آخری قسط

219 9 0
                                    

حملہ آور تین آدمی تھے. حادی نے ان آدمیوں کو دوسری طرف اچھال دیا اتنے میں نہ جانے کسی طرف سے فائر ہوا اور حملہ آور دوسری طرف سمٹ گئے. اب باقاعدہ طور پر گولیاں چلنا شروع ہو گئی تھیں. حادی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے. تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد فائرنگ رک جاتی اور لوگوں کا شور سنائی دینے لگتا جو شاید سڑک پر جمع ہو رہے تھے. تقریباً آدھے گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا. اور پھر سڑک کی طرف سے بھی فائر ہونے لگے. شاید پولیس آگئی تھی. اچانک اندر سے فائر ہونے بند ہو گئے. حادی کے لئے یہ ایک خطرناک سچویشن تھی. وہ سوچ رہا تھا کہ اگر کہیں پولیس والوں کے ہتھے چڑھ گیا تو بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور تو کچھ نہیں داریان بری طرح اس کی جان کو آجائے گا. حادی ریوالور وہیں پھینک کر سینے کے بل رینگتا ہوا ویران کوٹھی سے کافی فاصلے پر نکل آیا اور پھر اٹھ کر سڑک پر آگیا. اور وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا لوگوں کی بھیڑ میں جا ملا.ویران کوٹھی کا محاصرہ کر لیا گیا تھا اور پولیس مائیکروفون پر کوٹھی کے اندر گولی چلانے والوں کو تنبیہہ کر رہی تھی. اچانک کوٹھی سے کسی نے چیخ کر کہا "فائر مت کریں، مجرموں کے ہتھکڑیاں لگائی جا چکی ہیں"
"تم کون ہو؟ " پولیس نے مائیکروفون سے پوچھا
" مرکزی سراغ رسانی کا آفیسر داریان "کوٹھی سے آواز آئی
" یہ کہاں! "پولیس کمشنر نے اپنے ماتحت کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا" کیا ہمیں اسی نے فون کیا تھا! "
" کہیں دھوکہ نہ ہو " ماتحت بڑبڑایا اور مائیکروفون میں بولا" ہم نہیں جانتے تم کون ہو "
" میں گرفتار شدگان کو لے کر آتا ہوں " کوٹھی سے کہا گیا
داریان کی آواز پہچاننے والا یہاں حادی کے علاوہ اور کون تھا اور حادی کا دل بلیوں اچھلنے لگا وہ سوفیصدی داریان ہی کی آواز تھی. پھر حادی نے کئی آدمیوں کو کھنڈروں سے باہر آتے دیکھا. ان کے چہرے نقابوں سے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں.حادی نے ان کے ساتھ کچھ جانی پہچانی صورتیں بھی دیکھیں جن کا تعلق انھی کے محکمے سے تھا اور داریان نے خاص طور پر انھیں تربیت دے کر اپنی ماتحتی میں رکھا تھا. گرفتار شدگان نکلتے رہے. ان کی تعداد ستائیس تھی. سب سے آخر میں دو نقاب پوش اور نکلے. ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی اور دوسرا یونہی چل رہا تھا. پولیس نے اس کے بھی ہتھکڑی لگانی چاہی لیکن اس نے انھیں ڈانٹ دیا. آواز داریان کی تھی.
وہ نقاب پوش جس کے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی ہنستا ہوا چل رہا تھا اور پولیس والے اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے. وہ دونوں چلتے ہوئے حکام بالا کے قریب پہنچ گئے. ہتھکڑی والا نقاب پوش برابر ہنسے جارہا تھا اور سب اسے تحیر آمیز نظروں سے گھور رہے تھے. داریان نے ایک قدم آگے بڑھ کر نقاب اتارتے ہوئے کہا "امتیاز احمد! اس کے بھائی! اور ایک نامعلوم آدمی کا قاتل حاضر ہے"
پولیس کمشنر آگے بڑھ کر داریان کو گھورتا ہوا بولا "بے شک تم داریان ہو! لیکن تم یہاں کیسے؟"
"بہت ہی اہم معاملات میں پورا ملک میری ضرورت محسوس کرتا ہے "داریان مسکرا کر بولا اس پر نقاب پوش پھر ہنس پڑا حادی کو اس کی آواز بھی جانی پہچانی سی معلوم ہورہی تھی. دفعتاً اس نے اپنا نقاب ہتھکڑی لگے ہوئے ہاتھوں سے اتار دیا.
" ارے.....! " وہاں کھڑے ہوئے سب لوگوں کے منہ سے بے اختیار نکلا لوگ حیران کھڑے تھے. حادی نے بھی اسے ایک ہی نظر میں پہچان لیا. یہ ڈی ایس پی سٹی تھا.
" یہ بھی عجیب اتفاق ہے "وہ ہنس کر بولا" ہم دونوں نے مجرموں کو پکڑنے کا ایک ہی طریقہ اختیار کیا. میں مسٹر داریان کو مجرم سمجھتا رہا اور وہ مجھے. جب انہوں نے اپنے نام کا اعلان کیا تو مجھے ہنسی آگئی. ہتھکڑی تو لگ ہی چکی تھی. میں نے کہا چلو تفریح ہی رہے گی "
"لاحول ولا قوۃ" پولیس کمشنر بولا اور اپنے ماتحت سے ہتھکڑی کی چابی لانے کو کہا
"ہتھکڑی تو وہی کھول سکتا ہے جناب جسے اپنی ملازمت پیاری نہ ہو " داریان لاپروائی سے بولا
" کیا مطلب؟ "کمشنر نے تیز لہجے میں کہا
یہ وارنٹ" داریان نے جیب سے وارنٹ نکالتے ہوئے کہا "براہ راست وزارت داخلہ کی وساطت سے حاصل کیا گیا ہے"
"یہ کیا معاملہ ہے؟ " کمشنر حیرت سے بولا
" معاملات تو پولیس اسٹیشن چل کر صاف ہوں گے " داریان نے کہا
" میں نہیں سمجھا! " ڈی ایس پی سٹی نے متحیرانہ لہجے میں پوچھا
" تمہارا وارنٹ " کمشنر نے کہا
"یہ کیا لغویت ہے! " ڈی ایس پی داریان کو گھورنے لگا
" میرے خیال سے ہمیں یہاں سے چلنا چاہیے " داریان نے پولیس کمشنر سے کہا
" ٹھیک ہے " کمشنر بولا
میری ہتھکڑیاں کھولی جائیں......!"  ڈی ایس پی جھلا کر بولا
"ناممکن........ مجبوری ہے "کمشنر بڑبڑایا
" میں تمھیں دیکھ لوں گا! "ڈی ایس پی داریان کی طرف پلٹ پڑا
" شوق سے دیکھنا " داریان مسکرا کر بولا
دفعتاً حادی نے اس کے قریب پہنچ کر شانہ مارا. داریان چونک کر مڑا
" اوہ..... تو آپ بھی تشریف لے آئے ہیں " داریان بولا
" پروفیسر ٹیور بھی تھا "حادی آہستہ سے بولا
لیکن داریان نے دھیان نہ دیا." چلو بیٹھو! " داریان اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا اور وہ دونوں بھی پولیس موبائل میں بیٹھ گئے. وہ لوگ پولیس اسٹیشن پہنچے ڈی ایس پی کے تیور اچھے نہیں تھے حادی سوچ رہا تھا کہ کہیں داریان نے ٹھوکر نہ کھائی ہو. اگر ایسا ہوا تو بڑی بدنامی ہوگی. وہ پروفیسر ٹیور کے متعلق بھی سوچ رہا تھا.
"تم نے کس بناء پر میرے لئے وارنٹ حاصل کیا ہے؟ " ڈی ایس پی نے غصیلی آواز میں داریان کو مخاطب کیا
" بدمعاشوں کے ایک گروہ کی سرپرستی کرنے کے سلسلے میں " داریان بولا" کیا یہ سب تمھارے آدمی نہیں ہیں! "داریان کا اشارہ ستائیس گرفتار شدہ آدمیوں کی طرف تھا
"سپ میرے آدمی نہیں ہیں"  ڈی ایس پی نے کہا پھر انہیں مخاطب کر کے بولا "بدر، باصل، آدل، رعوف، سلیم اپنے نقاب اتار دو" اور ان آدمیوں نے اپنے نقاب اتار دیئے پھر ڈی ایس پی داریان کو قہر آلود نظروں سے گھورتا ہوا بولا "یہ ہیں میرے جوان جنھیں میں اپنے ساتھ اس مہم پر لے گیا تھا."
"لیکن انہوں نے گرفتاری کے بعد تمہاری طرح قہقہے لگائے تھے اور یہ باصل تو شاید ریلوے پولیس کا سب انسپکٹر ہے. اس بیچارے کو ایسی مہموں سے کیا سروکار. کیوں باصل کیا تمہیں وہ ٹائم بم نہیں یاد جو تم نے ایک مسافر کے بریف کیس کی تلاشی لیتے وقت اس میں رکھ دیا تھا. "داریان نے کہا
باصل پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے گھورنے لگا. داریان پھر بولا "اتفاق سے وہ بم نہیں پھٹ سکا. اس پر تمھاری انگلیوں کے نشانات موجود ہیں "
داریان کی بات سن کر باصل سناٹے میں آگیا. داریان طنز آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کمشنر کی طرف مڑا.
" جنابِ والا........ پہلا ثبوت " اس نے کہا
کمشنر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا. داریان نے ڈی ایس پی کی طرف دیکھ کر کہا " کیا تم بلیک میلروں کے سرغنہ نہیں ہو؟ کیا تم اعلیٰ پیمانے پر کوکین کی تجارت نہیں کرتے؟"
"یہ جھوٹ ہے....... میرے خلاف سازش ہے! " ڈی ایس پی چیخا
" تمہیں وہ پیکٹ تو یاد ہی ہوگا جس کے ذریعہ تم عمران کو بلیک میل کر رہے تھے " داریان نے کہا
" بکواس.......! مجھے یقین ہے کہ تمھارا دماغ چل گیا ہے " ڈی ایس پی زہر خند سے بولا
" اور اس دن" داریان اس کی بات پر دھیان نہ دیتا ہوا بولا "وہ پیکٹ میں نے ہی اس آدمی کی جیب سے آڑایا تھا جس کو بعد میں تمھارے آدمی نے گلا گھونٹ کر مار ڈالا تھا اور جانتے ہو اس پیکٹ پر مجھے تمہاری انگلیوں کے نشانات ملے ہیں"
"میری انگلیوں کے نشانات! "ڈی ایس پی چونک کر بولا
"جناب........ اور مجھے تم پر اس وقت شبہہ ہوا تھا جب تمھارے آدمیوں نے ایک گھنٹے کے اندر ہی اندر اس بات کا پتہ لگایا تھا کہ امتیاز احمد کے لئے مرسیناریز کلب میں، میں نے ہی میز مخصوص کرائی تھی. پولیس کی یہ کارگزاری معجزے سے کم نہیں تھی. دراصل اس کی وجہ یہ تھی کہ تمھیں کسی طرح سے میری آمد کی خبر مل گئی تھی اور تم نے ہم دونوں پر شروع ہی سے نظر رکھی تھی. تم اس لئے مضبوط رہے کہ ایک طرف تم پولیس سے کام لے رہے تھے اور دوسری طرف تم نے اپنے بدمعاشوں کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا. اور تم نے ہم دونوں کو ختم کرنے کی اسکیم بنائی. تم نے ہمیں بدحواس کرنے کے لئے امتیاز احمد کو قتل کر دیا تمہاری اسکیم یہ تھی کہ بھاگ دوڑ میں ہمیں اپنے آدمیوں کی گولی کا نشانہ بنوا دیتے اور خود قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے لیکن جب ہم اس طرح بھی قابو میں نہ آئے تو تم نے سارجنٹ حادی کے بریف کیس میں بم رکھوا دیا جو اتفاق سے پھٹ گیا "داریان نے بات مکمل کی
" پھٹ گیا ڈی ایس پی بے اختیار بولا "مگر تم نے تو ابھی کہا تھا........!" وہ یک بیک رک گیا شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا داریان نے ہنستے ہوئے کمشنر کی طرف دیکھا "دیکھا آپ نے!"  داریان کمشنر سے بولا "یہ دوسرا ثبوت ہے خیر میرے پاس اس کے خلاف درجنوں ثبوت ہیں. اب ویران کوٹھی کا حال سنو"
"میں کچھ نہیں سنتا! " ڈی ایس پی بولا" آج تم نے مجھے بہت ذلیل کیا ہے "
داریان اس کی بات سنی ان سنی کر کے ریلوے کے سب انسپکٹر پولیس باصل کی طرف مڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا دوسرے کمرے میں لیتا چلا گیا پھر اس نے کمشنر اور مجسٹریٹ کو بھی اندر بلا لیا. باصل بری طرح کانپ رہا تھا اس کی حالت غیر ہونی شروع ہو گئی تھی.
" سنو باصل! " داریان نے اسے مخاطب کیا" ڈی ایس پی ابھی تو اقرارِ جرم کر لیتا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ عدالت میں مکر جائے لہذا میں تم پانچویں کو سرکاری گواہ بنانا چاہتا ہوں لیکن اس صورت میں کہ تم مجھے اس بات کا یقین دلاؤ کے تمھارے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے نہیں ہیں "
"میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک خون نہیں کیا. اگر وہ بم پھٹ جاتا تو میرے لئے بھی پھانسی ہوتی آفیسر صاحب مجھے بچائیے"  باصل گڑگڑایا
"ویران کوٹھی میں کوکین تقسیم ہوتی تھی؟" داریان نے سوال کیا
" جی ہاں " باصل بولا
" اور وہ چیخیں جو مائیکروفون کے ذریعے پیدا کی جاتی تھیں کسی قسم کا اشارہ تھیں؟ "
" جی ہاں "
" امتیاز احمد کے بھائی کا قاتل اور عمران کو بلیک میل کرنے والا ڈی ایس پی ہی تھا؟ "
" جی ہاں..... خدارا مجھے بچائیے "
" تم بچ جاؤ گے....... اب اپنا تحریری بیان دے دو! "
سارے مجرم حوالات میں ڈال دیئے گئے. پھر داریان کو حکام کے سامنے ساری روداد بیان کرنی پڑی
"وہ حادی سے اچھی طرح واقف تھے اور پوشیدہ طور پر اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ میرا سراغ لگا سکیں اور پھر اکھٹے ہم دونوں کو ٹھکانے لگا دیں. میں اس وقت ان لوگوں کے پیچھے لگ گیا تھا جب وہ سارجنٹ حادی کو لائبریری سے اٹھا کر خالی عمارت کی طرف لے گئے تھے، لہٰذا واپسی پر میں نے اچانک حادی پر اس لئے حملہ کیا کہ اس تک اپنا پیغام پہنچا دوں اور ان آدمیوں کو بھی غلط راستے پر لگاؤں جو اس کا پیچھا کر رہے تھے "داریان بولا
" جب یہ بدبخت ہی ان سازشوں کا سرغنہ تھا تو بھلا یہاں کی پولیس کیا کر سکتی تھی " کمشنر نے کہا
"اب سنئیے! اس کے بعد مجھے ویران کوٹھی کی فکر پڑ گئی. میں نے وہاں اپنی ایک پوری رات برباد کی تب اس تہہ خانے کا پتہ چلا. وہ بھی اتفاق ہی تھا. اور وہیں مجھے مائیکروفون ملا اور میں نے اس کا استعمال کر کے ویسی ہی چیخیں اور روشنیاں نکالیں، نتیجے کے طور پر یہ بیچارے دوڑے چلے آئے "
" لیکن اس پیکٹ میں تھا کیا آخر جس کے ذریعہ وہ عمران کو بلیک میل کر رہا تھا؟ " کمشنر نے سوال کیا
" کاروباری حریف ہونے کی بناء پر ایک مرتبہ عمران اور امتیاز احمد کے بھائی میں جھگڑا ہو گیا اور عمران نے اسے دھمکی دے دی تھی وہ خط نہ جانے کہاں سے ڈی ایس پی کے ہاتھ لگ گیا اس نے موقع کو غنیمت سمجھا. عمران بھی خاصی موٹی مرغی تھا لہٰذا وہ اسے بلیک میل کرنا شروع ہو گیا " داریان نے کہا
"کیا تم پہلے سے جانتے تھے کہ وہ ڈی ایس پی ہی تھا؟"  پولیس کمشنر بولا
"پہلے صرف ایک خیال تھا کہ پولیس کا کوئی آدمی ان سازشوں میں شریک ہے. لیکن ڈی ایس پی کے وجود کا علم اس وقت ہوا جب وہ لوگ سارجنٹ حادی کو پکڑ لے گئے. میں نے ان کے درمیان میں ایک نقاب پوش کو دیکھا اور ایک ہی نظر میں پہچان گیا کہ وہ ڈی ایس پی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا اور مزے کی بات یہ کہ بدمعاش اسے ایک پراسرار آدمی سمجھتے تھے. وہ اس کی شخصیت سے واقف نہیں تھے. اگر میں اس وقت زرا سا بھی چوکتا تو یہ صاف بچ گیا تھا. بڑی آسانی سے ہتھکڑیاں کھلوا کر مجھے ایک نئی الجھن میں مبتلا کر دیتا. اچھا ہی ہوا ک میں نے وزارتِ داخلہ کی وساطت سے وارنٹ حاصل کر لیا تھا ورنہ یہ مجھے قہقہوں میں اڑا کر اپنے بدمعاشوں کو جیل میں ٹھونسوا دیتا" داریان بولا
"واقعی آپ باکمال ہیں " کمشنر ہنس کر بولا
                   .............................
حادی داریان کے پہلو میں کہنی مار کر بولا
"میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں "
" ہاں کہو! " داریان نے کہا
پروفیسر ٹیور" حادی بولا
مارو گولی...... میں نے ابھی اسے فون کر دیا تھا کہ ہمارا سامان بھجوا دے"
"اگر میں آپ کی آنکھیں کھول دوں تو" حادی بولا
"مجھے بڑا لطف آئے گا "داریان مسکرا کر بولا
اور حادی اپنا کارنامہ بیان کرنے لگا. داریان سنتا رہا پھر خشک لہجے میں بولا" میرے منع کرنے کے باوجود بھی تم آوارہ گردی کرتے رہے ہو"
"یعنی آپ کی نظروں میں میرے کارنامے کی کوئی وقعت نہیں"  حادی منہ بنا کر بولا
"جب وہ کارنامہ ہو تب نا" داریان مسکرایا "برخوردار....... پروفیسر ٹیور سیکرٹ سروس کا آدمی ہے اور اس سے مجھے کافی مدد ملی ہے. اس نے وہ ریوالور میرے ہی لئے مہیا کئے تھے. اور اس وقت پروفیسر ٹیور کی اصلیت سے صرف ہم دونوں واقف ہیں" 
"آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ " حادی نے کہا
" اب بھی نہ بتاتا اگر تم اس پر شک نہ کرنے لگتے. اور اب تم اس بات کو اپنے ہی تک رکھنا. پروفیسر پر بھی یہ ظاہر نہ ہو کہ تم اس کے راز سے واقف ہو، کیا سمجھے! "
" کاجوچسز کیا ہے؟ " حادی سنجیدگی سے بولا اور داریان بے ساختہ مسکرا پڑا
"میں یہ لطیفہ سن چکا ہوں"  داریان نے کہا "طیبہ ہسٹریا کی مریض ہے اور یہ بے تکا لفظ بری طرح اس کے ذہن سے چپک گیا ہے اور اکثر یہی اس کے دورے کا سبب بن جاتا ہے"
"لیکن وہ کاجوچسز کہتی ہوئی کافی حسین لگتی ہے " حادی ڈرامائی انداز میں بولا  پھر طیبہ کی نقل اتارتے ہوئے کاجوچسز  کہا اور داریان نے اس کی پیٹھ پر دھول جمادی.
              
                          ختم شد!

Hope you enjoyed the story Do comment below 👇🏻 and Rate the story.
GOOD READS ♥️
ENJOY 😊😊

اندھیرے کا مسافر  (Complete)Where stories live. Discover now