قسط نمبر 7

97 8 0
                                    

. دوسری صبح خوشگوار ضرور تھی مگر حادی کے جوڑ جوڑ میں درد ہورہا تھا. اس کی نظریں ان سوٹ کیسوں پر جمی ہوئی تھیں جو داریان ہی نے پروفیسر کے یہاں پہنچائے تھے.اس نے ابھی تک انہیں کھولا بھی نہیں تھا. حادی سوٹ کیس کی طرف بڑھا اور اسے کھولنے لگا. سوٹ کیس میں کپڑے موجود تھے. اس نے اپنے لئے ایک عمدہ سا سوٹ منتخب کیا اور شرٹ کے ساتھ ٹائی کا میچ تلاش کرنے لگا. تھوڑی دیر بعد کپڑے تبدیل کر کے وہ باہر نکلا. طیبہ نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی. طیبہ سے تھوڑے فاصلے پر دانش بیٹھا اخبار کے صفحے الٹ پلٹ رہا تھا.
"گڈ مارننگ محترمہ! "حادی نے کہا
" یہ گڈ مارننگ کیا ہوتا ہے اسلام وعلیکم نہیں کہہ سکتے تھے " طیبہ اسے گھور کر بولی" آپ کا نام شاید رزا ہے مسلمان ہی ہوں گے! "(حادی نے اپنا نام رزا بتایا تھا) "معاف کیجئے گا" حادی ندامت آمیز لہجے میں بولا
"رات آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی "طیبہ نے خوش اخلاقی سے پوچھا
" بہت آرام سے سویا" حادی نے جواب دیا
"ہم آپ کی تشریف آوری سے بہت خوش ہیں " دانش نے ہانک لگائی ابھی وہ بات ہی کر رہے تھے کہ کمپاؤنڈ میں ایک کار داخل ہوئی. کار سے دو مسلح باوردی کانسٹیبل نکلے. تیسرا آدمی سفید قمیض اور کالی پتلون میں ملبوس تھا اس کی شخصیت جاذب توجہ تھی.
" کیا پروفیسر موجود ہیں؟ " اس نے آگے بڑھ کر حادی سے پوچھا
" جی ہاں...... فرمائیے " دانش بولا ڈی ایس پی کے آنے کی اطلاع کر دیجئے " تیسرا آدمی بولا اتنے میں پروفیسر خود ہی باہر آگیا." ڈی ایس پی صاحب تشریف لائیے "پروفیسر بولا
وہ انہیں لے کر ڈرائینگ روم کی طرف بڑھا. حادی نے پیچھے رہنا مناسب نہیں سمجھا ان کے ساتھ ہی وہ بھی ڈرائینگ روم میں چلا گیا.
" آپ پبلک لائبریری کے میمبر ہیں؟ "ڈی ایس پی نے سوال کیا
جی ہاں...... فرمائیے!" پروفیسر بولا
"میں آپ کا پبلک لائبریری والا کارڈ دیکھنا چاہتا ہوں "
" ٹھرئیے..... میں دیکھتا ہوں " پروفیسر ایک بیگ میں لائیبریری کارڈ تلاش کرنے لگا تھوڑی دیر بعد اس نے مایوسی سے کہا
" مجھے حیرت ہے کہ کارڈ اس میں موجود نہیں ہے"
"آپ نے کسی کو دیا تو نہیں تھا " ڈی ایس پی بولا
"ذرا دانش کو بھیج دو" پروفیسر نے ملازم کو ہدایت دی. تھوڑی دیر بعد دانش کمرے میں داخل ہوا.
"دانش کیا پبلک لائبریری والا کارڈ تمھارے پاس ہے " پروفیسر نے سوال کیا
" کیا وہ ابھی واپس نہیں آیا" دانش حیرت سے بولا
"کہاں سے واپس نہیں آیا؟ " پروفیسر نے پوچھا
"عمران بھائی لے گئے تھے انہیں کسی کتاب کی ضرورت تھی " دانش بولا
" کس نے دیا تھا اسے کارڈ؟ " پروفیسر بولا
" طیبہ نے دیا تھا " دانش نے جان بچائی "بہر حال آپ کا کارڈ ایک لاش کے قریب پایا گیا ہے" ڈی ایس پی نے بتایا
"کیا مطلب؟ "پروفیسر اچھل پڑا
" عمران آپ کا رشتہ دار ہے؟ "
" جی ہاں "
" آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ امتیاز احمد کے بھائی کا قاتل ہے"
" ابھی مقدمے کی سماعت شروع نہیں ہوئی "پروفیسر بولا
" مقتول کے پاس اس کا والٹ پایا گیا ہے "
" تو پھر لاش کے پاس میرا کارڈ پایا گیا اس کا قاتل میں ہوں" پروفیسر خفگی سے بولا
"آپ پوری بات تو سن لیجیے " ڈی ایس پی بولا
" سنائیے! " پروفیسر نے کہا
"لاش کے قریب عمران بیہوش حالت میں پایا گیا ہے اور آپ کا کارڈ اس کی جیب میں تھا اور ساتھ ہی پستول بھی برآمد ہوئی ہے " ڈی ایس پی نے کہا
"پستول کا لائسنس عمران بھائی کے پاس تھا " دانش بولا
" لیکن پھر بھی پستول لئے پھرنے کی کیا ضرورت تھی " ڈی ایس پی نے تشویش سے کہا
" کیا مقتول اس کی پستول کی گولی سے ہلاک ہوا ہے " حادی نے پوچھا
" یہ سب تو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے معلوم ہوگا" ڈی ایس پی نے بولا "میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ گولی عمران کی پستول سے چلائی گئی تھی اور پستول پر اس کی انگلیوں کے نشانات پائے گئے ہیں"
"اور خود عمران بیہوش پایا گیا ہے! " حادی تنزیہ لہجے میں بولا" گویا عمران گولی مارنے کے بعد بیہوش ہوگیا تھا. اور آپ کے بیان کے مطابق وہ قتل کا مرتکب بھی ہوچکا ہے یقیناً وہ اتنے کمزور دل کا نہیں ہو سکتا کہ وہ مزید ایک اور قتل کر کے بیہوش ہو جائے "
" آپ ذہین آدمی معلوم ہوتے ہیں " ڈی ایس پی تنزیہ بولا
"عمران گرفتار کر لیا گیا ہے کیا؟ " پروفیسر نے سوال کیا
"لازمی بات ہے اور اس کی ضمانت بھی ضبط کر لی گئی ہے " ڈی ایس پی بولا" اس شخص کو آپ نے کبھی دیکھا ہے " دی ایس پی جیب سے ایک تصویر نکالتا ہوا بولا
دانش تصویر بغور دیکھنے لگا. پروفیسر اور حادی بھی اسے دیکھنے کے لئے آگے جھک آئے . یہ اس آدمی کی تصویر تھی جو عمران کو لائبریری میں لے گیا تھا.
" مجھے لگتا ہے کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے " دانش بولا
" یہ اسی آدمی کی تصویر ہے جس کی لاش لائبریری میں پائی گئی ہے " ڈی ایس پی نے بتایا
"کبھی عمران کے ساتھ دیکھا ہے؟ " ڈی ایس پی نے سوال کیا
"میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا " دانش بولا
" ارے ڈی ایس پی صاحب کے لئے چائے تو لاؤ" پروفیسر نے اپنے ملازم کو آواز دی
"نہیں شکریہ.......! اس کارڈ کی وجہ سے ممکن ہے کہ آپ بھی عدالت میں طلب کئے جائیں " ڈی ایس پی اٹھتا ہوا بولا
" فکر نہیں.......! " پروفیسر لاپرواہی سے بولا
" اب اجازت دیجئے " ڈی ایس پی مصافحہ کر کے وہاں سے چلا گیا
اس کے جاتے ہی پروفیسر دانش پر پھٹ پڑا.
" تم لوگ اتنے گدھے کیوں ہو کیا ضرورت تھی میرا کارڈ
اسے دینے کی "
" آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ " دانش بولا
" بس بکو نہیں! " پروفیسر مغموم لہجے میں بولا اور اس
کی آواز بھرا گئی.
.......................................
GOOD READS ♥️
ENJOY THE EPISODE 😊
CONTINUE..................

اندھیرے کا مسافر  (Complete)Where stories live. Discover now