
" اس عمارت میں کوئی نہیں رہتا " داریان نے پوچھا
" جی نہیں وہ شکستہ حالت میں ہے " فائیزہ بولی
"اس آدمی کے متعلق آپ مجھے بتا سکیں گی" داریان بولا
"اتنا ہی کہ وہ اچھا آدمی نہیں تھا "
" عمران صاحب کے اس سے کیسے تعلقات تھے "
" کاروباری حد تک "
" عمران صاحب سے ملاقات کب ہوسکتی ہے " داریان نے کہا
"جمشید صاحب کو تو آپ نے دیکھا ہی ہے آج شام کو میں انہیں جمشید صاحب کے ساتھ مرسیناریز کلب بھجوا دوں گی" فائیزہ نے کہا اور پھر ٹھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہاں سے چلی گئی.
حادی پورے وقت بیٹھا ہونقوں کی طرح دونوں کی شکلیں تکتا رہا تھا کیونکہ اس کے پلے کچھ نہیں پڑھ رہا تھا اور پڑتا بھی کیسے اس نے کچھ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی. جب فائزہ وہاں سے چلی گئی تو حادی پھ پڑا "میں آپ سے ہر گز یہ نہ پوچھوں گا کہ آپ یہاں کس لئے تشریف لائے ہیں" وہ داریان کو گھورتا ہوا بولا
"مجھے خوشی ہوگی " مجھے خوشی ہوگی یہ کہہ کر داریان نے فون کا ریسیور اٹھا لیا دوسرے لمحے وہ کسی سے گفتگو کر رہا تھا
" ہیلو مرسیناریز کلب......... میں ایکسچینج سے بول رہا ہوں......... امتیاز احمد کے نام سے آج شام کے لئے میز بک کر لیجیے.......... شکریہ...... میں امتیاز احمد ہی بول رہا ہوں "
داریان ریسیور رکھ کر حادی کی طرف مڑا اور بڑے دلآویز انداز میں مسکرانے لگا
"چلو کہیں گھوم آئیں " داریان بولا
" جی نہیں..... میں اپنی پچھلی نیند پوری کروں گا " حادی بولا
" اچھا تو پھر پانچ بجے شام کو مرسیناریز کلب کے قریب ملنا " داریان نے کہا اور ایک چھوٹا سا بریف کیس اٹھا کر باہر نکل گیا.
حادی سچ مچ سونا چاہتا تھا ابھی وہ لیٹنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی حادی نے جھلا کر ریسیور اٹھایا
" ہیلو.......! نسوانی آواز آئی "داریان بھائی"
"سارجنٹ حادی"
"میں فائیزہ بول رہی ہوں "لہجے میں پریشانی تھی" داریان بھائی سے کہہ دیں کہ پچھلی رات کو ویران کوٹھی میں عجیب و غریب روشنیاں دکھائی دی تھیں " اور لائین ڈراپ ہو گئ. جبکہ حادی بوکھلاہٹ میں کئی سیکنڈ" ہیلو ہیلو " کرتا رہا. پھر اس نے ریسیور رکھ دیا. وہ اپنے ذہن کو اس کیس میں نہیں الجھانا چاہتا تھا.
GOOD READS ♥️
ENJOY THE EPISODE 😊
CONTINUE.........

اندھیرے کا مسافر  (Complete)Where stories live. Discover now